سندھ کی تاریخ زیادہ قدیم ہے

سندھ کی تاریخ اس قدر قدیم ہے کہ تاریخی شواہد نہیں ملتے


ایم قادر خان October 08, 2021
سندھ کی تاریخ اس قدر قدیم ہے کہ تاریخی شواہد نہیں ملتے

سندھ کی تاریخ اس قدر قدیم ہے کہ تاریخی شواہد نہیں ملتے، تاریخ سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ آج سے ہزاروں برس قبل آریا جب اس خطے میں آئے اس کا نام سندھو رکھا۔ آریا اپنی زبان میں سندھو دریا کو کہتے تھے، وہ اس کو سندھو کہتے رہے مگر رفتہ رفتہ اسے سندھ کہنا شروع کردیا۔ اس نام نے اس قدر شہرت حاصل کی کہ ہزاروں سال بیت جانے پر بھی اس کا نام سندھ ہے۔

لفظ سندھ دریائے سندھ سے مستعار ہے جوکہ سنسکرت لفظ سندھو کی موجودہ شکل ہے۔ وادی سندھ کی تہذیب 3300 (تین ہزار تین سو) سے لے کر 1700 قبل از مسیح تک قائم ہونے والی انسان کی چند تہذیبوں میں سے ایک تہذیب ہے جس نے تاریخ پر ان منٹ نقوش چھوڑے اس کا فروغ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے کنارے پر شروع ہوا۔

اسے ہڑپہ کی تہذیب بھی کہا جاتا ہے۔ ہڑپہ اور موئن جو دڑو اس کے اہم مراکز میں سے تھے۔ماہرین کو دریائے سوات کے کنارے بھی اس تہذیب کے آثار دریافت ہوئے ہیں۔ اس تہذیب کے باسی پکی اینٹوں سے مکانات بناتے تھے اور ان کے پاس سفر کے لیے بیل گاڑیاں بھی تھیں۔

وہ کھڈی اور چرخہ کاتتے اور کپڑے بنتے، مٹی کے ظروف بنانے کے ماہر تھے، کسان، جولاہے، روئی دھننے والے، کمہار اور کاریگر وادی سندھ کی تہذیب کے معمار تھے۔ سوتی کپڑا، جسے انگلش میں کاٹن کہا جاتا ہے وہ انھی کی ایجاد ہے۔ لفظ کاٹن انھی کے لفظ ''کانٹا '' سے بنایا ہے اور شطرنج دنیا کی تہذیب کے لیے انمول تحفے ہیں۔وادی سندھ کی تہذیب نے ہزاروں سال سے زمانہ کو حیرت زدہ کردیا، مورخین کے مطابق آریاؤں نے سندھ کے جتنے بھی علاقے فتح کیے ان کا نام سندھ ہی رکھا۔

حالانکہ وہ پنجاب کی سرحد سے بھی آگے بڑھ گئے مگر انھوں نے نام میں کوئی تبدیلی نہ کی۔ جب آریاؤں نے گنگا تک کا علاقہ فتح کرلیا تو انھوں نے اس کا نام آریا ورد رکھا مگر ہندوستان سے باہر اس نام کو پذیرائی حاصل نہ ہوئی۔ آریاؤں نے اپنے لہجے میں سندھ کو ہند کہا اور یونانیوں نے ہند کو بدل کر ''اند'' کردیا۔ ''اند'' سے انڈیا ہو گیا۔ انگلش زبان میں چونکہ ''د'' کا لفظ نہیں اس لیے وہ انڈیا کہلایا۔

پہلے سندھ کا اطلاق جس علاقے میں ہوتا تھا وہ طویل، چوڑا پھیلا ہوا تھا۔ راجہ داہر کی حکومت کے دور میں جس ملک کو سندھ کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا وہ مغرب میں مکران، جنوب میں بحیرہ عرب اور گجرات، مشرق میں موجود مالوہ کے وسط اور راجپوتانہ اور شمالی ہند میں ملتان سے گزر کر جنوبی پنجاب کے اندر وسیع و عریض تھا۔ مورخین اس سارے علاقے کو سندھ کہا کرتے۔ سندھ زمانہ قدیم سے اپنے دامن میں تہذیبی ورثہ سموئے ہوئے ہے۔ دستیاب تحقیقی شواہد کے مطابق دراوڑی آبادکاروں سے قبل یہاں 7000 (سات ہزار) قبل مسیح میں مختلف قبائل آباد تھے۔

دراوڑ باشندے تقریباً چار ہزار قبل ازمسیح میں وادی سندھ میں آکر آباد ہوئے۔ موئن جو دڑو سے ملنے والے آثار قدیمہ کے مطابق دراوڑی قوم اپنے علم و فن میں یکتا تھی وہ کاشتکاری اور تجارت سے واقف تھے۔ وہ ایک تہذیبی قوم کی زندگی گزارتے تھے۔ انھوں نے پانچ ہزار سال قبل یعنی 3000 قبل ازمسیح میں علمی ، فنی اور تجارت کے لحاظ سے اپنے ہم عصری، آشوری اور مسامی ہندوستانیوں کو ہم پلہ کھڑا کردیا۔ قدیم دور میں وادی سندھ کے دامن میں کئی شہری مراکز قائم تھے۔

جنھیں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تعمیر کیا گیا۔ آج کے جدید نظام کے مطابق آباد کیے گئے ان شہروں میں پختہ شاہراہیں اور فراہمی و نکاسی آب کا زیر زمین نظام قائم کیا گیا تھا ، لیکن کسی وجہ سے وادی سندھ کے یہ عظیم مراکز تباہی سے دوچار ہوگئے۔ اس بڑی تباہی سے متعلق تاریخی شواہد دستیاب نہیں، موئن جو دڑو اور دیگر عظیم دراوڑی مراکز کی تباہی سے متعلق محققین میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ بعض محققین نے اس تباہی کی وجہ قدرتی آفات سیلاب وغیرہ کو قرار دیا ہے ، جب کہ بعض مورخین کے نزدیک وسط ایشیا اور مشرقی یورپ سے آریاؤں کی فوجی یلغار نے اس تہذیب کو نیست و نابود کردیا۔

آریاؤں نے اس خطے میں تہذیب کی بنیاد ڈالی ''دریائے سرسوتی'' اور ''دریائے گنگا'' کے کنارے تک وسیع ہو چکے تھے۔ وادی سندھ کی تہذیب 1500 قبل از مسیح میں اپنے بام عروج پر تھی ہند آریائی تہذیب نے ہندوستان کے مذہب، رسم و رواج، معاشرت اور رہن سہن پر انمٹ نقوش ثبت کیے۔ماہرین آثار قدیمہ یہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان میں تمدن کی داغ بیل آریاؤں نے 1500 قبل از مسیح میں ڈالی تھی۔ اس سے قبل یہاں کے باشندے تہذیب و تمدن سے نہ آشنا تھے۔ مگر بعد میں ملنے والے شواہد نے اس نظریے میں تبدیلی پیدا کردی اور اس ملک کی تاریخ کو مزید 1500 سال پیچھے دھکیل دیا۔

ایک طرف موئن جو دڑو اور ہڑپہ کے آثار اور سندھ کی تہذیب کے بارے میں جو شواہد مل سکے ہیں ان سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ آریاؤں کے آنے سے بہت پہلے ہی یہ ملک تہذیب و تمدن کا عظیم گہوارا بن چکا تھا۔ وادی سندھ کی قدیم تہذیب سے اندازہ لگا کر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ سندھی زبان سندھ میں آریاؤں بلکہ دراوڑوں سے بھی پہلے کی زبان ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ماہرین نے سندھی زبان کو اس خطے کی اصل زبان بتایا اور اسے دراوڑوں سے قبل کی زبان قرار دیا ہے۔ بعض محققین و مورخین یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ سندھی دراوڑی زبان سے تعلق رکھتے ہیں۔ دیگر قدیم زبانوں مثلاً سنسکرت، عربی وغیرہ بھی سندھی کا بہت قریبی تعلق رہا ہے۔

سمو کے دور حکومت 1350 سے 1520 تک یہ دور علم و فضل سندھی زبان کے ارتقا اور سندھی شاعری کی ابتدائی ترقی کے اعتبار سے ایک اہم دور مانا جاتا ہے۔ انھی کے زمانے میں سندھی زبان اور شاعری میں قوت بیان کو تقویت حاصل ہوئی۔ انھی کے زمانے میں سب سے پہلے سات درویشوں کے سندھی اشعار دستیاب ہیں۔کلہوڑو دور میں سندھی حروف تہجی کی ترتیب دی گئی۔ کلہوڑو دور میں سندھی زبان ادب اور شاعری پر بھی بہت کام ہوا، چونکہ شعرا پر فارسی اور عربی کا اثر تھا مگر اس کے باوجود اکثر شعرا نے سندھی زبان کو فوقیت دی۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی نے صرف سندھی زبان میں شاعری کی۔

زبان کی وحدت نے ان کے کلام کو آفاقیت بخشی۔ دیگر سندھی شعرا جو مختلف زبانوں میں شاعری کرتے تھے ان کا انداز فکر مختلف زبانوں میں منقسم ہو گیا۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی نے سندھی زبان کو منفرد لہجہ، خالص پن اور نئی جہد عطا کی۔ سندھی چودھویں صدی عیسوی سے اٹھارویں صدی عیسوی تک تعلیم و تدریس کی مشہور زبان رہی یہ وہ وقت تھا جب شاہ عبداللطیف بھٹائی اور کئی دیگر شعرا نے سندھی زبان میں اپنا صوفیانہ کلام پیش کیا انھوں نے انسان اور خدا کے درمیان رشتہ کی وضاحت کی۔ قرآن کریم کا سندھی زبان میں ترجمہ کیا گیا جو بارہویں صدی عیسوی سے پہلے کیا گیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں