دلچسپ غلطیاں

ہندو اور مسلمان کئی صدیوں سے ہندوستان میں ساتھ ساتھ رہ رہے ہیں۔ ریل کی دو پٹریوں کی مانند۔۔۔


Muhammad Ibrahim Azmi Advocate February 03, 2014
[email protected]

ہندوستان اور پاکستان کے لوگوں کے درمیان بڑی دلچسپ غلط فہمیاں پائی جاتی تھیں۔ قائد کے وطن میں جنگ ستمبر کے بعد پیدا ہونے والوں کی گاندھی کے دیش اور ہندوؤں کے بارے میں بہت کم معلومات تھیں۔ پھر بھارتی فلموں اور وی سی آر کے بعد میڈیا اور انٹرنیٹ کی بدولت کچھ غلط فہمیاں کم ہوئیں۔ اسی طرح بھارتی شہری سمجھتے تھے کہ پاکستان میں تمام عورتیں گھروں میں قید ہوتی ہیں اورکوئی ترقی نہیں ہوتی۔ پاکستانی اخبارات کارٹون دکھاتے کہ ہندوستان میں صرف اور صرف بھوک اور غربت ہے۔ ان چھوٹی چھوٹی غلط فہمیوں کے علاوہ دو بڑی تاریخی غلط فہمیاں تھیں۔ آئیے! تھوڑی تاریخ سمجھتے ہیں اور کچھ دلچسپ غلط فہمیوں پر نظر دوڑاتے ہیں۔

مغل شہنشاہوں میں اکبر بادشاہ کو بڑا سیکولر اور لبرل مانا جاتا ہے۔ اس پر بے شمار فلمیں اور ڈرامے بنائے گئے ہیں۔ اکبرکی پہلی شہرت یہ تھی کہ یہ اس وقت پیدا ہوا جب اس کے والد ہمایوں کو شیر شاہ سوری نے شکست سے دوچارکیا تھا۔ مسلمان کہتے ہیں کہ اکبر جس جگہ پیدا ہوا اس کا نام عمرکوٹ ہے اور ہندو اس مقام کو امرکوٹ کے نام سے جانتے ہیں۔ بے اولاد اکبر کی ایک بزرگ سلیم چشتی کے ہاں حاضری اور پھر اپنے بیٹے کا نام سلیم رکھنا اس کی کہانی کو دلچسپ بناتا ہے۔ اپنے بیٹے کو شیخ سلیم کے حوالے سے شیخو پکارنا آج تک ڈراموں میں دہرایا جاتا ہے۔ لاہور کے قریب رہنے والے شیخوپورہ کے باسیوں کو خوش کرنے کے بعد ہم ایک بار پھر تاریخ کے جھروکوں سے شہنشاہوں کو جھانکتے ہیں۔

ایک ڈرامے میں اکبر کے کردار کے لیے فنکاروں کی ضرورت تھی۔ بے شمار قدآور لوگوں میں ایک چھوٹے قد کا نوجوان بھی تھا۔ جب اسے نکال باہر کیا جا رہا تھا تو اس نے دعویٰ کیا کہ اکبر کوئی لمبا چوڑا شخص نہ تھا۔ وہ تو پہلی مرتبہ اس کا کردار کسی لمبے قد کے ہیرو نے ادا کیا تو لوگ سمجھے کہ اکبر ایسا ہی ہوگا۔ شہزادہ سلیم کی انارکلی سے محبت اور پھر اکبر کا اسے دیوار میں چنوا دینا ایسی فلموں کو مزید ڈرامائی بناتا ہے۔ اکبر کو سیکولر قرار دے کر اس کی تعریف کرنے والوں کو یہ سچائی اب بری لگنے لگی ہے۔ وہ کہنے لگے ہیں کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ خیر اب تک ہم اکبر کے کردار کے گرد ہی گھوم رہے ہیں۔ ہم نے اس کے حوالے سے اس دلچسپ غلط فہمی کا ذکر نہیں کیا جس کے لیے کالم لکھا جا رہا ہے۔

اکبر نے انارکلی سے تو نجات پالی لیکن اس کا بیٹا سلیم دو خواتین کے سبب مشہور ہوا ہے۔ جوانی میں سلیم کے ساتھ انارکلی اور بعد میں جب بادشاہ بن کر جہانگیر کا لقب اختیار کیا تو نور جہاں کے حوالے سے مشہور ہوا۔ ان دو خوب صورت عورتوں نے اکبر اور جہانگیر کو اچھا خاصا مشہور کردیا۔ شہنشاہ اکبر کی یہ مشہوری ہندوؤں میں بھی ہے اور مسلمانوں میں بھی۔ مسلمانوں میں اس لیے کہ وہ مسلمان تھا اور ہندوؤں میں اس لیے کہ اس نے کئی ہندو عورتوں سے شادی کی۔ ان میں مشہور جودھا بائی رہیں جو شہزادہ سلیم کی ماں تھیں۔ بھارت کی فلم ''جودھا اکبر'' ان درجن بھر فلموں میں شامل ہے جو اکبر پر بنائی گئیں اس کے باوجود بھی دونوں مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان غلط فہمیاں موجود ہیں اور وہ بھی اکبر کے نام کو لے کر۔

ہندو اور مسلمان کئی صدیوں سے ہندوستان میں ساتھ ساتھ رہ رہے ہیں۔ ریل کی دو پٹریوں کی مانند۔ سیدھی پٹریاں جو کبھی نہیں ملتیں۔ ایک دوسرے سے ساتھ رہنے کے باوجود الگ الگ۔ اس ساتھ اور اس جدائی نے دو غلط فہمیاں پیدا کی ہیں جن پر آج ہم کالم لکھ رہے ہیں۔ مسلمان اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں اور اس کو بڑا بلکہ سب سے بڑا مانتے ہیں۔ انڈیا کی ہزاروں یا لاکھوں مساجد سے روزانہ اذان کی آوازیں آتی ہوں گی جو کروڑوں ہندو بھی سنتے ہوں گے۔ اب ایک طرف وہ بھارتی غیر مسلم اذان میں اللہ اکبر کے الفاظ سنتے ہوں گے جو رب کی کبریائی بیان کرتے ہیں تو دوسری طرف مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کی تاریخ پڑھتے ہوں گے۔ ہندو اور مسلمان نہ ایک دوسرے کے مذاہب سے بہت زیادہ واقف ہوتے ہیں اور نہ بالکل ہی انجان و بے خبر ہیں۔ یہ ادھوری اور ناممکن معلومات غلط فہمیوں بلکہ دلچسپ غلط فہمیوں کا سبب بنتی ہے۔

ایک طرف اذان کے الفاظ اور دوسری طرف اکبر کا تاریخ میں تذکرہ اور فلموں میں صرف گلیمر۔ کم معلومات کے حامل برہمن و سکھ یہ سمجھنے لگے کہ چونکہ اکبر بڑا اچھا بادشاہ گزرا ہے اس لیے مسلمان اذان میں (نعوذ باللہ) اس کا نام پکارتے ہیں۔ لاحول ولاقوۃ۔ یہ ناقص اور نامکمل معلومات غلط فہمیوں کا سبب بنتی ہیں۔ یہ عام انڈین ہندو کی بات ہے۔ نہرو اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن جیسے لوگ بھارت کی تاریخ سے واقف تھے۔ 14 اگست 1947 کو ہندوستان کے آخری وائسرائے نے قائد اعظم کو یاد دلایاکہ اکبر بڑا وسیع الظرف بادشاہ تھا اور اقلیتوں کے حوالے سے پاکستانیوں کو اس سے سبق سیکھنا چاہیے۔ قائد اعظم نے جواب دیا کہ مغل بادشاہ اکبر ہمارے لیے آئیڈیل نہیں۔ مسٹر جناح نے کہا کہ حضرت محمدؐ کی ذات بہترین نمونہ ہے جنھوں نے اختیارات ہونے کے باوجود کمزوروں پر شفقت کی نظر فرمائی۔ اس واقعے سے تین دن قبل کی تقریر کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کو تقریب حلف برداری کے موقعے پر اس جوابی مکالمے کو یاد رکھنا چاہیے اور کسی غلط فہمی کو اپنے دل میں جگہ نہیں دینی چاہیے۔

غوری اور پرتھوی دو بادشاہ بھی تھے اور اسی نام کے میزائل پاکستان اور ہندوستان میں ہیں۔ جس طرح بھارت کے لوگوں کی ہمارے بارے میں کم معلومات ہیں اسی طرح ہماری بھی ان کے بارے میں معلومات کوئی اچھی نہیں ہیں۔ کہتے ہیں کہ بھارت نے پرتھوی میزائل بنایا تو جواب میں پاکستان نے جو میزائل بنایا اس کا نام غوری رکھا۔ شہاب الدین غوری نے پرتھوی راج کو شکست دی تھی۔ یوں پاکستان نے میزائل کا ایسا نام رکھا جو بھارت کا توڑ تھا۔ بھارتی کہتے ہیں کہ ہم نے یہ نام کسی بادشاہ کے نام پر نہیں بلکہ زمین کو پرتھوی کہتے ہیں اس لیے یہ نام رکھا۔ اب بھارتی جھوٹ بول رہے ہیں یا پاکستانیوں کو ہندی کی سمجھ نہ تھی کہ اس کے کیا معنی ہیں؟ سچ یہ ہے کہ غوری اور پرتھوی دو تاریخی شخصیات تھیں، ایک ہندو اور ایک مسلمان۔ چونکہ کلمہ گو بادشاہ نے بت پرست بادشاہ کو جنگ میں ہرا دیا تھا تو پاکستان نے بھارت کے نہلے کا جواب دہلے سے دینے کے لیے پرتھوی کا جواب غوری سے دیا۔

شہاب الدین غوری نے 1186 میں لاہور فتح کرلیا۔ پھر اس کا مقابلہ دہلی اور اجمیر کے ہندو راجہ پرتھوی راج چوہان سے۔ فتح و شکست کے چھ برسوں بعد غوری نے پرتھوی کو شکست دے دی۔ غوری کی جیت اور پرتھوی کی ہار۔ یہ ہم نے تاریخ میں پڑھا تھا۔ جب بھارت نے اگنی میزائل کے تجربوں کے بعد پرتھوی کے نام سے میزائل بنایا تو ہماری ایک رگ پھڑک اٹھی۔ مسلمان کی رگ اور ہندو سے مقابلے کی تاریخ۔ آج بھی کرکٹ و ہاکی کے ہند و پاک مقابلے دنیا میں سب سے زیادہ اور دلچسپی کے ساتھ دیکھے جانے والے مقابلے ہوتے ہیں، ان کا سبب ہزار برس کا ساتھ ہے۔ کچھ کچھ معلومات اور کچھ کچھ لاعلمی کے ساتھ۔ کچھ خبر ہے دشمن کی اور کچھ بے خبری ہے اس کی تاریخ کی۔ دونوں طرف سے ایسی ناقص معلومات پیدا کردیتی ہیں ایسی دلچسپ غلط فہمیاں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں