اسلام کا بلدیاتی نظام…پہلا حصہ

قرآن حکیم نے ہمیں بار بار بتایا ہے کہ ہم ’’آدم و حوا‘‘ کی اولاد ہیں اور زمین پر اﷲ کا کنبہ ہیں

بلدیاتی نظام کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ یہ نظام انگریزوں کا بنایا ہوا ہے جب کہ اس کے برعکس تاریخ ہمارے سامنے یہ دلچسپ حقیقت لاتی ہے کہ حضورؐ کے دور ہی سے ہم بلدیاتی نظام سے آشنا تھے۔ اب سے چودہ سو برس پہلے مغرب بلدیاتی نظام سے واقف ہی نہ تھا۔ ہم نے تسخیر کائنات کا سبق بھلا دیا اور علم و عمل کو چھوڑ کر طاؤس و رباب کو سینے سے لگالیا تو سب کچھ رکھتے ہوئے مفلس اور بے نوا ہوگئے اور جو جہالت کے گم کردہ راہی تھے ہماری کتابیں پڑھ کر سنبھلے اور نشاۃ ثانیہ کا اہتمام کیا اور وہ آج ستاروں پر کمند ڈال رہے ہیں اور ہم خاموش تماشائی، فرق صرف عمل کا ہے۔

قرآن حکیم نے ہمیں بار بار بتایا ہے کہ ہم ''آدم و حوا'' کی اولاد ہیں اور زمین پر اﷲ کا کنبہ ہیں۔ دنیا اور دنیا کی ہر شے ہمارے لیے مسخر کی گئی ہے۔ اسلام نے جہاں سیاسی، معاشی اور عمرانی معاملات و مسائل میں رہنمائی کی، وہیں اس دین فطرت نے انسانی معاشرے کے قیام و بقا کے اصول بھی بتائے۔ انسان فطرتاً مل جل کر رہنا چاہتا ہے، مل جل کر رہنے سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں، ان کو حل کرنے کے طریقے بتائے کہ صاف اور سیدھا طریقہ یہ ہے کہ ہم اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں، مسائل خودبخود حل ہوتے جائیں گے۔ مل جل کر رہنے سے معاشرہ بڑھتا ہے۔ معاشرہ بڑھنے لگے اور بستیاں پھیلنے لگیں تو مسائل بے حد بڑھ جاتے ہیں۔ انسانی فطرت کے اس معاملے کو پیش نظر رکھ کر بلدیاتی نظام کے بارے میں اﷲ کے پیارے رسولؐ نے مسلمانوں کو ہدایت فرمائی کہ ''اپنے شہروں کو بہت پھیلنے نہ دینا''۔

علامہ اقبالؒ یورپ سے واپسی پر کچھ دن اٹلی میں ٹھہرے، مسولینی سے ملاقات کی تو اسے شہروں کی حدود کے بارے میں رسول پاکؐ کا یہ فرمان عالیشان سنایا تو وہ اش اش کر اٹھا۔ شہروں کی حدود کے بڑھ جانے سے بے پناہ مسائل پیدا ہوتے ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں، مہنگائی بڑھ جاتی ہے، امن و امان متاثر ہوتا ہے، جرائم میں اضافہ ہو جاتا ہے، گندگی بڑھ جاتی ہے، ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے، اخلاقی گراوٹ بڑھنے لگتی ہے، کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ شروع ہوجاتی ہے، بے روزگاری عام ہوجاتی ہے۔ غرض یہ کہ شہروں کی حدود بڑھنے سے مسائل ہی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی ہے۔ اوپر بیان کی گئی تمام باتوں کا موازنہ کراچی کے حالات سے کیجیے اور خود دیکھ لیجیے کہ یہ تمام مسائل یہاں موجود ہیں یا نہیں؟ اور پھر 14 صدیوں پہلے کے ارشاد پاک کی حقانیت پر غور کیجیے۔مدینہ منورہ مسلمانوں کی پہلی شہری مملکت تھی۔ اس لیے شہری حکومت کے واضح خدوخال ہمارے پاس موجود ہیں۔ اﷲ کے رسولؐ نے جو پہلی اسلامی مملکت بنائی، اس کی بنیاد اس عقیدے پر تھی کہ اقتدار اعلیٰ صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کی ذات ہے اور ہم اس کے کارندے محض۔ اس کے بعد حضورؐ پاک نے ''میثاق مدینہ'' کے ذریعے مشاورتی عمل کو آگے بڑھایا، جس کا اس دور میں کوئی تصور نہ تھا۔

مسلمان مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے جس شہر میں آئے اس کا نام یثرب تھا۔ حضور اکرمؐ کی یہاں تشریف آوری کے بعد اس کا نام ''مدینۃ النبیؐ'' ہوگیا۔ یہاں آس پاس، دور نزدیک کئی کئی قبیلے اپنی چھوٹی چھوٹی بستیاں بناکر آباد تھے، یہودیوں کی بھی بستیاں تھیں۔ ان کے علاوہ نصاریٰ اور بت پرست بھی آباد تھے۔ یہ ایک شہر نہیں تھا اور نہ ہی یہاں آپس میں جڑی بستیاں تھیں۔ اس لیے یہاں کوئی شہری حکومت قائم نہ تھی۔ قبیلے داری نظام تھا اور قبیلے کا سردار ہی حکمران ہوتا تھا۔ رسول اکرمؐﷺ نے راہ ہجرت میں قدم رکھا تو آپؐ کی زبان مبارکہ پر سورہ بنی اسرائیل کی ایک آیت بکثرت رہتی تھی۔ ترجمہ: ''اے اﷲ (نئی منزل میں) صدق و صفا سے داخل کر اور جہاں سے نکالا ہے، وہیں نکلنا بھی صدق و صفا پر مبنی ہو (نئی جگہ مجھے دین پھیلانے کے لیے)) غلبہ عطا فرما''۔ چنانچہ اﷲ پاک نے آپؐ کی دعا قبول فرمائی اور اسلامی مملکت کے قیام کے لیے آپؐ کو غلبہ عطا فرمایا۔ابھی آپؐ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مکان پر ہی قیام پذیر تھے کہ آپؐ نے میثاق مدینہ کا اہتمام فرمایا۔ اس کے لیے آپؐ نے مہاجرین، انصار، یہود، عیسائی اور دیگر قبائل کو جمع کیا۔ اس موقع پر آپؐ نے جو گفتگو فرمائی، اس کے بعد اس موقع پر ایک تحریر لکھوائی۔ ابتدائی مورخین نے اسے ''صحیفہ'' کا نام دیا۔ یہ حکمران وقت کا ایک فرمان تھا، جس پر ان لوگوں کے دستخط تھے، ساتھ ہی تمام لوگوں کا اقرار نامہ بھی تھا۔ اس میں مسلمان اور مشرکین دونوں شریک تھے۔ اسے آج کی اصطلاح میں دستور تو نہیں کہا جاسکتا لیکن دستور کی اساس ضرور قرار دیا جاسکتا ہے۔

اس میثاق میں جو باتیں تھیں وہ یہ ہیں:

٭آبادیوں میں امن و امان قائم رہے گا تاکہ سکون سے نئی نسل کی تربیت کی جاسکے۔

٭مذہب اور معاش کی آزادی ہوگی۔


٭فتنہ و فساد کو بزور قوت ختم کیا جائے گا۔

٭ بیرونی حملوں کا مل کر مقابلہ کیا جائے گا۔

٭ حضور پاکؐ کے حکم کے بغیر کوئی جنگ کے لیے نہیں نکلے گا۔

٭ میثاق کے احکام کے بارے میں اختلاف پیدا ہوا تو اﷲ کے رسولؐ سے رجوع ہوگا۔

اس معاہدے میں مسلمانوں، یہودیوں اور مختلف قبیلوں کے لیے الگ الگ دفعات مرقوم ہیں۔ یہ اصل میں مدینے کی شہری زندگی کے نظم و نسق کا ابتدائی ڈھانچہ تھا۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ حضور پاکؐ یونان کی شہری ریاستوں کی طرح کوئی محدود ریاست قائم نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ آپؐ نے عالمگیر مملکت کی بنیاد ڈالی تھی جو مدینہ منورہ کی چند گلیوں سے شروع ہوئی اور روزانہ 274 مربع میل کی رفتار سے پھیلتی ہوئی اس وقت دس لاکھ مربع میل تک جا پہنچی تھی جب اﷲ کے رسولؐ نے دنیا سے پردہ فرمایا۔ پھر اس عالمگیر مملکت کے تصور کو سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمر بن خطابؓ نے آگے بڑھایا اور سو برس کے اندر اندر یہ تین براعظموں میں پھیل گئی۔

میثاق مدینہ میں بلدیاتی نظام کے تعلق سے درج ذیل امور سامنے آتے ہیں۔

امن وامان کا قیام، تعلیم و تربیت کی سہولتیں، روزگار، سکونت اور ضروریات زندگی کی فراہمی۔ یہ تمام امور بلدیاتی نظام کی بنیاد ہیں۔

ابتداً جب ایک معاشرے میں رائے عامہ بیدار ہوتی تھی تو ان کا پہلا خیال یہ ہوتا تھا کہ مسائل کو نمٹانے کے لیے کوئی نظام قائم کیا جائے۔ یہ شہری مملکت کی ابتدائی صورت ہوتی تھی، پہلے بڑے بڑے شہر کم ہوتے تھے، اکثر ایک صوبے میں ایک ہی بڑا شہر ہوتا تھا۔ بعد میں جب کئی شہروں پر مشتمل ریاستیں بننے لگیں تو صورت حال بدل گئی۔ شہروں نے اپنے بعض حقوق مرکز کو دے دیے اور اپنا کاروبار چلانے کے لیے بلدیاتی مشینری بنالی۔ عہد حاضر سے قبل مقامی حکومتوں کا وہ تصور، جو آج ہمارے ذہنوں میں ہے، نہیں تھا۔ انگریزوں نے برصغیر کی آزادی سے قبل لوکل سیلف گورنمنٹ کا تجربہ کیا تھا جس کی صورت یہ تھی کہ رائے عامہ یا عوامی نمایندوں کے ذریعے شہر کے مسائل حل ہونے لگے۔ یوں حکومت اور مقامی حکومت کا دائرہ کار الگ الگ ہوگیا۔ (جاری ہے)
Load Next Story