تنازعات اور اقوام متحدہ کا کردار
وزیر اعظم نے امریکا سمیت عالمی برادری پر واضح کردیا کہ عالمی امن کے لیے ضروری ہے کہ طالبان حکومت کو مستحکم کیا جائے۔
اقوام متحدہ کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ 26 جون 1946 کو اقوام متحدہ کے منشور پر دستخط ہوئے تو اس سے دوسری عالمی جنگ کے بعد کے دورکا وہ منظرنامہ ترتیب پایا جس میں جملہ بین الاقوامی تنازعات کو پر امن طریقوں سے حل کرنا طے پایا۔
اقوام متحدہ کے 50 سے زائد ابتدائی ارکان نے سان فرانسسکو کانفرنس میں اس منشور پر دستخط کیے ، جس میں اقوام متحدہ کے امن اور بین الاقوامی سلامتی برقرار رکھنے اور انسانی حقوق کی حمایت کرنے کے عزم کا اظہارکیا گیا۔
تنازعات کے اجتماعی حل تلاش کرنے کی خاطر دنیا کے ممالک کے لیے ایک ذریعے کے طور پر اقوام متحدہ مذاکراتی حل کو فروغ دیتی ہے۔ اگرچہ اقوام متحدہ کی اولین ترجیح تصادم کی روک تھام ہے، مگر یہ عالمی ادارہ بھوک، بیماری اور ناخواندگی کے خاتمے کے لیے بھی اپنے پروگراموں کے ذریعے بھی سماجی ترقی اور زندگی کے بہتر معیارکو فروغ دیتا ہے۔ اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی تعداد 193 کے لگ بھگ ہے۔ اقوام متحدہ میں منظورکی گئی قراردادوں کا اطلاق تمام رکن ممالک پر ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ہر سال باقاعدہ اجلاس منعقد کیا جاتا ہے ، جس میں رکن ممالک کے سربراہان شرکت کرتے ہیں۔ اجلاس سے خطاب کرنے والے رہنما اپنے اپنے ملک کو درپیش چیلنجوں کے حوالے سے عالمی رہنماؤں کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرتے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے والے وزرائے اعظم ، وزرائے خارجہ یا کوئی بھی اور نمایندہ اپنے خطاب میں پاک بھارت تنازعات میں سرفہرست مسئلہ کشمیرکا تذکرہ اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس کے حل کی ضرورت پر زور دیتا چلا آ رہا ہے۔
عالمی ادارے کے صدر ، جنرل سیکریٹریز اور وہاں موجود عالمی رہنماؤں کی توجہ بھارت کے منفی کردار ، مظلوم کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور ادارے کی منظورکردہ قراردادوں سے راہ فرار اختیار کرنے کے کردارکو بے نقاب کرنے کی جانب دلائی جاتی رہی ہے۔
افسوس اس بات کا ہے عالمی ادارہ جس مقصد کی خاطر وجود میں آیا تھا ، اس کے حصول میں پوری طرح کامیاب نہ ہو پایا۔ گزشتہ نصف صدی سے تنازعہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کا حل نہ ہونا اقوام متحدہ کی کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ بھارتی رہنما اجلاس سے خطاب کے دوران اول تو تنازعہ کشمیرکا ذکرکرنا پسند نہیں کرتے اور اگرکچھ کہنا مقصود ہو تو اس ضمن میں بھارتی رہنماؤں کا یہ بودہ استدلال سامنے آتا ہے کہ کشمیر دونوں ممالک (پاکستان اور بھارت) کے درمیان دو طرفہ معاملہ ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا جاتا۔
تنازعہ کشمیر اقوام متحدہ میں 1948 میں اس وقت کے انڈین وزیر اعظم جواہر لعل نہرو لے کرگئے تھے جب مبینہ طور پر قبائلیوں کے حملے کے بعد جموں وکشمیرکے مہاراجہ ہری سنگھ نے انڈیا سے الحاق کا اعلان کردیا تھا۔ اس کے بعد سے 1971 تک یعنی 23 برسوں کے دوران اقوام متحدہ نے 17 قراردادیں منظور کیں۔ 1948 میں تنازعہ کشمیر پر چار قرار دادیں منظور ہوئی تھیں۔
1950 میں ایک قرارداد ،1952 میں ایک قرارداد اور 1957 میں تین قراردادیں کشمیر کے بارے میں سلامتی کونسل میں منظور ہوئی تھیں۔ ان قراردادوں کے دوران تنازعہ کشمیر کے حوالے سے کئی مشن تشکیل پائے ، لیکن مسئلہ آج تک حل نہ ہو سکا۔ 1972 میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان شملہ معاہدہ طے پانے کے بعد انڈیا نے تنازعہ کشمیر کو مسلسل نظرانداز کرتے ہوئے اسے سرد خانے کی نذرکردیا اور پاکستان نے جب بھی کسی عالمی فورم پر اس مسئلے پر بات کی تو انڈیا کا جواب ہوتا ہے کہ یہ دو طرفہ معاملہ ہے۔
شملہ معاہدے کے بعد جموں وکشمیر میں تعینات اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کو رپورٹ کرنا بھی بند کردیا اور جنگ بندی لائن کو '' لائن آف کنٹرول'' کا نام دے دیا جو آج بھی مستعمل ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان خارجہ سیکریٹریوں سے لے کر وزرائے اعظم تک کئی مرتبہ مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا ، لیکن بھارت کے غیر سنجیدہ و منافقانہ رویوں کے باعث کسی بھی مذاکرے کا کوئی قابل قبول نتیجہ نہ نکل سکا۔
بھارت اپنی اسی ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم رہا کہ ''کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے'' جب کہ عالمی امن کا ادارہ اقوام متحدہ اس تنازعے کے حل کے ضمن میں '' استصواب رائے'' کی قرارداد منظورکرچکا ہے لیکن افسوس کہ بھارت اسے تسلیم کرنے سے انکاری ہے اور اقوام متحدہ اتنی قدرت نہیں رکھتا کہ وہ بھارت کو پابند کرے کہ اس کی منظورکردہ قراردادوں کے مطابق مقبوضہ وادی میں استصواب رائے کردیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76 ویں اجلاس سے ورچوئل خطاب کرتے ہوئے جہاں ایک طرف انھوں نے علاقائی و عالمی مسائل کا احاطہ کیا اور کووڈ 19 ، معاشی بحران ، ماحولیاتی مسائل اور افغانستان اور اس سے جڑے امکانی خطرات پر روشنی ڈالی وہیں انھوں نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال، وہاں بھارت کے منفی اقدامات ، اقوام متحدہ کے کردار اور انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے بھی اظہار خیال کیا۔
وزیر اعظم نے 9/11 کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اسلاموفوبیا کی مغربی سوچ پر واضح طور پر کہا کہ وقت آگیا ہے اس رجحان کو ختم کرنے کے لیے عالمی سطح پر مکالمہ شروع کرایا جانا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ مسلم دشمنی کی سب سے خوفناک صورتحال بھارت میں بالخصوص مقبوضہ کشمیر میں سر اٹھا رہی ہے ، جہاں بھارتی فوج اپنی خوں آشام بربریت کی داستانیں رقم کررہی ہے۔
انتہا پسند ہندو تنظیم آر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہندو توا نظریات 20 کروڑ مسلم آبادی کو آئے دن نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ وقفے وقفے سے اٹھنے والی پرتشدد واقعات کی لہروں نے مسلمانوں کو خون میں ڈبو دیا ہے۔ بھارت گجرات ، آسام اور مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی پامالی کا مرتکب ہو رہا ہے۔
5 اگست 2019 کے یکطرفہ اقدام سے مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے کوشاں ہے۔ وزیر اعظم پاکستان نے واضح طور پر عالمی برادری کو پیغام دیا کہ بھارت کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے تنازع کے پر امن حل کے لیے مذاکرات کا سازگار ماحول بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ بعینہ ہی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق تنازعہ کشمیر کا حل تلاش کیا جائے۔
وزیر اعظم عمران خان نے افغانستان کی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انھوں نے عالمی برادری کو بارہا باور کرایا کہ افغان مسئلے کا حل مذاکرات ہی میں ہے نہ کہ جنگ میں۔ اب اگر دنیا یہ جاننا چاہتی ہے کہ طالبان کیوں اورکیسے اقتدار میں واپس آگئے تو اسے ایک تفصیل تجزیے کی ضرورت ہے۔
وزیر اعظم نے امریکا سمیت عالمی برادری پر واضح کردیا کہ عالمی امن کے لیے ضروری ہے کہ طالبان حکومت کو مستحکم کیا جائے۔ طالبان سے عدم تعاون کا نتیجہ وہاں دہشت گرد عناصرکے فروغ کی صورت ہی سامنے آئے گا۔ خطے کے امن کے لیے افغانستان میں امن ضروری ہے ، اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ عالمی تنازعات کے حل میں اقوام متحدہ کا کردار افسوس ناک حد تک مایوس کن رہا ہے۔