اکثر گناہ اور تکبر
اگرکوئی شخص غلط بیانی کرتاہے، جھوٹ بولتا ہے یا بے وقوفی کی باتیں کرتا ہے تو وہ اپنا منہ بند رکھے تاکہ گناہ سے بچ جائے۔
اکثرگناہ زبان سے سرزد ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں عظیم نعمت بولنے کی دی، اس نے انسان کو بولنا سکھایا۔ ایک حدیث ہے حضورؐ نے ارشاد فرمایا۔
ہر روز صبح ہوتی ہے جب انسان اٹھتا ہے تو جسم کا ہر عضو زبان سے عاجزی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ تو سیدھی رہنا اس لیے کہ اگر تو سیدھی رہی تو ہم سب سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگئی تو تیری وجہ سے ہم سب کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اسی طرح صحیح بخاری کی روایت ہے حضورؐ نے فرمایا جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے وہ اچھی طرح بات کرے ورنہ منہ بند رکھے۔
حضور اکرمؐ کی اس بات میں بڑی حکمت ہے، ظاہر ہے اگر کوئی شخص غلط بیانی کرتا ہے، جھوٹ بولتا ہے یا بے وقوفی کی باتیں کرتا ہے تو وہ اپنا منہ بند رکھے تاکہ گناہ سے بچ جائے۔ جس قدر خاموش رہے گا وہ برا کہنے یا اپنی بے وقوفی سے بچا رہے گا، اگر بے وقوف شخص بھی خاموش بیٹھا ہے تو اس کو بھی عقل مند سمجھنے لگتے ہیں ، وہ اپنی حماقت سے بچ جاتا ہے اور الٹے سیدھے جملوں سے بچا رہتا ہے جس میں بے عزتی نہیں ہوتی نہ ہی گناہ گار ہوتا ہے۔
ایک صحابی نے حضورؐ سے پوچھا ''نجات کیسے ممکن ہے؟'' آپؐ نے فرمایا۔ ''اپنی زبان کو قابو میں رکھیں'' جھوٹ بولنا ، غیبت کرنا ، چغلی کرنا ، فحش باتیں کرنا ، چیخ کر بات کرنا ، لغو باتیں کرنا ، طعنہ دینا ، بدکلامی ، گالم گلوچ ، گانے گانا ، طنز کرنا ، نا حق بات کرنا ، بد دعا کرنا، جھوٹی تعریف کرنا، راز افشا کرنا، تہمت لگانا، مخبری کرنا ، ادھر کی بات ادھر لگانا، یہ اور ان کے علاوہ بھی معاشرتی اخلاقی گناہ ہیں جو جانے اور انجانے میں ہو جاتے ہیں۔
جھوٹ بولنا اس قدر بڑھتا جا رہا ہے کہ ہم یہ سوچتے نہیں کہ جو بات کر رہے ہیں یہ جھوٹ ہے۔ معلوم ہونے کے بعد دنیا میں بے عزتی اور آخرت میں گناہ۔کوئی تو اس قدر جھوٹ بولتا ہے کہ وہ جھوٹ پھر سچ معلوم دینے لگے ساری عبادت جھوٹ بولنے پر رائیگاں ہوجاتی ہے۔ چھوٹی سی بات کو بڑھا چڑھا کر لوگوں کے آگے بولنا، اپنی برتری جتانا یہ جھوٹ گناہ ہیں۔
غیبت کرنا اخلاقیات میں بڑا گناہ ہے، غیبت وہ بات ہے جو اپنے بھائی ، خاص دوست احباب، عزیز و اقارب کے بارے میں جو ان کے سامنے کہی جاتی تو ناگوار لگتا بات بری محسوس ہوتی ، غیبت مطلقاً حرام ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ تم میں سے کوئی غیبت نہ کرے ، اگر غیبت کرے گا ، اپنے مردار بھائی کا گوشت کھائے گا۔ اللہ سے ڈرو کسی کے پیچھے غیبت نہ کرو، بڑا سخت جرم ہے۔
چغلی کرنا دو افراد کو لڑا دینا ہے ، اپنی بالادستی، بڑا پن، معلومات کا سرگرم ظاہر کرنے کے لیے کسی کی چغلی کی جائے جس کے باعث اختلافات، جھگڑے، فساد پیدا ہو جائیں گناہ ہے۔ تمہت لگانا کسی معصوم عورت یا مرد پر تہمت لگانا اس کے نیک کردار کو برا ظاہرکرنا کسی کو فاسق کہہ دینا تہمت ہے اگر وہ بات نہ ہو تو تہمت پلٹ کر آتی ہے۔ جس نے تہمت لگائی اس پر جھوٹ ثابت ہوتا ہے تو وہی تہمت اس پر پلٹتی ہے۔فحش باتیں کرنا زبان سے بری، فحش باتیں تصاویر، فحش گانے، فحش گفتگو یہ حرام ہے ایسا کرنے بتانے دکھانے والا شخص مجرم گناہ گار ہے۔
چیخنا چلانا، کچھ لوگ چیخ کر بات کرتے ہیں یہ نامناسب ہے اس سے گریز کرنا چاہیے۔ غصہ جس کو حرام کہا گیا ہے کوئی حرام شے کھا سکتے ہیں نہ پی سکتے لیکن غصہ پی سکتے ہیں۔ طعنہ دینا ، اپنی برتری یا کسی کے ساتھ کوئی مدد کرے اس کو طعنہ دے ، طعنہ زنی ، جہالت کی علامت ہے اس کا گناہ ناقابل معافی ہے جب تک وہ شخص نہ معاف کردے جس پر طعنہ زنی کی گئی۔ بدکلامی، گالم گلوچ بہت بری بات ہے جو منافقت کی علامت ہے۔
اگر کوئی شخص راز کی بات کرے اس کو افشا کیا جائے گا وہ امانت کی خیانت کہلائے گا یہ بھی منافق کی علامت ہے وہ شخص دنیا میں ذلیل و رسوا ہوگا اور گناہ گار بھی۔
گانے گانا نامناسب فعل ہے ایسا گناہ جو جہنم کا باعث ہے۔ کوئی شخص حق پر ہے اس کے بارے میں ناحق بات کرنا گناہ میں شامل ہے۔ کسی کے لیے بد دعا نہیں کرنی چاہیے یہ بھی نامناسب عمل ہے۔ مشاہدے میں یہ بات ہے بلاوجہ کسی کی جھوٹی تعریف کرنے لگتے ہیں کسی لالچ کی وجہ ہو یا اس کی جھوٹی تعریف کرکے کچھ حاصل کرنا ہو یہ گناہ ہے۔ چوری، ڈاکا سے حاصل کیا ہوا زر مال و دولت حرام ہے ایسا گناہ جو ناقابل معافی ہے۔
مخبری کرنا ایسا ہے جیسے اپنے آپ کو معلومات کا اہم بتانا کسی ایسے شخص کو مخبری کی جائے۔ امیر ہو یا بڑا آدمی جس کو دوسروں کے بارے میں اطلاع دی جائے۔ مخبری میں کسی کے بارے میں مشکلات بھی پیدا ہوسکتی ہیں ناجائز الفاظ بھی مخبری میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ مخبری کرنے والے افراد اس امر کے عادی ہوجاتے ہیں اپنا فائدہ حاصل کرنے کی خاطر بالادست لوگوں کو مخبری کرتے ہیں۔
مومن اللہ کی نعمتوں پر گھمنڈ ، تکبر نہیں کرتا بلکہ اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے اور اس میں عاجزی و انکساری ہوتی ہے۔ اللہ کے دیے ہوئے مال و زر اور نعمتوں پر اترانا اکڑنا اللہ پسند نہیں کرتا وہ جس طرح نعمتیں دیتا ہے اسی طرح چھین بھی لیتا ہے۔ نعمتیں اللہ کی آزمائش ہیں دے کر آزماتا ہے اور لے کر بھی آزماتا ہے۔ صاحب حیثیت زکوٰۃ دیتے ہیں یا مال و زر ہوتے ہوئے وہ غربا کی مدد کرتا ہے یا نہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اکڑ کر مت چلو۔ تکبر والی چال رب تعالیٰ کو پسند ہے سوائے جہاد جنگ کے اکڑ کر چلنا ممنوع ہے۔
ایک جگہ قرآن میں اللہ نے فرمایا۔ اتراتے ہوئے اکڑ کر زمین پر نہ چل نہ تو پہاڑوں کی بلند تک پہنچ سکتا ہے نہ ہی تیرے چلنے سے زمین پھٹی جاتی ہے تیری تو اتنی اوقات نہیں زمین کو چیر سکے پہاڑوں کو زیر بار کرسکے۔اگر کوئی اتراتا ہے، تکبر کرتا ہے، قارون کے پاس بے حد و مال و زر تھا ایک قوی جماعت بیس سے لے کر اسی افراد اس کے خزانوں کی چابیاں اٹھاتے تھے۔ اللہ نے قارون کی اکڑ، تکبر، غرور کو مٹا دیا، اس کو اور اس کے گھر کو زمین بوس کردیا۔ رب العزت دے سکتا ہے تو لے بھی سکتا ہے۔ اس کی دی ہوئی نعمتوں پر بجائے شکر کے تکبرکرے وہ اس کے عذاب سے نہیں بچتا۔
ایک حدیث میں ہے حضورؐ نے فرمایا۔ ہر سرکش، بخیل اور متکبر انسان جہنم میں جائے گا۔ دوسری ایک حدیث میں حضورؐ نے فرمایا وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا۔چند لوگ ایسے ہیں جن کو ہر قدم پر جھوٹ بولتے پایا ، ان میں ملک کے عہدیدار سے لے کر وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اپنے آپ کو ملک و قوم کا نمایندہ کہتے ہیں۔ کیا کوئی چور، ڈکیت، منافق ہمارا سربراہ ہو سکتا ہے؟ ایسا ہوا ہے ، لوٹ مارکرتے ہیں ، جھوٹ بولتے ہیں مکاری، عیاری، چالبازی سے کام لیتے ہیں شاید وہ بھول جاتے ہیں عذاب الٰہی سے بچ سکیں گے نہ جہنم سے۔