جنگلی جانوروں کی بریڈنگ سائنسی بنیادوں پر کیوں نہیں کروائی جاتی
پنجاب میں کئی جانوروں کے جوڑوں سے بچے حاصل نہیں کئے جاسکے
دنیاکے کئی ممالک میں چڑیاگھروں اوربریڈنگ فارمزمیں نایاب نسل اورخطرناک جنگلی جانوروں سے صحت مند بچے حاصل کرنے کے لئے ان جانوروں کاجینیاتی ڈیٹا رکھاجاتا ہے اوراسی ڈیٹاکی بنیادپرنراورمادہ کے جوڑے بنائے جاتے ہیں تاہم پاکستان میں آج بھی نراورمادہ جانوروں کے جوڑے ان کی ظاہری صحت اورعمرکودیکھ کربنائے جاتے ہیں جس سے بعض اوقات توصحت مندبچے حاصل ہوتے ہیں جبکہ کئی بار معذوربچے پیداہوتے ہیں جن کی چندہفتوں یا مہینوں میں ہی موت ہوجاتی ہے۔
پنجاب میں آج تک زرافہ،گینڈا، دریائی گھوڑا، چیمپنزی، ہاتھی، بلیک جیگوار سمیت کئی جانورایسے ہیں جن کے جوڑے ہونے کے باوجود مختلف وجوہات کی بناپران کے بچے حاصل نہیں کئے جاسکے ہیں۔ عام جنگلی جانوروں کے مقابلے میں خطرناک اورنایاب نسل کے جانوروں کی بریڈنگ کروناانتہائی مشکل اورمہارت کاکام ہے۔لاہورچڑیاگھرکی ویٹرنری آفیسرڈاکٹر مدیحہ اشرف نے ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بریڈنگ مقاصدکے لئے جب بگ کیٹس کے جوڑے بنائے جاتے ہیں تو ان میں نراورمادہ کی عمر،ان کی صحت کاخاص طورپرخیال رکھاجاتا ہے۔ا سکے علاوہ یہ دیکھاجاتا ہے کہ نراورمادہ کا تعلق ایک ہی خاندان سے نہ ہو، کیونکہ ان بریڈیعنی ایک ہی ایک نراورمادہ کے بچوں کے مسلسل باہمی بریڈسے جوبچے پیداہوتے ہیں وہ کسی نہ کسی معذوری کاشکارہوجاتے ہیں یا پھر ابنارمل ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر مدیحہ اشرف کے مطابق لاہورچڑیاگھراورسفاری پارک سمیت پنجاب کے مختلف چڑیاگھروں اوربریڈنگ سنٹرز میں اب نایاب نسل کے جانوروں کی ٹیگنگ کی گئی ہے۔ ہرجانورکوایک نمبرالاٹ کردیاگیا ہے ۔ ہم تین،چارماہ بعد ان جانوروں کے بلڈٹیسٹ کرتے ہیں، ان کے سی بی سی ، ایل ایف ٹی سمیت مختلف ٹیسٹ ہوتے ہیں اورٹیگ کی وجہ سے اب ان جانوروں کا ڈیٹاجمع ہوناشروع ہوگیا ہے۔لیکن ہمارے پاس ان جانوروں کی کوئی جینٹک ہسٹری نہیں ہے اورنہ ہی ابھی تک کوئی مرکزی ڈیٹاسنٹرموجود ہے
پنجاب لائیو اسٹاک سے منسلک ویٹرنری ماہر ڈاکٹروقار کے مطابق جنگلی جانوروں کی نسبت لائیو اسٹاک میں کے شعبے میں یہ سہولت موجود ہے ،پنجاب لائیوسٹاک نے گائے،بھینس، کتوں اوربلیوں کے سیمینزمحفوظ کررکھے ہیں بلکہ ان سیمینزمیں موجود بیماروں کے وائرس اوربیکٹریاختم کرکے صحت مندبنادیاگیاہے جس سے انتہائی اعلی نسل کی صحت مندبریڈحاصل ہوتی ہے۔ڈ
بلیوڈبلیوایف کی ایڈوائزری کونسل کے رکن بدرمنیرکا ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپ،امریکا،برطانیہ سمیت دنیا کے بیشترممالک میں نایاب اوراعلی نسل کے جنگلی جانورجوچڑیاگھروں اوربریڈنگ سنٹرزمیں موجود ہیں ان سب کاڈی این اے کروایاجاتا ہے اوریہ ڈیٹاایک سنٹرل اتھارٹی کے پاس محفوظ ہوتا ہے۔انہیں جب سے کسی جانور کی بریڈ کروناہوتی ہے تواس کے لئے سنٹرل اتھارٹی سے مددلی جاتی ہے۔نراورمادہ کی عمراس کی جینٹک ہسٹری کے مطابق ان کے لئے نراورمادہ کاانتخاب کرلیاجاتا ہے۔اس سے ان جانوروں کے بچے صحت مندپیداہوتے ہیں۔ پاکستان میں جانوروں کی بریڈنگ کے لئے چندبنیادی باتوں کوہی مدنظررکھاجاتا ہے ان میں نراورمادہ کی عمر،ان کی صحت اوربرتاؤکو دیکھاجاتا ہے۔ایسی صورت میں جب جوڑے بنائے جاتے ہیں تواکثران سے سے صحت مندبچے پیداہوتے ہیں۔2019 میں یواے ای نے پاکستان کو18 شیرتحفے کے طورپردیئے تھے، ان میں نراورمادہ دونوں شامل تھے۔ ان جانوروں کے جب پہلے سے موجود جانوروں کے ساتھ جوڑے بنائے گئے توان سے معمول سے زیادہ صحت مندبچے پیداہوئے تھے اوریہ سلسلہ جاری ہے۔
ماہرین کے مطابق جانوروں کے جوڑے بنانے کی یہ پریکٹس بھی صرف بگ کیٹس کی حدتک ہے۔ پنجاب میں کئی جانوروں کے جوڑے موجود رہے ہیں لیکن ان سے بچے حاصل نہیں کئے جاسکے تھے۔ ان میں ہاتھی، گینڈا، دریائی گھوڑا،چمپینزی، بلیک جیگوار، زرافہ سمیت کئی جانوراورپرندے بھی شامل ہیں۔ ان سے بچے حاصل نہ ہونے کی بڑی وجوہات میں نراورمادہ کی عمرمیں فرق اوردوسراان کے لئے قدرتی ماحول کامیسرنہ ہوناہے
پنجاب میں آج تک زرافہ،گینڈا، دریائی گھوڑا، چیمپنزی، ہاتھی، بلیک جیگوار سمیت کئی جانورایسے ہیں جن کے جوڑے ہونے کے باوجود مختلف وجوہات کی بناپران کے بچے حاصل نہیں کئے جاسکے ہیں۔ عام جنگلی جانوروں کے مقابلے میں خطرناک اورنایاب نسل کے جانوروں کی بریڈنگ کروناانتہائی مشکل اورمہارت کاکام ہے۔لاہورچڑیاگھرکی ویٹرنری آفیسرڈاکٹر مدیحہ اشرف نے ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بریڈنگ مقاصدکے لئے جب بگ کیٹس کے جوڑے بنائے جاتے ہیں تو ان میں نراورمادہ کی عمر،ان کی صحت کاخاص طورپرخیال رکھاجاتا ہے۔ا سکے علاوہ یہ دیکھاجاتا ہے کہ نراورمادہ کا تعلق ایک ہی خاندان سے نہ ہو، کیونکہ ان بریڈیعنی ایک ہی ایک نراورمادہ کے بچوں کے مسلسل باہمی بریڈسے جوبچے پیداہوتے ہیں وہ کسی نہ کسی معذوری کاشکارہوجاتے ہیں یا پھر ابنارمل ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر مدیحہ اشرف کے مطابق لاہورچڑیاگھراورسفاری پارک سمیت پنجاب کے مختلف چڑیاگھروں اوربریڈنگ سنٹرز میں اب نایاب نسل کے جانوروں کی ٹیگنگ کی گئی ہے۔ ہرجانورکوایک نمبرالاٹ کردیاگیا ہے ۔ ہم تین،چارماہ بعد ان جانوروں کے بلڈٹیسٹ کرتے ہیں، ان کے سی بی سی ، ایل ایف ٹی سمیت مختلف ٹیسٹ ہوتے ہیں اورٹیگ کی وجہ سے اب ان جانوروں کا ڈیٹاجمع ہوناشروع ہوگیا ہے۔لیکن ہمارے پاس ان جانوروں کی کوئی جینٹک ہسٹری نہیں ہے اورنہ ہی ابھی تک کوئی مرکزی ڈیٹاسنٹرموجود ہے
پنجاب لائیو اسٹاک سے منسلک ویٹرنری ماہر ڈاکٹروقار کے مطابق جنگلی جانوروں کی نسبت لائیو اسٹاک میں کے شعبے میں یہ سہولت موجود ہے ،پنجاب لائیوسٹاک نے گائے،بھینس، کتوں اوربلیوں کے سیمینزمحفوظ کررکھے ہیں بلکہ ان سیمینزمیں موجود بیماروں کے وائرس اوربیکٹریاختم کرکے صحت مندبنادیاگیاہے جس سے انتہائی اعلی نسل کی صحت مندبریڈحاصل ہوتی ہے۔ڈ
بلیوڈبلیوایف کی ایڈوائزری کونسل کے رکن بدرمنیرکا ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپ،امریکا،برطانیہ سمیت دنیا کے بیشترممالک میں نایاب اوراعلی نسل کے جنگلی جانورجوچڑیاگھروں اوربریڈنگ سنٹرزمیں موجود ہیں ان سب کاڈی این اے کروایاجاتا ہے اوریہ ڈیٹاایک سنٹرل اتھارٹی کے پاس محفوظ ہوتا ہے۔انہیں جب سے کسی جانور کی بریڈ کروناہوتی ہے تواس کے لئے سنٹرل اتھارٹی سے مددلی جاتی ہے۔نراورمادہ کی عمراس کی جینٹک ہسٹری کے مطابق ان کے لئے نراورمادہ کاانتخاب کرلیاجاتا ہے۔اس سے ان جانوروں کے بچے صحت مندپیداہوتے ہیں۔ پاکستان میں جانوروں کی بریڈنگ کے لئے چندبنیادی باتوں کوہی مدنظررکھاجاتا ہے ان میں نراورمادہ کی عمر،ان کی صحت اوربرتاؤکو دیکھاجاتا ہے۔ایسی صورت میں جب جوڑے بنائے جاتے ہیں تواکثران سے سے صحت مندبچے پیداہوتے ہیں۔2019 میں یواے ای نے پاکستان کو18 شیرتحفے کے طورپردیئے تھے، ان میں نراورمادہ دونوں شامل تھے۔ ان جانوروں کے جب پہلے سے موجود جانوروں کے ساتھ جوڑے بنائے گئے توان سے معمول سے زیادہ صحت مندبچے پیداہوئے تھے اوریہ سلسلہ جاری ہے۔
ماہرین کے مطابق جانوروں کے جوڑے بنانے کی یہ پریکٹس بھی صرف بگ کیٹس کی حدتک ہے۔ پنجاب میں کئی جانوروں کے جوڑے موجود رہے ہیں لیکن ان سے بچے حاصل نہیں کئے جاسکے تھے۔ ان میں ہاتھی، گینڈا، دریائی گھوڑا،چمپینزی، بلیک جیگوار، زرافہ سمیت کئی جانوراورپرندے بھی شامل ہیں۔ ان سے بچے حاصل نہ ہونے کی بڑی وجوہات میں نراورمادہ کی عمرمیں فرق اوردوسراان کے لئے قدرتی ماحول کامیسرنہ ہوناہے