امریکن صہیونی لابی
امریکا میں موجود صہیونی لابی کی یہ تنظیمAIPACامریکن سیاست دانوں کو ٹیلی فون کالز پر بھاری رقوم کی آفر کرتے ہیں۔۔۔
دور حاضر میں تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی حالات بالخصوص مشرق وسطیٰ کے حوالے سے تبدیل ہونے والی صورتحال کے بعد فلسطین پر قابض صہیونیوں اور امریکا میںموجود صہیونی لابی AIPACکے مابین شبہات جنم لے رہے ہیں جس کے باعث امریکن صہیونی لابی اور صہیونی قابضین نے مل بیٹھ کر اپنے مابین پیدا ہوئے شبہات کو دور کرنے کا فیصلہ کیاہے تا کہ فلسطین پر صہیونیوں کے غاصبانہ تسلط کو قائم رکھا جا سکے۔صہیونیوں کی گھبراہٹ اور پریشانی کے بارے میں چند امریکن سیاسی تجزیہ نگاروں نے امریکا اور ایران کے مابین ہونے والی گفتگو کو مثبت قرار دیا ہے اور اس مسئلے کو صہیونیوں کی سب سے بڑی پریشانی قرار دیا ہے، واضح رہے کہ اسرائیل ہمیشہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف منفی پراپیگنڈا کرتے ہوئے راگ الاپتا رہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران مشرق وسطیٰ کے لیے خطرہ ہے تاہم موجودہ حالات اور واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ خود اسرائیل اور امریکا میں موجود صہیونی لابی ہی نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پورے خطے سمیت پوری دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے ، حال ہی میں ایک عالمی ادارے کے سروے کی رپورٹ میں شایع ہوا ہے کہ امریکا اور اسرائیل دنیا کے امن کے لیے خطرہ ہیں۔
حال ہی میں 20جنوری 2014ء کو ایران پر عالمی پابندیوں کو نرم کر دیا ہے جس کے بدلے میں ایران نے بین الاقوامی معاہدے کے مطابق یورینیم کی افزودگی میں کمی کی ہے،پہلے کی طرح اب بھی ایرا ن نے اٹامک انرجی کے بین الاقوامی ادارے IAEAکے ساتھ تعاون سمیت ادارے کے مشاہدہ کاروں کو ایٹمی پلانٹ کے معائنے کی اجازت دی ہے جس کے بعد حالات میں تیزی سے تبدیلی آنا شروع ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اور امریکا میں موجود صہیونی لابی شدید شبہات اور پریشانی میں مبتلا ہو گئی ہے۔واضح رہے کہ ایران نے نومبر2013ء میں طے پانے والے ایک معاہدے میں جس میں امریکا سمیت روس، چین اور یورپی ممالک شامل تھے ، چھ ماہ تک یورینیم کی افزودگی میں کمی کا اعلان کر دیا تھا۔اس کے جواب میں امریکا سمیت یورپی یونین نے ایران پر سے کچھ پابندیوں میں نرمی کا اعلان کر دیا تھا،چھ مہینے کا ہونے والا یہ معاہدہ ہر طرح سے ایران کے حق میں رہا اور ایران کو موقع ملا کہ ان چھ ما ہ میں اپنی تجارتی سرگرمیوںکو تیز کر سکے، جب کہ دوسری طرف صہیونی اس فیصلے سے شدید پریشان نظرآئے۔
یہی وجہ تھی کہ اسرائیل سمیت امریکا میں موجود صہیونی لابی نے روز اول سے امریکا ، یورپی یونین اور ایران کے درمیان ہونیوالے مذاکرات کو مسترد کرتے ہوئے اس بات کی کوشش کی کہ کسی طرح اس معاہدے کو ختم کیا جائے کیونکہ اسرائیل نے پہلے روز سے ہی اسلامی جمہوریہ ایران کے نیوکلیئر منصوبوں کو خطرہ قرار دے رکھا تھا جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ایران واحد ملک ہے جو مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے سنجیدہ کوششوں میں مصروف عمل ہے اور اس کی واضح مثال ایران کی جانب سے فلسطینیوں کو دی جانیو الی کروڑوں ڈالر کی امداد سمیت مسلح مدد بھی شامل ہے ، اسرائیل کو ایران کا یہ رویہ شدید ناگوار گزرتا ہے اور خود اسرائیل کہ جس کے پاس سیکڑوں ایٹم بم اور خطرناک ہتھیار موجود ہیں ، ایران کو خطرہ قرار دیتا ہے جو کہ مضحکہ خیز ہے۔
امریکا میں موجود صہیونی لابی کی جانب سے امریکا اور عالمی طاقتوں کے ایران کے ساتھ ہونیوالے کامیاب مذاکرات اور ایران پر سے پابندیوں کو کم کیے جانے کے بعد زبردست مہم کا آغاز کیا گیا جس کا خود امریکا میں صہیونی لابیAIPAC کے ایک سابق ذمے دار MJ Rosenburgنے بھی چند ہفتوں پہلے انکشاف کیا کہ امریکا میںموجود صہیونی لابی امریکی سیاست پر ہمیشہ کی طرح اب بھی اثر انداز ہونے کی زیادہ کوششیںاس لیے کر رہی ہے کہ عالمی طاقتوں اور ایران کے مابین طے پانے والے معاہدے کو منسوخ کیا جائے۔MJ Rosenburg کاکہنا ہے کہ شام پر امریکی حملہ کا ماحول بنانا بھی امریکا میں موجود صہیونی لابی کا براہ راست کارنامہ تھا ، کیونکہ فلسطین پر قابض صہیونی اور امریکا میں صہیونی لابی چاہتی ہیں کہ ایرانی مفادات کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جائے۔لیکن شام پر امریکی حملے کے معاملے میں AIPACبری طرح ناکام رہی اور ان کی مہم کامیاب نہ ہو سکی۔
