یورپ کی آخری مسلم ریاست اور جامع مسجد غرناطہ

چھ صدیاں قبل جہاں اذان کی آواز بند کردی گئی تھی اب وہیں پھر اللہ اکبر کی صدا بلند ہورہی ہے


اس میں مسلم دور کے اندلس کی روح کو سمودیا گیا ہے۔ (فوٹو: بلاگر)

2 جنوری 1492 کو جب غرناطہ کے آخری مسلمان حکمران ابو عبداللہ نے الحمرا کی چابیاں عیسائی بادشاہ فرڈی نینڈ اور ملکہ ازابیلہ کے حوالے کیں تو یورپ کی آخری مسلم ریاست بھی ختم ہوگئی۔ عیسائی فاتحین نے معاہدے کے تحت مفتوح مسلم آبادی کو مذہبی آزادی کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن یہ وعدہ زیادہ عرصہ قائم نہ رہا اور وہاں رہ جانے والے مسلمانوں کو یا تو اسپین چھوڑنے کا کہا گیا یا پھر مذہب کی تبدیلی کا راستہ اپنانے کا حکم دیا گیا۔

جو مسلمان ہجرت کرسکتے تھے وہ ہجرت کرکے مراکش چلے گئے اور کچھ کو جبراً عیسائی بنا لیا گیا۔ جبکہ ہزاروں مسلمانوں کے خون سے ہسپانیہ رنگین ہوگیا، جس پر علامہ اقبال کا دل یوں رویا:

ہسپانیہ تو خونِ مسلماں کا امیں ہے
مانندِ حرم پاک ہے تو میری نظر میں
پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں
خاموش اذانیں ہیں تری بادِ سحر میں


اس سفرنامے کی ابتدائی روداد یہاں سے پڑھئے: یورپ کی آخری مسلم ریاست کا دارالخلافہ غرناطہ

مساجد کو گرجا گھروں میں تبدیل کردیا گیا اور کچھ ہی عرصے بعد ہسپانیہ سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دیا گیا۔ چھ صدیاں قبل جہاں اذان کی آواز بند کردی گئی تھی اب وہیں پھر اللہ اکبر کی صدا بلند ہورہی ہے۔ اذان کی یہ آواز جامع مسجد غرناطہ سے بلند ہورہی ہے۔ غرناطہ کی اس مسجد سے جب اللہ اکبر کی صدا بلند ہوتی ہے تو الحمرا کے در و دیوار اسے سن کر عہد ماضی کو یاد کرتے ہوں گے۔ اس مسجد کی تعمیر کی اجازت دے کر گویا اہل ہسپانیہ نے ماضی کے جبر کا ازالہ کرنے کی کوشش کی ہے۔



 

غرناطہ شہر میں الحمرا کے بالکل مقابل مسلمانوں کا محلہ ہوا کرتا تھا جہاں پھر سے کچھ مسلم گھرانے آباد ہیں۔ یہیں پر 2003 میں جامع مسجد غرناطہ تعمیر کی گئی۔ آج اسپین ماضی کے اس اسپین سے مختلف ہے۔ اب یہاں اسلام دوسرا بڑا مذہب ہے اور یہاں ایک ہزار کے قریب مساجد ہیں، جن میں 13 بڑی اور شاندار مساجد ہیں، جو میڈرڈ، بارسیلونا، مالاگا، ماربیلا اور اسپین کے دیگر شہروں میں ہیں، لیکن جامع مسجد غرناطہ سب سے الگ ہے۔



 

اس مسجد کی محراب، مسجد قرطبہ میں مشہور محراب کے عین مطابق ہے، جس کے سامنے کھڑے ہوکر مسجد قرطبہ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ مسجد کی قبلہ کھڑکیاں استنبول کی نیلی مسجد کی کھڑکیوں کا ہوبہو عکس ہیں۔ مسجد کا فوارہ مراکش کے شہر فیض کے ماہر کاریگروں نے ایک ہزار سال پرانے اور اندلسی ڈیزائن اور تکنیک کے مطابق تیار کیا ہے۔ مسجد کی دیواریں دیودار کی لکڑی کے پینل پر ہاتھ سے کندہ قرآن کی آیات وہی منظر پیش کرتی ہیں جو اندلس میں ماضی کی عظیم عمارتوں میں نظرآتا ہے۔ مسجد کے کثیر رنگ کی سنگ مرمر کی ٹائل یروشلم کی مسجد اقصیٰ کی طرح ہیں۔ مسجد کے صحن میں ولا غالب الا اللہ کی تختی آویزاں ہے، جو ناصری پیلس الحمرا میں کثرت سے دیواروں پر کندہ ہے۔ گویا ایک پیغام دیا گیا ہے کہ چھ صدیوں بعد بھی اس سرزمین میں اللہ کی کبریائی کا اعلان ہے۔



مسجد کا مینار اگرچہ زیادہ بلند نہیں لیکن پوری شان کے ساتھ کھڑا ہے، جہاں سے پانچ وقت اذان دی جاتی ہے۔جب مؤذن یہاں سے اذان کی صدا بلند کرتا ہے تو الحمرا کے درودیوار وجد میں آجاتے ہوں گے اور انہیں وہی سرور آتا ہوگا جب وہاں سے کبھی اذان کی صدائیں بلند ہوتی تھیں۔ مسجد کا مینار اندلس میں مسلم دور کے البیازین انداز میں ڈیزائن اور تعمیر کیا گیا ہے۔ گویا اس مسجد کی تعمیر میں پورے اندلس میں مسلمانوں نے شاندار ماضی اور تاریخی ورثہ کو ایک جگہ یکجا کردیا ہے۔ مسجد کا مینار قریب بہنے والے دریائے دارو کی وادی میں ساتھ کھڑے الحمرا اور سیرانیواڈا کی چوٹیوں کے ساتھ بڑی شان سے کھڑا ہے۔ مسجد کے امام کا کہنا ہے کہ ہم نے فیصلہ کیا کہ اذان لاؤڈ اسپیکر کے بغیر دی جائے تاکہ مقامی آبادی کو گراں نہ گزرے لیکن پھر بھی ہمیں کچھ خدشات تھے کہ جب یہاں اذان کی آواز بلند ہوگی تو کہیں منفی ردعمل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ہمیں اس وقت خوشگوار حیرت ہوئی جب اذان کی آواز بلند ہوئی تو مقامی آبادی جس میں بہت سے غیر مسلم ہیں، اپنے گھر کی کھڑیوں اور بالکونیوں سے سننے لگے اور کسی قسم کا اعتراض نہ کیا۔

گریناڈا کی مسجد تین اہم حصوں پر مشتمل ہے، یعنی نماز ادا کرنے کےلیے ہال، مرکز برائے علوم اسلامیہ جس میں سیمینار ہال بھی ہے اور مسجد کا باغ۔ مسجد کا باغ بھی الحمرا کا عکس ہے اور یہاں پائن، زیتون، انار، اورنج اور لیموں لگائے گئے ہیں۔ مسجد کے صحن میں الحمرا کی یاد کو تازہ کرنے کےلیے اسی طرز کے دو فوارے لگائے گئے ہیں۔ سال 2003 کے موسم گرما میں گریناڈا کی مسجد کا افتتاح ایک تاریخی واقعہ ہے جسے ری یونین کا جشن قرار دیا گیا، کیونکہ یہ الحمرا اور سیرانیواڈا کے ساتھ بڑے شاہانہ اور پروقار انداز میں نظر آتی ہے۔ یہ عظیم مسجد الحمرا کی روح کو لیے ہوئے ہے اور اس کی تزئین اسی انداز میں کی گئی ہے۔ یہ مسجد 500 سال کے وقفے کے بعد فکر اسلامی کے گمشدہ روابط کی بحالی کا عظیم فریضہ سر انجام دے رہی ہے۔ یہ محض ایک مسجد نہیں بلکہ چھ صدیوں کے بعد اسی عظمت رفتہ کا دور یاد دلاتی ہے جس میں انسانی ترقی اور سرگرمی کے تمام شعبوں میں بھرپور شراکت موجود تھی۔



 

گریناڈا کی مسجد اسلام میں پائے جانے والے پیغمبرانہ پیغام کی یورپ اور مغربی دنیا میں عکاسی کرتی ہے۔ جہاں یہ مسجد تعمیر کی گئی ہے وہ مسلم علاقہ کہلاتا تھا۔ مسجد کے سینٹر فار اسلامک اسٹڈیز میں ایک لائبریری ہے جس میں عربی، ہسپانوی، انگریزی اور دیگر زبانوں میں اسلام پر کتب موجود ہیں۔ مسجد میں روزانہ پانچ نمازیں اور جمعہ کی نماز ہوتی ہے۔ اسپین میں اگرچہ ایک ہزار سے زائد مساجد موجود ہیں جن میں 13 بڑی مساجد ہیں لیکن اس مسجد کی شان نرالی ہے۔ اس میں مسلم دور کے اندلس کی روح کو سمودیا گیا ہے اور یہاں آکر ایک لمحے کےلیے یہی احساس ہوتا ہے کہ ہم چھ صدیاں پیچھے چلے گئے ہیں۔

علامہ اقبال کو خطہ ہسپانیہ سے عشق تھا۔ اگر اقبال آج کے دور میں ہوتے اور قرطبہ کے بعد اس مسجد کو دیکھتے تو یقیناً ایک اور شاہکار نظم لکھتے۔ یہ مسجد علامہ اقبال کے مسجد قرطبہ میں ان اشعار کی تعبیر معلوم ہوتی ہے۔

آب رواں کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
عالم نو ہے ابھی پردہ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
پردہ اٹھا دوں اگر چہرہ افکار سے
لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب


یہ مسجد عام سیاحوں کےلیے بھی دن گیارہ بجے سے کھول دی جاتی ہے اور اکثر سیاح اسے دیکھنے آتے ہیں۔ یہ خوش آئند ہے کہ مسجد انتظامیہ نے غیر مسلم سیاحوں کو بھی یہاں آنے کی عام اجازت دے رکھی ہے۔ اس مسجد کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ اس کا انتظام مسلم تارکین وطن کے بجائے مقامی ہسپانوی مسلمانوں کے پاس ہے اور وہ اسے ماضی کی روایت سے جوڑتے ہوئے مستقبل کی جانب گامزن ہیں۔

غرناطہ کے دورے کے دوران اگر اس مسجد کا دورہ نہیں کیا تو سمجھیں کہ دورہ مکمل نہیں۔ الحمرا کو دیکھنے کے بعد جو دل بوجھل اور دکھی ہوتا ہے، اس کا مداوا یہاں آکر ہوجاتا ہے۔ اس لیے میرا مشورہ یہی ہے الحمرا دیکھنے کے بعد اس مسجد کا دورہ کیا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں