’وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا‘

قائد ِاعظم کی رحلت کے بعد، اور ان کے جنازہ میں منور حسن بھی اپنی والدہ کے ہمراہ گئے تھے


Asghar Abdullah February 03, 2014
[email protected]

ہفتہ ٗ رفتہ کے دوران میں، جب ملک میں فوجی آپریشن کی باتیں ہو رہی تھیں، تو جماعت ِاسلامی کے امیر سید منور حسن نے واشگاف لفظوں میں اس کی مخالفت کی اور کہا کہ فوجی آپریشن قطعاً اس مسئلہ کا حل نہیں، بلکہ اس سے یہ مسئلہ، بجائے سلجھنے کے، مزید الجھ جائے گا۔ سید منور حسن نے پہلی بار یہ بات نہیں کہی، بارہا وہ یہ بات کہہ چکے ہیں۔ ان کی طرف سے طالبان کے خلاف آپریشن کی پیہم مخالفت اور ان سے مذاکرات پر مسلسل اصرار ہی کا نتیجہ ہے کہ ان کے مخالف، ان کو طالبان کے نقطہء نظر کا حامی قرار دینے لگ گئے ہیں۔

دہلی ( بھارت ) جہاں1941ء میں سید منور حسن پیدا ہوئے اور انھوں نے ہوش سنبھالا، وہاں ان کا گھر، کٹر مسلم لیگی گھر تھا۔ ان کے والد، جو ایک اسکول ٹیچر تھے، ان کی قائد ِاعظم سے عقیدت کا یہ عالم تھا کہ بچپن میں سید منور حسن کو محلہ کی اس دکان سے سودا سلف خریدنے کی بھی ممانعت تھی، جو قائداعظم کے مخالف کانگریسی مولوی کی تھی۔ ان کی والدہ، جو بچوں کو قرآن مجید پڑھاتی تھیں، مسلم لیگ کی سرگرم کارکن تھیں۔ دہلی میں مسلم لیگ کا جب بھی کوئی جلسہ ہوتا، دہلی کا یہ خاندان بڑھ چڑھ کر اس میں شریک ہوتا تھا۔ پاکستان بننے پر دہلی میں مسلمانوں کا قتل ِعام شروع ہو گیا، تو ایک روز یہ خاندان بھی ہجرت کرنے پر مجبور ہو گیا۔ پہلے لاہور پہنچا اور پھر تلاش ِمعاش کی غرض سے کراچی منتقل ہو گیا۔ لیکن عمر بیت گئی، یہاں کوئی ذاتی گھر نہیں بنایا۔ لاہور میں بھی پچھلے 20 برس سے جماعت ِ اسلامی کے مہمان خانہ میں ایک کمرہ کے اندر قیام پذیر ہیں۔ سو، پہلا نکتہ یہ ہے کہ قاضی حسین احمد مرحوم کے برعکس، منور حسن کا گھریلو پس منظر کانگریس مخالف آل انڈیا مسلم لیگ کا ہے، ان کو وہ طعنہ بہر حال نہیں دیا جا سکتا، جو کانگریس نواز پارٹیوں کا ماضی رکھنے والے مذہبی سیاست دانوں کو دیا جاتا ہے۔

قائد ِاعظم کی رحلت کے بعد، اور ان کے جنازہ میں منور حسن بھی اپنی والدہ کے ہمراہ گئے تھے، دارالحکومت کراچی میں مسلم لیگی قیادت کے درمیان اقتدار کی جو رسہ کشی شروع ہوئی، اس نے نوجوان منور حسن کو مسلم لیگ سے مایوس کر دیا، اور جیسا کہ اس عہد کے طالب علموں میں کریز تھا، وہ 'عوامی انقلابی سیاست' کی طرف کھنچتے گئے۔ ایک وقت آیا کہ دارالحکومت میں سرگرم ِکار کمیونسٹ نظریات کی عمل بردار طلبہ تنظیم این ایس ایف کے سرخیل بن گئے۔ لیکن جب جنرل ایوب خان کا مارشل لا نافذ ہوا اور اس کے منفی اثرات ظاہر ہونا شروع ہوئے، تو ان کو اس منطقی نتیجہ تک پہنچنے میں دیر نہ لگی کہ عوامی فلاح و بہبود کے حصول کے لیے سیاست اور جمہوریت کا پر امن راستہ ہی سب سے بہتر راستہ ہے، اور اس کے علاوہ جو بھی راستہ ہے، وہ انجام ِکار تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔

وہ اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہو گئے یہی سوچ تھی، جس کے تحت بطور ِ طالب علم رہ نما سید منور حسن، پہلے این ایس ایف اور پھر اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم پر، جنرل ایوب خان کے مارشل لا کے خلاف سینہ سپر رہے۔ جنرل ضیاالحق دور میں، باوجود اس کے کہ میاں طفیل محمد کی امارت میں جماعت ِاسلامی کو مارشل لا کی بی ٹیم قرار دیا جاتا تھا، کراچی جماعت ِ اسلامی، جہاں سید منور حسن کا گہرا اثر تھا، جنرل ضیاالحق سے مستقلاً فاصلہ پر نظر آتی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کے ملفوف مارشل لا کے دور میں بھی یہی ہوا۔ قاضی حسین کے برعکس سید منور حسن اول روز سے جنرل پرویز مشرف اور ان کی امریکا نواز پالیسیوں سے بیزار پائے گئے۔ ان کی رائے یہ تھی کہ جنرل پرویز مشرف کو اصلاح ِاحوال سے حقیقتاً کوئی دلچسپی نہیں۔ جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاالحق کی طرح، وہ بھی محض اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوشش میں ہیں۔

نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف کی ''وار آن ٹیرر پالیسی'' پر سید منور حسن نے ہمیشہ کڑی تنقید کی، اور اسے بجائے خود ''انتہا پسندانہ پالیسی'' قرار دیا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ جب تک امریکا افغانستان پر قابض ہے اور پاکستان، اس کا اتحادی ہے، تب تک دہشتگردی کے مسئلہ کا پائیدار حل نکلنا ناممکن ہے۔ بعد کو ، جب صدر آصف علی زرداری نے بھی یہ '' مشرف پالیسی'' جاری رکھی، تو سید منور حسن نے جو، اب امیر ِجماعت ِاسلامی بن چکے تھے، پھر اس کی مذمت کی، اور کہا کہ نائن الیون کے بعد ''وار آن ٹیرر''کی جو پالیسی فوجی حکومت نے متعارف کرائی تھی، جمہوری حکومت کو اس پر عمل پیرا ہونا زیبا نہیں۔ 2013ء میں زرداری حکومت کی جگہ موجودہ حکومت قائم ہو گئی، تو ان کو توقع تھی کہ اب جنرل مشرف کی ''وار آن ٹیرر پالیسی'' ضرور تبدیل ہو گی، کیونکہ مشرف دور میں نواز شریف بھی اس پر کڑی تنقید کرتے رہے تھے، لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ ڈرون حملوں سے لے کر نیٹو سپلائی تک سب کچھ ماضی کی طرح کی ہو رہا ہے تو یہ ان کے لیے ناقابل ِبرداشت تھا، اور پھر ان کے لہجہ میں وہ تلخی اور بے زاری در آئی'جسے طالبان کی حمایت کی طرف لے جایا جاتا رہا۔

جماعت ِاسلامی میں جیسا کہ روایت ہے کہ امرائے جماعت بعض حساس موضوعات پر جماعتی جریدہ ''ترجمان القرآن'' کے لیے ' مقالہٗ خصوصی' بھی قلم بند کرتے ہیں۔ عموماً یہ وہ موضوعات ہوتے ہیں، جن سے متعلق امرائے جماعت کی طرف سے صرف زبانی نہیں، تحریری رہ نمائی بھی ناگزیر سمجھی کی جاتی ہے، تا کہ جماعت کے اندر اور باہر، اس کی پالیسی سے متعلق کوئی ابہام پیدا نہ ہو۔ نومبر 2013ء میں سید منور حسن کا جو مقالہٗ خصوصی بعنوان ''وقت کی ضرورت ، جماعت ِاسلامی کے کارکنوں سے چند گزارشات'' اشاعت پذیر ہوا، اس حساس موضوع پر نہ صرف یہ کہ سید منور حسن کے جذبات، احساسات اور خیالات کو سمجھنے کے لیے بنیادی دستاویز ہے، بلکہ ان کے 'لیگی، طلبہ تنظیمی اور 'جماعتی' پس منظر سے بھی کلی طور پر مطابقت بھی رکھتا ہے۔ صرف تین اقتباسات ملاحظہ ہوں :

