انضمام الحق جونسا اور بھوج پوری

بھوج پوری کا تعلق، بِہار کے سابق ضلع شاہ آباد کے پرگنہ بھوج پور سے ہے


سہیل احمد صدیقی October 10, 2021
بھوج پوری کا تعلق، بِہار کے سابق ضلع شاہ آباد کے پرگنہ بھوج پور سے ہے۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD: زباں فہمی 118

بعض کھلاڑی خصوصاً کرکٹرز اپنی کسی خاص عادت یا تکیہ کلام کی وجہ سے بھی مشہور ہوجاتے ہیں یا یوں کہیے کہ اُن کی یہ عادت، یہ تکیہ کلام بھی مشہور ہوتا ہے اور لوگ انھیں کبھی اس بابت چھیڑتے ہیں تو کبھی دوسروں سے استفسار کرتے ہیں کہ یہ کیا ہے، اس کے معانی کیا ہیں۔

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان انضمام الحق کی گفتگو میں ایک لفظ ''جونسا'' گویا تکیہ کلام کی حیثیت رکھتا ہے۔ انھی کی طرح بعض اور لوگ بھی جونسا اور جونسی بول کر مخاطب کو چونکادیتے ہیں۔ بے چارے Inzi (انضمام کی عرفیت) کی شامت آئی تو یار لوگوں نے کیمرے کے سامنے ہی پوچھا، یہ جونسا کیا ہوتا ہے۔ وہ کرکٹ کا کھلاڑی ہے، کوئی معلم، ادیب، شاعر، صحافی یا نشریات کار (Broadcaster) کے لیے خاکسار کا ترجمہ) نہیں، سو اُس نے بھولپن میں جواب دیا:''یہ لفظ تو کوئی نہیں، مجھے معلوم ہے....مگر میں بولتا ہوں''۔ خاکسار سے بھی کئی سال پہلے کسی نے پوچھا تو جواباً کہا تھا: ''سنا تو ہے، اَب تحقیق کرنی ہوگی''۔

ہم نے اپنے بچپن میں بچوں کو ایک کھیل ''لنگڑی پالا'' کھیلتے ہوئے دیکھا اور سنا کہ بچے، خصوصاً بچیاں دوسروں کو مخاطب کرکے کہتی تھیں (اور اب بھی کہتی ہیں، جہاں کہیں یہ کھیل کھیلاجاتا ہے): ''چھوٹی بڑی کونسی؟''۔ جواب میں کہا جاتا : ''دل چاہے جونسی''۔ بچپن ہی کی بات ہے کہ ہم نے قرآن مجید کی ابتدائی تعلیمِ ناظرہ محلے کی ایک خاتون، محترمہ عائشہ خاتون عرف آپا جی سے حاصل کی۔

جن کا آبائی تعلق آگرہ سے تھا۔ وہ جہاں آگرے کی مخصوص زنانہ بولی میں ''کھٹ دَنی''، ''پھٹ دنی''،''فٹ دنی''جیسی عجیب تراکیب بولا کرتیں (فوری، فوراً، جھٹ پَٹ کے مفہوم میں)، وہیں جونسا اور جونسی بھی کہا کرتی تھیں۔

ہمارے بچپن میں وہ اَدھیڑ عمر کی تھیں، مابعد بھی اُن کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا....اب ایک مدت سے اُن کی بابت کچھ علم نہیں۔ ان باتوں کی تصدیق کرنے والی میری لائق فائق بڑی ہمشیرہ ہومیو ڈاکٹر نے یہ انکشاف بھی کیا کہ وہ ہومیو معالجین کے ایک ایسے واٹس ایپ گروپ کی بھی رُکن ہیں جس کے اکثر اراکین فیصل آباد اور پنجاب کے دیگر شہروں سے تعلق رکھتے ہیں اور اُن کے صوتی پیغامات میں جونسا اور جونسی کا استعمال عام ہے۔

{بات کی بات ہے....گو اَکثر قارئین کے لیے غیرمتعلق سہی... کہ اس ہونہار کھلاڑی نے جس بینک کے شعبہ کھیل، تعلقات عامہ (Sports & PR Division) میں ملازمت سے اپنے کرکٹ کیریئر کا باقاعدہ آغاز کیا، عین اُسی وقت، یہ خاکسار بھی وہیں بطور نگراں تشہیر[In-charge Publicity Assignment] دو سال (۱۹۹۰ء تا ۱۹۹۲ء ) تعینات رہا، (پھر میں نے اسی بینک کے شعبہ 'غیرملکی زرِمبادلہ' [Foriegn Exchange Division] میں نو سال بسر کرکے، بینک کو خیرباد کہا)۔ محض اتفاق ہے کہ انضمام الحق سے، میری کبھی باقاعدہ ملاقات نہیں ہوئی۔

ہاں دور سے دیکھا ضرور۔ ہوتا یوں تھا کہ وہ، وقاریونس اور مشتاق احمد اپنے اپنے شہر سے سال میں ایک آدھ بار، حاضری لگانے اور بر بِنائے ضرورت ''بڑے صاحب'' سے ملنے کو کراچی آتے تو شعبے کے دوسرے دروازے سے داخل ہوتے اور وہیں سے رخصت ہوجاتے تھے۔

خاکسار نے اپنے فرض منصبی کے طور پر، اپنے بینک سے منسلک ہونے والے، راشد لطیف اور باسط علی سمیت متعدد نامور کھلاڑیوں کو پریس میں متعارف کرایا، پھر اس شعبے سے تبادلہ کرانے کے بعد، دیگر بینکوں کے بہت سے معروف اور گم نام کھلاڑیوں کی تشہیر بھی (اکثر بزبان انگریزی) اپنے قلم سے کی، اپنے بینک کے شعبہ کھیل، تعلقات عامہ کے کارناموں پر مبنی تاریخ (۱۹۷۴ء تا ۱۹۹۱ء ) بزبان انگریزی مرتب کی جو ہنوز غیرمطبوعہ ہے اور اسی تاریخ کے لیے مواد کی جمع و تحقیق کے لیے بارہا متعدد کھلاڑیوں سے اُن کے ذاتی ریکارڈ معلوم کیے}۔

نوراللغات دیکھی تو معلوم ہوا کہ لفظ جَون، (اسم) ضمیر ہے یعنی جِس (بقول مولوی نورالحسن نیرؔ ، اَب متروک ہے: شاید اُن کے علاقے میں ایسا ہوگیا ہو، ورنہ ہم تو اَب تک جونسا اور جونسی دیکھ اور سُن رہے ہیں۔س ا ص) ''جَونسا، (اسم ) ضمیر یعنی جو کوئی، جو شخص''۔ چلیے آگے چلتے ہیں۔

ہماری مرغوب لغت فرہنگ آصفیہ کہتی ہے: جَون (ہندی) اسم ضمیر، جِس، جو (ٹکسال سے باہر ہے: یعنی بقول سیداحمد دہلوی صاحب، یہ دلّی کی ٹکسالی /مستند زبان میں نہیں بولاجاتا۔ س اص); اسم ضمیر، جوکوئی ، جوشخص۔

لفظ جونسا کی تحقیق ابھی خام ہے، مگر لسانی معلومات کی بنیاد پر قیاس کیا جاسکتا ہے کہ یہ لفظ، بھوج پوری کے ''جونو'''[Jonu] (جوکہ) کا ہم رشتہ ہے جسے پنجابی میں 'جیھڑا' کہا جاتا ہے۔ یہ جونو، کونو' [Konu] یعنی کوئی کا جواب ہے۔ جملے میں استعمال: ''انور، جونو' کَلّو' کا بھائی ہے''۔ کونو' کا استعمال: ''پھِکر (فکر) کا کونو' بات نہیں''۔'' ہَمرے گاؤں ماں کونو' ڈاک خانہ نہیں ''(ہمارے گاؤں میں کوئی ڈاک خانہ نہیں)۔ مزید مثالیں ملاحظہ فرمائیں: '' ای (یہ ) کون (کونسا) کپڑا آپ نے پاہنا (پہنا) ہے؟''...جواب: ''ارے اوہی نے، جونو' آپ نے دیا تھا''۔

(یہ خالص بِہاری لہجہ ہے)۔ {یہاں ایک غیرمصدقہ بات ایسے ہی نقل کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔ اس کھلاڑی کے ابتدائی دور میں، سینہ گزٹ یہ تھا کہ انضمام الحق کا تعلق، قیام پاکستان کے وقت، ملتان میں سکونت اختیار کرنے والے کسی بِہاری گھرانے سے ہے }۔ ویسے وِکی پیڈیا پر موجود یہ وڈیو کلپ بھی بھوج پوری کا مخصوص لہجہ بتانے کو کافی ہے:

A speaker of Bhojpuri.۔

چونکہ بھو ج پوری، ہندی کی بولی سے ترقی کرکے زبان بن گئی ہے اور اسے ہندوستانی ریاست بِہار کی دیگر دو زبانوں مگدھی اور میتھلی کے ساتھ، مرکزی حیثیت حاصل ہوچکی ہے، لہٰذا اسے ہندی کے خاندان میں شامل سمجھا جاتا ہے، مگر خاکسار کا نکتہ اعتراض یہ ہے کہ قدیم ہندی محض بھجنوں تک محدود ہے اور آج کل جسے ہندی کہا جاتا ہے۔

وہ مصنوعی زبان، درحقیقت، دیوناگری میں لکھی جانے والی اردو ہے جس میں سنسکِرِت سے الفاظ ٹھونسنے کے ساتھ ساتھ، عجیب وغریب الفاظ و تراکیب وضع کیے گئے ہیں۔ ہمارے عہد کے نامور ادیب و نقاد، ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی مرحوم بھی اسی نقطہ نظر کے حامی تھے۔ گوپی چند نارنگ صاحب قدرے مختلف انداز میں مباحث کو سمیٹتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ اردو اور ہندی، اپنی بنیاد اور جڑ سے ایک ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ ان دونوں زبانوں کی نشونَما اس طور پر ہوئی کہ اَب یہ دونوں آزاد، مستقل بالذات اور الگ الگ زبانیں ہیں۔

اب بات ذرا کھُل کے کی جائے تو مزہ ہے۔ اس لسانی تناظر میں بھوج پوری، قدیم اردو ہی کی زندہ اور ترقی یافتہ بولی ہے جس کے بولنے والے پچاس ملین افراد (انٹرنیٹ پر دستیاب اعدادوشمار کے مطابق) بھی اردو گو طبقے یا قوم کا حصہ ہیں۔ اسی طرح دیگر بولیوں کے اعداد وشمار بھی ہمارے کھاتے میں آئیں گے۔

بھوج پوری کا تعلق، بِہار کے سابق ضلع شاہ آباد کے پرگنہ بھوج پور سے ہے۔ بہار، جھارکھنڈ، اُتّرپردیش اور ہمسایہ ملک نیپال کے اضلاع باڑہ اور پارسا میں یہی زبان، عوام کی اکثریت کی مادری زبان ہے۔ اس خطے کے علاوہ براعظم افریقہ میں ماریشس اور جنوبی افریقہ، جزائرغرب الہند[West Indies] میں ٹرینیڈاڈ اور ٹوبیگو اور گیانا، جنوبی امریکا میں سُوری نام، جبکہ جنوبی بحرالکاہل میں جزائر فِجی وہ ممالک ہیں جہاں بھوج پوری بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ ان میں ابتدائی طور پر وہ ہندوستانی مزدورشامل تھے جنھیں انیسویں صدی سے بیسویں صدی تک انگریزبیگارکے لیے جزائرغرب الہند لے گئے تھے۔

ہرچند کہ ماہرلسانیات گرئیر سن [Sir George Abraham Grierson]نے بھوج پوری کی علاقائی تقسیم شِمالی، جنوبی، مغربی اور نِگ پوریا کے عنوان سے کی تھی، مگر آج اس کا حلقہ اس قدر وسیع ہوچکا ہے کہ اس کی شاخیں یا بولیاں بھی علاقے کے فرق سے مُسَلّم ہیں۔ انٹرنیٹ سے ہمیں یہ نام دستیاب ہوئے: پوربی، کیرے بئین (جزائر غرب الہند) ہندوستانی، تھارُو بھوج پوری، مدھیسی، بستی، سروریہ، ڈومرا، کھارواری، ماریشین ہندی، گورکھ پوری، فِجی ہندی، مُوساہاری اور بنارسی۔

بھوج پوری بولنے والی بعض شخصیات اپنے ممالک میں (مثلاً فِجی میں) سربراہ مملکت یا سربراہ حکومت کے منصب پر بھی فائز رہ چکی ہیں۔ چند مشاہیر کی فہرست ملاحظہ فرمائیں:

حریت پسند رہنما منگل پانڈے، سابق بھارتی وزیراعظم چندرشیکھر، مصنف بھِکاری ٹھاکُر، شاعر ہیِرا ڈوم، گلوکارراج موہن، شاعر دِنیش بھرمر، اداکارہ اَمراپَلی ڈُوبے، سیاست داں بندیش وَری ڈُوبے، بھوج پوری فلمی ہدایت کارسُوشیل کُمار اُپادھیائے، اداکاروسیاست داں رَوی کِشَن، تحریک آزادی ہند کے رہنما و سیاست داں جَے پرکاش نَرائن، اداکاروگلوکارراکیشن مِشرا، اولین صدرجمہوریہ بھارت ڈاکٹر راجندرپرشاد، سیاست داں اوم پرکاش راج بھر، سیاست داں سَریو رائے، آزادی ہند کے جنگجو نیلمبر اور پیتمبر، سابق وزیراعظم بھارت لال بہادرشاستری، سابق وزیراعلیٰ بِہارلالو پرشاد یادَو اور بہت سے دیگر (وکی پیڈیا کی فہرست کے مطابق)۔

''بھوج پوری ادب کا تعارف'' نامی ایک وقیع کتاب ڈاکٹر فضلِ امام صاحب، شعبہ اردو، راجستھان یونی ورسٹی (جے پور) کے قلم سے ''ناشرین''، الہ آباد نے ۱۹۷۴ء میں شایع کی جو مشہور ویب سائٹ ریختہ ڈاٹ آرگ پر دستیاب ہے۔ فاضل محقق نے ابتداء ہی میں لکھا ہے کہ ''بھوج پوری ایک زندہ زبان ہے۔ اگرچہ بھوج پوری علاقے میں ذریعہ تعلیم ہندی ہے، پھر بھی اپنی مادری زبان کے لیے، بھوج پوریوں میں زیادہ خلوص اور محبت ہے۔ عام طور سے جہاں طلبہ اور اساتذہ دونوں بھوج پوری ہیں، وہاں سخت اور مشکل الفاظ کا مفہوم سمجھانے کے لیے اکثر اساتذ ہ بھوج پوری کااستعمال کرتے ہیں، خاص طور سے ابتدائی درجات کے طلبہ اپنے اساتذہ سے بھوج پوری ہی میں مخاطب ہوتے ہیں۔ یہ بھی اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ گاؤں میں اگر کوئی شخص بھوج پوری کے علاوہ، ہندی، اردو یا انگریزی زبان کا استعمال کرتا ہے تو وہ تمسخر کا مرکز بن جاتا ہے''۔

ڈاکٹر فضل امام صاحب کی کتاب تو ۱۹۷۴ء تک دور کا احاطہ کرتی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ آج بھی بھوج پوری والے اپنی زبان سے تعلق خاطر کا اظہار کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے، جیسا کہ پاکستان میں اردو گو طبقہ کرنے لگا ہے۔

ہمارے بزرگ معاصر محترم احمدسہیل صاحب (مقیم امریکا) نے ۴اکتوبر ۲۰۱۶ء کو فیس بک پر، دَربھَنگہ، بہار (ہندوستان) کے ادبی جریدے ''تمثیلِ نَو'' کا تعارف اور تبصرہ پیش فرماتے ہوئے انکشاف کیا کہ اس پرچے میں دیگر کے علاوہ ، سابق وزیراعلیٰ بِہار جناب لالوپرشاد یادَو نے بھوج پوری میں تأثر رقم کیا ہے اور اس پر دستخط اردو میں کیے ہیں۔

''بھوج پوری ادب کا تعارف'' میں منقول، بھوج پوری میں شامل اور دَخیل عربی وفارسی الفاظ کی فہرست یہ اَمر واضح کرنے کو کافی ہے کہ ظاہری فرق سے قطع نظر، یہ زبان اردو سے کس قدر متعلق ہے:

امیر، اُجیِر (وزیر)، کھان دانی (خاندان)، تاج، دربار، دَو لَتی (دولت)، نَباب (نواب)، بَدساہ (بادشاہ)، مری جا (مرزا، میرزا)، مالک، ہجور (حضور)، کابو (قابو)، جکھم (زخم)، دُسمن (دشمن)، رَستی (رَسد)، رسالہ، سکار (شکار)، سردار، ہمّتی (ہمت)، آواد (آباد)، استمراری، بنوبست (بندوبست)، کانی گوہ (قانون گو)، گماستا (گماشتہ)، جیندادی (جائیداد)، دروگا (دروغہ)، دفدر (دفتر)، ناجر (ناظر)، پیادہ، ماپھ (معاف)، گلتی (غلطی)، موہری (مہر)، سبکھ (سبق)، سان(شان)، صوبہ، حسد، حساب، عدالتی (عدالت)، اَکِل (عَقل)، اجہار (اظہار)، اِلاکا (علاقہ)، اُجر(عُذر)، کسور (قصور)، کنونی (قانونی)، کھلاف (خلاف)، جابتا (ضابطہ)، جاری، درکھاست (درخواست)، نکل (نقل)، نبالِک (نابالغ)، نالس (نالش)، پھری آد (فریاد)، مُوں کدما (مقدمہ)، مُنسِپھی (منصفی)، سپھائی (صفائی)، منہت (محنت)، ہک (حق)، حاکم، حاجتی (حاجت)، حُلیہ، اجُو (وضو)، آؤلیا (اولیاء)، اَلّہ (اللہ)، اِمان (ایمان)، اسلام، اِیدی (عید)، کبُری (قبر)، کپھن (کفن)، کا پھر (کافر)، کابا (کعبہ)، کُربانی (قربانی)، کھتنا (ختنہ)، گاجی (غازی)، جُمّا (جمعہ)، توبا (توبہ)، دری گاہ (درگاہ)، دین، دعا، نبی، نماج (نماز)، روجا (روزہ)، نکاح، نور، پھرستا (فرشتہ)، بسملّا (بسم اللہ)، مہجدی (مسجد)، موہرم (محرّم)، مومن، رسول، سری یت (شریعت)، حدیث، حلال، کھُودا (خدا)، پیگمبر (پیغمبر)، ادب، عالم، اجّتی (عزت)، آبروُہ (آبرو)، انتیہان (امتحان)، ای لِم (علم)، کھت (خط)، گجل (غزل)، کسیدا (قصیدہ)، مجی نس (مجلس)، مہپھل (محفل)، منسی (منشی)، ساگردی (شاگرد)، اوستاد (استاد)، ستار، َحروپھ (حروف)، لبج (لفظ)، بیاج (بیاض)، چراگ (چراغ)، اَ ہ تر (استر)، اے نا (آئینہ)، انگور، اچکن، اتر (عطر)، اَتس باجی (آتش بازی)، کاگج (کاغذ)، کم کھواب (کم خواب)، کِس مِس (کشمش)، کسائی (قصائی/قسائی)، کھن ساما (خان ساماں)، کھستا (خستہ)، رِستا (رشتہ)، اجیج (عزیز)، گج (گز)، گوسَت (گوشت)، چرکھا (چرخہ)، چسماں (چشمہ)، جری (زری)، جردہ (زردہ)، تگما (تغمہ/تمغہ)، ترجُئی (ترازو)، تسبیر (تصویر)، تسبی (تسبیح)، تکی آ (تکیہ)، دلانی (دالان)، پَے جامہ (پاجامہ)، پھراس (فرش)، پھانوس (فانوس)، بگیچہ (باغیچہ)، بَدام (بادام)، مکھمل (مخمل)، مائدہ (میَدہ)، روجی (روزی)، ملھم (مرحم)، رَپھو (رفو)، رومال، رکاب، ریسم (ریشم)، لگام، سنوکھی (صندوق، صندوقچی)، سُرکھی (سُرخی)، سوراہی (صراحی)، ہُوں کا (حُقہ)۔ {اس فہرست میں شامل بہت سے الفاظ اسی شکل میں دیگر زبانوں، خصوصاً ہمارے پنجاب کی زبانوں میں بھی محفوظ ہیں۔ یہ الگ باب تحقیق ہے۔س ا ص}۔

یہاں دو باتیں اور قابل ذکر ہیں۔ جو لوگ اردو اور اس سے جُڑی ہوئی قدیم بولیوں کے ادب سے ناواقف ہیں، اُنھیں یہ معلوم نہیں کہ دیگر کی طرح، بھوج پوری میں بھی لوک ادب کو محفوظ کرنے کا کام، مدتوں پہلے، فرنگیوں کے دورِاقتدار میں ہوچکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ سارامواد اَب اَزسرنو مرتب وشایع ہو اور آن لائن پیش کیا جائے۔ دوسری بات یہ کہ بھوج پوری میں شاعری کا باب بھی ایک الگ تفصیل چاہتا ہے۔ ہندی کا نامور شاعر بھگت کبیر ؔ بھوج پوری ہی کا شاعر تھا، مگر اس کے کلام میں اَوَدھی، برج، پوربی، مگدھی (مگھی)، میتھلی، راجستھانی (سُدھکّڑی) اور پنجابی کے اثرات بھی نمایاں ہیں۔

یہ وہ دور تھا جب زبان اپنے ارتقائی مراحل طے کررہی تھی۔ اس صورت میں کسی بھی نمونہ کلام میں، خواہ نظم ہو یا نثر، مختلف دیسی بولیوں/زبانوں کا قدرتی اختلاط کوئی انوکھی بات نہیں۔ ڈاکٹر فضل امام نے اس نکتے پر بہت عمدگی سے روشنی ڈالی ہے کہ کبیرؔ کی زبان، اُن کے اپنے خیال میں پوربی تھی، مگر یہ بالتحقیق، بھوج پوری کی شاخ، بنارسی ہے۔ انھوں نے کبیرؔ کا نمونہ کلام نقل کرتے ہوئے دیگر زبانوں اور بولیوں کے واضح اثرات بھی واضح کیے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ۱۹۶۰ء [1960]کی دہائی کے اوائل میں بھارت کے اولین صدرجمہوریہ، راجندر پرشاد بھوج پوری نے فلمی اداکار نذیر حسین سے ملاقات کرکے انھیں بھوج پوری میں فلم بنانے کی ہدایت کی۔ انھوں نے اولین فلم ''گنگا مَیّا تو ہے پیاری چڑھائیبو'' (گنگا ماں! تجھے پیلی ساڑی نذرکروں) نامی فلم بنائی۔۱۹۶۲ء میں نمائش کے لیے پیش ہونے والی اس فلم کے ہیرو نذیرحسین نے پانچ سو سے زائد ہندوستانی فلموں میں کام کیا، وہ اداکاروہدایت کار ہونے کے ساتھ ساتھ مصنف بھی تھے، جبکہ اس اولین فلم کی ہیروئن کُم کُم (زیب النساء) کا تعلق شیخ پور، بِہار سے تھا۔

برسبیل ِتذکرہ یہاں ایک اور نقل پیش کرنا چاہتا ہوں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھوج پوری بولنے والے اردو سے کتنا لگاؤ رکھتے ہیں۔ نیپال کے اردو اخبار صدائے عام، (جنک پور) نے فیس بک پر یہ اشتہار جاری کیا:

''خطبہ جمعہ میں مردم شُماری کے متعلق عوام کو کیسے بیدار کریں!

قابل قدر علمائے کرام وخطبائے عظام

آپ قوم و ملت کے رہبر ہیں آپ چاہیں تو معاشرے میں انقلاب برپا کر سکتے ہیں، لوگ آپ کی قدر کریں یا نہ کریں لیکن آپ رب العالمین کی نگاہ میں بہت ہی عظیم ہیں۔ کل بروز جمعہ 23/9/2021، نیپالی مسلمانوں کے لئے نہایت ہی اہم ہے۔ کیونکہ مردم شُماری یعنی جن گنا شروع ہے۔ عوام کو اس کے متعلق معلومات کی کمی ہے، آپ انہیں بتائیں کہ

دھرم میں : اسلام

ذات میں: مسلم

پرکھا بھاشا میں: اردو

ماترک بھاشا میں: اردو

دوسرو بھاشا میں: میتھلی بھوج پوری وغیرہ لکھائیں۔

کیونکہ بھاشا اور تعداد جتنا پرسینٹیز ہوگا اسی کے مطابق آپ کو حقوق دیئے جائیں گے۔ کل زوم میٹنگ میں بھی ضرور شامل ہوں تاکہ اس کی اہمیت کو آپ بخوبی سمجھ سکیں۔ نیچے فارم کا نمونہ موجود ہے اسے ضرور دیکھ لیں۔ شکریہ

قاسم راعین عالیاوی

صدائے عام اردو دھنوشا جنکپور نیپال وٹیم مقصد حیات''

٭دھرم : مذہب، پرکھا بھاشا: پُرکھوں یعنی آباء واجداد کی زبان، ماترک بھاشا: مادری زبان، دوسرو بھاشا: دوسری زبان۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں