سوچے سمجھے منصوبے کی کامیابی
سندھ اورپنجاب کی حکومتوں کو اس معاملے میں سرگرمی دکھانا چاہیے تھی کہ بلوچستان انتخابات کراسکتا ہے تو ہم کیوں نہیں۔۔۔
پنجاب اورسندھ کے ہزاروں بلدیاتی امیدوار اپنی بے مقصد بلدیاتی انتخابی مہم پرکروڑوں روپے ضایع کرکے مایوس ہوگئے اور پنجاب اور سندھ کی جمہوری حکومتوں کا سوچا سمجھا بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کا منصوبہ کامیاب ہوگیا اور عدالت عظمیٰ اور الیکشن کمیشن بے بسی سے منہ دیکھتے رہ گئے کہ ان کے حکم نامے اور بلدیاتی انتخابات کرانے کی آئینی ضرورت کسی کی بھینٹ چڑھ گئی۔
پیپلز پارٹی تو اپنا بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کا ریکارڈ رکھنا چاہتی تھی مگر مسلم لیگ (ن) کی پالیسی پر عوام حیران ہیں کیونکہ بلدیاتی انتخابات مسلم لیگ کے دور میں ہوئے ہیں خواہ وہ مسلم لیگ (ن) ہو یا (ق)۔ مسلم لیگ پر یہ الزام نہیں لگ سکتا کہ اس نے اپنی حکومت میں کبھی بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے۔
مسلم لیگ (ن) صوبہ بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شامل ہے اور آفرین ہے بلوچستان کی حکومت کو کہ اس نے صوبے کے مخدوش حالات کے باوجود بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کروا کر دکھائے اور باقی تین صوبوں کی حکومتوں کوآئینہ دکھایا کہ جنھوں نے جان بوجھ کر بلدیاتی انتخابات نہ کرانے تھے نہ کرائے اور اپنے سازشی منصوبے پر کامیابی سے عمل کرکے عوام کو نچلی سطح پر اپنے نمایندے منتخب کرنے سے محروم کردیا اور پنجاب اور سندھ کی حکومتیں نہایت دیدہ دلیری سے کہہ رہی ہیں کہ بلدیاتی انتخابات نہ ہونے کے ہم ذمے دار نہیں بلکہ وہ ہیں جنھوں نے ہماری من پسند حلقہ بندیوں کو قبول نہیں کیا اور اپنی ہائی کورٹس میں ان حلقہ بندیوں کو چیلنج کیا اور انھیں کالعدم قرار دیا۔ پنجاب اور سندھ کی حکومتیں تو سابق ضلع حکومتوں کے بعد بلدیاتی انتخابات کرانا ہی نہیں چاہتی تھیں۔ انھوں نے ناظمین کے بعد بلدیاتی اداروں پر سرکاری ایڈمنسٹریٹر مسلط کرکے قبضہ کرلیا اور بلدیاتی اداروں کے فنڈ اپنی من پسند جگہوں پر خرچ کرکے اور بلدیاتی اداروں میں ضرورت نہ ہونے کے باوجود اپنے لوگ بھرتی کیے اور بلدیاتی اداروں کو مالی طور پر شدید بحران میں دھکیل دیا۔
پنجاب کی نسبت سندھ حکومت نے تو بلدیاتی اداروں کے ساتھ سوتیلی ماں نہیں بلکہ دشمنوں جیسا سلوک کیا۔ پی پی کی سابق سندھ حکومت میں ہر بلدیاتی ادارے میں غیر ضروری بھرتیاں کی گئیں۔ مسلمانوں کو خاکروبوں کی جگہ بھرتی کرکے چپڑاسی، مالی اور ڈرائیوروں کے کام لیے گئے اور ہر جگہ بلدیاتی اداروں پر فاضل عملے کا بوجھ ڈال کر انھیں تنخواہیں دینے کے قابل بھی نہیں چھوڑا جس کے نتیجے میں کئی سالوں سے بلدیاتی اداروں میں ترقیاتی کام بند ہیں اور تنخواہیں نہ ملنے پر ملازمین سراپا احتجاج ہیں اور یہ سلسلہ پورے سندھ میں جاری ہے۔
سندھ کی موجودہ حکومت نے آتے ہی بلدیاتی اداروں کی مالی تباہی دیکھ کر 12 ہزار سے زائد اپنے ہی بھرتی کیے گئے ملازمین کی برطرفی کا آرڈر جاری کیا تھا مگر جب احتجاج ہوا تو یہ حکم واپس لے لیا کیونکہ یہ ملازمین رشوت لے کر زیادہ اور سیاسی بنیاد پر کم بھرتی ہوئے تھے۔ انھیں بھرتی کرتے ہوئے یہ خیال نہیں رکھا گیا پہلے ہی موجود عملے کو تنخواہیں دینے کے لیے او زیڈ ٹی فنڈ کم مل رہا ہے تو نئے ملازمین کو تنخواہیں کیسے دی جائیں گی؟
سندھ کے مقابلے میں اور کسی بھی صوبے کے بلدیاتی اداروں کی مالی حالت اتنی خراب نہیں ہے اور وہاں کچھ نہ کچھ تعمیری و ترقیاتی کام بھی ہو رہے ہیں۔ سابق وزیر بلدیات اویس مظفر نے بلدیاتی اداروں کی حالت بہتر بنانے کی کوشش کی تو انھیں ہٹادیا گیا اور سندھ میں اب کوئی ایسا رکن سندھ اسمبلی شاید نہیں ہے کہ جسے اس تباہ حال محکمے کی وزارت دی جاسکے اسی لیے وزیر اطلاعات سندھ کو وزیر بلدیات کے عہدے کا چارج دے کر کام چلایا جا رہا ہے۔
سندھ کے وزیر بلدیات اور شرجیل میمن اور پنجاب کے وزیر قانون کئی ماہ سے کہہ رہے تھے کہ نومبر، دسمبر یا جنوری میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے جاسکتے۔ یہ وزرا یہ بیانات تب سے دے رہے تھے جب تک دونوں صوبوں کی ہائی کورٹس نے ان ہی حکومتوں کی من پسند حلقہ بندیاں غیر قانونی قرار نہیں دی تھیں۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ تو وزیر اطلاعات کے برعکس پھر بھی کہتے تھے کہ سندھ حکومت 18 جنوری کو بلدیاتی انتخابات کرانے کو تیار ہے مگر پنجاب حکومت نے تو اس سلسلے میں چپ کا روزہ رکھا ہوا تھا اور پنجاب کے وزیر قانون ہی اس سلسلے میں بیانات دیتے رہتے تھے کہ 30 جنوری تک بھی بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے جاسکتے۔
سندھ اور پنجاب کی حکومتوں کو اس معاملے میں سرگرمی دکھانا چاہیے تھی کہ بلوچستان 7 دسمبر کو انتخابات کراسکتا ہے تو ہم جنوری میں بھی بلدیاتی انتخابات کیوں نہیں کرا سکتے۔
سندھ اور پنجاب کی حکومتوں نے اپنی اکثریت کے زور پر من پسند حلقہ بندیاں متنازعہ کرائی تھیں اور دونوں حکومتیں جانتی تھیں کہ متنازعہ حلقہ بندیاں عدالتوں میں چیلنج ہوں گی اور غیر قانونی قرار پائیں گی۔ پنجاب کے وزیر قانون آیندہ تین ماہ میں تو کیا آیندہ تین سالوں میں بھی بلدیاتی انتخابات نہ ہونے کے بیانات دیتے رہے۔
تحریک انصاف کے سربراہ نے تین ماہ میں کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا اور سپریم کورٹ کے طلب کرنے کے باوجود کے پی کے حکومت نے اپنے چیئرمین کا فرمان ہوا میں اڑا کر بلدیاتی انتخابات کرانے کی تاریخ نہیں دی اور وزیر کے پی کے نے 15 جنوری کو بلدیاتی انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا اعلان کیا تھا مگر وہ بھی اپنی زبان کا پاس نہ رکھ سکے اور اب تو کے پی کے کی صورت حال بہت زیادہ خراب ہوچکی ہے اور طالبان کا خوف اب انھیں کبھی بھی بلدیاتی کرانے کے قابل نہیں چھوڑے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ با اختیار بلدیاتی نظام کے مخالف ہمارے ارکان اسمبلی اور نام نہاد جمہوری حکومتیں ہیں جو نہیں چاہتیں کہ عوام کے نچلی سطح پر منتخب نمایندوں کو منتخب ہوکر آگے آنے کا موقع ملے۔ بلدیاتی اداروں کے نمایندوں کی وجہ سے ارکان اسمبلی کے مفادات متاثر ہوتے ہیں اور ان کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ بلدیاتی انتخابات سے انحراف پر متعلقہ صوبوں کی انتظامیہ کے خلاف آئینی کارروائی ہونی چاہیے۔