صحافی کی بپتا

میرا سوال یہ ہے کہ مجھ عامل صحافی سے کسی کو کیا لینا تھا

Warza10@hotmail.com

وہ مجھے میرے رات کے بھیگتے سمے لے تو گئے، مگر وہ اس امر سے نا واقف تھے کہ صحافت اور نظریات کی معاشی چکی میں گُندھے ایک عامل صحافی نے اپنی چھ بیٹیوں کی تربیت جبر سے ٹکرانے کے مکمل استعارے کو سامنے رکھ کر کی ہے،وہ اس سے بے خبر تھے کہ صحافی برادری اور سماج کی سیاسی و سماجی تنظیمیں میری لیلیٰ رضا ایسی بہادر بیٹی کے ہم قدم ہو جائیں گی اور یہ سب مل کر روشنی کا وہ استعارہ بن جائیں گے کہ جن کی طاقت ملکی و غیر ملکی میڈیا بن جائے گا۔

ایک سیاسی اور نظریاتی باپ کی خواہش کو جب اولاد اور اس کا کنبہ اپنے سیاسی سماجی اور تعلیمی شعور سے سینچنے کے قابل ہو جائے اور وہ خود مشکل گھڑی میں بہادرانہ انداز سے مشکلات کا حل نکالنے لگے تو اس لمحے باپ خود کو نظریاتی طور سے مزید مستحکم پاتا ہے اور ایسے مواقِع پر باپ خود کو ٹھوس ارادوں کے ایک ایسے گھروندے کا سایہ دار درخت سمجھنے لگتا ہے۔اس لمحے میں کیوں نہ فاخر ہوں کہ محروم طبقات اور ان کے جمہوری حقوق کا سایہ میری بیٹیاں اپنے چچا عارف رضا کی سرکردگی میں بنیں۔ یہ کنبہ میرے خواب کی جیتی جاگتی تصاویر تھا۔

یہ ہمارے بے ترتیب سماج کے وہ مناظر ہیں جہاں متذکرہ حقیقتیں جب پھوٹتی ہیں تو شکستہ سماج کے چاپلوس افراد یا تو انگشت بدنداں ہو جاتے ہیں، یا پھر جبر کے ساتھ نہ چاہتے ہوئے ایسی بیٹیوں کے عمل کو سلام پیش کرتے ہیں، مگر عملی طور سے اپنی اولاد کو سیاسی شعور اور سماج کی بالیدہ تربیت سے پھر بھی محروم رکھتے ہیں، جو کہ کسی بھی طور سماج کی قدروں، روایتوں اور بہادری کو آگے بڑھانے کا عمل نہیں ہوتا۔

مگر دوسری جانب کنبے کی مشکلات اور کڑے وقت میں جب بیٹیاں باپ کی گمشدگی پر رونے دھونے یا سہاروں کے بجائے خم ٹھونک کر مشکل صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لیتی ہیں تو پورا سماج ان کی جرأت کے ساتھ کھڑا ہو تا ہے اور اپنی بہادر بیٹیوں کی آواز پر لبیک کہتا ہوا ان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔

اس ملک میں قانون کی بالادستی کی بات کرنا ویسے بھی دیوانگی قرار دے دیا گیا ہے، مگر اب بھی چند سَر پھرے عام صحافی سر توڑ کوشش میں جتے ہوئے ہیں کہ اس دیس کی سوہنی دھرتی میں قانون کی حکمرانی ہو ، یہ جمہوری آزادی اور اظہارِ رائے کی ایک حوصلہ افزاء نشانی ہے۔بھیگتی رات کے تین بجے کے سمے جب چھ بیٹیوں کے باپ کو ان کے سامنے چند اجنبی افراد اپنے ساتھ لے جائیں تو اس لمحے وہ منظر نا قابلِ بیان ہوتا ہے، جس میں محلے، اعِزااور احباب کے ذہن میں مختلف منفی و مثبت خیالات جنم لیتے ہیں اور متعلقہ فرد یا مجھ ایسے صحافی کی بیٹیاں سب کے سامنے سوالیہ نشان بن جاتی ہیں۔


یہی وہ موقع اور لمحہ ہوتا ہے جب آپ کا بیٹیوں کو دیا ہوا سیاسی اور سماجی شعور کام آتا ہے اور اس لمحے لیلیٰ رضا اپنی چھوٹی بہن مرضیہ رضا، چچا عارف رضا کی معیت میں اپنے بابا کی گم شدگی پر خم ٹھونک کر مقابلے کے لیے میدانِ عمل میں آ جاتی ہیں اور سیاسی شعور کی حکمت عملی سے سماج کی تمام پرتوں میں صدائے حق کی ندا دیتی ہیں۔

یہ وہ لمحہ تھا کہ جب لیلیٰ رضا اور مرضیہ رضا اپنے علمی رجحان سے منصوبہ بندی کر کے ایک گم شدہ باپ کے مقابلے میں ہزاروں باپ کی بیٹیاں بن جاتی ہیں۔اس موقع پر صحافیوں کی مرکزی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلٹس اور کراچی یونین آف جرنلسٹس لیلیٰ اور مرضیہ رضا کے ہم قدم ہو کر نہ صرف ان کے حوصلوں کو تقویت دیتے ہیں، بلکہ ان سے مسلسل رابطے میں بھی رہتے ہیں۔اس مشکل گھڑی میں سیاسی شعور رکھنے والے طلباء، ٹریڈ یونین رہ نما، دانشور تنظیمیں، انجمن ترقی پسند مصنفین کے ذمے داران، کمیونسٹ پارٹی اور ترقی پسند سوچ کے دوست اور صحافت سے وابستہ تمام احباب ہمارے کنبے کی قوت بن جاتے ہیں ۔

میں چودہ گھنٹے کے پٹی بندھے عمل کو کیسے بھول سکتا ہوں جس میں سوالات ہوتے رہے۔ ان گھنٹوں کے دوران مجھ سے انتہائی شائستہ اور دوستانہ رویہ رکھا گیا، جو ایک مثبت قدم ہے۔

مگر اغوا ہونے کا عذاب کیسے بھلایا جا سکتا ہے ، میرے اوسان میں سوالات کا ایسا جال ضرور بنا گیا جس کی گرہیں سلجھانے میں مجھے ایک وقت تو لگ سکتا ہے۔

میرا سوال یہ ہے کہ مجھ عامل صحافی سے کسی کو کیا لینا تھا۔ جب یہ ملک آئین و قانون کے مطابق چل رہا ہے یا چلائے جانے کا عندیہ دیا جا رہا ہے تو اس قسم کی وارداتیں کرنے والوں کو تلاش کیوں نہیں کیا جاتا۔ ہم صحافی بیک وقت ریاست کی بالا دستی اس کی حرمت، شہری آزادی، جمہوری قدروں کی سلامتی اور عوام کو با خبر رکھنے کے شعوری فرض سے آگاہ ہوتے ہیں، ریاست ہماری وہ ماں ہے جو سگی ماں سے بلند ہو کر ہمیں اپنے شکم اور بانہوں میں لوریاں دیتی ہے۔ہماری دھرتی ماں تو ہمیں جنم دینے والی ماں سے زیادہ عزیز ہوتی ہے، تبھی تو ہم اس کی بقاء و سلامتی اور اپنی ریاست کی آئینی حیثیت برقرار رکھنے پر کوڑے، قید اور اغواء کی صعوبتیں جھیلتے ہیں۔
Load Next Story