کراچی ست خصمی شہر
شہر کی عمارتوں، فٹ پاتھوں، گرین بیلٹس اور دیگر مقامات کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے یہ شہر کوئی ویرانہ ہے
ان دنوں کراچی میں ہوں۔ یہ شہر کبھی عروس البلاد کہلاتا تھا، دل والوں نے اسے روشنیوں کا شہر بھی کہا، ان دنوں یہ شہر کیسا ہے؟ یہ سمجھنے کے لیے مجھے ذرا تفصیل میں جانا پڑے گا۔1985تا 2014یہ شہر قسم قسم کی آزمائشوں سے گزرا۔ ان تین دہائیوں میں اس شہر پر کیسی کیسی افتاد ٹوٹی، یہ صرف اس شہر والے ہی جانتے ہیں۔
نوے کی دہائی کی بات ہے، ایک نوجوان روتے ہوئے میرے دفتر پہنچے اور بتایا، اس کے خاندان کو صرف گھر سے نہیں نکال دیا گیا، اس کی بوڑھی ماں پر تشدد بھی کیا گیا۔ کوئی کسی بوڑھی خاتون پر تشدد کیسے کر سکتا ہے، یہ کچھ ایسی قابل یقین بات نہیں، اس بارے میں کچھ تردد کا اظہار کیا تو انھوں نے کچھ تصویریں نکال کر سامنے رکھ دیں۔
وہ بزرگ خاتون یقیناً اذیت میں دکھائی دیتی تھیں۔جامعہ کراچی کی ایک طالبہ ایم ایس سی کر چکیں تو چند برس کے بعد اپنی صدر شعبہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور پی ایچ ڈی میں داخلے کی خواہش ظاہر کی۔ صدر شعبہ جہاں دیدہ تھیں۔ لڑکی کو نصیحت کی کہ بیٹا جاؤ،شادی کرو، ماں باپ کادل ٹھنڈا کرو، بعد میں موقع ملے تو یہ شوق بھی پورا کر لینا۔ دروغ بر گردن راوی، صدر شعبہ کا اخلاص میں ڈوبا ہوا مشورہ ان کے کان میں پڑا تو ان کادل بھر آیا اور ہچکیاں لیتے ہوئے کہنے لگیں کہ اب اس شہر میں کوئی نوجوان بچا ہے جس سے شادی کی جائے؟ ان کا اشارہ اس تلخ حقیقت کی طرف تھا کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد مسلح تنظیموں کی باہمی لڑائیوں کے کام آ گئی، کچھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گرفت میں آگئے، کچھ زیر زمین چلے گئے اور ان کی ایک بڑی تعداد ملک سے بھاگ گئی، اب لڑکیاں اگر چاہیں بھی تو شادی کس سے کریں؟
ممکن ہے کہ اس واقعے میں مبالغے کا کچھ پہلو دکھائی دے لیکن اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ کراچی ایک وقت میں ایسا ہی تھا جس کے ماتھے کا نور دھندلا چکا تھا اور خوشیاں دور دور تک دکھائی نہ دیتی تھیں۔ معاشروں میں یاس کی ایسی ہی کیفیات ادیب اور شاعر کے دل کے دروازے پر دستک دیتی ہیں۔ کچھ ایسے یاد پڑتا ہے کہ اس شہر جمال کی روزافزوں خونریزی اور بد امنی کے واقعات پر سب سے پہلے نعیم آروی نے قلم اٹھایا اور افسانوں کاایک پورا مجموعہ شایع کیا۔ ان کے بعد شاید صغیر ملال نے اسی موضوع پر نظموں کاایک مجموعہ شایع کیا۔
یہ سب تخلیقات کراچی کے اسی المیے سے متاثر ہو کر لکھی گئیں لیکن ان کے مطالعے سے ایسا محسوس ہوا کہ ان شاعروں اور ادیبوں نے کچھ جلدی کر دی کیوں کہ انھیں پڑھتے ہوئے ایسا لگا کہ جیسے تحریریں یہ کسی فوری تاثر یاصدمے کا نتیجہ ہیں جب کہ بڑے ادیب ایسے واقعات کا بیان کسی صحافی کی طرح نہیں کرتے،ایسے واقعات کی تہہ میں اتر کر ان کی تاریخی، تہذیبی اور نفسیاتی وجوہات کی کھوج لگاتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود کے افسانوں کا ایک مجموعہ شایع ہوا۔ اس مجموعے میں چند افسانے کراچی سے متعلق بھی ہیں جن میں طاہر صاحب نے کراچی کے آشوب کو تخلیقی نگاہ سے دیکھا ہے جس سے اس شہر کے دکھ کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔
طاہر صاحب کے افسانوں سے قبل جنت مکانی انتظار حسین صاحب کا ایک ناول ''آگے سمندر ہے''کے عنوان سے شایع ہوا، انتظار صاحب کے ناول نے کراچی کے المیے کو جس گہرائی سے دیکھا ہے، اس کی مثال عالمی ادب میں ملے تو ملے، ہمارے ہاں طاہرصاحب کے علاوہ ایسا کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ انتظار صاحب نے اس ناول میں ایک جملہ لکھا ہے کہ یہ ایک ست خصمی شہر ہے جس پر اپنے حقوق جتانے تو ہر کوئی آ جاتا ہے لیکن اس کا حق ادا کرنے پر کوئی آمادہ نہیں۔ اس بلیغ علامت میں انتظار صاحب نے کراچی کے مسئلے کو جس خوبی سے بیان کر دیا ہے، اس کی مثال شاید ہی ملے۔
دو تین دہائی قبل یہ شہر مختلف لسانی اکائیوں کے نرغے میں تھا اور ہر لسانی اکائی اس پر اپنا حق ملکیت جتاتی تھی۔ حق ملکیت جتانے کی یہ دوڑ مسلح جنگوں میں بدل گئی، نتیجہ یہ نکلا کہ اس شہر بے مثال کا حسن رفتہ رفتہ ماند پڑنے لگا۔ کچھ عرصے قبل نواز شریف کے دور میں جب دہشت گردی پر قابو پا لیا گیا تو اس کے بعد لسانی اکائیوں کا کام سیاسی جماعتوں نے سنبھال لیا۔ پہلے یہاں صرف روایتی اور تاریخی سیاسی جماعتیں تھیں، اب ان میں دو ایک کا مزید اضافہ ہو چکا ہے۔
اس ترقی کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شہر کے حالات بھی بدلتے، مسائل بھی حل ہوتے اور اس کے شہری یاس کی کیفیت سے نکلتے لیکن صورت حال ویسی ہی ہے بلکہ اس سے بھی بدتر ہی دکھائی دیتی ہے۔اس جمعرات اور جمعے کو شہر میں سمندری طوفان کا اندیشہ ظاہر کیا گیا، اللہ نے مہربانی کی، طوفان تو ٹل گیا لیکن تھوڑی بہت بارش ضرور ہوئی۔ بدقسمتی سے اسی بارش کے چند گھنٹے کے بعد فیڈرل بی ایریا کے علاقوں میں جانے کی ضرورت پیش آ گئی۔ محمد علی رشتے میں میرے بھانجے اور نہایت ذہین نوجوان ہیں۔ مجھے ان کی گاڑی اور ساتھ میسر تھا۔
انھوں نے بڑی مہارت سے پانی میں ڈوبی ہوئی سڑکوں اور گلیوں میں سے اپنی گاڑی گزاری لیکن راستے میں جو کچھ دیکھنے کو ملا، اس سے شہر کی حالت کا اندازہ ہو گیا۔ کئی مقامات پر گاڑیاں اور رکشے پانی میں پھنسے ہوئے دکھائی دیے۔
سبب یہ تھا کہ اول تو سڑکیں ٹوٹی ہوئی تھیں اور دوم، سڑکوں کے بیچ گٹروں اور مین ہولوں کے منہ پر ڈھکن نہیں تھے، یوں سڑکیں مکمل طور پر موت کے کنویں میں بدل چکی تھیں۔ اس سطور میں؛ میں نے شہر کے صرف ایک ہی مسئلے کی نشان دہی کی ہے ورنہ جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر، رہائشی کالونیوں اور کاروباری مراکز میں لٹکتی ہوئی بجلی کی تاریں کے الیکٹرک کی ناقص کارکردگی نمایاں کرتی ہیں۔شہر کی عمارتوں، فٹ پاتھوں، گرین بیلٹس اور دیگر مقامات کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے یہ شہر کوئی ویرانہ ہے، کسی تباہ حال عورت کی طرح جس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