کشادہ دلی

امریکا کو افغانستان پر قہر نازل کرنے کے لیے حربی سامان کی ترسیل کی خاطر پاکستان کی مدد ناگزیر تھی


MJ Gohar October 08, 2021
امریکا کو افغانستان پر قہر نازل کرنے کے لیے حربی سامان کی ترسیل کی خاطر پاکستان کی مدد ناگزیر تھی

لاہور: سانحہ 9/11 کے بعد بڑی عالمی طاقتوں بالخصوص امریکا اور اس کے ہمنواؤں کے من پسند فیصلوں کے نتیجے میں دنیا نے ایک نئی کروٹ لی اور سپر پاور امریکا نے ایک اتحاد قائم کرکے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کرتے ہوئے اسے '' عالمی امن '' کا ضامن قرار دیا۔ القاعدہ اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن کو 9/11 کے سانحے کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے افغانستان میں اس کی موجودگی کا دعویٰ کیا اور وہاں قائم طالبان حکومت سے اس کی حوالگی کا مطالبہ تکرارکے ساتھ کرتا رہا اور عدم تعاون کی صورت میں جنگ مسلط کرنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔

امریکا کو افغانستان پر قہر نازل کرنے کے لیے حربی سامان کی ترسیل کی خاطر پاکستان کی مدد ناگزیر تھی۔ پاکستان کو پتھر کے زمانے میں پہنچانے کی خوفناک دھمکیاں دے کر حکومت وقت پر امریکا نے غیر معمولی دباؤ ڈال کر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی بننے پر مجبور کردیا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر آگ وخون کی بارش کرکے طالبان حکومت کا خاتمہ کردیا اور وہاں اپنی کٹھ پتلی حکومتوں کے ذریعے بیس سال تک اپنا تسلط قائم رکھا۔

طالبان اپنے روایتی جنگجوانہ طریقے سے امریکا کے خلاف گوریلا جنگ لڑتے رہے۔ امریکا اپنی تمام تر جدید جنگی صلاحیتوں اور حربی ساز و سامان کے بیس سال تک لڑنے کے باوجود طالبان گوریلوں کو شکست دینے میں ناکام رہا۔ امریکا کو افغانستان سے ناکامی کی خفت سے بچ کر نکلنے کا واحد راستہ طالبان سے مذاکرات میں نظر آیا سو قطر دوحہ میں امریکا طالبان معاہدے کے بعد امریکا اگست کے اواخر میں افغانستان سے '' باعزت '' نکل گیا اور افغانستان میں کابل کی حکمرانی طالبان کی عمارت اسلامیہ کے قبضے میں آگئی۔

افغانستان اور پاکستان کے بعض علاقوں کے رہنے والے پختون اپنے قدیم تاریخی ، ثقافتی اور باہمی روابط کے باعث ایک دوسرے کے نہایت قریب سمجھے جاتے ہیں۔ دونوں اطراف گہرے مراسم کے نتیجے میں افغان روس جنگ کے دوران بھی پاکستان کے یہ جنگجو افغان بھائیوں کے شانہ بشانہ روس کے خلاف برسر پیکار رہے۔ پاکستان کی حکومت بھی اس وقت افغانستان کے ساتھ کھڑی تھی لیکن امریکا افغان جنگ کے دوران پاکستان کو جبری طور پر جنگ میں امریکا نے اپنا اتحادی بنایا ۔

پاکستان کی اس کمزوری کا ہمارے ازلی دشمن بھارت نے خوب فائدہ اٹھایا۔ اس نے پاکستان مخالف گروپوں کو ہر طرح کا تعاون فراہم کیا۔ بھارت نے اپنی خفیہ ایجنسی ''را'' کے ذریعے جاسوسوں کو پاکستان کے علاقوں میں بھیجا تاکہ وہ ملک کے اہم شہروں کراچی، کوئٹہ، لاہور، پشاور اور اسلام آباد میں اہم تنصیبات، اہم عمارتوں، عبادت گاہوں اور پبلک مقامات کو نشانہ بنا کر دہشت گردی کی ایسی فضا قائم کردیں کہ پاکستان کو ایک مرتبہ پھر ''سقوط بنگال'' جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے۔

پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں جانوں کی قربانی دینا پڑی، معیشت کو اربوں ڈالر کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن تمام تر مخدوش اور ناگفتہ بہ صورت حال کے باوجود پاکستان کے سیکیورٹی اداروں نے جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ملک میں امن قائم کرنے میں جو کردار ادا کیا وہ قابل تحسین ہے۔ آرمی پبلک اسکول کے سانحے کے بعد پاک فوج اور حکومت نے مل کر دہشت گردی کے خلاف قیام امن کے لیے ایک ایکشن پلان ترتیب دیا۔ پہلے ''ضرب عضب'' اور پھر ''ردالفساد'' جیسے کامیاب آپریشن کرکے پاکستان میں پاک فوج نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی۔

وطن مخالف جنگجو گروپ آج بھی وقفے وقفے سے کہیں نہ کہیں چھوٹی موٹی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں بالخصوص بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کابل میں طالبان کے قبضے سے پہلے بھارت نے وہاں اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے پاکستان کو نشانہ بنانے کی مہم چلا رکھی تھی لیکن اب طالبان کی آمد اور طالبان حکومت سے پاکستان سے اچھے مراسم کے باعث بھارت کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف پیچ و تاب کھا رہا ہے۔

پاکستان کو کمزور اور دہشت گرد ملک ثابت کرنے کی اس کی کوششیں ناکام ہوچکی ہیں اور ادھر پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان جو اب تک وطن عزیز میں خوف کی علامت بنے ہوئے تھے کابل میں طالبان کے آنے کے بعد واپس ''امن کے راستے'' پر آنے کے خواہش مند ہیں، اسی پس منظر میں وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے ایک ترک ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر تحریک طالبان ہتھیار پھینک کر امن کے ساتھ رہنا چاہیں تو ہم انھیں معاف کر دیں گے پھر وہ ملک میں عام شہریوں کی طرح رہ سکتے ہیں۔

اس ضمن میں وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کے کچھ گروپوں کی خواہش کے مطابق ان سے افغانستان میں مذاکرات جاری ہیں اور افغان طالبان اس حوالے سے ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے انٹرویو میں بلوچ عسکریت پسندوں سے بھی مذاکرات کا اشارہ دیا ہے۔

وزیر اعظم کی جانب سے ٹی ٹی پی سے مذاکرات اور انھیں عام معافی دینے کے حوالے سے میڈیا میں آنے والی خبروں کے بعد ملک کے سیاسی و صحافتی اور عوامی حلقوں میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ سننے میں آ رہا ہے کہماضی میں بھی برسر اقتدار حکومتوں اور ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے کئی دور ہوئے لیکن ان کا کوئی قابل ذکر نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ آج بھی ایک طرف اگر افغانستان میں ٹی ٹی پی سے بقول وزیر اعظم مذاکرات ہو رہے ہیں تو دوسری جانب بلوچستان کے مختلف اضلاع میں دہشت گردی کے واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں جس سے ٹی ٹی پی کی مذاکرات میں سنجیدگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

اپوزیشن نے حکومت تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ بعض حلقوں میں سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ آرمی پبلک اسکول کے معصوم شہدا اور قومی، سیاسی، سماجی شخصیات اور عبادت گاہوں، بازاروں، مزاروں اور دیگر مقامات پر شہید ہونے والوں کے لواحقین کے جذبات و احساسات کو کیا ''عام معافی'' سے ٹھیس نہیں پہنچے گی؟ کیا عوام کی نمایندہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا گیا ہے؟ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے مذکورہ مذاکرات پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

سابق صدر اور پی پی پی کے سربراہ آصف زرداری نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کا علاج صرف نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کرنے میں ہے۔ انھیں وطن دشمن سمجھ کر ان سے نمٹا جائے۔ پی پی رہنماؤں نے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کو حساس معاملہ قرار دیتے ہوئے اسے پارلیمنٹ میں لانے کا مطالبہ کیا ہے، (ن) لیگ کے رانا ثنا اللہ خان کہتے ہیں یہ دہشت گردوں کو اپنا آرڈر دینے والی بات ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امن بذریعہ مذاکرات کے پہلو بہ پہلو سیاسی استحکام بذریعہ اپوزیشن سے مذاکرات کی سمت بھی حکومت کشادہ دلی کا مظاہرہ کرے تو اس کا سیاسی قد اور بلند ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں