مہنگائی کا سیلاب
تمام اشیا اس قدر مہنگی ہو رہی ہیں، جس کے باعث زندگی خوشحال گزارنی محال ہے۔
نجی محفل ہو یا ہم نواؤں کی نشست، ساز ہو یا آواز اکثریت مہنگائی پر آہ و زاری کر رہی ہے۔ تمام اشیا اس قدر مہنگی ہو رہی ہیں، جس کے باعث زندگی خوشحال گزارنی محال ہے، کون ایسا شخص ہے جو متاثر نہیں، یہ میرے ایک ساتھی، ہم نوا، عزیز و اقارب کی بات نہیں بلکہ ان تمام کی بات ہے جو اس مہنگائی کے سیلاب کی زد میں آئے اور آ رہے ہیں۔
یہ بات بھی عجیب لگتی ہے جب یہ کہا جائے ساٹھ سال قبل چنے کی دال صرف دو آنے سیر تھی، دودھ آٹھ آنے سیر، شکر آٹھ آنے سیر، آٹا چار آنے سیر، سبزیاں ایک آنے اور ڈیڑھ آنے سیر، پالک دو پیسے کی گڈی ہوتی تھی۔ کھڈی کا کورا لٹھہ بارہ آنے گز ، پتلون کی سلائی درزی دو روپے لیتا تھا اور شلوار قمیض صرف ڈیڑھ روپے میں سل جاتا تھا۔
ماضی کی وہ تمام باتیں عجوبہ لگتی ہیں اس لیے کہ آج چنے کی دال تین سو روپے فی کلو، یہ تو ایک خوردنی شے کی بات ہے تمام اشیا اس قدر مہنگی کبھی سوچا نہ تھا۔ حیرت زدہ بات یہ ہے کہ یکدم رات سوئے صبح معلوم ہوا فلاں شے مہنگی، دوسرے دن فلاں، تیسرے دن فلاں، اس طرح ہر چیز مہنگی سے مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔
تھمنے کا نام نہیں، بالآخر یہ مہنگائی کہاں جا کر رکے گی ، وہ بات ہے چلتے چلے جا رہے ہیں منزل کا پتا نہیں۔ سنگ میل گزر جاتے ہیں لیکن وہ منزل کا پتا نہیں دے رہے۔ مثلاً چینی غیر متوقع بڑھ گئی، ملک میں 78 شکر کے کارخانے ہیں جن میں 68 چینی کے کارخانوں کے مالکان شاید قومی اسمبلی کے اندر بیٹھے ہوئے ہیں۔ مصنوعی بحران پیدا کیا جاتا ہے اور پھر خود ہی مہنگا کردیا جاتا ہے۔
پوچھنے والا ہے نہ کہنے والا۔ شاید چیک اینڈ بیلنس نہیں۔ اگر آج کسی سیاسی پارٹی سے تعلق نہیں لیکن پہلے کسی سیاسی پارٹی سے تو تعلق رہا ہوگا جس کے ذریعے بے شمار مراعات حاصل کیں۔ امید تھی نئی حکومت آئے گی سب کچھ بہتر ہوگا عوام کو سکون کا سانس ملے گا تبدیلی آئے گی۔ لیکن موجودہ صورتحال بہتر نہیں، ملازم طبقہ جو ماہانہ محدود آمدنی پر ملازمت کرتا ہے اس کا گزارا مشکل نہیں بلکہ بے حد مشکل ہے۔ ان وعدوں، نعروں پر عمل ہوتا نظر نہیں آ رہا جو ہم نے اس وقت سنے اور امیدیں لگائی تھیں۔
مبلغ پانچ ہزار روپے کا بجلی کا بل دیکھ کر اس نے سر پکڑ لیا کہنے لگا ابھی گیس کا بل، ٹیلی فون کا بل، پینے کے پانی و نکاسی کا بل وغیرہ آنے باقی ہیں۔ میں تو صرف دو عدد پنکھے، چار عدد ٹیوب لائٹس، ایک انرجی سیور پھر اس قدر کیونکر میرے گھر ایئرکنڈیشن ہے نہ ہی فریج۔ کئی ماہ سے فریج خراب پڑا ہے اس میں گیس چارج ہونی ہے وہ نہیں کروا سکا۔
حکمرانوں کے بڑے دعوؤں کے باوجود تمام اشیا کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ یاد ہے مجھ کو جب کہا جا رہا تھا صرف چھ ماہ میں قوم کو تبدیلی دے دیں گے، حالات بدل دیں گے، مجھے تو یاد ہے لیکن شاید انھیں یاد نہیں۔ میرے دوست تلملاتے ہوئے بولے آج مہنگائی جیتے جی گلا گھونٹ رہی ہے۔
ایک دکاندار کہنے لگا'' مہنگائی سے پورا ملک پریشان ہے کاروبارکی حالت روز بروز زوال کی طرف ہے۔'' صحیح سے رات گئے دکان پر محنت کرتا ہوں، بمشکل پچیس ہزار سے تیس ہزار ماہوار آمدن سے بجلی، گیس، دیگر بل کیسے ادا کروں اور اخراجات الگ ہیں۔
دکاندار کہنے لگا میاں جی! مہنگائی کا عالم تو یہ ہے چنا اور چنے کی دال 300 روپے کلو ہے، تمام سبزیاں مہنگی، تمام دالیں مہنگی، گوشت اس قدر مہنگا کھا نہیں سکتے۔ کہنے لگا! میرے تین بچے ہیں جو اسکول پڑھنے جاتے ہیں ایک بچے کی 8 سو روپے ماہانہ فیس ہے کاپی کتابیں علیحدہ۔ الغرض اب تو دو وقت کی روٹی ملنا بھی دشوار ہے۔
ایک سبزی فروش جو ٹھیلے پر سبزی فروخت کرتا ہے بڑے دکھی انداز میں کہنے لگا جناب! اس مہنگائی نے تو خاص طور پر غریبوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ہمارے ملک کی اکثریت غربت کی زندگی بسر کر رہی ہے۔ حالانکہ حکومت وقت کو چاہیے وہ مہنگائی کو روکنے کے لیے اقدامات کرے۔ دل برداشتہ ہوکر کہنے لگا حکومت سے امید رکھنا خام خیالی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
عجب رسم چلی ہے چارہ گروں کی بستی میں
کھا کے زخم نمک سے مساج کرتے ہیں،
غریب ترستا ہے ایک نوالے کو
امیر کے کتے بھی راج کرتے ہیں
دراصل منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں کی وجہ سے بھی مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ لوگ من مانی کرتے ہیں اشیا مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ کیا خبر یہ مہنگائی کا سیلاب ہمیں کہاں پہنچا کر دم لے گا۔ جس ملک میں مہنگائی دن دگنی رات چوگنی بڑھتی جائے یقینا اس ملک کی ترقی ناپید ہوجاتی ہے۔ وہ ملک زوال کا شکار ہو جاتا ہے مہنگائی خوشحالی ختم کردیتی ہے۔ منافع خور، ذخیرہ اندوز راتوں رات امیر بننا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے غربت خط غربت سے نیچے آجاتی ہے جو ہمارے ملک میں ہو رہا ہے۔
دراصل مہنگائی کو بڑھانے میں ہمارا بھی خاصا عمل دخل ہے ہم فضول خرچی سے کام لیتے ہیں۔ شادی بیاہ، دیگر تقریبات میں زیادہ رقومات خرچ کرتے ہیں۔ جب ہم زیادہ اشیا کی خریداری کریں گے تو وہ کم ہوںگی اور جب کم ہوں گی تو یقینا مہنگی ہو جائیں گی اس طرح مہنگائی خودبخود بڑھتی چلی جاتی ہے۔
بقول میرے دوست کے مہنگائی میں اگر ہمارا بھی کردار ہے، منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں، گراں فروشوں کا بھی کردار ہے اور حکومت اپنا دامن نہیں بچا سکتی اس کا اہم کردار ہے وہ مہنگائی پر روک تھام کیوں نہیں کرتی؟ اس مہنگائی کے سیلاب کے آگے بند باندھنا حکومت وقت کا کام ہے۔ اس کے پاس قانونی، سیاسی، انتظامی وسائل موجود ہیں انھیں بروئے کار لائیں۔ لہٰذا ہم سب کو اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے جو لوگ اخراجات میں محتاط یا محدود ہیں لیکن اس مہنگائی کی وجہ سے ان کی زندگی بھی مشکل ہوگئی ہے۔ تنخواہ دار طبقہ تو زیادہ مشکل میں ہے کوئی مسیحا نظر نہیں آتا۔