امریکا میں موجود صہیونیوں کی تنظیم AIPACکے ایک اعلیٰ عہدیدار Steve Rosen اپنے انٹرویو کے دوران ایک رومال دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم چوبیس گھنٹوں سے بھی پہلے اس رومال پر امریکن کانگریس کے 70سینیٹرز کے دستخط حاصل کر سکتے ہیں،ان کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ امریکا میں موجود صہیونی لابی کس طرح سے امریکن کانگریس پر کنٹرول رکھتی ہے لیکن شام پر امریکی حملے کے بارے میں امریکن عوام نے امریکی انتظامیہ پر شدید دبائو دیا تھا جس کے باعث امریکا نے شام پر حملہ کرنے سے خود کو دور رکھا۔
امریکا میں موجود صہیونی لابی کی یہ تنظیمAIPACامریکن سیاست دانوں کو ٹیلی فون کالز پر بھاری رقوم کی آفر کرتے ہیں جب کہ سیاست دانوں کو خریدا جاتا ہے تاکہ ملک کی سیاست پر مکمل کنٹرول حاصل رہے یہی وجہ ہے کہ امریکن انتظامیہ نہ چاہتے ہوئے بھی متعدد مرتبہ فلسطین پر قابض صہیونیوں اور امریکا میں موجود صہیونی لابی کے سامنے بے بس نظر آتی ہے، حال ہی میں جنیوا ٹو کے رونما ہونے کے بعد فلسطین پر قابض صہیونی اور امریکا میں موجود صہیونی لابی ایک مرتبہ پھر سر گرم ہو گئی ہے جب کہ رپورٹس میں آیا ہے کہ صہیونی لابی شدید شبہات کا شکار بھی ہو چکی ہے۔
اسرائیل کو فلسطین پر قابض ہوئے پینسٹھ برس سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے ، اسرائیل اور اس کی صہیونی لابی اس کوشش میں مصروف ہے کہ کسی طرح عرب لیگ اور اس کے بعد عالمی سطح پر اسرائیل کے غاصبانہ اور ظالمانہ اقدامات کو تسلیم کیا جائے اور اس کام کے لیے امریکا میں موجود صہیونی لابی سرگرم عمل ہے اور حال ہی میں امریکی جریدوں میں شایع ہونے والی اطلاعات کے مطابق فلسطین پر قابض صہیونی اور امریکا میں موجود صہیونی لابی فلسطینیوں کی سر زمینوں پر یہودی آباد کاری کے حق کو تسلیم کروانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے جب کہ اقوام متحدہ کی جانب سے غاصب اسرائیل کے اس طرح کے اقدامات کی شدید مذمت کی جا چکی ہے لیکن امریکا میں موجود صہیونی لابی امریکن انتظامیہ پر دبائو بڑھا رہی ہے کہ ایران کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو منسوخ کیا جائے اور ساتھ ساتھ اسرائیل کو کھلی چھٹی دی جائے کہ وہ جس طرح چاہے او ر جب چاہے نہ صرف فلسطینیوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالے بلکہ فلسطینیوں کی نسل کشی کو بھی جاری رکھے۔
حال ہی میں خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال اور معاملات کے بعد دیکھا جا رہا ہے کہ اسرائیلی سلامتی اور سیاسی اعلیٰ عہدیدار شدید پریشانی کا شکار نظر آتے ہیں ، امریکا اور عالمی طاقتو ں کا ایران کے ساتھ ہونے والا معاہدہ نہ صرف ایران کے لیے بلکہ شام سمیت عراق کے معاملات پر بھی اثر انداز ہو گا اور اسی بات کی پریشانی صہیونیوں کو لاحق ہو چکی ہے،کیونکہ امریکا اور اسرائیل دونوں مضبوط اتحادی ہیں جب کہ اسرائیل کو یہ بات ہر گز منظور نہیں کہ ایران کے ساتھ ہونے والے معاہدے سے ایران کو کسی طرح کا فائدہ حاصل ہو۔ تاہم اوبامہ انتظامیہ نے اسرائیل اور سعودی عرب سمیت کئی ممالک کی ناراضگی مول لے لی ہے لیکن عالمی طاقتو ں اور ایران کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد کا عندیہ دے دیا ہے جس کے جواب میں ایران نے بھی مثبت جواب دیا ہے۔
دوسری جانب ایک مرتبہ پھر اسرائیلی غاصب وزیر اعظم نیتن یاہو نے نیو یارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ خطے میں امریکا کا انتخاب درست قدم نہیں ہے، لہذٰا اسرائیل کو اپنی سلامتی کے معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔
خلاصہ یہ ہے کہ خطے میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کے باعث فلسطین پر قابض صہیونی اور امریکا میںموجود صہیونی لابی محدودویت کا شکار ہو رہی ہے اور شام کی بگڑتی ہوئی صورتحال بھی اب مخالف مسلح گروہوں کیآپس میں لڑائی کے بعد کافی بہتر ہو رہی ہے جس سے اسرائیل کو شدید پریشانی اور دشواری کا سامنا ہے۔