توقعات سرد پانی میں غرق

چین پر ایک انتہائی چھوٹی لیکن ایک انتہائی غیر معمولی امیر ترین اقلیت کا تسلط ہے جو ایک طرف ریاست کو کھا رہی ہے۔۔۔


Zuber Rehman February 03, 2014
[email protected]

سرمایہ دارانہ دانشور یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ ایشیا، عالمی سرمایہ داری کے لیے انجن کا کام دے گا۔ چین کی ترقی سست پڑ چکی ہے جب کہ ہندوستان کی معیشت بھی تیزی سے گراوٹ کی طرف گامزن ہے۔ یورپی معیشت جمود کی زد میں ہے۔ جاپان کا تناظر بھی کسی طور پر خوشگوار نہیں ہے۔ جاپانی حکومت اپنی معیشت کو رواں رکھنے کے لیے اس میں مزید پیسے انڈیل رہی ہے۔ لیکن یہ پالیسی انتہائی غیرمستحکم ہے۔ جاپان کا حکومتی قرضہ اس کی جی ڈی پی (کل قومی پیداوار) کے 250 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ ایشیا اور چین کی سست روی کے باعث ان سے وابستہ سبھی امیدیں خاک میں مل چکی ہیں۔ ابھرتی ہوئی پانچوں معیشتیں برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ سبھی کی ایک جیسی کیفیت ہوچکی ہے۔ جب کہ مشرقی معیشتوں کے بارے میں آئی ایم ایف کی پیشن گوئی بھی مایوس کن ہے۔

آئی ایم ایف اب ان ابھرتی ہوئی معیشتوں کے بارے میں یہ کہہ رہا ہے کہ ''بنیادی ڈھانچہ سست روی کی زد میں آچکا ہے۔ اگر یورپ اور امریکا خریداری نہیں کر رہے ہیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ چین پیداوار نہیں کرسکتا اور جب چین پیدا نہیں کرے گا تو پھر برازیل، ارجنٹائن اور آسٹریلیا جیسے ممالک اپنی اجناس برآمد نہیں کرسکیں گے۔ برکس (Brics) (برازیل، رشیا، انڈیا، چائنا اور ساؤتھ افریقہ) ممالک کے اندر قدم رکھنے والی سٹے باز سرمایہ کاری، اب ان ممالک سے باہر نکلتی جا رہی ہے۔ جس کے باعث ان کی کرنسیوں کی قدر کم ہوتی جا رہی ہے۔ انڈیا کا روپیہ ہو کہ انڈونیشیا کا، ارجنٹائن کا پیسو ہو کہ برازیل کا رئیل یا پھر جنوبی افریقہ کا رینڈ ہو یا تھائی لینڈ کا بھات ان سب کو تیز گراوٹ کا سامنا ہے۔

نائیجیریا کے وزیر خزانہ نے انتباہ کیا ہے کہ امریکا کی جانب سے مقداری آسانی کو واپس لینے سے ابھرتی معیشتیں ڈوب سکتی ہیں۔ ایسی بات ملائیشیا کے وزیر اعظم نجیب رزاق نے بھی کہی ہے۔ اسی نے ہی یہ پیشن گوئی کی تھی کہ سرمایہ امریکا کی طرف واپس آنا شروع کردے گا۔ مضبوط معاشی ترقی اورمعیار زندگی میں اضافے نے گزشتہ ایک دہائی کے دوران طبقاتی کشمکش کو پس پشت ڈال دیا تھا۔ لیکن اب برازیل اور ترکی میں ترقی جامد ہوچکی ہے۔ تھائی لینڈ اور یوکرائن میں تاریخی احتجاج ہورہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سبھی ترقی پذیر ملکوں کے اندر ترقی اس قدر سست اور مانند پڑ چکی ہے جس کی بدولت ایک پوری نوجوان نسل کے لیے محنت کی منڈی میں قدم رکھنا بہت مشکل ہوچکا ہے۔ یورپ کی بیشتر ریاستوں کی مانند روس کو قرضوں کے مسئلے جیسی سنجیدہ الجھن کا سامنا نہیں ہے اور یہ سب تیل اور گیس کی برآمدات اور اس کی وجہ سے ہونے والی ترقی کے طفیل ہے اور جس کی مدد سے پچھلے کچھ عرصے کے دوران اس کے مالیاتی ذخائر مستحکم ہوچکے ہیں۔

لیکن اب اس کی بھی حدود ختم ہوچکی ہیں۔ دوسرے برکس(Brics) ممالک کی طرح روسی معیشت بھی لگ بھگ 1فیصد کی کم شرح نمو کے ساتھ تنزلی کی طرف گامزن ہوچکی ہے۔ برکس ممالک کا بحران دراصل چین کی معاشی سست روی کی بدولت ہے۔ چین نے جب ابھرنا شروع کیا تھا تو بہت سے لوگوں نے اسے سرمایہ دارانہ نظام کے درخشاں مستقبل کی ضمانت سمجھنا شروع کردیا تھا (ان میں کچھ خود کو کمیونسٹ کہلانے والے بھی شامل تھے)۔ لیکن چین کے ابھار نے صرف سرمایہ دارانہ نظام کے اندرونی تضادات کو تیز کرنے کا ہی کام کیا ہے۔ ایک عرصے تک کے لیے تو چینی معیشت کی دھماکا خیز ترقی نے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو آکسیجن فراہم کیے رکھا۔ اب یہ عظیم الشان سہولت پلٹ کر عظیم الشان جھنجھلاہٹ بن چکی ہے۔ چینی معیشت میں کی جانے والی بے تحاشہ سرمایہ کاری نے بھاری مقدار میں سستی اشیا کی شکل میں اپنا اظہار کیا جسے چین سے باہر اپنے لیے منڈیا درکار پڑتی گئیں۔

عالمگیر سطح پر پیداوار کرنے والوں کے لیے چین کی سستی اشیا کی بھرمار نے ایک دہائی سے زائد عرصے میں زائد پیداوار کے بحران کو اور بھی شدید کیا ہے۔ دیہی علاقوں سے سستی محنت کی بے پناہ فراہمی، جدید مشینری اور تکنیک جسے بھاری ریاستی رعایت کی پشت پناہی حاصل تھی، ان سب عوامل نے مل کر چین کو یہ موقع فراہم کردیا کہ وہ ایک طاقتور صنعتی بنیاد تعمیر کرسکے۔ اس کیفیت میں دنیا بھر میں روزگار اور صلاحیتوں کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ جن ملکوں میں مقابلے کی صنعت اور صلاحیت تھی وہاں فیکٹریاں بند ہوتی چلی گئیں۔ چین سے سستی اشیا کے بہاؤ کی وجہ سے غیر ملکی کمپنیاں دہل کے رہ گئیں۔ شروع شروع میں تو شرح منافع بہت ہی زیادہ تھا لیکن جیساکہ مارکس واضح کرتا ہے کہ پھر جب دوسرے ملکوں کے سرمایہ دار اشیا کا ذخیرہ کرلیتے ہیں تو شرح منافع عمومی سطح پر واپس آجاتا ہے۔ چین میں ہم اس وقت یہی ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ بے تحاشہ ترقی کا دور اپنی حدود کو پہنچ چکا۔ اب چین کو ویسے مسائل کا سامنا ہے جو ہر ایک سرمایہ دارانہ معیشت کا مقدر ہوتا ہے۔ چین کی کم قیمت کی حامل اشیا نے قریب قریب ہر شعبے کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ لیکن جوں ہی کسی ایک مخصوص صنعت کے حوالے سے عالمگیر پیداوار کی بھاری تعداد چین میں داخل ہوں تو زائد صلاحیت جلدی پھلنے پھولنے لگی۔

اب ان کی چینی معیشت کی اس زائد پیداوار (زائد صلاحیت) کی وجہ سے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے ہیں۔ اب دنیا کی دوسری بڑی معیشت ایک بہت بڑے خطرے کی زد میں آچکی ہے۔ عالمی مالیاتی بحران کے دوران چین نے عالمی منڈی کو چلائے رکھنے کے لیے ایک بہت بڑے محرک پیکیج کی معاونت فراہم کی جس سے منڈی کو آکسیجن ملتی رہی۔ اس کے نتیجے میں چینی معیشت کو بھی بہت تقویت ملی اور جو 2009 اور 10 میں 8.7 فیصد سے ترقی کرکے 10.3 فیصد کی شرح پر پہنچ گئی۔ اوشاہیلے نے 17 جون 2013 کے فنانشل ٹائمز میں لکھا کہ ''یہاں بے پناہ زائد صلاحیت موجود ہے جب کہ طلب اور رسد میں توازن کے لیے کوئی مناسب بندوبست نہیں ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں دی جانے والی رعایت یہاں کی کل صنعتی پیداواری آمدنی کے 30 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ بہت سی کمپنیوں کو رعایت نہ ملنے کے باعث دیوالیہ ہوجائیں گی۔ حکومت کا وعدہ تھا کہ کسی طور پر بھی شرح نمو کو 8 یا 9 فیصد سے کم نہیں ہونے دے گی۔ لیکن اب معاملات پہلے جیسے نہیں رہے۔ چین کی شرح نمو 7.5 فیصد تک گر گئی ہے۔

چین پر ایک انتہائی چھوٹی لیکن ایک انتہائی غیر معمولی امیر ترین اقلیت کا تسلط ہے جو ایک طرف ریاست کو کھا رہی ہے تو دوسری طرف یہ چین کے محنت کشوں کا بھی بدترین استحصال کرتی چلی آرہی ہے۔ ڈیڑھ ارب کی آبادی میں کروڑ پتیوں (امریکی ڈالروں میں) کی تعداد 1.2 ملین یعنی 12 لاکھ ہے جوکہ کل آبادی کا 0.1 فیصد ہے۔ انھیں استحصال کے باعث گزشتہ برس چین کے مزدوروں اور کسانوں نے سوا لاکھ مظاہرے کیے اور کچھ میں کامیابی بھی حاصل کی۔ پاکستان کا ایک دردناک اور دل دہلا دینے والے واقعے سے روشناس کروانا چاہوں گا۔ گزشتہ دنوں پشاور میں سید بادشاہ نے بینک سے 3 لاکھ روپے ایڈوانس تنخواہ لی تھی۔ وہ جب اس کے لیے فارم بھر رہا تھا تو اس میں 18.3 فیصد سود کا کوئی ذکر تک نہیں تھا۔ مگر جب قرض لے لیا تو سود سمیت 7000 روپے تنخواہ سے کٹوتی شروع ہوگئی۔ غریب سرکاری ملازم نے بہن کی شادی کے لیے یہ قرض لیا تھا۔ سید بادشاہ پریشانیوں سے نڈھال ہوکر اس دنیا سے کوچ کرگیا۔ اب بینک والے کہتے ہیں کہ اس کے بیوی بچے ادا کریں گے۔ جب کہ بیوی ہاؤس وائف اور بچے چھوٹے ہیں۔ یہ ہے سرمایہ داری کی بے رحمی۔ اب حکومت کے پی کے کی ذمے داری ہے کہ اس انسانیت سوز حرکت کا نوٹس لے۔ جب دنیا میں ایک جانب دولت کا پہاڑ اور دوسری جانب افلاس زدہ عوام کی فوج ہوگی تو یقینا طبقاتی کشمکش میں اضافہ ہوگا اور ہو رہا ہے۔ پھر عالمی انقلاب ہی اس کا حل ہے جو امداد باہمی کا ایسا سماج قائم کرے گا جہاں کوئی سرمایہ دار ہوگا اور نہ کوئی مزدور۔ سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر بانٹ لیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں