معاشی منظرنامہ آسودگی سے محروم

ہمارے نظامِ ٹیکس کے بڑے مسائل میں سے ایک اس نظام میں دانستہ اور نادانستہ طور پر گہرائی سے پیوستہ ناانصافیاں ہیں

زندگی سے جڑے ہوئے شعبوں میں ہاتھ پیر مارتے لوگوں کے دکھ کم کرنے کا سوچا جائے فوٹو: فائل

ROME:
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے لوگ تکلیف میں ہیں، اس مہنگائی میں غریب کو تکلیف سے بچانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔کامیاب جوان پروگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں سرپلس ہونے پر پیسہ غریبوں پر لگانے کی سوچ غلط تھی، ریاست مدینہ دنیا کی تاریخ کا سب سے کامیاب ماڈل تھا۔

ہماری کوشش ہے کہ ملک کی ترجیحات اور عوام کی سوچ تبدیل کریں، جب حکمران عام آدمی کی زندگی بہتر کریں، غریب آدمی کی دعائیں لیں تو اسی معاشرے میں اﷲ کی برکت آتی ہے۔ چیزیں مہنگی ہیں، حکومت اپنی پوری کوشش کررہی ہے کہ غریب طبقے کو تکلیف نہ ہو، دنیا میں تیل کی قیمت گزشتہ چند ماہ میں 100 فیصد بڑھی ہے لیکن پاکستان میں ہم نے 22 فیصد بڑھائی ہے، دنیا میں تیل پیدا کرنے والے 19 ممالک کے سوا ہم پاکستان میں سب سے کم قیمت پر پٹرول اور ڈیزل بیچ رہے ہیں، بنیادی طور پر یہ درآمدی افراط زر ہے، امپورٹڈ انفلیشن کی وجہ سے ملک میں مہنگائی ہے۔

ہم ٹارگٹڈ سبسڈیز سے مہنگائی کے مسئلے پر قابو پائیں گے، امید ہے کہ دنیا میں اجناس کی قیمتیں کم ہونے سے پاکستان میں بھی قیمتیں کم ہوں گی۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے ہمارا ملک ایک مخصوص اشرافیہ کا ملک بن گیا، انصاف، تعلیم، قرضے سمیت تمام سہولیات امرا اور اشرافیہ کے لیے تھیں، ہماری کوشش ہے کہ اپنے متوسط طبقہ کو اوپر لائیں، ان کے لیے ہاؤسنگ کے شعبہ میں فنانسنگ میں مشکلات دور کیں، درآمدی افراط زر کی وجہ سے مہنگائی ہے۔

وزیراعظم جستہ جستہ اقتصادی مسائل پر بڑی سنجیدہ گفتگوکررہے ہیں، انھوں نے اجتماعات میں ملکی معاشی نظام کے تاریخی تضادات پر سیر حاصل بحث کی، اشرافیائی نظام اور اقتصادی اہداف پر بنیادی مغالطوں پر روشنی ڈالی۔ ان کا استدلال ان اصولوں پر ہے جن پر ہمارے سیاسی مشاہیر اور سابق حکمرانوں نے عمل نہیں کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں 1947 سے ملک کی معیشت کی سمت سازی کرنی چاہیے تھی۔

اب اگرچہ کافی دیر ہوچکی ہے ، تاہم تاریخی غلطیوں سے آج بھی ہم سبق سیکھ سکتے ہیں، ملکی سماجی اور سیاسی ڈھانچہ کے استحصال ، فرسودگی ، کرپشن کے قلع قمع جب کہ نچلے طبقات کو اوپر لانے کے لیے ایک منصفانہ ، عادلانہ ، معاشی نظام کی طرف رجوع کرتے ہوئے معیشت کو درپیش چیلنجز سے نجات دلانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔

ان کوششوں کا حکومتی وزرا اور وزیر اعظم وقتاً فوقتًا حوالہ دیتے رہتے ہیں۔ معیشت کا استحکام چونکہ بنیادی ہدف ہے، مہنگائی ، غربت اور بیروزگاری نے عوام کو شدید مشکلات سے دوچار کیا ہے، لیکن چند سوالات اکثر ملک کے فہمیدہ حلقے دلسوزی سے اٹھاتے ہیں جن میں غربت ، مہنگائی کے خاتمے کے لیے صائب خیالات کا اظہارکیا جاتا ہے لیکن ملکی اقتصادی نظام کی خرابیوں کو دورکرنے کے لیے حکومت کو بعض اہم فیصلے دور اندیشی اور ملکی مفاد میں بہرحال لینے پڑیں گے۔

معاشی اور درد مند اقتصادی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ معاشی نظام میں ایک بڑی اوورہالنگ اور قلب ماہیت کے غیر معمولی چیلنج سے قبل معاشی معاملات کو حل کرنے کے لیے ان ہی اقدامات ، پالیسیوں اور فیصلوں کی تقلید کی جانی چاہیے جن پر ہمارے معاصر ممالک نے عملدرآمد کیا اور ایشین ٹائیگرز کہلائے، ملکی اقتصادیات کی کایا پلٹی جاسکتی ہے جس کے لیے سب سے پہلے ترجیحات اور اہداف کا تعین ہونا چاہیے۔ سیاسی قیادت کے لیے سب سے بنیادی لمحہ عوام کو معاشی آسودگی مہیا کرنے کا ہے، عوام کو دو وقت کی روٹی ملے، اسے روزگار کا تحفظ حاصل ہو۔

اس کے گھر میں غربت اور خط افلاس کے خدشات کا خاتمہ ہو توکوئی بھی سیاسی نظریہ ، پالیسی اور حکمت عملی کے نتائج کے انتظار میں عوام برسوں لگا دیتے ہیں۔گڑبڑ اور بے چینی وہاں سے شروع ہوتی ہے جب معیشت عوام کے روزمرہ معاملات اور مہنگائی کا کوئی مجرب نسخہ تلاش نہیں کرتی اور لوگ روز بروز مہنگائی کا رونا رونے لگتے ہیں، اور یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں میں مارکیٹ میں مہنگائی جس تیزی سے بڑھی ہے اس کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔ دکانداروں اور تاجروں کو جیسے چیزیں مہنگی کرنے کا لائسنس مل گیا ہے، بے پناہ گرانی کے بوجھ نے متوسط طبقات کی زندگی کو مشکل جب کہ غریب گھرانے تو غربت اور مہنگائی سے سخت عاجز آچکے ہیں، اس سلسلہ کو محض کوششوں سے نہیں بلکہ ریاستی قوت سے روکنے کی ضرورت ہے۔


حکومت کو کورونا کی وبا نے کام کرنے نہیں دیا ، اس میں کوئی شک نہیں لیکن یہ عوامی مطالبہ بھی بے جا نہیں کہ حکام نے معاشی اہداف پر سختی سے عمل کرنے میں سستی دکھائی، مثلا سیاحت، تفریحات، تعمیرات کے شعبے میں جن مربوط اقدامات اور ٹھوس پالیسیوں پر عمل کرنے کی ضرورت تھی ان کو بروئے کار نہیں لایا گیا۔ دکھ سہیں بی فاختہ کوے انڈے کھائیں والی مثال ہوگئی، اقدامات ہوئے ضرور لیکن ملکی اقتصادی حالات کی تبدیلی پر ان اقدامات اور فیصلوں کے نتائج عوام کو نظر نہیں آئے۔

ایک موقع پینڈورا پیپرز میں آف شورکمپنیوں کے ہوشربا انکشافات نے پیدا کیا ہے، حکومت جو تحقیقاتی اقدامات کریگی اس کے نتائج توکچھ وقت لیں گے مگر حکومت اپنے ملک میں موجود'' آف شور علاقوں'' کی صورت حال کا بھی فوری نوٹس لے، ہزاروں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں بلا روک ٹوک ان علاقوں میں لائی جاتی ہیں، کروڑوں اربوں کا کاروبار ہوتا ہے، لیکن اس کا سرکاری خزانے کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا، آف شور علاقوں میں بغیر نمبر پلیٹ گاڑیوں اور موٹر سائیکلز کی بھرمار ہے ،یوں ان علاقوں کی صوبائی حکومتوں کو ایکسائز ٹیکس کی مد میں کروڑوں روپے کا نقصان ہورہا ہے ۔یہاں این سی پی گاڑیاںکراچی ، لاہور ، راولپنڈی اسلام آباد میں خرید وفروخت کے ذریعے پہنچ جاتی ہیں۔

خیبر پختونخوا اور دیگر قبائلی علاقوں میں قانون سے بالا تر لوگ ان گاڑیوں کا کاروبار کرتے ہیں ، کسٹم کی مد میں اربوں روپے کی آمدنی ہوسکتی ہے لیکن وہ سارا پیسہ لوگوں کی جیب میں جاتا ہے۔ اسی طرح سیاحتی مقامات اور سنیما گھروں، ہوٹلز، شادی ہالز، سیلون و آرائش گھروں سے لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے، انھیں لاک ڈاؤن اور دیگر پابندیوں نے شدید مالی مشکلات سے دوچار کیا ہے، کاروبار کی رونقیں ماند پڑ چکی ہیں۔ لہٰذا حکومت معاشی آزادی کے لیے بڑے اقدامات کرکے عوام کو بہتر روزگار دے سکتی ہے، غیر منصفانہ ٹیک سسٹم پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

ماہر ین نے اس ضمن میں صائب تجاویز دی ہیں، حکومت کو ملکی میں ٹیکس دینے کے کلچرکو تقویت دینے کے لیے ان تجاویز پر عملدرآمد کرنے میں فراخ دلانہ طرز عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت بجلی کے نرخ بڑھانے کی روش کے مضمرات پر بھی توجہ دے، نیپرا نے بجلی ایک سال کے لیے 1روپیہ72 پیسے فی یونٹ مہنگی کردی۔ نوٹیفیکیشن کے مطابق اضافہ 2019-20 اور 2020-21 کی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹس کی مد میں کیا گیا، جس کے بعد قیمت 16.44 سے بڑھ کر 18.16 روپے فی یونٹ ہوگئی۔

ہمارے نظامِ ٹیکس کے بڑے مسائل میں سے ایک اس نظام میں دانستہ اور نادانستہ طور پر گہرائی سے پیوستہ ناانصافیاں ہیں ، یعنی وہ افراد جو اپنی مرضی یا ملازمتی/ کاروباری تقاضوں کے باعث رجسٹر شدہ اور ٹیکس نیٹ میں شامل ہیں وہ ایک بھاری رقم ٹیکس کی صورت میں دیتے ہیں، مگر دوسری طرف وہ لوگ جو ٹیکس گزار کی حیثیت سے رجسٹرڈ نہیں ہیں وہ ایک مدت سے تھوڑا یا بالکل بھی ٹیکس ادا نہیں کر رہے ہیں، اور اس پر ستم یہ کہ ان میں سے بہت سوں کو ریاست کی جانب سے بار بار کسی نہ کسی صورت میں رعایتیں بھی دی جاتی رہی ہیں۔ مزید برآں ، ریاست نے مخصوص طبقات کو فائدہ پہنچانے کے لیے بہت سے ٹیکسوں کو معاف کردیا ہے ، جب کہ کچھ ایسے بھی شعبے ہیں جنھیں چند مواقعے پر ٹیکس چھوٹ بھی دی جاتی ہے۔

اب جو لوگ ٹیکس نیٹ میں آتے ہیں اور جنھیں تمام ٹیکسوں کو ادا کرنا پڑتا ہے وہ محصولاتی نظام اور ریاست کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہوں گے؟ ناانصافی کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ زیادہ تر جن لوگوں کو ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے یا جو ان ٹیکسوں کی ادائیگی سے مطمئن ہیں انھیں بھی لگتا ہے کہ ان کے ٹیکس کے بدلے ریاست انھیں زیادہ کچھ نہیں دے رہی ہے۔ عام رائے یہی ہے کہ ریاست تعلیم اور صحت کی غیر معیاری سہولیات فراہم کرتی ہے جس کے سبب متوسط آمدن اور اعلیٰ آمدن کے حامل افراد ان سہولیات کے لیے اپنے علاقوں کے متعلقہ نجی اداروں کا رخ کرتے ہیں۔

فراہمی آب اور نکاسی آب، کچرے کو ٹھکانے لگانے اور سیکیورٹی کے لیے بھی اکثر نجی اداروں کی اضافی مدد حاصل کی جاتی ہیں اور چند جگہوں پر ایسے تمام تر کاموں کا مکمل انحصار نجی شعبے پر ہوتا ہے۔ بہت سے ٹیکس دہندگان کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ناانصافی صرف یہیں تک محدود نہیں۔ کئی ٹیکس دہندگان تو اس قابل ہوتے ہیں کہ وہ نجی شعبے سے اپنی ضروریات پوری کرلیں مگر جن کے پاس وسائل کی کمی ہے انھیں پھر پانی، نکاسی آب، صحت، تعلیم، سیکیورٹی کی سرکاری خدمات پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے۔

یوں انھیں پھر سرکار کی جانب سے غیرمعیاری خدمات فراہم کی جارہی ہوتی ہیں۔ اب اگر ریاست غیر منصفانہ اور کسی حد تک زبردستی کرنے والے نظام کے تحت حاصل کردہ محصولات کے ذریعے اس پر منحصر افراد کو سہولیات فراہم نہ کرسکے تو ایسی صورتحال سے شہری کس طرح مطمئن ہوسکتے ہیں؟

ضرورت اس امرکی ہے کہ زندگی سے جڑے ہوئے شعبوں میں ہاتھ پیر مارتے لوگوں کے دکھ کم کرنے کا سوچا جائے ، تو معیشت کے استحکام کے سوالات حل بھی ہوسکتے ہیں۔
Load Next Story