اپنوں سے دور زندگی بیرون ملک رہایش سے خوف زدہ نہ ہوں

بہت سے لوگ بہتر مستقبل کے لیے بیرون ملک جانے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ کچھ تعلیم اور کچھ روزگار کے۔۔۔

بیرون ملک رہایش سے خوف زدہ نہ ہوں۔ فوٹو: فائل

بہت سے لوگ بہتر مستقبل کے لیے بیرون ملک جانے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ کچھ تعلیم اور کچھ روزگار کے لیے وہاں بسیرا کرنا چاہتے ہیں۔

یہ لوگ اس حوالے سے منصوبہ بندی کے ساتھ ذہنی طور پر بھی تیار ہوتے ہیں کہ انہیں جس ملک جانا ہے، وہاں کے مسائل سے کس طرح نبردآزما ہونا ہے، لیکن دوسری طرف ایسی لڑکیاں بھی ہوتی ہیں، جنہیں نہ باہر جانے کی خواہش ہوتی ہے اور نہ ہی وہ اس کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوتی ہیں، مگر بعض اوقات انہیں شادی کے بعد چارو ناچار باہر سکونت اختیار کرنا پڑتی ہے۔ ایک دم سے باہر جاکر وہاں کے سماجی، ثقافتی اور موسمی صورت حال کے مطابق خود کو ڈھالنا خاصا مشکل ہوتا ہے۔


اجنبی ملک کے معاشرے میں ہم آہنگی پیدا کرنا ایک مشکل امرہے۔ مغربی ممالک کے مقابلے میں ہماری خواتین کا رکھ رکھائو خاصا مختلف ہے، اس لیے خواتین اور بھی زیادہ پریشان ہوتی ہیں۔ پہلے ہی انہیں اجنبی دیس میں تنہائی کا بہت زیادہ احساس ہوتا ہے، کیوں کہ انہیں لگتا ہے کہ وہ یہاں صرف گھر تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ امریکا اور کینیڈا وغیرہ کے بہت سے شہروں میں تو ہندوستانی اور پاکستانی باشندوں نے اپنی کالونی میں ایسے کلب بھی کھول رکھے ہیں، جہاں انہیں مل جل کر بیٹھنے کا موقع ملتا ہے، لیکن ہر جگہ ایسا ممکن نہیں ہے۔

بیرون ملک رہنے والی خواتین کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود یہاں اپنے ملک کی طرح لوگوں سے میل جول نہیں رکھ پاتے اور مصنوعی طریقے سے ہم ایک دوسرے سے اپنے ملک کے جیسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بالخصوص خواتین ایک دوسرے سے بہت زیادہ قریبی تعلقات قایم کر لیتی ہیں، لیکن یہ اپنے ملک کی طرح رشتہ داروں اور سہیلیوں کے ہاں آنے جانے اورمل بیٹھنے کا نعم البدل نہیں۔ اپنے ملک جیسی معاشرتی زندگی کہیں اور جا کر ممکن ہی نہیں ہے۔ کبھی نسلی اور مذہبی امتیاز کے حوالے سے بھی شدید عدم تحفظ کا احساس ہوتا ہے، اس لیے انہیں گھر کی چار دیواری میں مقید ہونا ہی بہتر لگتا ہے۔

جن لڑکیوں کی نسبت بیرون ملک مقیم لڑکوں سے طے ہو چکی ہے، وہ شادی کے بعد اپنوں سے دوری اور اجنبی ماحول کا سوچ کر خاصا پریشان رہتی ہیں۔ بالخصوص جب باہر رہنے والوں کے ایسے تجربات سنتی ہیں، تو ان کے خوف اور فکر میں اور بھی زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بیرون ملک خواہ کتنی ہی بڑی تعداد میں اپنے ملک کے لوگ ہوں، لیکن اپنے ملک جیسی بات تو کہیں بھی پیدا نہیں ہو سکتی۔ دوسری طرف اب جدید ذرایع ابلاغ اور تیز رفتار رابطوں نے فاصلوں کو سکیڑ دیا ہے۔ اب ہزاروں میل دور بیٹھا شخص ہماری زندگی میں اسی طرح شامل ہوتا ہے، گویا ہمارے درمیان ہی ہو۔ اس لیے ایسی لڑکیاں مستقبل سے خوف زدہ ہونے کے بہ جائے، ان جدید سہولیات کے ذریعے رابطے میں رہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ انٹرنیٹ اور سماجی روابط کی ویب سائٹس کے حوالے سے آگہی حاصل کریں، تاکہ بعد میں کسی مشکل کا شکار نہ ہوں۔ جدید دور میں یہ ایک ایسا طریقہ ہے، جو چندلمحوں میں آپ کو ہزاروں میل دور بیٹھے اپنوں سے جوڑ دیتا ہے۔ اس کے ساتھ جن لڑکیوں نے شادی کے بعد بیرون ملک جانا ہے، انہیں چاہیے کہ وہ اس جگہ سے متعلق معلومات بڑھائیں، تاکہ وہاں جانے کے بعد انہیں پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
Load Next Story