جسم بیمار ہو جائے تو ہم علاج کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں روح کو روگ لگ گیا ہے اور ہم علاج نہیں کر رہے

ممتاز دانش ور، عکسی مفتی کے حالات و خیالات


ایکسپریس July 09, 2012
ممتاز دانش ور، عکسی مفتی کے حالات و خیالات۔ فوٹو ایکسپریس

کچھ لوگ اسے طرح کے ہوتے ہیں جن کے نصیب میں چھا جانا لکھا ہوتا ہے، آپ بھک کرکے اُڑ جاتے ہیں، گویا ،اب آپ، آپ نہیں رہتے ، ہر طرف اُس شخصیت کا راج ہوتا ہے، ممتاز مفتی اسی طرح کی شخصیت تھے اور یہی حال عکسی مفتی کا بھی ہے۔ عکسی پاکستان میں کلچر کو ڈویلپمنٹ کے ساتھ جوڑ کر پڑھنے اور پڑھانے والے واحد شخص ہیں، جن کی باتیں اتنی مسحور کن ہوتی ہیں کہ آپ ان میں الجھ کر کہیں کے نہیں رہتے، اس خانوادے کا شروع سے ہی یہی چلن رہا ہے کہ جس سے پیار کرتے ہیں اسے یہ مار دیتے ہیں۔ مار دینے کی حد تک لوگوں سے پیار کرنے والے ممتاز اور عکسی کی کہانی بھی عجیب ہے، باپ کا دھتکارا ہوا نوجوان، لوگوں کو اتنا پیارا ہوا کہ لوگ آج بھی اس سے عشق کرتے ہیں، بعض کے تو وہ پیر ہیں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہروقت ان کے گرد ائرہ بنائے رکھتے تھے۔

کوئی باپ اپنے بیٹے سے اتنی نفرت بھی کر سکتا ہے؟ یہ کسی کے سان گمان میں نہیں تھا، جن لوگوں نے علی پور کا ایلی پڑھ رکھی ہے، کہ یہ خود نوشت ہے، جسے ناول کہہ دیا گیا، وہ جانتے ہیں کہ سارا گھر انہیں ''بُوہلی'' کہتا تھا اور جب گھر والے بھنڈیاں پکاتے تو یہ ماں بیٹا، بھنڈی کی بُنلیاں، آپ انہیں ڈُنڈیاں بھی کہہ سکتے ہیں، کھایا کرتے تھے، حد سے بڑھی ہوئی اِس نفرت نے اتنی آگ لگائی کہ ممتاز مفتی جل کر راکھ ہو گئے اور پھر ققنس کی طرح اپنی آگ سے ہی ایک نئے ممتاز مفتی نے جنم لیا، عکسی مفتی کو جو بیماری کسی پل چین نہیں لینے دیتی ،اس بیماری کا نام بھی یار لوگ ممتاز مفتی بتاتے ہیں۔ عکسی کی ماں جو اس کے باپ کا عشق تھی، چار پانچ سال کی عمر میں فوت ہو گئی اور باپ بیٹے کو اجاڑ گئی، ممتاز اور عکسی کی کہانی ایک دوسرے سے الگ نہیں کی جا سکتی، باپ بیٹا عمروں کی حد پار کر گئے تھے کبھی عکسی بزرگ ہو جاتے تو کبھی ممتاز بچہ بن جاتے۔

32 سال کی عمر تک پہنچے تو عکسی مفتی گورڈن کالج میں نفسیات کے پروفیسر تھے ،اُس وقت تک ان کا کوئی دوست نہیں تھا۔ ممتاز مفتی کے دوست ہی اُن کے دوست تھے، حیدری چوک ، سید پور روڈ، سیٹلائٹ ٹائون کے بنگلے میں شطرنج کھیلی جاتی، گپیں ہوتیں، ممتاز ان دنوں سپیچ رائٹر تھے، مسعود قریشی اوراحمد بشیر مستقل مہمان ہوا کرتے اور عکسی بھی ان کے ساتھ ایک دوست کی طرح گپیں لگایا کرتے، عکسی کو آپ بڈھی روح بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس بڈھی روح سے مل کر آپ، ممتاز مفتی ، قدرت اللہ شہاب، احمد بشیر، اشفاق احمد خان، بانو قدسیہ، لوک ورثہ کی رنگا رنگی طبلے کی دھم دھم، مصوری کی قوس قزح، فوٹوگرافی کی جمالیات اور جمالیات کی خوشبو سے مل سکتے ہیں۔ایک دن یوں ہوا دونوجوان آئے، عکسی صاحب سے ملنا ہے ، کون عکسی، مفتی صاحب گویا ہوئے، جن کے والد، ممتاز مفتی ہیں، طالب علموں نے جواب دیا، اوہ اچھا، تسیں میرے ''اَچّھے'' دا پچھ رئے او'' موسم خوشگوار ہے، ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی ہے، ایسے میں ایک نوجوان کیسے گھر ہو سکتا ہے، یہ سن کر وہ چلے گئے، اگلے روز میں کالج پہنچا تو لڑکے اور لڑکیاں اِن جملوں کا ورد کر رہے تھے، یہ سن کر مجھے بہت بُرا لگا، تحقیق کرائی تو پتا چلا، کچھ لوگ میرے گھر گئے تھے، ابّا کی ان سے ملاقات ہو گئی تھی،

ابّا نے تومیرا اچھا خاصا تماشا بنا دیا تھا۔ رات کو میں گھر آیا تو ممتاز مفتی اپنے دوست، مسعود قریشی کے ساتھ شطرنج کھیل رہے تھے، اس دوران انہوں نے کہا، یار مسعود، کل عجیب گل ہوئی دو منڈے آئے ، پوچھنے لگے، عکسی مفتی سے ملنا ہے، میں نے کہا، کون عکسی؟ تو انہوں نے کہا، جن کے والد ممتاز مفتی ہیں''۔ عکسی مفتی کا کہنا ہے کہ میں بھی یہ سب سن رہا تھا، میں نے کہا، ہمارا حوصلہ دیکھیں ،ہم تین دہائیوں سے یہ سنتے آرہے ہیں، ممتاز مفتی کا بیٹا اور آپ سے ایک دن برداشت نہ ہو سکا۔ اُس دن ہی میں نے گھر چھوڑ دیا اور کہا، اب اپنی پہچان بنا کر ہی واپس آئوں گا، اس کے لیے میں نے بہت پڑھا، ٹی وی اورپروفیسری بھی چھوڑ دی اور ایک اسکالر شپ لے کر چیکوسلواکیہ چلا گیا، ہم سمجھے، بہت پیسے ملیں گے لیکن وہ معمولی وظیفہ تھا، وہاں میں نے کمرے میں بند ہو کر بہت پڑھا ،میں چیک سے نابلد اور انہیں انگلش نہیں آتی تھی، اس مجبوری کے باعث میں اپنے کمرے میں بند ہو گیا، تلاش نامی جو کتاب آپ کے سامنے ہے یہ اُسی تھیسس کا حصہ ہے، جس پر میں پی ایچ ڈی کر رہا تھا۔ ابّا کے ہوتے ہوئے تو میں اردو لکھنے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا،

لگتا تھا کوئی روک رہا ہے کہ نہ، اُردو میں نہیں لکھنا، انگریزی میں لکھا کرتا تھا، بندر نچائے، تحقیق کی، ہزار کے قریب آوازیں ریکارڈ کیں، 200 کے قریب تحقیقی کتابیں شایع کیں ،اب گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہا ہوں، یہ گھر میرے بابا کا ہے، میں نے کوئی پلاٹ نہیں لیا، لوک ورثہ کا سربراہ رہا، کتنے فن کاروں کو پلاٹ دلائے، تمام سربراہوں کے ساتھ براہِ راست تعلق رہا، صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اورتمغہِ امتیاز ملا، ایشیا کلچرل ایوارڈ بھی مجھے ملا، لوک ورثہ اور میوزیم بنانے پرمجھے یہ ایوارڈ ملے اور اس کام کے بعد جاپان والوں نے ایشیا ایوارڈ بھی مجھے دیا، یہ ایوارڈ پاکستان میں صرف دو لوگوں کے پاس ہے، ایک نصرت فتح علی خان اور ایک میرے پاس ہے، ہر سال نام زدگیاں ہوتی ہیں، لیکن ہمیں ایوارڈ نہیں دیا جاتا، بھارت کے پاس اس طرح کے چھ سات ایوارڈ ہیں، بہ ہرحال وہاں ثقافت کو فروغ دیا جاتا ہے، لیکن یہاں ثقافت کے نام پر نہ جانے کس چیز کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے، 38 چینلز آن ائیر ہیں ،لیکن وہاں لگتا ہے ہم لڑائی کرا رہے ہیں،

جس طرح دیہات میںمرغوں کی لڑائی کرائی جاتی ہے۔ اس پر ہم نے لقمہ دیا، جس طرح تیتر، بٹیر ، بیل اور کتوں کی لڑائی کرائی جاتی ہے؟ جی ہاں، گمان ہوتا ہے، ٹیلی ویژن پر بھی اسی طرح کی لڑائی کرائی جاتی ہے۔ کہیں، موسیقی، مصوری، شاعری اور ڈرامے کو پروموٹ نہیں کیا جا رہا۔ اب میں اندر چھپ کر بیٹھا ہوا ہوں، کئی برسوں سے کوئی کام نہیں کر رہا، ایک فلیٹ ہے، اس کا کرایہ آتا ہے، پنشن ہے، کوئی پچیس چھبیس ہزار، مکان کا نیچے والا حصہ کرائے پر دے رکھا ہے۔ لاکھ یا ایک لاکھ دس ہزارماہانہ آ جاتا ہے۔ اسی سے گزارہ کر رہا ہوں، کوئی لیکچر دینے کے لیے بلوا لیتا ہے تو چلا جاتا ہوں، جو کوئی دیتا ہے رکھ لیتا ہوں، یہ کتاب لکھی ہے، تلاش، اللہ، ماورا کا تعین، یہ اصلی کتاب تو انگریزی میں ہے، یہ اس کا اُردو ترجمہ ہے جو ڈاکٹر نجیبہ عارف نے کیا ہے۔

اتنا بڑا دانش ور جس نے ثقافت کے لیے اتنا کام کیا ہے اور اب ایک طرح سے گوشہ نشین ہے، یہ جان کر دکھ ہوا اور ان دکھی کر دینے والی باتوں کے بعد ان سے سوال کیا، اتنی این جی اوز ہیں، آپ عالمی شہرت یافتہ دانش ور ہیں، آپ کوئی این جی او کیوں نہیں کھول لیتے، اس پر وہ پھٹ پڑے ،غیر ملکی ڈونر ایجنسیاں بھی انہیں فنڈ کرتی ہیں، جو ان کے ایجنڈے پر کام کرتے ہیں، آج کل چلڈرن ٹی وی کا قصّہ بہت اِن ہے، مجھے یو ایس ایڈ کے ذمہ داروں نے کہا تھا کہ آپ بِڈ کریں لیکن میں نے سرگرمی نہیں دکھائی، اس کے بعد یہ پراجیکٹ کسی اور کو مل گیا، اس پر دھیلے کا کام نہیں ہوا، اب یو ایس ایڈ والے آڈٹ کر رہے ہیں، میں نے پاکستان کے دست کاروں کے لیے این جی او بنانے کی کوشش کی، کسی نے حامی نہیں بھری، افغانستان سے لُٹ پُٹ کر فن کار یہاں آئے تھے،

ان کی فلاح و بہبود کے لیے فنڈ جمع کرنے کے لیے کہا، کسی نے میری بات نہیں سنی، ہمارے ہاں فن کاروں کی کیا حالت ہے، پٹھانے خان کی بات سن لیں، اس کے کیسٹ بیچ کر ہال روڈ والوں نے پلازے کھڑے کر لیے لیکن جب یہ فن کار فوت ہوا تو کفن دفن کے لیے ان کے گھر والوں کے پاس پیسے نہ تھے، دو پیسے بھی ان فن کاروں کے کیسٹ اور سی ڈی پر رائلٹی دے دی جاتی تو ان کے دلدّر دور ہو جاتے، میں نے جعلی وائوچر بنا کر انہیں دس ہزار بھجوایا، اکائونٹنٹ شور مچاتا رہا، میں نے کہا، میں دیکھ لوں گا۔ اب سوچتا ہوں کہ ان فن کاروں کے کیسٹ بنا کر میں نے ظلم کیا، پھر سوچتا ہوں، اچھا ہوا ان کو نام تو ملا اور گھر گھر ان کے گیت اور غزلیں سنی جانے لگیں تو انہیں پروگرام ملے اور ان کی روزی روٹی چلنے لگی، یہ لوگ ایسا کوئی قانون نہیں بننے دیں گے، سب چور ہیں۔

آپ کی ''تلاش'' ممتاز مفتی کی تلاش سے مختلف ہے یا اس تلاش کو آپ نے آگے بڑھایا ہے؟ اس سوال پر اُن کی آنکھوں میں چمک آ گئی اور سلیقے سے سجائے ڈرائینگ روم کی ہر شے ان کا ساتھ دینے لگی، یہ نوادرات اور دست کاری کے نمونے مکینوں کی آثارِ قدیمہ اور فنونِ لطیفہ سے محبت کا مظہر تھیں، یہ سب عکسی مفتی کی موجودہ بیوی کی فنونِ لطیفہ سے محبت ہے کہ وہ دُنیا جہان سے نادر و نایاب اشیاء اکٹھی کرکے لاتی رہتی ہیں، عکسی مفتی کے پہلی بیوی اور دوسری بیوی سے دو دو بیٹے ہیں، بڑا انس مفتی کراچی میں ہے، فلمیں اور ڈاکومنٹریز بناتا ہے، چھوٹا امریکا میں بڑی کمپنی میں کام کرتا ہے، اِن سے چھوٹے دو بیٹے پڑھ رہے ہیں، جس گھر میں عکسی ان دنوں رہتے ہیں اس گھر کے بن جانے کی کہانی بھی دل چسپ ہے جو عکسی مفتی نے سنائی ، مفتی صاحب کو دل کا دورہ پڑا اور وہ ہولی فیملی میں زیرِ علاج تھے کہ وہاں سی ڈی اے کے ایک اعلیٰ افسر، تجمل صاحب تیمار داری کے لیے آئے،

ان سے پہلے ابا کو ان کی دوسری بیوی نے کہا تھا، مفتی صاحب، آپ مر گئے تو میں اپنی تین بیٹیوں کو لے کر کہاں جائوں گی، ہمارے پاس تو سر چھپانے کو بھی جگہ نہیں، آپ پہلے او ایس ڈی بنے رہے اور معمولی سی پنشن ملی، اب آپ ریڈیو پر اسکرپٹ لکھتے ہیں تو گھر چلتا ہے، میرا کیا بنے گا، گھر تو بنا دو۔ مفتی صاحب نے یہ سارا ماجرا تجمل صاحب کو سنا دیا، دوسرے دن انہوں نے چٹ بھجوائی لکھا تھا، آپ کو ایف سیون میں ڈبل پلاٹ دے دیاگیا ہے، آپ پانچ ہزار روپے قسطوں میں جمع کرا دیں، ایک آدھ قسط جمع کر دی، نوٹس آنے لگے، اِدھر اُدھر سے پیسے جمع کرکے دیے، ایک دن میری سوتیلی ماں کو خیال آیا اور ابّا سے کہا، کہاں ملا ہے پلاٹ ہمیں بھی ذرا دکھائیں ،تو مفتی صاحب انہیں اسکوٹر پر بٹھا کر لے گئے، ماں نے سر پیٹ لیا، یہ پلاٹ ملا ہے۔ یہ تو جنگل ہے، میں تو ایف سکس میں پلاٹ لوں گی، اب کیا کیا جائے، ابّا پھر اپنے دوست کے پاس گئے، میری بیوی ناراض ہے، وہ تو ایف سیون میں پلاٹ نہیں لے رہی،

اسے ایف سکس میں پلاٹ چاہیے، تجمل صاحب نے لاکھ سمجھایا، دو کنال کا پلاٹ ہے اور یہ بہت اچھی جگہ پر ہے، آپ کا اچھی طرح سے گزارہ ہو جائے گا، لیکن میری ماں نہ مانی، حقیقت حال یہ تھی کہ ایف سکس میں کوئی پلاٹ نہ تھا، نالے کے پاس کچھ جگہ بچی تھی، بارشوں میں پانی گھر میں آ جاتا ہے، ماں کی ضد پر یہ پلاٹ لیا، برسوں تک مکان بنانے کے لیے پیسے نہ تھے، پھر شہاب صاحب کے بہنوئی، محمد امین نے ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن والوں سے قرضہ لے کر یہ مکان بنوا دیا، کچھ حصہ میں نے بنوایا ہے، جہاں آپ بیٹھے ہیں۔

ممتاز مفتی کی طرح عکسی مفتی بھی بہت دل چسپ باتیں کرتے ہیں اور دنیا جہاں کے موضوعات کو ان میں سمیٹ لیتے ہیں۔ کتاب کا ذکر آیا تو انہوں نے کہا، 2002 میں، میں بہت تھک گیا تھا، میں نے ریٹائرمنٹ لینے کا فیصلہ کر لیا اور بانو قدسیہ سے اِس کا ذکر کیا، انہوں نے کہا ،کتاب لکھنا فضول کام ہے، ان کے الفاظ میں، یہ ڈیڈ ورک ہے، کوئی عملی کام کرو، ابھی تم میں انرجی ہے لیکن یہ بات میرے دل کو نہ لگی، مجھے لکھنا تھا، ابّا جو کام چھوڑ گئے تھے۔

مجھے وہاں سے کام کو شروع کرنا تھا لگتا ہے مجھے اس کام کے لیے منتخب کر لیا گیا تھا، میں نے تلاش پر کام شروع کر دیا، مجھے یاد ہے، جب یحییٰ خان نے قدرت اللہ شہاب صاحب کی پنشن بند کر دی تھی تو وہ سپر مارکیٹ کے سامنے، دس نمبر گلی کے سرکاری کوارٹروں میں رہا کرتے تھے، اپنی بہن کے پاس، باہر برآمدے میں پڑے رہتے جو ملا ،کھا لیا ،مجھے کہا کرتے ،یار عکسی مجھے کاپیاں لا دو، میں نے شہاب نامہ لکھنا ہے، وہ فرمائش کرکے لنگی منگواتے، اس کی قمیض بنواتے،معمولی سلیپر ٹائپ کے جوتے پہنتے، لنگی کی قمیض اور نیچے دھوتی پہنا کرتے ،سب کرّوفر ختم ہو گیا، وہ اُن دنوں یونیسکو کے بورڈ میں تھے اور ذاتی حیثیت سے باہر جایا کرتے، اُن دنوں، ان کی نسیم بیگ صاحب سے ملاقات ہوئی اور وہ انہیں اپنے فلیٹ میں پیرس لے جایا کرتے، اُن دنوں کی ممنونیت کے باعث وہ پاکستان واپس آ کر انہیں اپنے پاس بلا لیا کرتے یا کبھی ان کے پاس چلے جاتے، میں نے ان سے پوچھا تھا،

انہوں نے بتایا، میں ان کا احسان مند ہوں، جب سارے لوگ مجھے چھوڑ گئے تھے تو اس نے میرا ساتھ دیا تھا، باتوں باتوں میں بات تصوف اور دورِ حاضر کے زندہ ولیوں کی طرف چلی گئی، اِس پر اُنہوں نے کہا، میری کتاب کی تقریب میں دورِ حاضر کے تین زندہ ولی آئے ہوئے تھے، پروفیسر احمد رفیق اختر ، بابا محمد یحییٰ، سرفراز شاہ، حالاں کہ جہلم کے ایک زبیر صاحب بھی ہیں، یہ بات کر چکے تو میں نے محسوس کیا، عکسی مفتی، پانچویں درویش ہیں جو آج کل ان موضوعات پر بات کر رہے ہیں، آخری دنوں میں ممتاز مفتی بھی صوفی ہو گئے تھے۔ خود عکسی مفتی، شہاب صاحب کو اپنا پیر و مرشد مانتے ہیں، والد صاحب سے تو انہیں عشق ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو اپنا دوست کہتے ہیں،

ان کے دادا 98 برس کی عمر میں فوت ہوئے اور کرشن نگر کی حویلی میں ہونے والی ملاقات بھی انہیں یاد ہے، جب دادا نے ان کے ابّا سے کہا، ممتاز آ گیا ایں، اور اس کے بعد ان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی، اب وہ سوچتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے، دادا کو احساس ہو گیا تھا کہ میں نے اپنے بیٹے سے بہت زیادتی کی ہے، مل لینے کے بعد ان کی روح پر پڑا بوجھ ہٹ گیا تھا، بہ ہرحال، عکسی مفتی نے بہت سے کام کیے، پروفیسررہے، ٹیلی ویژن پر لوک تماشا نامی پروگرام کرتے رہے، طبلہ بجایا، فوٹو گرافی کی، ریکارڈنگ کرتے رہے، لوک ورثہ کو عروج تک لے گئے، لاتعداد کتابیں شایع کیں، تحقیق کرائی، لوک داستانیں، بولیاں، قصّے، کہانیاں غرض کیاہے جو انہوں نے جمع نہیں کیا، پھر سب کچھ چھوڑ دیا، پارہ صفت، بے چین روح، عکسی مفتی، ان دنوں تصوف کی طرف مائل ہیں، ثقافت کو روح کی طرح سمجھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے جسم کو بیماری لگ جائے تو ہم مارے مارے پھرتے ہیں لیکن اِن دنوں ہماری روح کو روگ لگ گیا ہے ، لیکن اس کے لیے ہم کچھ نہیں کر رہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں