دانشگاہوں میں کرپشن کی بازگشت
پاکستان اور اہل پاکستان تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں، ہر آنے والا دن گزرے دن سے بدتر ثابت ہو رہا ہے
پاکستان اور اہل پاکستان تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں، ہر آنے والا دن گزرے دن سے بدتر ثابت ہو رہا ہے۔
اس وقت ملک و قوم کو ہر وہ مسئلہ درپیش ہے جو اس سے پہلے کبھی نہ تھا، اگر تھا تو اس کی شدت اس قدر نہ تھی جو آج ہے۔ گزشتہ تین برس کے دوران حکومت کی بیڈ گورننس اور نااہلی پر لکھنے بیٹھ جائیں تو شاید رنگیلے حکمرانوں کی رنگیلی کہانی آیندہ تین برسوں میں بھی مکمل نہ ہوسکیں۔
جس طرف دیکھیں، جس شعبے کو دیکھیں ماسوائے تباہ و بربادی کے کچھ نہیں ملے گا۔ نام نہاد ریاست مدینہ کا جھانسہ دے کر غیر اسلامی قوانین بنانے کی کوشش کی گئی، کرپشن ختم کرنے کا نعرہ لگا کر کرپشن کی عجیب و غریب کہانیاں رقم کی گئیں، غربت کے خاتمے کے دعویداروں نے غریبوں کو ختم کرنا شروع کردیا۔
مافیاز کا بوریا بستر لپیٹنے کے خواب دکھانے والے خود بڑے مافیا ثابت ہوئے۔ وزیر اعظم عمران خان جس چیز کا نوٹس لیتے ہیں وہ اگلے دن اس سے زیادہ مہنگی ہوکر مارکیٹ میں نظر آتی ہے، عمران خان نے چیخیں کرپٹ مافیا کی نکلوانی تھیں لیکن آج تین برس گزرنے کے بعد چیخیں عوام مار رہے ہیں، انھوں نے رلانا تو چوروں کو تھا ، آج آنسو مہنگائی، غربت اور بے روز گاری کے باعث عوام کے نکل رہے ہیں۔
ایک نائب قاصد کی نوکری آتی ہے اور لاکھوں درخواستیں جمع ہوجاتی ہیں، جن میں ایم بی اے لیول کے نوجوان بھی شامل ہوتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن موجودہ حکمرانوں کے بارے میں جن جن خدشات کا اظہار کرتے تھے ایک ایک کرکے وہ سب کے سب درست ثابت ہوئے۔ موجودہ حکمران کسی خاص ایجنڈے پر آئے ہیں، ان سے نجات کے بغیر تباہی و بربادی کے اس سونامی کا راستہ نہیں روکا جاسکتا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ موجودہ دور میں کرپشن نے سرطان کی طرح ہر شعبے کو بڑی تیزی سے اپنی لپیٹ میں لیا۔ تعلیم اور صحت تبدیلی سرکار اپنے ترجیحات میں سر فہرست گردانتی تھی مگر بجائے بہتری کے صورتحال ابتری کی راہ پر گامزن ہے، موجودہ دور سے پہلے کوئی تصور کرسکتا تھا کہ بے ضابطگی اور اقرباپروری ہماری دانشگاہوں یعنی یونیورسٹیوںاور تعلیمی اداروں تک بھی پہنچ جائے گی اور اگر کوئی اکا دکا واقعہ سامنے آ بھی جاتا تھا توپکڑ میں ضرور آتا تھا مگر آج بے ضابطگیوں کی نشاندہی کرنے والوں کو نشان عبرت بنانے کی دھمکیاں اورکارروائی شروع کردی جاتی ہے۔
امسال خیبرپختونخوا میں امتحانی بورڈز نے نتائج میں جو گل کھلائے ہیں، ان پر لکھنے سے بھی بندہ شرمندہ ہوجاتا کیوںکہ ان نتائج نے پوری قوم کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا تھا، ابھی دل و دماغ اسی معمہ کو حل نہیں کرپارہے تھے کہ باچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں غیر قانونی بھرتیوں کی خبر نے بے چین کرکے رکھ دیا، اوپر سے اس معاملے کو بے نقاب کرنے والے کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ایسوسی ایٹ پروفیسر حافظ حسین گلاب اور ان کے ساتھیوں، ڈاکٹر انوارالمجاہد، ڈاکٹر سہرا اور ڈاکٹر شیر ولی خان کو تنگ کیا جانا شروع کردیا گیا۔
جس دن سے یہ خبر سنی اس دن سے دل اس قدر مضطرب ہے جسے الفاظ میں بیان کرنا شاید ہی ممکن ہو۔ خبر یہ ہے کہ باچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں پروفیسرز، ایسوسی ایٹ پروفیسرز، اسسٹنٹ پروفیسرز اور لیکچرار کی سیٹوں پر بھرتیاں ہوئیں، جن کے خلاف پروفیسر ڈاکٹر حافظ حسین گلاب، ڈاکٹر انوارالمجاہد، ڈاکٹر سہرا اور ڈاکٹر شیر ولی خان نے پشاور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کردی۔ پشاور ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے متعلقہ حکام کو نوٹس جاری کردیے اور جواب طلب کرلیا۔ جس روز ہائی کورٹ میں سماعت تھی حافظ حسین گلاب ضابطے کے مطابق یونیورسٹی سے چھٹی کی درخواست دے کر نکلنے لگے تو گیٹ پر سیکیورٹی اہلکاروں نے انھیں باہر جانے سے روک لیا۔ اسی دوران مبینہ طور پر ان کے خلاف انکوائریاں شروع کرنے کی تیاریاں ہیں، اس حوالے سے انھوں نے ایک آڈیو میسج بھی کیا۔
بلاشبہ یہ ایک انتہائی حساس اور توجہ طلب معاملہ ہے۔ جب سے یہ معاملہ میرے علم میں آیا ہے تب سے اس پر تحقیق کرنے کی کوشش کررہا ہوں، اسی دوران مجھے علم ہوا کہ چند ماہ قبل خیبر پختونخوا حکومت نے باچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں بھرتیوں کی انکوائری شروع کی، ہائر ایجوکیشن ڈپیارٹمنٹ اور گورنر سیکریٹریٹ کے افسروں پر مشتمل کمیٹی کو تحقیقات کا ٹاسک سونپا گیا ہے۔ محکمہ ہائر ایجوکیشن اور سینڈیکیٹ کے رکن نے کہا تھا کہ بھرتیاں اقرباپروری اور میرٹ کے برعکس کی گئیں۔ سلیکشن بورڈ کے ممبران کا انتخاب پشاوریونیورسٹی سے کیا گیا۔
جب کہ سلیکشن بورڈ کی ایک مستقل رکن کو مدت پوری ہونے سے قبل ہی عہدے سے ہٹادیا گیا۔ نان پی ایچ ڈی جونیئر عملے نے سینئر پی ایچ ڈیز کا معیار چیک کیا۔ یوں دیکھا جائے تو قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔کیمسٹری کے شعبہ میں بھرتی کے لیے صرف چھ گھنٹوں میں65 سے زائد پی ایچ ڈی امیدواروں کا انٹرویو لیا گیا۔ سنڈیکیٹ کو اگلے دن (اتوار) کو منظوری کے لیے عجلت میں بلایا گیا۔
یہ چیزیں اس بات کی نشاندہی کررہی ہیں کہ معاملہ ہائی کورٹ جانے سے قبل ہی متعلقہ محکموں اور وزیر اعلیٰ گورنر خیبرپختونخوا کے علم میں تھا ۔ موجودہ دور میں یونیورسٹیوں کے حوالے سے یہ ایک مثال ہے، مزید کئی یونیورسٹیوں کے کیسز سامنے آئے جو انتہائی افسوس ناک بات ہے۔ اگر اس ملک کی دانشگاہیں بھی اقربا پروری، سفارش اور بے ضابطگیوں سے نہیں بچ سکیں تو اندازہ لگائیں کہ ایسی دانشگاہوں سے نکلنے والے نوجوان معاشرے میں کیا کردار ادا کریں گے۔ اس لیے باچا خان یونیورسٹی کے کیس کو ٹیسٹ کیس سمجھا جائے اور اس معاملے کی شفاف و غیرجانبدار تحقیقات کی جائیں، الزام ثابت ہونے پر ذمے داروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