سراج الحق کو احتساب پر توجہ دینی چاہیے
وزیر اعظم پاکستان نے اپنی انسپکشن ٹیم کو پنڈورا لیکس کی تحقیقات کی ذمے داری سونپی ہے
وزیر اعظم پاکستان نے اپنی انسپکشن ٹیم کو پنڈورا لیکس کی تحقیقات کی ذمے داری سونپی ہے۔ اپوزیشن نے وزیر اعظم کے اس اقدام کو مسترد کر دیا ہے۔
کسی حد تک بات بھی درست ہے کہ جب پنڈورا لیکس میں سب سے زیادہ ارکان کی تعداد حکومت کی ہے تو وزیر اعظم اپنی ہی انسپکشن ٹیم کو اس کی تحقیقات کیسے سونپ سکتے ہیں۔ جب کابینہ کے اپنے ارکان کے نام آئے ہیں تو حکومت خود کیسے تحقیقات کر سکتی ہے۔ ویسے بھی جب پاناما لیکس آئی تھیں تو اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے انکوائری کا حکم دیا تھا لیکن عمران خان کا ہی موقف تھا کہ جب حکومت کا اپنا نام آگیا ہے تو حکومت خودکیسے تحقیقات کر سکتی ہے۔
لیکن اب عجیب صورتحال ہے۔ جب پاناما آیا تھا تو ملک کی نادیدہ قوتیں حکومت اور بالخصوص اس وقت کے وزیر اعظم کے خلاف تھیں۔ ایک طرف اپوزیشن سڑکوں پر آئی اور دوسری طرف سراج الحق اور شیخ رشید معاملہ عدلیہ میں لے گئے۔ لیکن پھر بھی پاناما کی بجائے اقامہ پر ہی نکالنا پڑا۔ لیکن کوئی بات نہیں کام ہو گیا۔ اسی لیے میں نے لکھا تھا کہ پنڈورا لیکس میں ایسا کوئی نام نہیں جس سے پاکستان کی سیاست میں زلزلہ آسکے۔ سب نام اسٹبلشمنٹ کے اپنے لوگوں کے ہی ہیں۔ اس لیے معاملہ کے کسی خطرناک صورتحال اختیار کرنے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ راوی چین ہی لکھ رہا ہے۔
پاناما میں صرف ایک نواز شریف کے خاندان کا نام نہیں تھا۔ پاناما میں چار سو سے زائد پاکستانیوں کے نام تھے، لیکن سزا صحیح یا غلط صرف نوازشریف کو ہی ملی۔ پاناما میں عدالت جانے والی اکثر سیاسی جماعتیں صرف نواز شریف کو سزا دلوانے کے بعد مطمئن ہو گئیں۔ ان کے مقاصد حاصل ہو گئے تھے۔ اس لیے وہ مطمئن ہوگئیں۔ لیکن سراج الحق اور جماعت اسلامی اس دن سے اعلیٰ عدلیہ کے دروازے پر دستک رہے ہیں کہ باقی چار سو لوگوں کو بھی سزا دی جائے۔ وہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہم پاناما میں صرف نواز شریف کو سزا دلوانے عدالت نہیں آئے تھے بلکہ پاناما میں شامل تمام کرداروںکو سزا دلوانے آئے تھے۔ سراج الحق کی اس حوالے سے پٹیشن آج بھی اعلیٰ عدلیہ میں زیر التوا ہے۔ لیکن شاید عدلیہ کے پاس پاناما کے باقی کرداروں کو سزا دینے کا وقت ہی نہیں ہے۔
آج بھی جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق پنڈورا لیکس کے تمام کرداروں کے یکساں احتساب کا مطالبہ کر رہے ہیں۔انھوں نے وزیر اعظم کے سیل کو مسترد کر دیا ہے۔ شاید جماعت اسلامی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جو آج بھی وہیں کھڑی ہے جہاں وہ پاناما میں کھڑی تھی۔ جو مطالبات انھوں نے پاناما میں کیے تھے وہی آج پنڈورا لیکس میں بھی کر رہے ہیں۔
وہ تب یہی کہہ رہے تھے کہ جن کے نام آئے ہیں وہ مستعفی ہو کر خود کو تحقیقات کے لیے پیش کریں۔ وہ آج بھی وہی بات کر رہے ہیں جو پاناما میں کر رہے تھے۔ لیکن شاید باقی سیاسی جماعتوں کے موقف میں تبدیلی آگئی ہے۔ تحریک انصاف اور عمران خان کے موقف میں بہت تبدیلی آگئی ہے۔ وہ آج اپنے کابینہ کے ارکان سے استعفیٰ لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کل تک وہ کہہ رہے تھے کہ جب حکومتی نام سامنے آجائیں تو وزیر اعظم کے ماتحت تحقیقات کیسے ہو سکتی ہیں اور آج وہ اپنے خصوصی سیل سے تحقیقات کروانے کے لیے بضد ہیں۔ شیخ رشید کی تو آواز ہی نہیں نکل رہی۔ کل تک پاناما میں روزانہ عدالت پہنچنے والے شیخ رشید اب عدالت کا دروازہ ہی بھول گئے ہیں۔ پاناما کو زندگی موت کا مسئلہ بنانے والے اب پنڈورا لیکس کو کوئی اہم نہیں قرار دے رہے ہیں۔
جماعت اسلامی کو یہ اعزاز بھی حا صل ہے کہ اس کے کسی لیڈر اور رہنما پر آج تک کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔ پاناما اور پنڈورا لیکس سمیت کسی میں جماعت اسلامی کا کوئی ذکر نہیں۔ ان کے کسی رہنما کی کبھی کوئی آفشور کمپنی نہیں ہے۔ کبھی کسی نے کوئی قرضہ معاف نہیں کروایا۔ کبھی کسی نے سرکاری خزانہ پر کوئی ڈاکا نہیں ڈالا ہے۔
اس لیے اگر پاکستان میں واقعی احتساب مقصود ہے تو سراج الحق کو اس کا ذمے دار بنا دیا جائے۔ ویسے بھی حکومت کو احتساب کی سربراہی کے لیے موزوں امیدوار نہیں مل رہا ہے۔ ایسے میں اگر ملک میں یکساں اور بے لاگ احتساب کرنا ہے تو میری نظر میں سراج الحق سے بہتر کوئی نام نہیں ہے۔ لیکن ایک مسئلہ ہے سراج الحق یک طرفہ اور ٹارگٹڈ احتساب کے لیے کام نہیں کریں گے۔شاید اسٹبلشمنٹ ان کو اپنی مرضی سے چلا نہیں سکے گی۔
میری اب بھی سراج الحق اور امیر العظیم سے گزارش ہے کہ و ہ جماعت اسلامی کو یکساں احتساب کے یک نکاتی ایجنڈے پر چلائیں۔ وہ جماعت اسلامی کو بہت سارے مسائل میں الجھا لیتے ہیں۔ ملک کے دیگر مسائل جماعت اسلامی کی نہ تو مقبولیت میں کوئی اضافہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی جماعت اسلامی اس میں کوئی قابل قدر کردار اداکر سکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ کشمیر پر جماعت اسلامی کا کردار ماضی میں بہت شاندار رہا ہے۔ لیکن کشمیر پر ریاست کی پالیسی بدل گئی ہے اور نئی پالیسی میں اب ریاست کو کشمیر پر جماعت اسلامی کی ویسے ضرورت نہیں ہے۔
جیسے پہلے تھی۔ جہاں تک میری ناقص معلومات ہیں جماعت اسلامی کا ریاست سے بغاوت کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اسی طرح مہنگائی بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن اس پر باقی سب سیاسی جماعتیں سیاست کر رہی ہیں۔ اگر جماعت اسلامی مہنگائی پر بات نہیں بھی کرے گی تو کوئی طوفان نہیں آجائے گا۔ ملک کا کوئی نقصان نہیں ہو جائے گا۔ اگر جماعت اسلامی مہنگائی پر مظاہرے نہیں کرے گی۔تو مہنگائی نہ تو بڑھ جائے گی اور نہ ہی کم ہو جائے گی۔
اس لیے جماعت اسلامی کو تمام تر توجہ احتساب کی طرف مرکوز کرنی چاہیے۔ انھیں احتساب عدالتوں کا پہرہ دینا چاہیے۔ نیب کے دفاتر کا گھیراؤ کرنا چاہیے۔ عدلیہ کو بروقت احتساب کے لیے مجبور کرنا چاہیے۔ عدالتوں کے باہر پر امن اور خاموش مظاہرے کرنے چاہیے۔ اگر کل جماعت اسلامی کا موقف تھا کہ حکمرانوں کا احتساب پہلے ہونا چاہیے تو آج بھی یہی ہے۔ اس لیے انھیں حکمرانوں کے احتساب کے لیے آج بھی وہی کردار ادا کرنا چاہیے جو پاناما میں کیا تھا۔
پنڈورا لیکس میں پاکستان کے سات سو زائد نام ہیں۔ یہ کوئی تھوڑی تعداد نہیں ہے۔ بھارت ہم سے کئی گنا بڑا ملک ہے لیکن وہاں کے صرف تین سو لوگ ہیں۔ پاناما میں بھی بھار ت کے جتنے لوگ تھے بھارت نے ان سب کا احتساب کیا تھا۔ ان سے ٹیکس بھی وصول کیا تھا۔ ان کو سزائیں بھی دی تھیں۔ لیکن پاکستان نے پاناماکے باقی کرداروں کو سزا نہیں دی۔ اور میں سمجھتا ہوں یہ کام صرف اور صرف جماعت اسلامی ہی کر سکتی ہے۔
جماعت اسلامی کو اپنی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس بلانا چاہیے۔ اس میں یہ طے کرنا چاہیے کہ باقی تمام ایشوز پر سیاست ختم کر کے صرف اور صرف ملک میں احتساب پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ بے لاگ اور یکساں احتساب صرف اور صرف جماعت اسلامی ہی ملک میں ممکن بنا سکتی ہے۔ جماعت اسلامی کا اس حوالے سے کوئی اسٹیک نہیں ہے۔ ان کی کوئی کمزوری نہیں ہے۔ اس لیے اگر ریاست پاکستان احتساب کے لیے سنجیدہ ہے تو انھیں سراج الحق کو یہ کام دینا چاہیے۔ اور اگر ریاست نہ بھی دے توسراج الحق کو خود کرنا چاہیے۔