۱۔ ''نہ شریعت بندوق کی نالی کے ذریعے قائم ہوتی ہے اور نہ امن۔ ریاست کے لیے قوت کے استعمال کا ایک مقام اور حق ہے، لیکن، یہ اختیار بھی حق اور ضابطے کا پابند ہے۔ لا اکراہ فی الدین، قرآن کا واضح حکم ہے اور اللہ کے رسولﷺ کی سنت ہے۔ تاریخ کا سبق بھی یہ ہے کہ جو تبدیلی بندوق کے ذریعے آتی ہے، پھر اسے باقی رکھنے کے لیے بھی بندوق کی کارفرمائی ضروری ہوتی ہے۔ اس طرح انسانی معاشرہ اور ریاست بندوق کے اسیر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ یہ انسانی معاشرے کے لیے ہدایت اور اصلاح کے اس راستے کی ضد ہے، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی ؐکے ذریعے انسانیت کی ابدی ہدایت کے لیے ہمیں دیا ہے۔''

۲۔''شریعت اور جمہوریت کے تعلق کی نسبت ایک بنیادی بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ پاکستان کی آبادی کا 95 فی صد حصہ مسلمان ہے، جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان رکھتا ہے، اور اسے اپنی زندگی کے ضابطے کی حیثیت سے تسلیم کرتا ہے۔ پاکستان کا دستور اس بنیاد پر قائم ہے کہ ریاست اور معاشرہ دونوں کے لیے اسلام رہ نما اصول کی حیثیت رکھتا ہے، اور قانون سازی کا منبع قرآن و سنت ہے۔ شریعت کوئی باہر سے لائی جانے والی چیز نہیں، بلکہ پاکستان کے جمہور کا اصل منشا اور مقصود اور ان کے دل کی آواز ہے۔ جمہوریت کا ایک خوش گوار پہلو یہ ہے کہ اس سے ایک آزادی میسر آتی ہے، اور حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے کے عنوانات کہکشاں کی طرح دور تک سجے نظر آتے ہیں۔ اس اعتبار سے اس کی قدر کی جانی چاہیے۔''

۳۔''اسلامی تحریکوں میں بہت بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔ یہ نوجوان شریعت کے نفاذ کے لیے بے حد پرجوش اور مضطرب ہیں۔ یہ جذبات قابل ِقدر ہیں، لیکن ان کو یہ بتانا ضروری ہے کہ اسلامی تحریکوں کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ پر امن راستہ اپنائیں، دعوت و تبلیغ اور دل و دماغ کو اپیل اور مسخر کر کے اپنی قوت میں اضافہ کریں اور اپنے حالات بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ وہ تحریکیں، جو پر امن راستوں کو اپناتی ہیں، قاعدے ضابطے کا اپنے آپ کا پابند بناتی ہیں، وہی دیر تک اور دور تک چلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس کے برعکس تشدد کا راستہ اپنانے سے تحریکی مقاصد دم توڑ دیتے ہیں ، بلکہ فنا کے گھات اتر جاتے ہیں۔''

ان اقتباسات کی تشریح کی ضرورت یوں نہیں کہ یہ اقتباسات بجائے خود تشریح ہیں۔ سو، سید منور حسن سے اختلاف ہو سکتا ہے، اور یہ کالم نگار باوجود ادب کے، ان سے اختلاف کی جسارت کرتا رہا ہے، ان کے تیز و تند بیانات پر تنقید کی جا سکتی ہے، اور کی جاتی ہے، یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ گاہے ان کے ریمارکس بے وقت کی راگنی ہوتے ہیں، لیکن یہ کہنا کہ سید منور حسن حالات کی نزاکت کو نہیں سمجھتے ہیں، بہر طور درست نہیں، اور اس کو تیز رفتار میڈیا کی بغیر سیاق و سباق کے رپورٹنگ کا شاخسانہ ہی سمجھنا چاہیے۔؎

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا

وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں