کہیں یہ سازش تو نہیں

دنیا کی بڑی خوبی شخصی آزادی بتائی جاتی ہے، لیکن اس آزادی کا استعمال کسطرح ہوتا ہے اس پر نظر ڈالنے کی زحمت نہیں ہوتی

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

جب بھی سرمایہ دارانہ نظامِ استحصال کے خلاف بے چینی بڑھتی ہے، سامراجی خفیہ ایجنسیاں ایسے مسئلے کھڑے کر دیتی ہیں کہ عوام کی توجہ سرمایہ دارانہ استحصال سے ہٹ جاتی ہے۔ روس میں سرمایہ دارانہ استحصال کے خلاف 1917ء کا انقلاب برپا ہوا تو سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں کو سخت خوف لاحق ہوا کہ اگر اس انقلاب کو آگے بڑھنے سے روکا نہ گیا تو سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اس خطرے سے بچنے کے لیے مغربی میڈیا اور اس کی خفیہ ایجنسیوں نے سوشلزم اور سوشلسٹ بلاک کے خلاف جو شدید پروپیگنڈہ مہم چلائی اس میں دو مسئلوں کو سرفہرست رکھا گیا۔ ایک انسانی حقوق دوسرے لادینیت، مغربی ملک انسانی حقوق کے حوالے سے جو پروپیگنڈہ کرتے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے اس پر نظر ڈالنے سے پہلے اظہار رائے کی آزادی کا مختصر جائزہ لینا ضروری ہے۔

آزاد دنیا کی اصطلاح کا استعمال سوشلسٹ بلاک میں لگائی گئی ان پابندیوں کے جواب میں کیا گیا جس کا مقصد اس نئے نظام کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کو روکنا تھا کہ سوشلسٹ نظام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں تقریر و تحریر اور آزادی اظہار رائے پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ انسانی حقوق کا ڈھول پیٹنے والا مغربی میڈیا کبھی اس بات کی وضاحت نہیں کرتا کہ انسانی حقوق میں سب سے بڑا حق جان و مال کے تحفظ کا حق ہے اس حق کی اہمیت اتنی شدید ہے کہ بیشتر ملکوں کے آئین میں ان حقوق یعنی جان و مال کے تحفظ کی ضمانت مہیا کی گئی ہے۔ ہمارے آئین میں بھی شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کی ضمانت موجود ہے۔ لیکن اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ شہریوں کی جان و مال کا تحفظ نہ قومی سطح پر ہو تا رہا ہے نہ بین الاقوامی سطح پر۔ خود امریکی میڈیا کے مطابق ہر سال لاکھوں انسان بھوک کی وجہ سے مر جاتے ہیں، لاکھوں بچے دودھ اور معقول غذا نہ ملنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں لاکھوں خواتین غذا کی کمی اور زچگی کے دوران طبی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتی ہیں لاکھوں مریض دوا اور علاج کی سہولتیں حاصل نہ ہونے کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو خود مغرب کی سروے ٹیمیں میڈیا کو مہیا کرتی ہیں لیکن سوشلسٹ ملکوں پر انسانی حقوق کی پامالی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا رہا۔

آزاد دنیا کی سب سے بڑی خوبی شخصی آزادی بتائی اور تسلیم کی جاتی ہے۔ لیکن اس آزادی کا استعمال کس طرح ہوتا ہے اس پر نظر ڈالنے کی زحمت نہیں کی جاتی۔ مثلاً اس آزادی کا استعمال بھیک مانگ کر کیا جاتا ہے چوری اور ڈاکے ڈال کر کیا جاتا ہے بے ایمانی اور کرپشن کر کے کیا جاتا ہے ٹیکس چوری کر کے کیا جاتا ہے خواتین اس آزادی کا استعمال جسم فروشی کے ذریعے کرتی ہیں۔ جرائم پیشہ لوگ اس آزادی کا استعمال اغوا، چوری، ڈکیتی، منشیات فروشی کے حوالے سے کرتے ہیں۔ یہ آزاد دنیا کی وہ آزادیاں ہیں جو معاشروں میں ہر جگہ دیکھی جا سکتی ہیں۔ لیکن مغربی ملکوں نے ان آزادیوں کو نظرانداز کر کے صرف شخصی آزادی اور انسانی حقوق کا پروپیگنڈہ کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ سوشلسٹ ملکوں میں وہ ساری آزادیاں چھین لی جاتی ہیں جن کا ذکر صرف کتابوں اور آئین میں کیا جاتا ہے عملاً جن کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اس لایعنی پروپیگنڈے کا مقصد سوشلزم کے بڑھتے ہوئے طوفان کے پیروں میں بیڑیاں ڈالنے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔


اسی طرح 1917ء کے بعد سوشلسٹ نظام کو مذہب پرست عوام میں بدنام کرنے کے لیے اس پر لادینیت کا لیبل لگا دیا گیا خاص طور پر مسلم ملکوں میں اس پروپیگنڈے پر اربوں ڈالر خرچ کیے گئے اور قریہ قریہ عوام کے ذہنوں میں یہ بات بٹھانے کی کوشش کی گئی کہ سوشلزم ایک دین دھرم دشمن نظریہ ہے۔ اس قسم کے پروپیگنڈے کا مقصد سوشلزم کو بدنام کر کے غریب عوام میں اس کی مقبولیت کو روکنا تھا یہ حقائق ہم اس لیے پیش کر رہے ہیں کہ آج سرمایہ دارانہ نظام کو اگرچہ سوشلزم یا سوشلسٹ بلاک سے تو کوئی خطرہ نہیں ہے کہ سامراجی ملکوں نے شش جہت سازشوں کے ذریعے اس کا کریا کرم کر دیا گیا ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی بڑھتی ہوئی چیرہ دستیاں اور ناقابل برداشت مظالم نے جن میں مہنگائی بے روزگاری سرفہرست ہیں دنیا بھر کے عوام میں شدید بے چینی پیدا کر دی ہے۔ پچھلے دنوں وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو مہم اسی بے چینی کا ایک بڑا مظہر تھی۔ وال اسٹریٹ قبضہ مہم سیکڑوں ملکوں اور ہزاروں شہروں تک پھیلی اور آئی ایم ایف، ورلڈ بینک کے استحصال کے خلاف پاکستان سمیت دنیا بھر میں بے چینی پائی جاتی ہے۔

خود امریکا کے خلاف نفرت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے خاص طور پر پسماندہ ملکوں میں مہنگائی، بے روزگاری وغیرہ جیسی لعنتوں کے خلاف سخت بے چینی پائی جاتی ہے۔ لیکن عوام کی یہ بے چینی ایک تحریک کی شکل اس لیے اختیار نہیں کر پا رہی ہے کہ ان ملکوں میں ایسی تحریکوں کی قیادت کرنے والے یا تو عضو معطل بنے ہوئے ہیں یا پھر اس قدر کمزور اور انتشار کا شکار ہیں کہ ایسی بڑی تحریکوں کی قیادت کرنے کی ان میں سکت نہیں۔ حکمران طبقات کی اکثریت چونکہ خود اس نظام کی حامی اور ایجنٹ ہے لہٰذا اس سے ایسی تحریکوں کی قیادت کی توقع کرنا غیر منطقی ہے۔ لیکن اس نظام زر کے سرپرست اس خوف میں مبتلا ہیں کہ کہیں ساری دنیا ایک نئے اور پرتشدد انقلاب فرانس کی زد میں نہ آ جائے ان سرمایہ پرستوں کے خوف میں اضافہ اس لیے بھی ہو رہا ہے کہ ابھی ابھی مشرق وسطیٰ ایک منی انقلاب فرانس سے گزر چکا ہے۔ معمر قذافی جیسے ماضی کے عالمی سطح پر مقبول رہنما کو عوام نے سڑکوں پر گھسیٹ کر مار دیا۔

ان خوفناک امکانات سے بچنے کے لیے سامراجی منصوبہ ساز طرح طرح کی سازشیں کر سکتے ہیں جن کا واحد مقصد سرمایہ دارانہ نظام استحصال سے عوام کی توجہ ہٹانا ہو گا۔ جنوبی امریکا یا لاطینی امریکا میں اس نظام زر کے خلاف پہلے ہی سے شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے ہیوگو شاویز کی بے وقت موت نے لاطینی امریکا کی سرمایہ دارانہ مخالف تحریکوں کو وقتی طور پر تو نقصان پہنچایا ہے لیکن جب تک محنت اور سرمائے کے درمیان تضاد موجود ہے عوام میں بے چینی نہ صرف برقرار رہے گی بلکہ بڑھے گی۔ دنیا میں ایک پروپیگنڈہ یہ کیا جا رہا ہے کہ سوشلسٹ کیمپ کے خاتمے اور روس کی جغرافیائی ٹوٹ پھوٹ کے بعد چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کی سب سے بڑی حریف طاقت موجود نہیں لہٰذا اب عالمی پیمانے پر اینٹی سرمایہ دارانہ تحریک کا کوئی مرکز نہیں رہا۔ اور کسی مرکز کے بغیر عالمی پیمانے پر کوئی تحریک چل سکتی ہے نہ کامیاب ہو سکتی ہے۔ اس قسم کے خیالی کیمپوں میں بسیرا کرنے والے غالباً اس حقیقت سے واقف نہیں کہ محنت اور سرمائے کے درمیان پایا جانے والا تضاد جب تک موجود ہے انقلابات کا امکان نہ کم ہو سکتا ہے نہ ختم ہو سکتا ہے۔
Load Next Story