ڈینگی کے تدارک کیلئے صحتمند معاشرتی رویے اپنانا ہونگے

کورونا کی مشکل گھڑی کے باوجود ڈینگی کا خاتمہ حکومتی ترجیحات میں شامل

کورونا کی مشکل گھڑی کے باوجود ڈینگی کا خاتمہ حکومتی ترجیحات میں شامل ہے ۔ فوٹو : ایکسپریس

کورونا وائرس کے ساتھ ساتھ اس وقت ملک کو ڈینگی وائرس کی صورت میں ایک اور چیلنج کا سامنا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے۔

یہ اضافہ کیوں ہوا؟ اس کی روک تھام کے اقدامات کیوں نہیں کیے گئے؟ اس وقت کیا صورتحال ہے؟ حکومت کیا اقدامات کر رہی ہے اور اس وباء سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟ اس طرح کے بیشتر سوالات کے جوابات جاننے کیلئے ''ڈینگی کے بڑھتے ہوئے کیسز اور اس کا تدارک'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، شعبہ صحت اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ندیم قریشی

(پارلیمانی سیکرٹری برائے انفارمیشن و کلچر پنجاب )

2 برسوں سے پاکستان سمیت پوری دنیا کورونا میں مبتلا ہے مگر اس کے باوجود ڈینگی کا تدارک ہماری ترجیحات میں شامل ہے اور اس کے حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جارہے ہیں۔ہم نے ماضی کی حکومتوں سے بہتر نظام بنایا ہے، ہمارے پاس روزانہ کی بنیاد پر ہر ضلع بشمول جنوبی پنجاب کے اضلاع کا مکمل ڈیٹا آرہا ہے جس کی روشنی میں فیصلے کیے جاتے ہیں اور لائحہ عمل بنایا جاتا ہے۔

اس وقت پنجاب میں 1600 سے زائدڈینگی کے کیسز آئے ہیں جن میں زیادہ کیسز لاہور کے ہیں۔ اب تک صوبے بھر میں 4 لاکھ سے زائد آؤٹ ڈور سروے ہوچکے ہیں جس میں شعبہ صحت اور مقامی انتظامیہ کے لوگ شامل ہیں، لاہور میں 55ہزار کے قریب آؤٹ ڈور جبکہ 7 ہزار کے قریب ان ڈور سروے ہوچکے ہیں۔

ڈینگی کی روک تھام اور لاروا تلف کرنے کیلئے ٹارگٹڈ سپرے کیا جا رہا ہے، ہوٹلز، کمرشل مارکیٹس و ایسے مقامات جہاں سے ڈینگی یا لاروا ملا انہیں سربمہرکیا گیا ہے اور اس حوالے سے ہماری 'زیر وٹالرنس' کی پالیسی ہے۔ تمام ڈی ایچ کیو اور ٹی ایچ یوز کو ہدایات جاری کی جاچکی ہیں جہاں مریضوں کی سکریننگ کی جارہی ہے، وہاں ڈینگی کیلئے باقاعدہ ڈیسک قائم کیے گئے ہیں۔

جہاں ڈینگی کا مریض پایا جاتا ہے وہاں کے علاقے کے 49 گھروں میں سپرے کیا جاتا ہے یعنی اس گھر کے چاروں اطراف میں 12، 12 گھروں کی سرویلنس کی جاتی ہے۔ لوکل گورنمنٹ کے ادارے اپنا کام کر رہے ہیں، اس وقت پنجاب کی کوئی یونین کونسل نہیں ہے جہاں ڈینگی ٹیم نے وزٹ نہ کیا ہو، ہم جلد اس وباء پر قابو پالیں گے۔ سروے کے علاوہ ہیلپ لائن کے ذریعے بھی لوگوں کو ڈینگی کے حوالے سے رہنمائی دی جارہی ہے۔

مون سون کی وجہ سے ڈینگی کو موسم سازگار ملا تاہم اس کے باوجود حکومت منظم طریقے سے ڈینگی کے تدارک کیلئے کام کر رہی ہے، اس حوالے سے میں تمام ڈینگی ورکرز کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جو کورونا کی اس مشکل گھڑی میں اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر لوگوں کی صحت کے تحفظ کیلئے بہترین کام کر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار ڈینگی کے معاملے کی خود نگرانی کر رہے ہیں، اس حوالے سے نہ صرف عملی کام ہورہا ہے بلکہ آگاہی مہم بھی چلائی گئی ہے جس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آرہے ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر شاہد ملک

(جنرل سیکرٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن لاہور)

وبائیں تین طرح کی ہوتی ہیں، اگر بہت زیادہ بڑھ جائے تو epidemic، اگر پورا سال چلتی رہے تو endemic اور اگر جغرافیائی سرحدوں کو توڑ کر دیگر ممالک میں چلی جائے تو pandemic کہلاتی ہیں۔ اس لحاظ سے موجودہ صورتحال کے پیش نظر کورونا وائرس pandemic ہے اور ڈینگی کی وباء endemic ہے۔

ڈینگی جس سے آیا ہے اس وقت سے پورے سال کی بیماری ہے۔ اس کے پھیلاؤ کو روکا اور اس کی چین کو توڑا جاسکتا ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ڈینگی صرف طبی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ معاشرتی مسئلہ بھی ہے اور انتظامی مسئلہ بھی۔ ہمارے معاشرتی ر ویے بیمار ہیں جس کی وجہ سے آج ہم ڈینگی جیسی وباء کا شکار ہورہے ہیں لہٰذا ڈینگی اور کورونا جیسی وباؤں سے نمٹنے کیلئے ہمیں صحت مند رویے اپنانا ہوں گے۔


وباء جیسے مسائل کے حل کیلئے مقامی حکومتوں کے ادارے ہوتے ہیں مگربدقسمتی سے ہمارے ہاں لوکل گورنمنٹ کے الیکشن ہی نہیں ہوئے۔ جس کی وجہ سے نہ تو مقامی نمائندے موجود ہیں اور نہ ہی کوئی مقامی نظام۔ گزشتہ دور حکومت میں ڈینگی کے حوالے سے مختلف کمیٹیوں کے ساتھ ساتھ ڈینگی ایکسپرٹ ایڈوائزری گروپ(DEAG) بھی موجود تھا مگر اب نہیں ہے۔ ہمیں نہ ڈینگی بریگیڈ کی گاڑیاں نظر آرہی ہیں اور نہ ہی ڈینگی فورس۔ ہسپتالوں میں ڈینگی کی سہولیات کے لیے مختص وارڈز اور بیڈز سے بورڈ ہٹا کر کورونا وارڈ بنا دیا گیا تھا اور اب اچانک سے مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ میرے نزدیک اگر جنوری سے ہی ڈینگی کے لاروا تلف کرنے کیلئے اقدامات کیے جاتے اوربروقت سپرے کر دیا جاتا تو یہ صورتحال نہ ہوتی تاہم اب اس کا حل احتیاطی تدابیر ہے۔

ڈینگی مچھر صبح اور شام کے اوقات میں کاٹتا ہے لہٰذا ہاتھوں کی الٹی طرف، ماتھے اور کان کے پیچھے مچھر سے بچاؤ کا لوشن لگائیں۔ڈینگی جیسی وباء سے بچاؤ کیلئے ہیلتھ ایجوکیشن بہت ضروری ہے، سکولوں میں زیرو پیریڈ میں ڈینگی، کورونا و دیگر مسائل کے بارے میں آگاہی دی جائے۔

ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ڈینگی جان لیوا نہیں ہے۔ 92 فیصد لوگوں میں ڈینگی بخار خود بخود ٹھیک ہوجاتا ہے، 2 فیصد لوگوں میں ڈینگی ہیمرجک فیور ہوتا ہے جو قابل علاج ہے جبکہ دیگر بیماریوں کی وجہ سے ڈینگی کے مرض میں پیچیدگی کی صورت میں صرف ایک فیصد شرح اموات ہے۔بدقسمتی سے حکومتیں ایمرجنسی کی صورت میںردعمل کے طور پر عارضی ا قدامات کرتی ہیں جن سے مسائل حل نہیں ہوتے، حکومتوں کو چیلنجز کو بھانپتے ہوئے پیشگی اور پائیدار اقدامات کرنے چاہئیں لیکن اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہمارا دیمک زدہ ہیلتھ دھرام سے گر جائے گا۔

عبداللہ ملک

(نمائندہ سول سوسائٹی )

جس طرح دسمبر 2019ء میں چین سے کورونا وائرس پھیلا اسی طرح 1950ء میں فلپائن اور تھائی لینڈ سے ڈینگی کی وباء پھیلی جو اس وقت 129 سے 140 ممالک میں موجود ہے۔ اس وباء سے 400 ملین سے زائد افراد متاثر ہوئے۔ گنجان آبادی والے ممالک میں یہ وباء زیادہ ہے کیونکہ اس وباء کے پھیلاؤ کا بڑا تعلق معاشرتی رویوں اور رہن سہن سے ہے۔

ڈینگی اور کورونا جیسی وبائیں شعبہ صحت اورمعیشت پر بوجھ ہوتی ہیں۔ خاص کر ترقی پذیر ممالک کو ان سے نمٹنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کا نظام صحت تباہی کے دہانے پہنچ جاتا ہے لہٰذا اگر حکومتیں وباء کی روک تھام اور بچاؤ کیلئے پیشگی اقدامات کریں تو نہ صرف مشکلات میں کمی لائی جاسکتی ہے بلکہ ان سے معیشت اور صحت کے شعبہ پر بوجھ بھی کم پڑتا ہے۔

صحت پر خرچ ہونے والے ملکی بجٹ کا جائزہ لیا جائے تو جی ڈی پی کا صرف ایک فیصد خرچ کیا جاتا ہے جو انتہائی کم ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ کم از کم 6 فیصد ہونا چاہیے لہٰذا ہمیں اس حوالے سے بھی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کی صحت کا تحفظ اور سہولیات یقینی بنائی جاسکیں۔ پاکستان کو دنیا کی طرح ایک طرف کورونا وائرس کا سامنا ہے جبکہ دوسری طرف ہمیں ڈینگی وائرس کی صورت میں ایک اور چیلنج کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔

اگرچہ ہمارے ہاں پہلی مرتبہ ڈینگی وائرس 2014ء میں آیا مگر رواں سال پیشگی اور بروقت اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے اس وباء نے پھر سے سر اٹھایا ہے جس سے قوم کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ گزشتہ حکومت نے ڈینگی کے تدارک اور روک تھام کیلئے بہترین اور موثر کام کیا۔ پریوینشن اینڈکنٹرول آف ڈینگی ریگولیشنز 2014 ء کے تحت وزیراعلیٰ پنجاب کی سربراہی میں سینٹرل ایگزیکٹیو رسپانس کمیٹی (سی ای آر سی)بنائی گئی، جس کا روزانہ اجلاس ہوتا تھا جس میں متعلقہ اداروں، سول سوسائٹی ، میڈیا سمیت دیگر سٹیک ہولڈرز شامل ہوتے تھے اور ڈینگی کے حوالے سے ہونے والے اقدامات کا جائزہ لیتے تھے۔

اس کے علاوہ سابق حکومت نے ڈینگی پر کابینہ کمیٹی (سی سی جی) بنائی جو سی ای آر سی کی سفارشات کا جائزہ لیتی تھی اور پھر اس پر لائحہ عمل بنایا جاتا تھا۔ اسی طرح صوبائی عملدرآمد کمیٹی (پی آئی سی) بھی بنائی گئی جس کا کام ڈینگی کے حوالے سے عملی کام کروانا تھا۔ اس طرح ایک مکمل میکنزم کے تحت سینٹرل ایگزیکٹیو رسپانس کمیٹی کے فیصلے تحصیل اور اس سے نچلی سطح تک پہنچتے تھے اور بروقت اقدامات کیے جاتے تھے مگر اب یہ سب کہیں نظر نہیں آرہا ہے۔

افسوس ہے کہ جس تیزی کے ساتھ ڈینگی پھیل رہا ہے اتنی تیزی سے حکومتی سطح پر اقدامات نہیں ہورہے۔ ابھی تک ڈینگی پر وزیراعلیٰ پنجاب کی سربراہی میں کوئی خصوصی میٹنگ نہیں بلائی گئی۔ بدقسمتی سے جب حادثات ہوتے ہیں تو پھر نئے لائحہ عمل بنائے جاتے ہیں جن میں وقت اور پیسہ ضائع ہوتا ہے لہٰذا اگر ماضی کی حکومت کے اچھے کاموں اور میکنزم کو جاری رکھا جائے تووسائل اور وقت دونوں بچائے جاسکتے ہیں۔

ڈینگی کے سب سے زیادہ رپورٹڈ کیسز لاہور میں ہیں، اگر لاہور جیسے شہر کایہ حال ہے تو باقی اضلاع کا کیا ہوگا؟ حکومتی اعداد و شمار میں بھی مسائل ہیں، ایک محکمہ کی طرف سے کچھ اعداد و شمار جاری کیے جاتے ہیں جبکہ دوسرا محکمہ کچھ بتاتا ہے۔ ڈینگی کی روک تھام میں صفائی ایک اہم پہلو ہے مگر بدقسمتی سے اس وقت لاہور میں صفائی کی حالت ابتر ہے۔ کوڑا کرکٹ و پانی کے مسائل ہیں، بارش کا پانی کئی کئی دن کھڑا رہتا ہے لہٰذا اس طرف حکومت کو توجہ دینی چاہیے۔ ہم نے اپنی 62 فیصد آبادی'یوتھ' کو نظر انداز کر دیا ہے، ڈینگی کی آگاہی کیلئے ان سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، اس حوالے سے تعلیمی اداروں کو آن بورڈ لیا جائے اور جس طرح گزشتہ حکومت نے لیا تھا۔ ڈینگی کے حوالے سے اس وقت ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔

اس کیلئے تمام ہسپتالوں میں خصوصی وارڈز، سستے ٹیسٹ اور اس سے منسلک ادویات پر سبسڈی دی جائے۔ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز بشمول اپوزیشن کو آن بورڈ لیا جائے اور قومی مفاد میں تندہی سے کام کیا گیا، ہمیں سمجھنا چاہیے کہ معاشرتی شمولیت کے بغیر وبائی امراض پر قابو پانا ممکن نہیں ہے۔
Load Next Story