میں نہ مانوں
جب بھی کالم لکھنے بیٹھتا ہوں بڑی آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے
HYDERABAD:
جب بھی کالم لکھنے بیٹھتا ہوں ، بڑی آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے ذہن کے گوشے میں کوئی لکیر یا خوشی ایسی نہیں ہوتی جسے تحریر کرسکوں۔ آپ یقین کریں کوئی خوشی کی خبر نہیں ملتی جو ارباب اختیار کی طرف سے ہو اور پھر اگرکوئی خبر عوامی سطح کو فروغ دیتے ہوئے کہی گئی ہو تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اس معتبر جمہوری نظام کا دروازہ کس نے کھٹکھٹایا ہے۔
کبھی اپنے آپ کو دیکھتا ہوں کبھی کہنے والے کو دعا دیتا ہوں کہ وہ معزز عہدے پر براجمان رہے۔ گزشتہ دنوں ایک اعلیٰ عہدیدار ایک چینل پر فرما رہے تھے ''میری سوچ ہے کہ اگر انگلینڈ کی ٹیم نہیں آئی تو کیا ہوگیا ،کوئی قیامت آگئی اگر ٹیم نہیں آئی تو کون سا طوفان آگیا ؟کون سا ماتم ہو گیا ظلم ہو گیا ، قیامت نہیں آگئی رونا دھونا بند کریں، بزنس مین سارے روتے ہیں سڑکیں بند ہو جاتی ہیں ، دکانیں بند ہو جاتی ہیں اکانومی کو نقصان ہوتا ہے۔''
راقم تہہ دل سے ان کو خراج تحسین پیش کرتا ہے کہ انھوں نے امن اور محبت کا درس دیا یہ ان کی شخصیت کا خاصا ہے کہ انھوں نے آبرو مندانہ گفتگو کی اور زندگی کے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے افراد نے عوامی پذیرائی کے تحت باضابطہ ذمے داری کے تحت یہ بیان دینے پر اس کارہائے نمایاں گفتگو کو بہت پسند کیا۔
سچی گفتگو کے لیے ادھر کرکٹ کے حوالے سے اپوزیشن نے اپنے دور حکومت کا حساب قوم کے سامنے رکھ دیا اور اس حساب کو حکومتی وزیر اور مشیر حضرات نے چکانے کی پوری کوشش کی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عوامی مسائل کو چھوڑ کر اب تو مقابلے کی دوڑ جاری ہے ، بائیس کروڑ کی آبادی کے اس ملک میں 16 کروڑ تو دیہات میں رہتے ہیں انھیں کرکٹ سے کوئی لینا دینا نہیں دو کروڑ وہ افراد ہیں جنھیں کرکٹ سے کوئی دلچسپی نہیں ایک کروڑ وہ ہیں جو تعلیم یافتہ ہیں جو صرف ٹی وی تک محدود رہتے ہیں وہ کرکٹ کے حوالے سے وزرا اور اپوزیشن کے بیانات اور بحث پر بہت مایوس ہیں۔
اب ایک کروڑ وہ لوگ ہیں جو لاکھوں اور کروڑوں کی گاڑیوں میں 2000 کا ٹکٹ فخریہ خرید کر میچ دیکھتے ہیں، سیاسی طور پر نیوزی لینڈ کی ٹیم کے واپس جانے کو بہت مایوس کن کہا گیا کسی جماعت نے آج تک لاقانونیت، کرپشن، مہنگائی، لوٹا ماری اور دیگر مسائل پر بات کرنا گوارا نہیں سمجھا، ایسا محسوس کرایا گیا کہ ٹیم کے چلے جانے سے پاکستان بہت بڑے صدمے سے دوچار ہے خاص طور پر بزنس مین طبقہ کرکٹ کے میچ کی وجہ سے بہت متاثر ہوتا ہے۔
پارکوں میں گدھے اور جانور باندھے جاتے ہیں بچوں کی بقا کا خیال نہیں آرہا اس لیے کہ وہ بچے غریب کے ہیں۔ قارئین! اخبارات کے مطابق 90 ممالک کی 330 طاقتور شخصیات کے بیرون ملک اثاثے پائے گئے دکھ تو اس بات کا ہے کہ 90 ممالک میں صرف 330 شخصیات اور ہمارے ملک میں 700 افراد پائے گئے ان 90 ممالک کو شرمندہ ہونا چاہیے کہ وہ ہمارے سامنے مقابلے کی دوڑ میں صفر ثابت ہوئے بلکہ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ آپ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا۔ گزشتہ دنوں ایک وفاقی وزیر فرما رہے تھے کہ آج بھی اکثر ممالک سے پاکستان میں تیل کی قیمت کم ہے۔
اب تک یہ بیان کئی وزرا دے چکے ہیں کچھ نے تو ملکوں کے نام تک لیے اگر میں ان ملکوں میں عوامی سہولیات کا تذکرہ لکھ دوں تو کالم میں اتنی جگہ نہیں۔ بہرحال ہمارے سیاستدان بہت سوچ سمجھ کر بیان دیا کریں کیونکہ ان بیانات کا دیہاتوں میں رہنے والوں سے کوئی تعلق نہیں وہ تو معصوم اور غیر تعلیم یافتہ لوگ ہیں، پڑھے لکھے لوگ اب ان باتوں کو صرف ایک اچھی کامیڈی کے طور پر سنتے ہیں۔ شاید ہمارے کچھ سیاستدانوں کو پتا نہیں ہے کہ لمحوں میں عمریں ڈھل جاتی ہیں لذتیں بھی ختم ہو جاتی ہیں لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہونے میں بہت مختصر وقت لگتا ہے، رہا معاملہ نسل در نسل کا تو وہ کہانی بھی ختم ہونے والی ہے۔
اب تو کارکردگی کے حوالے سے ناپ تول کا نظام چلے گا۔ادھر یکم نومبر سے گھریلو صارفین کے لیے گیس 270 فیصد مہنگی کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور یہ بات اخبارات نے بھی قوم تک پہنچا دی ہے۔ محترم وزیر اعظم صاحب غریب کو سنبھالنے کی کوشش کریں یہ طبقہ مہنگائی کی وجہ سے آپ سے ناراض اور افسردہ ہے ان سے اتنے امتحان نہ لیں کہ اگلے الیکشن میں یہ آپ کو امتحان میں ڈال دیں اس کا ایک نقصان یہ ہوگا کہ یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں، روٹی 30 روپے کی ہو جائے گی۔ قوم لاکھ دلائل دے کہ بھائی گھریلو صارفین پر پیسے بڑھے ہیں کمرشل اور تندور کے حوالے سے اس کا کوئی تعلق نہیں مگر پھر میں نہ مانو والی پالیسی چلے گی اور پھر دسمبر 2021 میں رہی سہی کسر گیزر پوری کردیں گے غریب کے گھر تو ٹوٹا پھوٹا گیزر ہی ہوتا ہے اس پر آپ دانشمندی سے فیصلہ کریں اور کوئی نہ کوئی خبر آپ پڑھ لیتے ہیں۔
بھلا بتائیے غیر ملکی شہریوں کی سیکیورٹی سے متعلق سیل قائم کردیا گیا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا اور جو اس ملک میں رہتے ہیں وہ ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر ہیں ان کے لیے کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا موبائل لے کر آپ بازار میں نہیں جاسکتے۔
بینک کے ATM سے پیسے نکالنا ایک دشوار مسئلہ ہو گیا ہے ذرا سی مزاحمت پر گولی مار دی جاتی ہے گولی نے اگر صحیح کام کیا تو بندہ دوسرے جہاں میں اور اگر اناڑی نے ماری تو پھر ساری عمر کی معذوری تو نصیب میں ہے خدارا قانون کو قانون کی کتابوں سے نکال کر نافذ کیجیے اپوزیشن پر امید ہوکر کہتی ہے عمران خان 5 سال پورے نہیں کریں گے جناب وہ 5 سال پورے کریں یا نہ کریں مگر قوم کا دعویٰ ہے کہ مہنگائی 5 سال ضرور پورے کرے گی۔ قارئین گرامی اگر آپ راقم کی بات سے اتفاق کرتے ہیں تو بہت شکریہ اور اگر آپ ہماری تحریر سے مطمئن نہیں تو پھر صبر کریں کیونکہ میں تو عوامی بگل بجاتے بجاتے تھک گیا ہوں اور راقم کے لیے یہ جملہ کہہ کر خوش ہو جائیںکہ ''جاہل کی بات کو برداشت کرنا عقل کا صدقہ ہے۔''
جب بھی کالم لکھنے بیٹھتا ہوں ، بڑی آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے ذہن کے گوشے میں کوئی لکیر یا خوشی ایسی نہیں ہوتی جسے تحریر کرسکوں۔ آپ یقین کریں کوئی خوشی کی خبر نہیں ملتی جو ارباب اختیار کی طرف سے ہو اور پھر اگرکوئی خبر عوامی سطح کو فروغ دیتے ہوئے کہی گئی ہو تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اس معتبر جمہوری نظام کا دروازہ کس نے کھٹکھٹایا ہے۔
کبھی اپنے آپ کو دیکھتا ہوں کبھی کہنے والے کو دعا دیتا ہوں کہ وہ معزز عہدے پر براجمان رہے۔ گزشتہ دنوں ایک اعلیٰ عہدیدار ایک چینل پر فرما رہے تھے ''میری سوچ ہے کہ اگر انگلینڈ کی ٹیم نہیں آئی تو کیا ہوگیا ،کوئی قیامت آگئی اگر ٹیم نہیں آئی تو کون سا طوفان آگیا ؟کون سا ماتم ہو گیا ظلم ہو گیا ، قیامت نہیں آگئی رونا دھونا بند کریں، بزنس مین سارے روتے ہیں سڑکیں بند ہو جاتی ہیں ، دکانیں بند ہو جاتی ہیں اکانومی کو نقصان ہوتا ہے۔''
راقم تہہ دل سے ان کو خراج تحسین پیش کرتا ہے کہ انھوں نے امن اور محبت کا درس دیا یہ ان کی شخصیت کا خاصا ہے کہ انھوں نے آبرو مندانہ گفتگو کی اور زندگی کے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے افراد نے عوامی پذیرائی کے تحت باضابطہ ذمے داری کے تحت یہ بیان دینے پر اس کارہائے نمایاں گفتگو کو بہت پسند کیا۔
سچی گفتگو کے لیے ادھر کرکٹ کے حوالے سے اپوزیشن نے اپنے دور حکومت کا حساب قوم کے سامنے رکھ دیا اور اس حساب کو حکومتی وزیر اور مشیر حضرات نے چکانے کی پوری کوشش کی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عوامی مسائل کو چھوڑ کر اب تو مقابلے کی دوڑ جاری ہے ، بائیس کروڑ کی آبادی کے اس ملک میں 16 کروڑ تو دیہات میں رہتے ہیں انھیں کرکٹ سے کوئی لینا دینا نہیں دو کروڑ وہ افراد ہیں جنھیں کرکٹ سے کوئی دلچسپی نہیں ایک کروڑ وہ ہیں جو تعلیم یافتہ ہیں جو صرف ٹی وی تک محدود رہتے ہیں وہ کرکٹ کے حوالے سے وزرا اور اپوزیشن کے بیانات اور بحث پر بہت مایوس ہیں۔
اب ایک کروڑ وہ لوگ ہیں جو لاکھوں اور کروڑوں کی گاڑیوں میں 2000 کا ٹکٹ فخریہ خرید کر میچ دیکھتے ہیں، سیاسی طور پر نیوزی لینڈ کی ٹیم کے واپس جانے کو بہت مایوس کن کہا گیا کسی جماعت نے آج تک لاقانونیت، کرپشن، مہنگائی، لوٹا ماری اور دیگر مسائل پر بات کرنا گوارا نہیں سمجھا، ایسا محسوس کرایا گیا کہ ٹیم کے چلے جانے سے پاکستان بہت بڑے صدمے سے دوچار ہے خاص طور پر بزنس مین طبقہ کرکٹ کے میچ کی وجہ سے بہت متاثر ہوتا ہے۔
پارکوں میں گدھے اور جانور باندھے جاتے ہیں بچوں کی بقا کا خیال نہیں آرہا اس لیے کہ وہ بچے غریب کے ہیں۔ قارئین! اخبارات کے مطابق 90 ممالک کی 330 طاقتور شخصیات کے بیرون ملک اثاثے پائے گئے دکھ تو اس بات کا ہے کہ 90 ممالک میں صرف 330 شخصیات اور ہمارے ملک میں 700 افراد پائے گئے ان 90 ممالک کو شرمندہ ہونا چاہیے کہ وہ ہمارے سامنے مقابلے کی دوڑ میں صفر ثابت ہوئے بلکہ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ آپ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا۔ گزشتہ دنوں ایک وفاقی وزیر فرما رہے تھے کہ آج بھی اکثر ممالک سے پاکستان میں تیل کی قیمت کم ہے۔
اب تک یہ بیان کئی وزرا دے چکے ہیں کچھ نے تو ملکوں کے نام تک لیے اگر میں ان ملکوں میں عوامی سہولیات کا تذکرہ لکھ دوں تو کالم میں اتنی جگہ نہیں۔ بہرحال ہمارے سیاستدان بہت سوچ سمجھ کر بیان دیا کریں کیونکہ ان بیانات کا دیہاتوں میں رہنے والوں سے کوئی تعلق نہیں وہ تو معصوم اور غیر تعلیم یافتہ لوگ ہیں، پڑھے لکھے لوگ اب ان باتوں کو صرف ایک اچھی کامیڈی کے طور پر سنتے ہیں۔ شاید ہمارے کچھ سیاستدانوں کو پتا نہیں ہے کہ لمحوں میں عمریں ڈھل جاتی ہیں لذتیں بھی ختم ہو جاتی ہیں لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہونے میں بہت مختصر وقت لگتا ہے، رہا معاملہ نسل در نسل کا تو وہ کہانی بھی ختم ہونے والی ہے۔
اب تو کارکردگی کے حوالے سے ناپ تول کا نظام چلے گا۔ادھر یکم نومبر سے گھریلو صارفین کے لیے گیس 270 فیصد مہنگی کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور یہ بات اخبارات نے بھی قوم تک پہنچا دی ہے۔ محترم وزیر اعظم صاحب غریب کو سنبھالنے کی کوشش کریں یہ طبقہ مہنگائی کی وجہ سے آپ سے ناراض اور افسردہ ہے ان سے اتنے امتحان نہ لیں کہ اگلے الیکشن میں یہ آپ کو امتحان میں ڈال دیں اس کا ایک نقصان یہ ہوگا کہ یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں، روٹی 30 روپے کی ہو جائے گی۔ قوم لاکھ دلائل دے کہ بھائی گھریلو صارفین پر پیسے بڑھے ہیں کمرشل اور تندور کے حوالے سے اس کا کوئی تعلق نہیں مگر پھر میں نہ مانو والی پالیسی چلے گی اور پھر دسمبر 2021 میں رہی سہی کسر گیزر پوری کردیں گے غریب کے گھر تو ٹوٹا پھوٹا گیزر ہی ہوتا ہے اس پر آپ دانشمندی سے فیصلہ کریں اور کوئی نہ کوئی خبر آپ پڑھ لیتے ہیں۔
بھلا بتائیے غیر ملکی شہریوں کی سیکیورٹی سے متعلق سیل قائم کردیا گیا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا اور جو اس ملک میں رہتے ہیں وہ ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر ہیں ان کے لیے کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا موبائل لے کر آپ بازار میں نہیں جاسکتے۔
بینک کے ATM سے پیسے نکالنا ایک دشوار مسئلہ ہو گیا ہے ذرا سی مزاحمت پر گولی مار دی جاتی ہے گولی نے اگر صحیح کام کیا تو بندہ دوسرے جہاں میں اور اگر اناڑی نے ماری تو پھر ساری عمر کی معذوری تو نصیب میں ہے خدارا قانون کو قانون کی کتابوں سے نکال کر نافذ کیجیے اپوزیشن پر امید ہوکر کہتی ہے عمران خان 5 سال پورے نہیں کریں گے جناب وہ 5 سال پورے کریں یا نہ کریں مگر قوم کا دعویٰ ہے کہ مہنگائی 5 سال ضرور پورے کرے گی۔ قارئین گرامی اگر آپ راقم کی بات سے اتفاق کرتے ہیں تو بہت شکریہ اور اگر آپ ہماری تحریر سے مطمئن نہیں تو پھر صبر کریں کیونکہ میں تو عوامی بگل بجاتے بجاتے تھک گیا ہوں اور راقم کے لیے یہ جملہ کہہ کر خوش ہو جائیںکہ ''جاہل کی بات کو برداشت کرنا عقل کا صدقہ ہے۔''