کون تھے کیا تھے قائدِاعظم۔۔۔۔

ہم دنیا کو بابائے قوم سے متعارف کرانے میں ناکام رہے ہیں


Iqbal Khursheed September 11, 2012
برصغیر کے مسلمانوں کی جانب سے اُنھیں ’’قائد اعظم‘‘،’’بابائے قوم‘‘ اور ’’بانی پاکستان‘‘ سمیت کئی القابات سے نوازا گیا۔ فوٹو: فائل

پاکستان کا معرض وجود میں آنا کسی معجزے سے کم نہیں کہ خالصتاً پُرامن اور سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں ایک آزاد ریاست کے دنیا کے نقشے پر اُبھرنے کے واقعات خال خال ہی ملتے ہیں۔

اِس ناممکن کو ممکن بنانے کا سہرا، عزم و استقامت کے پیکر محمد علی جناح کی سیاسی بصیرت اور قائدانہ صلاحیتوں کے سر ہے، جنھوں نے کروڑوں مسلمانوں کے دلوں میں امید کے دیپ جلائے، اُنھیں آزادی کا تحفہ دیا۔

اِس عظیم راہ نما کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے برصغیر کے مسلمانوں کی جانب سے اُنھیں ''قائد اعظم''،''بابائے قوم'' اور ''بانی پاکستان'' سمیت کئی القابات سے نوازا گیا۔ آج پاکستان کے کئی قومی ادارے، درس گاہیں، اسپتال، سڑکیں اِس عظیم راہ نما سے موسوم ہیں۔ پاکستانی کرنسی، چاہے وہ سکوں کی صورت ہو، یا کاغذی نوٹ کی صورت، بابائے قوم کی تصویر کے بنا ادھوری ہے۔ تاہم اِس عظیم سیاسی مدبر کو خراج تحسین پیش کرنے کا معاملہ پاکستانی قوم تک محدود نہیں۔ اِس قد آور راہ نما کی خدمات کے اعتراف میں دنیا کے کئی ممالک میں مختلف مقامات، سڑکوں اور اداروں کے نام قائد اعظم کے نام پر رکھے گئے۔

اِس کی سب سے بڑی مثال ترکی میں ملتی ہے۔ ترکی کے مرکزی شہر انقرہ کی سب سے بڑی اور مصروف شاہ راہ Cinnah Caddesi بانی پاکستان سے موسوم ہے۔ واضح رہے کہ ترک زبان میں لفظ ''جناح'' کا تلفظ "Cinnah" ہے۔

پاکستان کے پڑوسی ملک، ایران نے بھی بابائے قوم کی خدمات کا اعتراف کیا۔ ایرانی حکومت کی جانب سے اُنھیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے تہران کی مرکزی شاہ راہ کو ''محمد علی جناح ایکسپریس وے'' کا نام دے دیا گیا۔ ایرانی حکومت کی جانب سے 1976 میں قائد اعظم کی سال گرہ کے موقع پر ایک یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا گیا تھا۔

اگر قائد اعظم سے منسوب عمارات کی تلاش میں مغرب پر نگاہ دوڑائی جائے، تو نظر امریکی شہر شکاگو پر جا کر ٹھہرتی ہے، جہاں مشہور زمانہ ''ڈیون ایونیو'' کا ایک حصہ قائد اعظم سے موسوم ہے، اور ''محمد علی جناح وے'' کہلاتا ہے۔

گوکہ کے ہندوستان میں محمد علی جناح کو تقسیم کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اور انھیں منفی انداز میں پرکھا جاتا ہے، تاہم وہاں بھی ایسے مقامات ہیں، جن پر قائد اعظم کا نام ثبت ہے۔ سب سے نمایاں مثال ممبئی میں لیمنگٹن روڈ پر، انڈین نیشنل کانگریس بلڈنگ کے احاطے میں واقع جناح پیپلز میموریل ہال ہے۔

یہ ہال ممبئی کے باسیوں کی جانب سے محمد علی جناح کی اُن خدمات کے اعتراف میں تعمیر کروایا گیا، جو اُنھوں نے ممبئی کے برطانوی گورنر، فری مین تھامس اول کے سام راجی دور میں اِس شہر کے باسیوں کے لیے ادا کیں۔ یہ ہال 1918 میں تعمیر کیا گیا۔ گنٹور، آندھرا پردیش کا ''جناح ٹاور'' بھی ایسی ہی ایک مثال ہے۔ ممبئی میں واقع قائد اعظم کی قیام گاہ، جناح ہائوس بھی اُن ہی کے نام سے معروف ہے۔

بے شک مذکورہ مثالیں قابل فخر ہیں، کئی بین الاقوامی محققین و مورخین نے بھی محمد علی جناح کو شان دار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا، تاہم مجموعی جائزے کے بعد یہ بات شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ باسی اپنے محسن کی شبیہہ اُس انداز میں، اُس پیمانے پر بیرونی دنیا کے سامنے پیش نہیں کر سکے، جیسے پیش کی جانے چاہیے تھی۔

نہ صرف حکومتی سطح پر اس فریضے کی ادائیگی سے اغماض برتا گیا، بلکہ ہمارے اہل دانش بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا نہیں کرسکے۔ ورنہ قائد اعظم اپنی سیاسی جدوجہد کی انفرادیت، کردار کی بلندی اور روشن افکار کے باعث دنیا بھر کے سیاسی راہ نماؤں میں ایک الگ مقام رکھتے ہیں۔ خصوصاً آج کی دنیا میں، جب ہر طرف تشدد کا دور دورہ ہے، خاص طور پر مسلم دینا میں ایسے عناصر نہایت طاقت ور اور مؤثر ہوچکے ہیں، جو عالم اسلام کے مسائل کا حل خوں ریزی اور بربادی کے راستوں کے مسافر ہوکر تلاش کررہے ہیں اور عالم اسلام میں انتہاپسندی تیزی سے فروغ پذیر ہے۔

قائداعظم کے کردار اور جدوجہد دنیا کے سامنے لانے اور محمد علی جناح کو بہ طور مثالی راہ نما کے پیش کرنے کی ضرورت ہے، جنہوں نے پُرامن اور آئینی تحریک کے ذریعے آج کی دنیا کی سب سے بڑی مسلم ریاست قائم کی۔

دنیا کو قائد اعظم محمد علی جناح کی خدمات سے متعارف کروانے کی ذمے داری حکومتِ پاکستان کے ساتھ پاکستانی قوم پر بھی عاید ہوتی ہے۔ اس ضمن میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو مؤثر انداز میں برتتے ہوئے مثبت خطوط پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں