پاکستان مخالف بل حد درجہ سنجیدہ ہے
ہمارے چند دانشور امریکا دشمنی کو عاقبت سنوارنے کا ذریعہ گردانتے ہیں۔ ان کے نزدیک جغرافیائی حدود کی کوئی اہمیت نہیں۔
جم رش(Jim Risch) امریکی سیاست میںایک کہنہ مشق کردار ہے۔ اٹھتہر(78) برس کا یہ سینیٹر' اوھاؤ (Idaho) سے تعلق رکھتا ہے۔ گورنر' لفٹنینٹ گورنر اور دیگر اعلیٰ ترین عہدوں پرفائز رہا ہے۔
آج کل امریکی سینیٹ کی حد درجہ طاقتور کمیٹی جو بیرونی تعلقات اور غیر ملکی معاملات پر نظر رکھتی ہے' اس کا اہم ممبر ہے۔ رش کے سیاسی خیالات بھی پوری دنیاکو معلوم ہیں۔ دو مثالیں سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ جمال خشوگی کو قتل کیا گیا۔ ترکی میں پیش آنے والا واقعہ پوری دنیا کے لیے حد درجہ اہمیت اختیار کر چکاتھا۔
امریکی خفیہ اداروں کے پاس تمام صورت حال کی اصل ریکارڈنگ اور حقیقت موجود تھی۔ مگر صدر ٹرمپ اس سچائی کو دنیا کے سامنے نہیں رکھنا چاہتا تھا۔اگر اس وقت تمام حقائق ' دنیا کے سامنے رکھ دیے جاتے تو امریکا کو کافی مالی نقصان ہو سکتا تھا۔جم رش پر زور طریقے سے ٹرمپ کے فیصلے کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔
ریپبلیکن سینیٹرز کو صدر کے حق میں ٹھنڈا کر کے لانے کا مشکل ترین کام ' اسی سیاست دان نے کیا تھا۔ مقصد امریکی مالی مفادات کی حفاظت کرنا تھا۔ اسی طرح ترکی پر پابندیاں لگانے کا بل بھی جم کا ہی تیار کردہ تھا۔
کردوں کے خلاف ترک حکومت کی کارروائیاں اس کا بنیادی محرک تھا۔ کرد پناہ گزینوں کو امریکی شہریت دلوانے میں بھی رش نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔عرض کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ جم سینیٹ میں غیر معمولی حیثیت کا حامل ہے۔ انتہائی سنجیدگی کے ساتھ امریکی مفادات کی حفاظت کرتا ہے۔
یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہیں' کہ امریکی ریاستی اداروں سے بھی اس کی گاڑھی چھنتی ہے۔ انتہائی طاقتور سی آئی اے اور پینٹاگون بھی جم کے ساتھ معاملہ فہمی کرتے رہتے ہیں۔ امریکی سینیٹر کے تھوڑے سے تعارف سے صرف یہ باور کروانا مقصود ہے کہ جم رش کی کسی بات کو غیر اہم نہیں سمجھا جا سکتا۔
آج سے ٹھیک چار دن پہلے جم رش نے امریکی سینیٹ میں ایک بل پیش کیا ہے۔ یہ بائیس ریپبلیکن سینیٹرز کی مہر سے سامنے آیا ہے۔ اس کا عنوان "Afghanistan, Counterterrorism Oversight and Accountability Act" ہے۔ بنیادی طور پر یہ موجودہ افغان حکومت یعنی طالبان کے خلاف ہے۔ مگر اس میں تین انتہائی حساس نکات پاکستان کے متعلق بھی ہیں۔
اس ایکٹ کے مطابق' امریکی حکومت سے رپورٹ طلب کی گئی ہے کہ بتائے کہ 2001سے 2020تک کیا پاکستان' طالبان کی مدد کرتا رہا ہے؟۔ اس کے علاوہ' کیا سابقہ افغان حکومت کے طالبان کے ہاتھوں گرنے میں پاکستان کا کوئی کردار ہے کہ نہیں؟۔ تیسرا سوال یہ بھی درج ہے کہ' کیا پنج شیر میں طالبان کے جیتنے میں کوئی پاکستانی مدد توشامل نہیں؟۔
