احتساب کا سورج ڈوب گیا …
موجودہ دورکی ریاست مدینہ تو ابھی جاری ہے جس میں ہونے والے انصاف عدل ، معیشت ، ریاست سے کون واقف نہیں؟
اگر ملک میں کہیں کوئی احتساب ہو رہا تھا ، ملک کی لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کی کوشش ہو رہی تھی، کوئی ادارہ اس حوالے سے سرگرم عمل تھا تو سن لیجیے سب کچھ ایک لا حاصل خاتمے کی بہتی ہوئی ندی میں ڈوب گیا اور باقی رہ گیا انتقام۔ وہ لیے جائیں ، جتنا لینا ہے لے لیں ، لیکن اگر ملکی دولت لوٹی گئی تھی تو بھیا وہ تو نہ آسکی ملک میں واپس۔ بیٹھے رہو تصور جاناں کیے ہوئے۔
پی ٹی آئی گورنمنٹ کے بلندو بانگ دعوے، جنرل مشرف کے آہنی ہاتھ ، نواز شریف کا اللہ میرا بہتر جانتا ہے۔ سب ایک کٹھ پتلی کا کھیل ثابت ہوا ، بلکہ جس نے کرپشن پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی توکرپشن نے بھی کورونا وائرس کی طرح اپنی جون بدل لی اور ایک نیا روپ لے لیا۔ جس کے لیے نئی ویکسین ایجاد کی جاتی کہ اسی اثناء میں وہ خود بھی اسی کھیل کا حصہ بن گئے اورکرپشن کی نئی داستان رقم کرگئے۔
دراصل ملکی دولت عوام کی تھی اور ہے جنھیں احتساب کرنا تھا ، لیکن وہ اس حوالے سے کبھی کچھ نہیں بولے جو اس لوٹی گئی دولت کے حقیقی وارث تھے تو پھر جو ہونا تھا وہی ہوا یعنی دودھ کی چوری کی تفتیش بلے سے کروائی گئی۔ آپ ذرا غور فرمانے کی زحمت کریں تو آپ کو سب کچھ صاف نظر آنے لگے گا۔ مثلاً آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہر آنے والی حکومت جانے والی حکومت پر کرپشن کے سنگین الزامات عائد کرتی ہے اور ان کے دعوؤں کے مطابق تو ایسا لگتا بھی ہے کہ ملک کی تباہی کی اصل ذمے دار جانے والی حکومت کے وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے اراکین تھے۔
عمل کی ابتداء ہمیشہ اچھی ہوتی ہے ادارے حرکت میں آجاتے ہیں پکڑ دھکڑ شروع، آہنی ہاتھوں کا سابقہ سلسلہ بھی شروع۔ جیلیں بھی بھر دی جاتی ہیں ریفرنسز دائر کردیے جاتے ہیں غرض کہ کچھ دنوں تک بھرپور شب شبہ جاری رہتا ہے پھر جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے کیسز عدالتوں میں لگنے شروع ہوتے ہیں شواہد ناکافی ہونے کے باعث گرفتار شدگان کی ضمانتیں ہونی شروع ہوجاتی ہیں بڑے بڑے وکلاء کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جن کے لیے رسی کو سانپ اور سانپ کو رسی ثابت کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل ۔اور وہ کر دیتے ہیں لیجیے الزام کنندگان جیل سے باہر۔ عوام کے ارمانوں پر اوس۔
میں یہ سب کچھ اپنے ہوش و حواس میں گزشتہ چالیس سالوں سے ہوتا دیکھ رہا ہوں۔اور مجھے اپنی بقایا زندگی میں بھی اس صورتحال میں رتی برابر تبدیلی ہوتی نظر نہیں آرہی۔ توکیا فائدہ کرپشن تو رکی نہیں ملک کی لوٹی ہوئی دولت کا ایک روپیہ بھی ناقابل حصول رہا بلکہ اس کوشش پر ہر حکومت کے اربوں روپے مزید خرچ ہوگئے، کیونکہ چورکو تو وہی پکڑ سکتا ہے جس کی چوری ہوئی ہو اور چوری ہمیشہ عوام کی ہی ہوتی ہے لیکن عوام ہیں کہاں؟
وہ تو پتہ نہیں کہاں جا سوئے انھیں تو خبر ہی نہیں کہ ان پر کیا بیت گئی۔ قانون سب کے لیے یکساں ہوگا ، انصاف ہوگا ، روزگار کے مواقع ہوں گے ، ماحول سرسبز ہوگا اور نیرو چین کی بنسی بجا رہا ہوگا۔ لہٰذا عوام محو خواب ہیں اور اس دن کے منتظر جس کا خواب علامہ اقبال اور قائد اعظم نے انھیں دکھایا تھا ، اور انتظار کی رات ہے کہ ختم ہوکر نہیں دے رہی ، ظلم ہے کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔
احتساب اب ایک خواب ہے ،بھیانک خواب جو جب بھی ہوا کوئی گرفت میں نا آسکا ،مہنگائی کم ہونے کے بجائے کئی گنا بڑھ گئی بھوک سے مرتے بلکتے عوام پر نت نئے ٹیکسز عائد کردیے گئے غرض کہ ایک طوفان سا آجاتا ہے ان کی زندگیوں میں ۔تو وہ اب پناہ مانگتے ہیں آپ کے احتساب سے اور ہاتھ جوڑ کر بنتی کرتے ہیں کہ آپ ریاست مدینہ بنائیں، ان کی جان بخشی کردیں اور انھیں جینے دیں اس لیے کہ وہ ان حقیقی ڈاکوئوں کو جانتے ہیں وہ ان چوروں کو نقاب کے بغیر بھی دیکھ چکے ہیں جو برسہا برس سے انھیں احتساب کے نام پر لوٹ رہے ہیں۔
موجودہ دورکی ریاست مدینہ تو ابھی جاری ہے جس میں ہونے والے انصاف عدل ، معیشت ، ریاست سے کون واقف نہیں؟ ایسا لگتا ہے کہ اصل جھگڑا ملکی دولت لوٹنے پر نہیں، بلکہ اس کی تقسیم پر ہوتا ہے یعنی دولت بے شک لوٹیں لیکن سب آپ نہ کھائیں کچھ پیچھے والوں کے لیے بھی چھوڑ جایا کریں اور جس دن یہ فارمولہ طے ہوگیا اس دن دیکھ لیجیے گا یہ رہا سہا احتساب کا فریب بھی ختم ہوجائے گا۔
یہ ڈھونگ آہنی ہاتھوں کا ، یہ جعلسازی کہ کوئی بے ایمان اب نہیں بچنے والا ، فلاں آگیا اور چھا گیا ، اگر پچھلے دنوں کی احتسابی فلم دیکھیں تو اپوزیشن کا جو بھی رہنما کرپشن کے الزام میں گرفتار ہوا بڑی عزت و احترام سے صرف چند ماہ بعد ہی رہا ہوگیا بلکہ اس پر عائد کیا گیا ایک بھی الزام ثابت نا ہوسکا۔
ہمارا قابل فخر احتسابی ادارہ جس نے بڑے بڑے دعوے کرکے ان سیاستدانوں کوگرفتارکروایا تھا ان پرکوئی ایک الزام بھی ثابت نہ کرسکا نا ہی کوئی ریفرنس فائل کرسکا بس اتنا ہوا کہ وہ صاحبان کچھ عرصہ جیل میں قید رہے جہاں بھی انھیں معقول سہولتیں میسر تھیں اور پہلے سے زیادہ معتبر ہوکر باہر تشریف لے آئے، بلکہ عدالتوں سے با عزت بری ہونے کا سرٹیفکیٹ بھی مل گیا تو یہ کیسی accountiblityتھی بھائی میرے ؟
اب تو وہ حال ہوگیا جیسے امتحان سے قبل کوئی پرچہ آئوٹ ہوجائے اور پیپر کے تمام questionsکے جوابات معلوم ہوں ایسے ہی عوام جانتے ہیں کہ ہر پانچ سال بعد الیکشن ہوں گے یا سلیکشن ہوگا یا تیسرا option،جو بھی ہوگا نتیجے میں ایک حکومت آئے گی اور بلند و بانگ دعوے کرے گی ترقی کے ،احتساب کے،عدل و انصاف کے بالخصوص کراچی،بلوچستان کے محروم عوام ،ٹرائیبل ایریاز میں ترقیاتی کاموں کے ،سرحدوں پر بھارت کو کرارا جواب دینے کے اور پاکستان کو جھاڑ پھونک کے نیا بنانے کے ۔
اور ہوگا وہی جو ہمیشہ ہوتا آیا ہے کہ اس حکومت کے جاتے ہی نئی حکومت یہی سب کچھ کہہ رہی ہوگی اور یقین مانیے میرا بھی اس تحریر سے ہرگز یہ مقصد نہیں کہ مجھے آپ سے کوئی گلہ ہے یا میں آپ کو کسی تبدیلی کا مشورہ دے رہا ہوں بلکہ بات یہ ہے کہ یہ فلم پردۂ سیمیں پر بہت پرانی ہوچکی۔ لوگ اسے دیکھ دیکھ کر اکتا چکے ہیں ، اس کے تمام کرداروں کو سمجھ چکے ہیں لہٰذا اس کے اسکرپٹ کو تو خدارا کچھ بدل دیجیے کوئی نیا پن لائیں اس میں کہ چوروں کو مور پڑ جائیں ،جیل کے دن بڑھ جائیں ، ایک دو کو پھانسی گھاٹ لے جا کر پھر چاہے واپس ہی لے آئیں کچھ تو نیا کریں۔
عوام کو بھی ایک صائب مشورہ ہے کہ اب کسی اور انقلابی لیڈرکو مثال میں لے آئیں مثلاً چین کے چو این لائی، روس کے سیفو ، امریکا کے ابراہم لنکن۔کہ پاکستان کو تو ان جیسا کوئی آکر ہی ٹھیک کرے گا ، جو ہمیں کوئی تکلیف نہیں دے گا ہم اپنے گھروں میں آرام فرما رہے ہونگے ،کسی کو سڑک پر آنے کی ضرورت نہیں ہوگی کوئی تحریک نہیں ،کاروبارِ زندگی چلتا رہے گا اور جب وہ نیند سے بیدار ہونگے تو ملک بدل چکا ہوگا،گویا۔
فاختہ کی مجبوری یہ بھی کہ نہیں سکتی
کون سانپ رکھتا ہے اس کے آشیانے میں