بھنگ اور ملنگ
حکومت بھنگ کی کاشت کے معاملے میں سنجیدہ ہے اور اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتی ہے
لاہور:
بھلے وقتوں میں فارسی زبان کی بھی اتنی ہی اہمیت تھی جتنی آج اردو کی ہے۔ والد مرحوم کو فارسی زبان پر عبور حاصل تھا، وہ اپنے کالموں میں فارسی شعراء کا کلام اکثر لکھا کرتے اور اپنے قارئین کو ان اشعار کا صحیح مطلب سمجھانے کے لیے اس کا ترجمہ بھی نقل کیا کرتے تھے۔
وہ کہتے تھے کہ شعر کا اصل مزہ تو اس کی اصل زبان ہی ہوتی ہے لیکن آج چونکہ فارسی زبان سے آشنائی بہت محدود بلکہ نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے، اس لیے ان کے اشعار کا ترجمہ بھی نہایت ضروری ہو گیا ہے ۔
گزشتہ برس جب ہماری حکومت نے بھنگ کی کاشت سے زرمبادلہ کمانے کا نادر منصوبہ بنایا تو یہ خبر سن کر انھوں نے مجھے فارسی کا ایک شعر ترجمے کے ساتھ سنایا، چونکہ میں بھی اسی نسل سے تعلق رکھتا ہوں جنھوں نے تعلیمی نصاب میں فارسی ایک اختیاری مضمون کے طور پر پڑھی اور صرف ترجمے کے رٹے لگا کر امتحان میں گزارا چلا لیا۔ شاعر جس کی زبان فارسی تھی، کسی ملنگ کے ہتھے چڑھ گیا جس نے شاعر کو ایک پیالہ بھنگ پلا دیا۔ اس کے بعد شاعر پر ایسے طبق روشن ہوئے کہ بے ساختہ اس کی زبان سے یہ شعر نکلا۔
بنگلے زدیم و غلغلہ بر آسمان زنیم
مارا ازیں گیا ہ ضعیف ایں گماں نہ بود
(بھنگ چڑھائی اور پھر ایسا غلغلہ بلند کیا کہ آسمان تک کو ہلا دیا ۔ مجھے گھاس کے ان کمزور پتوں سے یہ امید ہر گزنہ تھی) والد مرحوم کے مطابق مولانا ابوالکلام آزاد اس شعر کا دوسرا مصرعہ ہی نقل کیا کرتے تھے، جب انھیں کسی کمزور اور معمولی آدمی سے کسی بڑے کام کا بیان مقصود ہوتا تھا۔
بھنگ کی کاشت سے پاکستانی معیشت کو سہارا دینے کے لیے حکومتی وزیر شبلی فراز کا کہنا ہے کہ تین سال میں مخصوص رقبے پر بھنگ کاشت کی جائے گی۔ بھنگ سے کشید کردہ مصنوعات کی برآمد سے کثیر زرمبادلہ حاصل ہوگا۔ محترم شبلی فراز نے بھی مجھ ناچیز کی طرح شاید وہ شعر سن رکھا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ بھنگ کے کمزور پتے ملکی معیشت میں کس طرح کا انقلاب برپا کر سکتے ہیں، اس لیے انھوں نے بھنگ کی کاشت کے حکومتی منصوبے کو آگے بڑھاتے ہوئے اس کی کاشت سے حاصل شدہ آمدن کا ذکر کیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ بھنگ کے پودوں سے کشید کردہ ایک لیٹر تیل کی قیمت دس ہزار ڈالر ہے، یہ تیل ادویات میں استعمال ہوتا ہے اور ایک ایکٹر پرکاشت کردہ بھنگ سے دس لیٹرتیل کی پیداوار حاصل ہوتی ہے ۔ البتہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھنگ کے بیج بہت مہنگے ہیں اور اس کا ایک بیج بارہ ڈالر کا ہے۔ حکومت نے بھنگ کی کاشت کے لیے ابتدائی طور پر کلیام کے علاقے میں ایک ایکٹر رقبے پر کاشت شروع کر دی ہے اور دوسرے مرحلے میں حکومت پوٹھوہار کے علاقے میں ایک سو ایکٹر زمین اس ضمن میں مختص کر رہی ہے ۔
ہماری حکومت کبھی عوام میں مرغیوں کے تقسیم کے ذریعے معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کرتی ہے تو اب بھنگ کی کاشت سے معاشی ترقی کا منصوبہ بنایا گیا ہے اور اسے اربوں ڈالر کی مارکیٹ کہا جا رہا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری حکومت میں ایسے عالی دماغ ضرور موجود ہیں جو اپنی زبان میں ان کمزور پتوں کی افادیت بیان کر رہے ہیں۔
یہ آج کی ایک سچی اور مکمل غیر جانبدار گواہی ہے اور معلوم نہیں شاعر نے یہ شعر کب کہا تھا اور اس کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ اس گیاہ ضعیف کو اتنی افادیت حاصل ہے جس سے حکومت کو لامتناہی فائدہ پہنچ سکتا ہے لیکن شاعر نے جو کچھ کہا وہ ممکن ہے اس کی ذاتی واردات ہو جواکثر شعرا پر وارد ہوتی ہے اور ایسی صاف ستھری گواہیاںکم ہی ملتی ہیں۔آج کے جدید زمانے میں ہمارے سیاسی مفکرین نے ایسے ہی بے ضرر قسم کے نشے کی قومی سطح کی افادیت بیان کی ہے جو ملک کی معیشت کو سہارا دے سکتا ہے اورمستقبل میں بھنگ جیسی دیسی چیز سے زرمبادلہ کمانے کا منصوبہ ہے ۔
وزیر موصوف جو ہوشربا آمدن بیان کر رہے ہیں اور منفی پہلو رکھنے والی اس فصل کی کاشت کا مثبت استعمال کرنے کی بات کر رہے ہیں جس پر دنیا بھر میں کام ہو رہاہے تو ان کے اس جذبے کو دیکھتے ہوئے میں جو ایک بارانی علاقے کا کاشت کار ہوں اور وادیٔ سون میں بھنگ کی جنگلی بوٹی وافر مقدار میں پیدا ہوتی ہے۔
اس کے لیے اپنی زمین کا کچھ حصہ مختص کرنے کا مصمم ارداہ کر تے ہوئے فوری طور پر گاؤں جانے کا پروگرام بنا لیا ہے تا کہ بارانی زمینوں پر ڈالروں کی بارش کی پیشگی منصوبہ بندی کرسکوں کیونکہ اگر بھنگ کے ان بے ضرر پتوں سے ہزاروں ڈالر کی آمدن ہو سکتی ہے تو پوٹھوہار کے ہمسائے میں وادیٔ سون کے کاشتکار بے موسمی سبزیوں کے ساتھ ساتھ بھنگ کی کاشت کے لیے بھی تیاری شروع کر دیتے ہیں۔ ہماری زمینیں بھنگ کی کاشت کے لیے زرخیز ہیں جہاں پہلے سے ہی جنگلی بھنگ پیدا ہوتی ہے اور آج کل تو افغانی کسان مزدور بھی وادیٔ سون میں موجود ہیں جو اس اہم کاشت میں ہماری بہترین معاونت کر سکتے ہیں ۔
بہر حال حکومت کو اس منصوبے کو سنجیدگی سے شروع کرنا چاہیے، ابتدائی طور پر کسانوں کو مالی اور تکنیکی معاونت بھی فراہم کرنی ہو گی اور اس فصل کے مہنگے بیج کو کسان تک بلا معاوضہ بھی پہنچانا ہو گا البتہ بعدمیں مقامی طور پر بیج کی پیداوار شروع کرنی چاہیے ۔فصل کی تیاری تک حکومت کے ماہرین اس کی مسلسل نگرانی بھی کریں تا کہ اس کی ابتدائی پیداوار میں جو دشواریاں اور رکاوٹیں پیش آئیں ان کو پیشہ ورانہ طور پر دور کیا جا سکے اور اس منصوبے سے متعلقہ فوائد حاصل کیے جا سکیں ۔ حکومت کی امداد سے ہی بھنگی معیشت کا ڈول ڈالا جا سکے گا۔
ایک مثبت بات جو اس سارے قصے میں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ حکومت بھنگ کی کاشت کے معاملے میں سنجیدہ ہے اور اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتی ہے البتہ حکومت کواس بات کا خیال ضرور رکھنا ہو گا کہ بھنگ ملنگ لوگوں کا بھی مرغوب مشروب ہے۔ تازہ حکومتی اعلان کے بعد بیچارے بھنگی پریشان ہیں کہ ڈالروں کے چکر میں کہیں ان کو سستے نشے سے محروم نہ کر دیا جائے۔
بھلے وقتوں میں فارسی زبان کی بھی اتنی ہی اہمیت تھی جتنی آج اردو کی ہے۔ والد مرحوم کو فارسی زبان پر عبور حاصل تھا، وہ اپنے کالموں میں فارسی شعراء کا کلام اکثر لکھا کرتے اور اپنے قارئین کو ان اشعار کا صحیح مطلب سمجھانے کے لیے اس کا ترجمہ بھی نقل کیا کرتے تھے۔
وہ کہتے تھے کہ شعر کا اصل مزہ تو اس کی اصل زبان ہی ہوتی ہے لیکن آج چونکہ فارسی زبان سے آشنائی بہت محدود بلکہ نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے، اس لیے ان کے اشعار کا ترجمہ بھی نہایت ضروری ہو گیا ہے ۔
گزشتہ برس جب ہماری حکومت نے بھنگ کی کاشت سے زرمبادلہ کمانے کا نادر منصوبہ بنایا تو یہ خبر سن کر انھوں نے مجھے فارسی کا ایک شعر ترجمے کے ساتھ سنایا، چونکہ میں بھی اسی نسل سے تعلق رکھتا ہوں جنھوں نے تعلیمی نصاب میں فارسی ایک اختیاری مضمون کے طور پر پڑھی اور صرف ترجمے کے رٹے لگا کر امتحان میں گزارا چلا لیا۔ شاعر جس کی زبان فارسی تھی، کسی ملنگ کے ہتھے چڑھ گیا جس نے شاعر کو ایک پیالہ بھنگ پلا دیا۔ اس کے بعد شاعر پر ایسے طبق روشن ہوئے کہ بے ساختہ اس کی زبان سے یہ شعر نکلا۔
بنگلے زدیم و غلغلہ بر آسمان زنیم
مارا ازیں گیا ہ ضعیف ایں گماں نہ بود
(بھنگ چڑھائی اور پھر ایسا غلغلہ بلند کیا کہ آسمان تک کو ہلا دیا ۔ مجھے گھاس کے ان کمزور پتوں سے یہ امید ہر گزنہ تھی) والد مرحوم کے مطابق مولانا ابوالکلام آزاد اس شعر کا دوسرا مصرعہ ہی نقل کیا کرتے تھے، جب انھیں کسی کمزور اور معمولی آدمی سے کسی بڑے کام کا بیان مقصود ہوتا تھا۔
بھنگ کی کاشت سے پاکستانی معیشت کو سہارا دینے کے لیے حکومتی وزیر شبلی فراز کا کہنا ہے کہ تین سال میں مخصوص رقبے پر بھنگ کاشت کی جائے گی۔ بھنگ سے کشید کردہ مصنوعات کی برآمد سے کثیر زرمبادلہ حاصل ہوگا۔ محترم شبلی فراز نے بھی مجھ ناچیز کی طرح شاید وہ شعر سن رکھا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ بھنگ کے کمزور پتے ملکی معیشت میں کس طرح کا انقلاب برپا کر سکتے ہیں، اس لیے انھوں نے بھنگ کی کاشت کے حکومتی منصوبے کو آگے بڑھاتے ہوئے اس کی کاشت سے حاصل شدہ آمدن کا ذکر کیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ بھنگ کے پودوں سے کشید کردہ ایک لیٹر تیل کی قیمت دس ہزار ڈالر ہے، یہ تیل ادویات میں استعمال ہوتا ہے اور ایک ایکٹر پرکاشت کردہ بھنگ سے دس لیٹرتیل کی پیداوار حاصل ہوتی ہے ۔ البتہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھنگ کے بیج بہت مہنگے ہیں اور اس کا ایک بیج بارہ ڈالر کا ہے۔ حکومت نے بھنگ کی کاشت کے لیے ابتدائی طور پر کلیام کے علاقے میں ایک ایکٹر رقبے پر کاشت شروع کر دی ہے اور دوسرے مرحلے میں حکومت پوٹھوہار کے علاقے میں ایک سو ایکٹر زمین اس ضمن میں مختص کر رہی ہے ۔
ہماری حکومت کبھی عوام میں مرغیوں کے تقسیم کے ذریعے معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کرتی ہے تو اب بھنگ کی کاشت سے معاشی ترقی کا منصوبہ بنایا گیا ہے اور اسے اربوں ڈالر کی مارکیٹ کہا جا رہا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری حکومت میں ایسے عالی دماغ ضرور موجود ہیں جو اپنی زبان میں ان کمزور پتوں کی افادیت بیان کر رہے ہیں۔
یہ آج کی ایک سچی اور مکمل غیر جانبدار گواہی ہے اور معلوم نہیں شاعر نے یہ شعر کب کہا تھا اور اس کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ اس گیاہ ضعیف کو اتنی افادیت حاصل ہے جس سے حکومت کو لامتناہی فائدہ پہنچ سکتا ہے لیکن شاعر نے جو کچھ کہا وہ ممکن ہے اس کی ذاتی واردات ہو جواکثر شعرا پر وارد ہوتی ہے اور ایسی صاف ستھری گواہیاںکم ہی ملتی ہیں۔آج کے جدید زمانے میں ہمارے سیاسی مفکرین نے ایسے ہی بے ضرر قسم کے نشے کی قومی سطح کی افادیت بیان کی ہے جو ملک کی معیشت کو سہارا دے سکتا ہے اورمستقبل میں بھنگ جیسی دیسی چیز سے زرمبادلہ کمانے کا منصوبہ ہے ۔
وزیر موصوف جو ہوشربا آمدن بیان کر رہے ہیں اور منفی پہلو رکھنے والی اس فصل کی کاشت کا مثبت استعمال کرنے کی بات کر رہے ہیں جس پر دنیا بھر میں کام ہو رہاہے تو ان کے اس جذبے کو دیکھتے ہوئے میں جو ایک بارانی علاقے کا کاشت کار ہوں اور وادیٔ سون میں بھنگ کی جنگلی بوٹی وافر مقدار میں پیدا ہوتی ہے۔
اس کے لیے اپنی زمین کا کچھ حصہ مختص کرنے کا مصمم ارداہ کر تے ہوئے فوری طور پر گاؤں جانے کا پروگرام بنا لیا ہے تا کہ بارانی زمینوں پر ڈالروں کی بارش کی پیشگی منصوبہ بندی کرسکوں کیونکہ اگر بھنگ کے ان بے ضرر پتوں سے ہزاروں ڈالر کی آمدن ہو سکتی ہے تو پوٹھوہار کے ہمسائے میں وادیٔ سون کے کاشتکار بے موسمی سبزیوں کے ساتھ ساتھ بھنگ کی کاشت کے لیے بھی تیاری شروع کر دیتے ہیں۔ ہماری زمینیں بھنگ کی کاشت کے لیے زرخیز ہیں جہاں پہلے سے ہی جنگلی بھنگ پیدا ہوتی ہے اور آج کل تو افغانی کسان مزدور بھی وادیٔ سون میں موجود ہیں جو اس اہم کاشت میں ہماری بہترین معاونت کر سکتے ہیں ۔
بہر حال حکومت کو اس منصوبے کو سنجیدگی سے شروع کرنا چاہیے، ابتدائی طور پر کسانوں کو مالی اور تکنیکی معاونت بھی فراہم کرنی ہو گی اور اس فصل کے مہنگے بیج کو کسان تک بلا معاوضہ بھی پہنچانا ہو گا البتہ بعدمیں مقامی طور پر بیج کی پیداوار شروع کرنی چاہیے ۔فصل کی تیاری تک حکومت کے ماہرین اس کی مسلسل نگرانی بھی کریں تا کہ اس کی ابتدائی پیداوار میں جو دشواریاں اور رکاوٹیں پیش آئیں ان کو پیشہ ورانہ طور پر دور کیا جا سکے اور اس منصوبے سے متعلقہ فوائد حاصل کیے جا سکیں ۔ حکومت کی امداد سے ہی بھنگی معیشت کا ڈول ڈالا جا سکے گا۔
ایک مثبت بات جو اس سارے قصے میں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ حکومت بھنگ کی کاشت کے معاملے میں سنجیدہ ہے اور اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتی ہے البتہ حکومت کواس بات کا خیال ضرور رکھنا ہو گا کہ بھنگ ملنگ لوگوں کا بھی مرغوب مشروب ہے۔ تازہ حکومتی اعلان کے بعد بیچارے بھنگی پریشان ہیں کہ ڈالروں کے چکر میں کہیں ان کو سستے نشے سے محروم نہ کر دیا جائے۔