جم نے اس ایکٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی حکومت' طالبان کو مدد کرنے میں ملوث رہی ہے تو ان پر فوراً پابندیاں عائد کر دینی چاہئیں۔ امریکی حکومتی ادارے ان تمام معاملات پر اپنی رپورٹ مختصر عرصہ میں سینیٹ کمیٹی کے سامنے رکھیں گے۔
ایک بات صاف ظاہر ہے کہ پاکستان کے طالبان کے ساتھ بیس سالہ کردار کو حد درجہ تنقیدی نگاہ سے پرکھا جائے گا۔ یہی وہ تمام عرصہ ہے جس میں افغانستان پر کرزئی اور اشرف غنی کی حکومت رہی ہے۔ کسی مغالطے میں رہنے کے بجائے ہمیں اس بل کے محرکات اور اثرات پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
تدبر' غیر جذباتیت اور متانت سے پورے معاملے پر سوچ بچار کرنا لازم ہے۔ کیونکہ پاکستان کی اقتصادی ' سماجی اور ریاستی صورت حال ہرگز ہرگز امریکی پابندیوں کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پورے ملک میں ایک قابل قدر ادارہ ایسا نہیں ہے جو عوام اور حکومت کو بتا سکے کہ امریکی پابندیوں سے ہمیں کیا نقصانات پہنچ سکتا ہے۔
آج بھی ہمارا رویہ حد درجہ عامیانہ سا ہے۔ پاکستان پر پابندیاں لگتی رہی ہیں۔ یہ نہیں کہ بائیس کروڑ لوگ سانس لینا بند کر دیں گے۔ مگر زندہ تو لوگ لیبیا' عراق ' شام اور یمن میں بھی ہیں۔ مگر وہ صرف سانس لے رہے ہیں۔ انھیں بھرپور زندہ کہنا کافی مشکل کام ہے۔ دنیا کی ہر سہولت سے عاری ہو کر صرف سونا' جاگنا اگر واقعی ٹھیک ہے۔ تو یہ تمام ممالک حد درجہ کامیاب ہیں۔ اس امریکی ایکٹ کا اصل ہدف کون ہے؟
بادی النظر میں تو یہ نظرآتا ہے کہ مقصد ہمارے ریاستی اداروں کے سابقہ اور موجودہ کردار پر حد درجہ تنقیدی نظر رکھنا ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ امریکا ہمارے ریاستی اداروں کی طاقت کو ختم یا کم کرنے کی باضابطہ کوشش کر رہاہے۔
اس ایکٹ پر ہندوستانی حکومت اور میڈیا خوشی کے شادیانے بجا رہا ہے۔ نریندر مودی کے امریکی دورہ کے فوراً بعد سے اس امرکی تصدیق ہوتی ہے کہ پاکستان دشمن ایکٹ میں ہندوستان پورا حصہ ڈال چکا ہے۔ ہندوستان اور امریکا ' دونوں اب ہمارے ملک کے خلاف بالکل ایک جیسے ہیں۔ دونوں کی خواہش ہمارے ملک کو بے دست و پا کر کے اس کے حصے بخرے کرنا ہے۔ اس بل کی اصل محرک ہندوستان کی وہ سفارتی لابی ہے جو واشنگٹن میں موجود ہے۔ اور اس کا حددرجہ اثر و رسوخ ہے۔
امریکی اور ہندوستانی حکومت کے دفاعی ادارے ایک بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ افغانستان کی تین لاکھ فوج' جدید ترین اسلحہ سے لیس تھی۔ وہ ریت کی دیوار کیسے ثابت ہوئی۔ گزشتہ روز سینیٹ میں امریکی جرنیل اس نکتہ کو بار بار دہرا رہے تھے کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ افغان فوج' طالبان کے سامنے لڑے بغیر ہتھیار ڈال دے گی۔ اسی طرح امریکی ریاستی اداروں کا خیال تھا کہ پنج شیر میں تو حد درجہ مضبوط لوگ رہتے ہیں۔
اس وادی میں تو طالبان کبھی بھی قابض نہیں ہو سکے۔ لہٰذا یہ عجوبہ کیسے ممکن ہو گیا۔ کہ طالبان نے مہینوں میں نہیں ' دنوں میں پنج شیر وادی کے حکمرانوں کو برباد کر کے رکھ دیا۔ اس کا ایک رخ اور بھی ہے۔ افغان فوج کے افسروں کی تمام تربیت ہندوستان کی فوجی اکیڈمیوں میں ہوئی تھی۔ افغانستان میں انھیں مہلک ترین امریکی اسلحہ فراہم کیا گیا تھا۔
طالبان کے ہاتھوں ڈھیر ہو جانے کا یہ مطلب بھی ہے کہ ہندوستان کی فوجی تربیت بھی حد درجہ پست ہے۔ یہ صورت حال ہندوستان کے لیے ماتم سے کم نہیں ہے۔ اور یہ واحد وجہ ہے کہ ہزیمت مٹانے کے لیے کووڈ کے دوران نریندر مودی کو واشنگٹن یاترہ کرنی پڑی۔ دنیا کے نناوے فیصد سربراہان نے اس بار اقوام متحدہ میں ورچوئل شرکت کی۔ مگر نریندر مودی ذاتی طور پر اس اجلاس میں تقریر کرنے گیا۔
لازم ہے کہ ایجنڈا تقریر کرنا نہیں۔ بلکہ امریکا کے سامنے فریاد کرنا تھا۔ کہ کسی طرح اس ذلت سے نکالو' جس میں طالبان نے ہمیں مبتلا کر دیا ہے۔ ہندوستان اپنی خفت مٹانے کے لیے اب امریکی سینیٹ کے بل کے پیچھے چھپنا چاہتا ہے۔
کیا ہمیں اس بل کے معاملے میں معمولی سی بھی غیر سنجیدگی دکھانی چاہیے۔ کیا ہمیں واقعی اس معاملے میں کسی قسم کی روایتی بے حسی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ طالب علم کی دانست میں ایسا غیر محتاط رویہ' خودکشی کے برابر ہو سکتا ہے۔ ہر ایک کو معلوم ہونا چاہیے کہ نشانہ ہمارے عسکری ادارے ہیں۔ حکومتی سطح پر وزارت خارجہ کا ردعمل بہت سطحی سا ہے۔ بل کونا منظور کہہ کر کیا زمینی حقائق تبدیل ہو جائیں گے۔ بالکل نہیں !
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ واشنگٹن میں ہماری سفارتی لابی کو اتنا متحرک کیا جاتا کہ تصویر کا اصل رخ امریکی سینیٹ کے سامنے آ پاتا۔ یہ بھی معلوم نہیںکہ کیپٹل ہل میں ہماری کوئی لابنگ فرم ہے بھی کہ نہیں۔ واشنگٹن میں بہر حال ہمارے دوست بہت کم ہیں۔
غضب یہ ہے کہ ہماری قومی قیادت کی امریکا میں بہت معمولی درجہ کی پذیرائی ہے۔ ہم نے واشنگٹن میں اپنے غیر مثبت تاثر کو بہتر بنانے کے لیے کوئی خاص محنت بھی نہیں کی۔ ہمارے سفیر کابھی کوئی پتہ نہیں کہ سفارتی سطح پر کتنے متحرک ہیں۔عوامی سطح پر معاملہ اور بھی مشکل ہے۔ ایک خاص منصوبہ بندی سے پاکستان میں امریکا کے متعلق منفی جذبات بھڑکائے گئے ہیں۔ طالبان کے حامیوں کو دہائیوں سے ہر سطح پر مضبوط کیا گیا ہے۔
نتیجہ یہ کہ ہمارے چند دانشور امریکا دشمنی کو عاقبت سنوارنے کا ذریعہ گردانتے ہیں۔ ان کے نزدیک جغرافیائی حدود کی کوئی اہمیت نہیں۔ میرے جیسا خاکسار برسوں سے لکھ رہا ہے کہ خدارا' امریکا سے معاملات درست کریں۔ ہمسایوں سے تعلقات بہتری کی طرف لے جائیں ۔ مگر میرے جیسی نحیف آواز کون سنتا ہے۔
آج کل امریکی سینیٹ کی حد درجہ طاقتور کمیٹی جو بیرونی تعلقات اور غیر ملکی معاملات پر نظر رکھتی ہے' اس کا اہم ممبر ہے۔ رش کے سیاسی خیالات بھی پوری دنیاکو معلوم ہیں۔ دو مثالیں سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ جمال خشوگی کو قتل کیا گیا۔ ترکی میں پیش آنے والا واقعہ پوری دنیا کے لیے حد درجہ اہمیت اختیار کر چکاتھا۔
امریکی خفیہ اداروں کے پاس تمام صورت حال کی اصل ریکارڈنگ اور حقیقت موجود تھی۔ مگر صدر ٹرمپ اس سچائی کو دنیا کے سامنے نہیں رکھنا چاہتا تھا۔اگر اس وقت تمام حقائق ' دنیا کے سامنے رکھ دیے جاتے تو امریکا کو کافی مالی نقصان ہو سکتا تھا۔جم رش پر زور طریقے سے ٹرمپ کے فیصلے کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔
ریپبلیکن سینیٹرز کو صدر کے حق میں ٹھنڈا کر کے لانے کا مشکل ترین کام ' اسی سیاست دان نے کیا تھا۔ مقصد امریکی مالی مفادات کی حفاظت کرنا تھا۔ اسی طرح ترکی پر پابندیاں لگانے کا بل بھی جم کا ہی تیار کردہ تھا۔
کردوں کے خلاف ترک حکومت کی کارروائیاں اس کا بنیادی محرک تھا۔ کرد پناہ گزینوں کو امریکی شہریت دلوانے میں بھی رش نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔عرض کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ جم سینیٹ میں غیر معمولی حیثیت کا حامل ہے۔ انتہائی سنجیدگی کے ساتھ امریکی مفادات کی حفاظت کرتا ہے۔
یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہیں' کہ امریکی ریاستی اداروں سے بھی اس کی گاڑھی چھنتی ہے۔ انتہائی طاقتور سی آئی اے اور پینٹاگون بھی جم کے ساتھ معاملہ فہمی کرتے رہتے ہیں۔ امریکی سینیٹر کے تھوڑے سے تعارف سے صرف یہ باور کروانا مقصود ہے کہ جم رش کی کسی بات کو غیر اہم نہیں سمجھا جا سکتا۔
آج سے ٹھیک چار دن پہلے جم رش نے امریکی سینیٹ میں ایک بل پیش کیا ہے۔ یہ بائیس ریپبلیکن سینیٹرز کی مہر سے سامنے آیا ہے۔ اس کا عنوان "Afghanistan, Counterterrorism Oversight and Accountability Act" ہے۔ بنیادی طور پر یہ موجودہ افغان حکومت یعنی طالبان کے خلاف ہے۔ مگر اس میں تین انتہائی حساس نکات پاکستان کے متعلق بھی ہیں۔
اس ایکٹ کے مطابق' امریکی حکومت سے رپورٹ طلب کی گئی ہے کہ بتائے کہ 2001سے 2020تک کیا پاکستان' طالبان کی مدد کرتا رہا ہے؟۔ اس کے علاوہ' کیا سابقہ افغان حکومت کے طالبان کے ہاتھوں گرنے میں پاکستان کا کوئی کردار ہے کہ نہیں؟۔ تیسرا سوال یہ بھی درج ہے کہ' کیا پنج شیر میں طالبان کے جیتنے میں کوئی پاکستانی مدد توشامل نہیں؟۔
جم نے اس ایکٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی حکومت' طالبان کو مدد کرنے میں ملوث رہی ہے تو ان پر فوراً پابندیاں عائد کر دینی چاہئیں۔ امریکی حکومتی ادارے ان تمام معاملات پر اپنی رپورٹ مختصر عرصہ میں سینیٹ کمیٹی کے سامنے رکھیں گے۔
ایک بات صاف ظاہر ہے کہ پاکستان کے طالبان کے ساتھ بیس سالہ کردار کو حد درجہ تنقیدی نگاہ سے پرکھا جائے گا۔ یہی وہ تمام عرصہ ہے جس میں افغانستان پر کرزئی اور اشرف غنی کی حکومت رہی ہے۔ کسی مغالطے میں رہنے کے بجائے ہمیں اس بل کے محرکات اور اثرات پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
تدبر' غیر جذباتیت اور متانت سے پورے معاملے پر سوچ بچار کرنا لازم ہے۔ کیونکہ پاکستان کی اقتصادی ' سماجی اور ریاستی صورت حال ہرگز ہرگز امریکی پابندیوں کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پورے ملک میں ایک قابل قدر ادارہ ایسا نہیں ہے جو عوام اور حکومت کو بتا سکے کہ امریکی پابندیوں سے ہمیں کیا نقصانات پہنچ سکتا ہے۔
آج بھی ہمارا رویہ حد درجہ عامیانہ سا ہے۔ پاکستان پر پابندیاں لگتی رہی ہیں۔ یہ نہیں کہ بائیس کروڑ لوگ سانس لینا بند کر دیں گے۔ مگر زندہ تو لوگ لیبیا' عراق ' شام اور یمن میں بھی ہیں۔ مگر وہ صرف سانس لے رہے ہیں۔ انھیں بھرپور زندہ کہنا کافی مشکل کام ہے۔ دنیا کی ہر سہولت سے عاری ہو کر صرف سونا' جاگنا اگر واقعی ٹھیک ہے۔ تو یہ تمام ممالک حد درجہ کامیاب ہیں۔ اس امریکی ایکٹ کا اصل ہدف کون ہے؟
بادی النظر میں تو یہ نظرآتا ہے کہ مقصد ہمارے ریاستی اداروں کے سابقہ اور موجودہ کردار پر حد درجہ تنقیدی نظر رکھنا ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ امریکا ہمارے ریاستی اداروں کی طاقت کو ختم یا کم کرنے کی باضابطہ کوشش کر رہاہے۔
اس ایکٹ پر ہندوستانی حکومت اور میڈیا خوشی کے شادیانے بجا رہا ہے۔ نریندر مودی کے امریکی دورہ کے فوراً بعد سے اس امرکی تصدیق ہوتی ہے کہ پاکستان دشمن ایکٹ میں ہندوستان پورا حصہ ڈال چکا ہے۔ ہندوستان اور امریکا ' دونوں اب ہمارے ملک کے خلاف بالکل ایک جیسے ہیں۔ دونوں کی خواہش ہمارے ملک کو بے دست و پا کر کے اس کے حصے بخرے کرنا ہے۔ اس بل کی اصل محرک ہندوستان کی وہ سفارتی لابی ہے جو واشنگٹن میں موجود ہے۔ اور اس کا حددرجہ اثر و رسوخ ہے۔
امریکی اور ہندوستانی حکومت کے دفاعی ادارے ایک بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ افغانستان کی تین لاکھ فوج' جدید ترین اسلحہ سے لیس تھی۔ وہ ریت کی دیوار کیسے ثابت ہوئی۔ گزشتہ روز سینیٹ میں امریکی جرنیل اس نکتہ کو بار بار دہرا رہے تھے کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ افغان فوج' طالبان کے سامنے لڑے بغیر ہتھیار ڈال دے گی۔ اسی طرح امریکی ریاستی اداروں کا خیال تھا کہ پنج شیر میں تو حد درجہ مضبوط لوگ رہتے ہیں۔
اس وادی میں تو طالبان کبھی بھی قابض نہیں ہو سکے۔ لہٰذا یہ عجوبہ کیسے ممکن ہو گیا۔ کہ طالبان نے مہینوں میں نہیں ' دنوں میں پنج شیر وادی کے حکمرانوں کو برباد کر کے رکھ دیا۔ اس کا ایک رخ اور بھی ہے۔ افغان فوج کے افسروں کی تمام تربیت ہندوستان کی فوجی اکیڈمیوں میں ہوئی تھی۔ افغانستان میں انھیں مہلک ترین امریکی اسلحہ فراہم کیا گیا تھا۔
طالبان کے ہاتھوں ڈھیر ہو جانے کا یہ مطلب بھی ہے کہ ہندوستان کی فوجی تربیت بھی حد درجہ پست ہے۔ یہ صورت حال ہندوستان کے لیے ماتم سے کم نہیں ہے۔ اور یہ واحد وجہ ہے کہ ہزیمت مٹانے کے لیے کووڈ کے دوران نریندر مودی کو واشنگٹن یاترہ کرنی پڑی۔ دنیا کے نناوے فیصد سربراہان نے اس بار اقوام متحدہ میں ورچوئل شرکت کی۔ مگر نریندر مودی ذاتی طور پر اس اجلاس میں تقریر کرنے گیا۔
لازم ہے کہ ایجنڈا تقریر کرنا نہیں۔ بلکہ امریکا کے سامنے فریاد کرنا تھا۔ کہ کسی طرح اس ذلت سے نکالو' جس میں طالبان نے ہمیں مبتلا کر دیا ہے۔ ہندوستان اپنی خفت مٹانے کے لیے اب امریکی سینیٹ کے بل کے پیچھے چھپنا چاہتا ہے۔
کیا ہمیں اس بل کے معاملے میں معمولی سی بھی غیر سنجیدگی دکھانی چاہیے۔ کیا ہمیں واقعی اس معاملے میں کسی قسم کی روایتی بے حسی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ طالب علم کی دانست میں ایسا غیر محتاط رویہ' خودکشی کے برابر ہو سکتا ہے۔ ہر ایک کو معلوم ہونا چاہیے کہ نشانہ ہمارے عسکری ادارے ہیں۔ حکومتی سطح پر وزارت خارجہ کا ردعمل بہت سطحی سا ہے۔ بل کونا منظور کہہ کر کیا زمینی حقائق تبدیل ہو جائیں گے۔ بالکل نہیں !
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ واشنگٹن میں ہماری سفارتی لابی کو اتنا متحرک کیا جاتا کہ تصویر کا اصل رخ امریکی سینیٹ کے سامنے آ پاتا۔ یہ بھی معلوم نہیںکہ کیپٹل ہل میں ہماری کوئی لابنگ فرم ہے بھی کہ نہیں۔ واشنگٹن میں بہر حال ہمارے دوست بہت کم ہیں۔
غضب یہ ہے کہ ہماری قومی قیادت کی امریکا میں بہت معمولی درجہ کی پذیرائی ہے۔ ہم نے واشنگٹن میں اپنے غیر مثبت تاثر کو بہتر بنانے کے لیے کوئی خاص محنت بھی نہیں کی۔ ہمارے سفیر کابھی کوئی پتہ نہیں کہ سفارتی سطح پر کتنے متحرک ہیں۔عوامی سطح پر معاملہ اور بھی مشکل ہے۔ ایک خاص منصوبہ بندی سے پاکستان میں امریکا کے متعلق منفی جذبات بھڑکائے گئے ہیں۔ طالبان کے حامیوں کو دہائیوں سے ہر سطح پر مضبوط کیا گیا ہے۔
نتیجہ یہ کہ ہمارے چند دانشور امریکا دشمنی کو عاقبت سنوارنے کا ذریعہ گردانتے ہیں۔ ان کے نزدیک جغرافیائی حدود کی کوئی اہمیت نہیں۔ میرے جیسا خاکسار برسوں سے لکھ رہا ہے کہ خدارا' امریکا سے معاملات درست کریں۔ ہمسایوں سے تعلقات بہتری کی طرف لے جائیں ۔ مگر میرے جیسی نحیف آواز کون سنتا ہے۔