جامد گھٹنوں میں ’تیل‘ ڈال کر گٹھیا کے علاج میں اہم پیشرفت
انجکشن کے ذریعے چکنا مائع گھٹنوں میں داخل کرکے متاثرہ جوڑوں کا علاج کیا جاسکتا ہے
جس طرح جامد پرزوں اور مشینوں میں تیل ڈال کر انہیں رواں کیا جاتا ہے عین اسی طرح اب ماہرین نے جوڑوں کے درد کے شکار گھٹنوں میں چکنے مائع شامل کرنے کا ایک طریقہ دریافت کیا ہے جس سے گٹھیا کے مریضوں کو فائدہ ہوسکتا ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر کے افراد کی بڑی تعداد گھٹنوں کے درد میں مبتلا ہے اور صرف درد کش ادویہ سے ہی تھوڑا افاقہ ہوتا ہے جس کے بعد لوگ چلنے پھرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔
جامعہ اوکلاہوما کے سائنسدانوں نے جوڑوں کی اینٹھن دورکرنے اور انہیں حرکت پذیر بنانے کےلیے جوڑوں کو چکنا رکھنے والے قدرتی مائع کی طرح ایک چکنا مواد بنایا ہے ۔ جب اسے چوہوں پر آزمایا گیا تو نہ صرف اس سے متاثرہ جوڑوں میں بہتری ہوئی بلکہ جوڑوں کے درمیان گھس جانے والی نرم کرکری ہڈی (کارٹلیج) کی افزائش بھی بڑھی۔
ہم جانتے ہیں کہ عمررسیدگی کے دوران گھٹنوں کے درمیان چکنی لجلجی ہڈیاں گھس جاتی ہیں اور ان کی ٹوٹ پھوٹ سے شدید درد اور تکلیف پیدا ہوتی ہے۔ پھر ربڑ نما لچکدار حصہ متاثر ہوتا جاتا ہے جس سے اندرونی سوزش اور درد بڑھتا جاتا ہے۔ اسکین اور رپورٹ بتاتی ہے کہ ان کے درمیان چکنائی پیدا کرنے والا قدرتی مادہ بھی ختم ہونے لگتا ہے۔
گٹھیا کی شدید کیفیت میں گھٹنوں کا آپریشن کرکے ٹوٹی پھوٹی کرکری ہڈی کے ٹکڑے ہٹاکر انہیں ہموار کیا جاتا ہے جس سے کچھ بہتری ہوجاتی ہے۔ اگر افاقہ نہ ہو تو تجرباتی طور پر خلیاتِ ساق (اسٹیم سیل) بھی ڈالے جاتے ہیں جو مریض کی چربی یا خون سے تیار ہوتے ہیں۔
اب اوکلاہوما یونیورسٹی کے سائنسداں چوان بِن ماؤ اور ان کے ساتھیوں نے گھٹنوں کے جوڑوں کے درمیان موجود قدرتی مائع پر توجہ کی جسے 'سائنوویئل مائع' کہا جاتا ہے۔ گھٹنوں کے صحتمند جوڑ کے درمیان بڑے سالمات (مالیکیول) پر مبنی مائع ہوتا ہے۔ اس میں ہیالیورونک ایسڈ ، کچھ لائپڈز چکنائیاں اور لیوبریسن نامی اجزا بھی موجود ہوتے ہیں۔
لیوبریسن ذیلی اجزا پانی کے سالمات سے چپک جاتے ہیں جبکہ بقیہ چکنا مائع کارٹلیج سے جڑا رہتا ہے۔ اس کرکری ہڈی کے عین اوپر پانی کی ایک باریک تہہ برقرار رہتی ہے جو گھٹنوں کی حرکت میں ہڈیوں کی رگڑ کو محفوظ رکھتی ہیں۔
اب سائنسدانوں نے پی اے ایم پی ایس نامی مالیکیول کا انتخاب کیا ہے جو قدرتی چکنائی کا متبادل مائع ہے۔ اس میں ہیالیورونک ایسڈ کی بڑی مقدار ہوتی ہے۔ تجرباتی طور پر جب گھٹنوں کے درد میں مبتلا چوہوں پر اس مصنوعی مائع کے ٹیکے لگائے گئے تو ان میں رگڑ کی شدت کم ہوئی اور سوزش بھی گھٹی ہوئی دیکھی گئی۔
چوہوں میں مصنوعی تیل ڈالنے کے آٹھ ہفتے بعد چوہوں کے کارٹلیج کے جوڑ کو خردبین سے دیکھا گیا تو ماہرین حیران رہ گئے۔ اس موقع پر کرکری ہڈیاں دوبارہ اگنے لگی تھیں۔ اس طرح چکنائی دینے سے ٹشو کی دوبارہ پیدائش شروع ہوگئی۔ اب اگلے مرحلے میں اسے قدرےبڑے جانوروں یا ممالیوں پر آزمایا جائے گا۔
پاکستان سمیت دنیا بھر کے افراد کی بڑی تعداد گھٹنوں کے درد میں مبتلا ہے اور صرف درد کش ادویہ سے ہی تھوڑا افاقہ ہوتا ہے جس کے بعد لوگ چلنے پھرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔
جامعہ اوکلاہوما کے سائنسدانوں نے جوڑوں کی اینٹھن دورکرنے اور انہیں حرکت پذیر بنانے کےلیے جوڑوں کو چکنا رکھنے والے قدرتی مائع کی طرح ایک چکنا مواد بنایا ہے ۔ جب اسے چوہوں پر آزمایا گیا تو نہ صرف اس سے متاثرہ جوڑوں میں بہتری ہوئی بلکہ جوڑوں کے درمیان گھس جانے والی نرم کرکری ہڈی (کارٹلیج) کی افزائش بھی بڑھی۔
ہم جانتے ہیں کہ عمررسیدگی کے دوران گھٹنوں کے درمیان چکنی لجلجی ہڈیاں گھس جاتی ہیں اور ان کی ٹوٹ پھوٹ سے شدید درد اور تکلیف پیدا ہوتی ہے۔ پھر ربڑ نما لچکدار حصہ متاثر ہوتا جاتا ہے جس سے اندرونی سوزش اور درد بڑھتا جاتا ہے۔ اسکین اور رپورٹ بتاتی ہے کہ ان کے درمیان چکنائی پیدا کرنے والا قدرتی مادہ بھی ختم ہونے لگتا ہے۔
گٹھیا کی شدید کیفیت میں گھٹنوں کا آپریشن کرکے ٹوٹی پھوٹی کرکری ہڈی کے ٹکڑے ہٹاکر انہیں ہموار کیا جاتا ہے جس سے کچھ بہتری ہوجاتی ہے۔ اگر افاقہ نہ ہو تو تجرباتی طور پر خلیاتِ ساق (اسٹیم سیل) بھی ڈالے جاتے ہیں جو مریض کی چربی یا خون سے تیار ہوتے ہیں۔
اب اوکلاہوما یونیورسٹی کے سائنسداں چوان بِن ماؤ اور ان کے ساتھیوں نے گھٹنوں کے جوڑوں کے درمیان موجود قدرتی مائع پر توجہ کی جسے 'سائنوویئل مائع' کہا جاتا ہے۔ گھٹنوں کے صحتمند جوڑ کے درمیان بڑے سالمات (مالیکیول) پر مبنی مائع ہوتا ہے۔ اس میں ہیالیورونک ایسڈ ، کچھ لائپڈز چکنائیاں اور لیوبریسن نامی اجزا بھی موجود ہوتے ہیں۔
لیوبریسن ذیلی اجزا پانی کے سالمات سے چپک جاتے ہیں جبکہ بقیہ چکنا مائع کارٹلیج سے جڑا رہتا ہے۔ اس کرکری ہڈی کے عین اوپر پانی کی ایک باریک تہہ برقرار رہتی ہے جو گھٹنوں کی حرکت میں ہڈیوں کی رگڑ کو محفوظ رکھتی ہیں۔
اب سائنسدانوں نے پی اے ایم پی ایس نامی مالیکیول کا انتخاب کیا ہے جو قدرتی چکنائی کا متبادل مائع ہے۔ اس میں ہیالیورونک ایسڈ کی بڑی مقدار ہوتی ہے۔ تجرباتی طور پر جب گھٹنوں کے درد میں مبتلا چوہوں پر اس مصنوعی مائع کے ٹیکے لگائے گئے تو ان میں رگڑ کی شدت کم ہوئی اور سوزش بھی گھٹی ہوئی دیکھی گئی۔
چوہوں میں مصنوعی تیل ڈالنے کے آٹھ ہفتے بعد چوہوں کے کارٹلیج کے جوڑ کو خردبین سے دیکھا گیا تو ماہرین حیران رہ گئے۔ اس موقع پر کرکری ہڈیاں دوبارہ اگنے لگی تھیں۔ اس طرح چکنائی دینے سے ٹشو کی دوبارہ پیدائش شروع ہوگئی۔ اب اگلے مرحلے میں اسے قدرےبڑے جانوروں یا ممالیوں پر آزمایا جائے گا۔