مسائل کو مسائلستان نہ بنائیے
مسلسل پریشان رہنا مصیبت میں اور اضافہ کر دیتا ہے
LONDON:
ایک موٹیویشنل اسپیکر نے اپنے لیکچر کے دوران ہال میں موجود حاضرین کو ایک سوال سے حیران کردیا۔
اس نے شرکا سے پوچھا: آپ میں سے کون کون اپنے روزمرہ مسائل کی وجہ سے پریشان ہیں؟
تقریباً سب نے ہی اپنے ہاتھ بلند کردئیے۔ موٹیویشنل اسپیکر نے کہا کہ یہاں آتے ہوئے میں ایک جگہ سے گزرا تو وہاں سب لوگ آرام و سکون سے تھے اور کسی کو بھی کوئی مسئلہ یا پریشانی نہیں تھی۔
یہ سننا تھا کہ حاضرین سب اشتیاق سے اس جگہ کے بارے میں جاننے کےلیے بے تاب ہوگئے۔ اچانک مقرر کے اس جملے نے گویا بات ہی ختم کردی کہ وہ ایک قبرستان تھا۔
یعنی مسائل تو زندگی کا حصہ ہیں۔ جب تک آپ زندہ ہیں، کبھی مہنگائی کا مسئلہ ہے تو کبھی گھر کی تعمیرکا، کبھی کھانا پکانے کی فکر ہے تو کبھی بچوں کی شادی کی سوچ۔ ہر مسئلے نے انسان کو گھیرے رکھا ہے۔ یہ الگ بات کہ مرنے کے بعد بھی کوئی اتنا سکون نہیں رکھا ہوا۔ مرنے کے دن سے لے کر قبر اور کفن کی تیاری، پھر ترکہ کی تقسیم بھی لواحقین کےلیے کئی طرح کے مسائل پیدا کردیتی ہے۔ باقی رہا قبر کا حال، تو وہ تو صرف مردہ ہی جانتا ہے۔ بات وہی ہے کہ مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے۔
دوسری طرف ہمارے وزیراعظم ہیں جو ہمیں مرنے مارنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کے خیال میں ہماری ان کی حکومت سے جان نہیں چھوٹ سکتی۔ غربت، مہنگائی، بیماری اور پریشانیاں یہ سب کچھ ہمارے ساتھ رہے گا اور وہ قوم کےلیے کوئی آسانی پیدا کرکے دعا نہیں لیں گے۔ ہاں البتہ زندگی سے چھٹکارا ہمیں سکون کی طرف لے جاسکتا ہے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ وزیر موصوف نے اپنی قبر اور اس میں سکون کے حوالے سے کسی قسم کے زریں خیالات کا اظہار نہیں کیا۔
مشہور صوفی دانشور واصف علی واصف کے پاس ایک مرتبہ ایک جاننے والا آیا۔ انھوں نے اس کےلیے چائے منگوائی، لیکن وہ شخص بدستور پریشان ہی نظر آیا۔
واصف صاحب نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ تو وہ کہنے لگا ''ملک کے حالات بہت خراب ہیں، آج کل کی سیاست کا کیا کریں؟'' واصف صاحب نے پوچھا ''ملک کے حالات کی خرابی میں کیا تمھارا ہاتھ ہے؟'' اس نے کہا ''نہیں''۔
واصف صاحب نے پھر پوچھا کہ ''کیا تم ان حالات کو ٹھیک کرسکتے ہو؟'' اس نے پھر نفی میں سر ہلایا۔ واصف علی واصف نے کہا ''فیر تو چا پی'' (یعنی پھر تم چائے پیو)۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ مسلسل پریشان رہنا مصیبت میں اور اضافہ کر دیتا ہے اور جب تک سانس ہے تب تک آس ہے۔ غربت، مہنگائی اور بیماری یہ سب زندہ انسانوں کے ساتھ ہی ہیں۔ لیکن اس بات سے میرا ہرگز اتفاق نہیں کہ ''سب سے پہلے آپ نے گھبرانا نہیں ہے''۔ روزبروز بڑھتی مہنگائی، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں دن رات اضافے اچھے بھلے جیتے جاگتے انسان کو موت کے منہ میں دھکیلنے کےلیے کافی ہیں۔
لیکن ان مشکلات کو دور بھی ہم نے خود ہی کرنا ہے۔ لوگ صرف ہمارے مسائل کو مسائلستان ہی بنا سکتے ہیں۔ رازق خدا کی ذات ہے اور انسان کا کام توکل کے ساتھ کوشش کرنا ہے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ موجودہ حکومت کے دل میں خدا خوفی پیدا کرے تاکہ ہم قبر سے پہلے ہی اس زمین پر زندہ بھی پرسکون رہ سکیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ایک موٹیویشنل اسپیکر نے اپنے لیکچر کے دوران ہال میں موجود حاضرین کو ایک سوال سے حیران کردیا۔
اس نے شرکا سے پوچھا: آپ میں سے کون کون اپنے روزمرہ مسائل کی وجہ سے پریشان ہیں؟
تقریباً سب نے ہی اپنے ہاتھ بلند کردئیے۔ موٹیویشنل اسپیکر نے کہا کہ یہاں آتے ہوئے میں ایک جگہ سے گزرا تو وہاں سب لوگ آرام و سکون سے تھے اور کسی کو بھی کوئی مسئلہ یا پریشانی نہیں تھی۔
یہ سننا تھا کہ حاضرین سب اشتیاق سے اس جگہ کے بارے میں جاننے کےلیے بے تاب ہوگئے۔ اچانک مقرر کے اس جملے نے گویا بات ہی ختم کردی کہ وہ ایک قبرستان تھا۔
یعنی مسائل تو زندگی کا حصہ ہیں۔ جب تک آپ زندہ ہیں، کبھی مہنگائی کا مسئلہ ہے تو کبھی گھر کی تعمیرکا، کبھی کھانا پکانے کی فکر ہے تو کبھی بچوں کی شادی کی سوچ۔ ہر مسئلے نے انسان کو گھیرے رکھا ہے۔ یہ الگ بات کہ مرنے کے بعد بھی کوئی اتنا سکون نہیں رکھا ہوا۔ مرنے کے دن سے لے کر قبر اور کفن کی تیاری، پھر ترکہ کی تقسیم بھی لواحقین کےلیے کئی طرح کے مسائل پیدا کردیتی ہے۔ باقی رہا قبر کا حال، تو وہ تو صرف مردہ ہی جانتا ہے۔ بات وہی ہے کہ مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے۔
دوسری طرف ہمارے وزیراعظم ہیں جو ہمیں مرنے مارنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کے خیال میں ہماری ان کی حکومت سے جان نہیں چھوٹ سکتی۔ غربت، مہنگائی، بیماری اور پریشانیاں یہ سب کچھ ہمارے ساتھ رہے گا اور وہ قوم کےلیے کوئی آسانی پیدا کرکے دعا نہیں لیں گے۔ ہاں البتہ زندگی سے چھٹکارا ہمیں سکون کی طرف لے جاسکتا ہے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ وزیر موصوف نے اپنی قبر اور اس میں سکون کے حوالے سے کسی قسم کے زریں خیالات کا اظہار نہیں کیا۔
مشہور صوفی دانشور واصف علی واصف کے پاس ایک مرتبہ ایک جاننے والا آیا۔ انھوں نے اس کےلیے چائے منگوائی، لیکن وہ شخص بدستور پریشان ہی نظر آیا۔
واصف صاحب نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ تو وہ کہنے لگا ''ملک کے حالات بہت خراب ہیں، آج کل کی سیاست کا کیا کریں؟'' واصف صاحب نے پوچھا ''ملک کے حالات کی خرابی میں کیا تمھارا ہاتھ ہے؟'' اس نے کہا ''نہیں''۔
واصف صاحب نے پھر پوچھا کہ ''کیا تم ان حالات کو ٹھیک کرسکتے ہو؟'' اس نے پھر نفی میں سر ہلایا۔ واصف علی واصف نے کہا ''فیر تو چا پی'' (یعنی پھر تم چائے پیو)۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ مسلسل پریشان رہنا مصیبت میں اور اضافہ کر دیتا ہے اور جب تک سانس ہے تب تک آس ہے۔ غربت، مہنگائی اور بیماری یہ سب زندہ انسانوں کے ساتھ ہی ہیں۔ لیکن اس بات سے میرا ہرگز اتفاق نہیں کہ ''سب سے پہلے آپ نے گھبرانا نہیں ہے''۔ روزبروز بڑھتی مہنگائی، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں دن رات اضافے اچھے بھلے جیتے جاگتے انسان کو موت کے منہ میں دھکیلنے کےلیے کافی ہیں۔
لیکن ان مشکلات کو دور بھی ہم نے خود ہی کرنا ہے۔ لوگ صرف ہمارے مسائل کو مسائلستان ہی بنا سکتے ہیں۔ رازق خدا کی ذات ہے اور انسان کا کام توکل کے ساتھ کوشش کرنا ہے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ موجودہ حکومت کے دل میں خدا خوفی پیدا کرے تاکہ ہم قبر سے پہلے ہی اس زمین پر زندہ بھی پرسکون رہ سکیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