بگل کے ذریعے دعائیہ کلمات کی ادائیگی
سننے والوں کو بظاہر یہ ایک دھن محسوس ہوتی ہے لیکن ہم بگل کے ذریعے دعائیہ الفاظ ادا کررہے ہوتے ہیں، بگلر محمد وسیم
ISLAMABAD:
پاکستانی فورسز کے شہداکی تدفین اورقبروں پرسلامی کے موقع پر پاکستانی فورسز کاایک دستہ بگل بجاتا ہے ،باوردی جوان شہید کوسلامی دیتے ہیں جبکہ دیگر شرکا احتراما سنتے ہیں،جبکہ لاہورکے واہگہ بارڈراورگنڈاسنگھ بارڈرپربھی پرچم اتارے جانے کے موقع پر بگلرمخصوص طرز میں بگل بجاتا ہے جس کے ساتھ جھنڈاتاراجاتا ہے اورسلامی دی جاتی ہے۔
بگل بجانے والوں کا کہنا ہے کہ یہ محض ایک دھن یا ٹون نہیں ہے بلکہ یہ مخصوص الفاظ ہوتے ہیں جن کے ذریعے شہید ہونیوالے کوخراج تحسین پیش کیاجاتا ہے یاپھرقومی پرچم اتارے جانے کے موقع پریہ الفاظ بگل کی شکل میں دہرائے جاتے ہیں۔
محمد وسیم پاکستان رینجرز پنجاب سے ریٹائرڈ ہوچکے ہیں، وہ کئی برس تک واہگہ بارڈر پربگل بجانے کا فریضہ سرانجام دیتے رہے جبکہ کئی بارکسی شہیدکی تدفین یا شہداکی قبروں اوریادگاروں پرسلامی کے موقع پربھی وہ بگل بجاتے رہے ہیں،
محمدوسیم نے بتایا کہ بگل کے ذریعے مخصوص کلمات اداکئے جاتے ہیں، جب کسی شہید کوسلامی دیناہوتی ہے تواس وقت بگل کے ذریعے یہ الفاظ اداکئے جاتے ہیں
آرام ، آرام
تم دل میں ہمارے زندہ ہو
اللہ تم پراپنا کرم کرے،رحمت فرمائے
ملک وملت کے محترم،تم پراللہ کاکرم
ہمارے صدق دل سے ہے دعا
یونہی قائم رہے اوردائم رہے
سب میں یادتمھاری،سب کی ہے یہ دعا
اللہ تم پرمہربان رہے
آرام،آرام ،محترم آرام
محمدوسیم کاکہنا تھا واہگہ اورگنڈاسنگھ بارڈرپر جب قومی پرچم اتاراجاتا ہے تواس وقت بگل کے ذریعے ایک مختلف دھن بجائی جاتی ہے۔ اس دھن کے الفاظ ہوتے ہیں
شام کا وقت ہےنیچاپرچم کرو
اورسکون سے رہو
وقت آرام ہے
شام کاوقت ہے،نیچاپرچم کرو
صبح ہم مل کرکام پرجائیں گے
شام کاوقت ہے
نیچاپرچم ہوا
صبح ہم مل کرکام پرجائیں گے
ایک اوربگلر محمد رمضان نے بتایا کہ ان کا تعلق بھی ایک فورس سے رہا ہے اوروہ بگل بجاتے تھے، ان الفاظ کو بگل کے ذریعے ادا کرنا آسان کام نہیں ہوتا ہے، اس کے لئے خاصی ریہرسل کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ٹریننگ کے دوران کئی کئی گھنٹے اس کی ریہرسل کرتے تھے۔ سننے والوں کو بظاہر یہ ایک دھن محسوس ہوتی ہے لیکن ہم بگل کے ذریعے دعائیہ الفاظ ادا کررہے ہوتے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی جس طرح مختلف باجوں اورآلات موسیقی کے ذریعے مختلف گانوں کی دھنیں بجائی جاتی ہیں۔ اسی طرح ہم بگل کے ذریعے دعائیہ کلمات اداکرتے ہیں۔ اگرسننے والوں کو ان کلمات کاعلم ہو تو پھر وہ بگل کی آواز کو باآسانی سمجھ جاتے ہیں۔ اسی لئے وہ احترام میں کھڑے رہتے ہیں۔
مختلف تقریبات میں ایک یا ایک سے زیادہ بگلر، بگل بجاتے ہیں۔ ایک ساتھ بگل بجانا خاصامشکل ہوتا ہے تاہم مسلسل ریہرسل کی وجہ سے ان کے لئے کام آسان ہوجاتا ہے۔ بگلر محمد وسیم نے بتایا کہ ہمیں اپنے سانس پر خاصا کنٹرول کرنا پڑتا ہے، ہم لوگ سگریٹ نہیں پیتے اور کوئی بھی ایساعمل نہیں کرتے جس سے ہمارا سانس جلدی ٹوٹنے کاخطرہ ہو۔ بگل بجاتے ہوئے سب سے اہم سانس پرکنٹرول ہے۔ اس لئے جس طرح فورسزمیں شامل دیگرجوان روزانہ ورزش کرتے ہیں ہمارابھی یہی معمول ہوتا ہے۔ اگرصحت اچھی ہوگی تو ہمارا سانس زیادہ بہتر اور لمبا ہوگا، اگر سانس جلد پھولناشروع ہوجائے تو پھر ایسے بندے کو بگل بجانے میں مشکل پیش آتی ہے اورایسے افراد کوعموماً یہ ذمہ داری نہیں دی جاتی ہے۔
محمد وسیم نے بتایا کہ بگل بجانے کاآغازکب سے ہوا اس کی کوئی حتمی تاریخ تووہ نہیں بتاسکتے تاہم انہیں یہ ضروربتایا گیا تھا کہ برطانوی دورمیں ایسے ہی بگل بجائی جاتی تھی۔ تاہم اگرہم قدیم تاریخ سے متعلق بنائی گئی فلمیں اورڈاکومنٹریزدیکھیں توان میں بھی بگل بجانے کا ذکرملتاہے۔ خاص طورجنگوں کے دوران بگل بجائی جاتی تھی اوربگل کے ذریعے ہی سپاہیوں تک مخصوص پیغام پہنچایا جاتا تھا۔ جنگ شروع کرنے،روکنے ، آگے بڑھنے اورمختلف حرکات کے لئے بگل کی مختلف دھنیں مختص تھیں۔ کیونکہ انسانی آواز زیادہ دور تک نہیں جاسکتی تھی ،اس وجہ سے بگل بجائی جاتی یا پھر نقارہ پیٹا جاتا تھا، نقارہ ایک بڑے ڈھول کی مانندہوتا ہے۔
پاکستانی فورسز کے شہداکی تدفین اورقبروں پرسلامی کے موقع پر پاکستانی فورسز کاایک دستہ بگل بجاتا ہے ،باوردی جوان شہید کوسلامی دیتے ہیں جبکہ دیگر شرکا احتراما سنتے ہیں،جبکہ لاہورکے واہگہ بارڈراورگنڈاسنگھ بارڈرپربھی پرچم اتارے جانے کے موقع پر بگلرمخصوص طرز میں بگل بجاتا ہے جس کے ساتھ جھنڈاتاراجاتا ہے اورسلامی دی جاتی ہے۔
بگل بجانے والوں کا کہنا ہے کہ یہ محض ایک دھن یا ٹون نہیں ہے بلکہ یہ مخصوص الفاظ ہوتے ہیں جن کے ذریعے شہید ہونیوالے کوخراج تحسین پیش کیاجاتا ہے یاپھرقومی پرچم اتارے جانے کے موقع پریہ الفاظ بگل کی شکل میں دہرائے جاتے ہیں۔
محمد وسیم پاکستان رینجرز پنجاب سے ریٹائرڈ ہوچکے ہیں، وہ کئی برس تک واہگہ بارڈر پربگل بجانے کا فریضہ سرانجام دیتے رہے جبکہ کئی بارکسی شہیدکی تدفین یا شہداکی قبروں اوریادگاروں پرسلامی کے موقع پربھی وہ بگل بجاتے رہے ہیں،
محمدوسیم نے بتایا کہ بگل کے ذریعے مخصوص کلمات اداکئے جاتے ہیں، جب کسی شہید کوسلامی دیناہوتی ہے تواس وقت بگل کے ذریعے یہ الفاظ اداکئے جاتے ہیں
آرام ، آرام
تم دل میں ہمارے زندہ ہو
اللہ تم پراپنا کرم کرے،رحمت فرمائے
ملک وملت کے محترم،تم پراللہ کاکرم
ہمارے صدق دل سے ہے دعا
یونہی قائم رہے اوردائم رہے
سب میں یادتمھاری،سب کی ہے یہ دعا
اللہ تم پرمہربان رہے
آرام،آرام ،محترم آرام
محمدوسیم کاکہنا تھا واہگہ اورگنڈاسنگھ بارڈرپر جب قومی پرچم اتاراجاتا ہے تواس وقت بگل کے ذریعے ایک مختلف دھن بجائی جاتی ہے۔ اس دھن کے الفاظ ہوتے ہیں
شام کا وقت ہےنیچاپرچم کرو
اورسکون سے رہو
وقت آرام ہے
شام کاوقت ہے،نیچاپرچم کرو
صبح ہم مل کرکام پرجائیں گے
شام کاوقت ہے
نیچاپرچم ہوا
صبح ہم مل کرکام پرجائیں گے
ایک اوربگلر محمد رمضان نے بتایا کہ ان کا تعلق بھی ایک فورس سے رہا ہے اوروہ بگل بجاتے تھے، ان الفاظ کو بگل کے ذریعے ادا کرنا آسان کام نہیں ہوتا ہے، اس کے لئے خاصی ریہرسل کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ٹریننگ کے دوران کئی کئی گھنٹے اس کی ریہرسل کرتے تھے۔ سننے والوں کو بظاہر یہ ایک دھن محسوس ہوتی ہے لیکن ہم بگل کے ذریعے دعائیہ الفاظ ادا کررہے ہوتے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی جس طرح مختلف باجوں اورآلات موسیقی کے ذریعے مختلف گانوں کی دھنیں بجائی جاتی ہیں۔ اسی طرح ہم بگل کے ذریعے دعائیہ کلمات اداکرتے ہیں۔ اگرسننے والوں کو ان کلمات کاعلم ہو تو پھر وہ بگل کی آواز کو باآسانی سمجھ جاتے ہیں۔ اسی لئے وہ احترام میں کھڑے رہتے ہیں۔
مختلف تقریبات میں ایک یا ایک سے زیادہ بگلر، بگل بجاتے ہیں۔ ایک ساتھ بگل بجانا خاصامشکل ہوتا ہے تاہم مسلسل ریہرسل کی وجہ سے ان کے لئے کام آسان ہوجاتا ہے۔ بگلر محمد وسیم نے بتایا کہ ہمیں اپنے سانس پر خاصا کنٹرول کرنا پڑتا ہے، ہم لوگ سگریٹ نہیں پیتے اور کوئی بھی ایساعمل نہیں کرتے جس سے ہمارا سانس جلدی ٹوٹنے کاخطرہ ہو۔ بگل بجاتے ہوئے سب سے اہم سانس پرکنٹرول ہے۔ اس لئے جس طرح فورسزمیں شامل دیگرجوان روزانہ ورزش کرتے ہیں ہمارابھی یہی معمول ہوتا ہے۔ اگرصحت اچھی ہوگی تو ہمارا سانس زیادہ بہتر اور لمبا ہوگا، اگر سانس جلد پھولناشروع ہوجائے تو پھر ایسے بندے کو بگل بجانے میں مشکل پیش آتی ہے اورایسے افراد کوعموماً یہ ذمہ داری نہیں دی جاتی ہے۔
محمد وسیم نے بتایا کہ بگل بجانے کاآغازکب سے ہوا اس کی کوئی حتمی تاریخ تووہ نہیں بتاسکتے تاہم انہیں یہ ضروربتایا گیا تھا کہ برطانوی دورمیں ایسے ہی بگل بجائی جاتی تھی۔ تاہم اگرہم قدیم تاریخ سے متعلق بنائی گئی فلمیں اورڈاکومنٹریزدیکھیں توان میں بھی بگل بجانے کا ذکرملتاہے۔ خاص طورجنگوں کے دوران بگل بجائی جاتی تھی اوربگل کے ذریعے ہی سپاہیوں تک مخصوص پیغام پہنچایا جاتا تھا۔ جنگ شروع کرنے،روکنے ، آگے بڑھنے اورمختلف حرکات کے لئے بگل کی مختلف دھنیں مختص تھیں۔ کیونکہ انسانی آواز زیادہ دور تک نہیں جاسکتی تھی ،اس وجہ سے بگل بجائی جاتی یا پھر نقارہ پیٹا جاتا تھا، نقارہ ایک بڑے ڈھول کی مانندہوتا ہے۔