سندھ میں سرکاری عہدوں پر تعینات نیب زدہ افسران کو فوری ہٹانے کا حکم
سزا یافتہ اور ضمانت پر رہا ملزمان کو عہدے نہ دینے کا حکم
سندھ ہائیکورٹ نے نیب زدہ افسران سے متعلق بڑا فیصلہ سناتے ہوئے سزا یافتہ اور ضمانت پر رہا ملزمان کو عہدے نہ دینے اور عہدوں پر موجود افسران کو فوری ہٹانے کا حکم دیدیا۔
جسٹس اصلاح الدین پہنور کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو سرکاری محکموں میں نیب زدہ افسران کو عہدوں پر رکھنے سے متعلق سماعت ہوئی۔ نیب نے کرپشن کے الزام میں ملوث اور سزا یافتہ ملزمان کی فہرست عدالت میں پیش کردی۔ رپورٹ کے مطابق 494 افسران نے رضاکارانہ طور پر سرکاری خزانے کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کی۔ 41 افسران نے نیب سے عدالت میں پلی بارگین کی۔ 108 افسران پر کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کے الزامات میں ریفرنس دائر ہیں۔ 71 افسران کو سزائیں ہوئیں، تاہم سزا کے خلاف اپیلیں ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہیں۔ وی آر کرنیوالے افسران کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التواء ہے۔
فوکل پرسن نے بتایا کہ بورڈ آف ریونیو کے 14 افسران سزا یافتہ تھے۔ عدالت نے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے استفسار کیا کہ یہ افسران کس کس عہدے پر تعینات تھے۔ سندھ حکومت کے وکیل نے موقف دیا کہ 10 افسران کو عہدوں سے ہٹا دیا ہے ان میں مختیار کار اور تپیدار شامل تھے۔
جسٹس صلاح الدین پہنور نے اظہار حیرانی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے یہ سزا یافتہ افسران عہدوں پر کیا کیا کر رہے ہوں گے۔ رپورٹ میں بتایا گیا محکمہ لوکل گورنمنٹ میں 3 افسران کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔ محکمہ جنگلات، بلدیات کے تین سزا یافتہ افسران کو عہدوں سے ہٹایا گیا۔ محکمہ ایری گیشن میں 7 سزا یافتہ افسران کو عہدوں سے ہٹایا گیا۔ پولیس کی رپورٹ میں بتایا گیا محکمہ پولیس میں کوئی بھی افسر سزا یافتہ نہیں ہے صرف ایک کانسٹیبل سزا یافتہ تھا۔
جسٹس صلاح الدین پہنور نے ریمارکس دیئے سزا یافتہ کانسٹیبل کو بھی کہیں پوسٹنگ نہ دی جائے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ورکس اینڈ سروسز میں چار سزا یافتہ افسران کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ ایس اینڈ جی ڈے اے ڈیپارٹمنٹ کا کین کمشنر اور سیکشن آفیسر سزایافتہ تھا عہدوں سے ہٹا دیا۔
جسٹس صلاح الدین پہنور نے ریمارکس دیئے سزایافتہ کین کمشنر تعینات کیا تھا، کیا ہوا ہوگا آباد کاروں کا۔ کہاں سے ملتے ہیں ایسے افسران ، کہاں سے تلاش کرکے لاتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ورکرز ویلفئیر بورڈ میں ایک آفیسر سزا یافتہ تھا جسے عہدے سے ہٹا دیا۔ عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ ورکرز ویلفئیر بورڈ کے کس عہدے پر تعینات تھا یہ آفیسر؟ سرکاری وکیل نے موقف دیا کہ ڈائریکٹر ورکرز ویلفئیر بورڈ کے عہدے پر تعینات تھا۔
عدالت نے اظہار تشویش کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ڈائریکٹر سزا یافتہ بٹھایا ہوا تھا، دال میں کچھ کالا ہے ہمیں گھمائیں پھرائیں نہیں۔ سچ بتائیں کہ عدالتی حکم پر کیا ہوا ہے۔
فوکل پرسن نے بتایا کہ محکمہ تعلیم میں چار افسران سزا یافتہ تھے جنہیں عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کتنا سنجیدہ معاملہ ہے سزایافتہ افسران کو عہدوں پر تعینات کیا ہوا تھا، ہم وی آر کرنے والوں کی بات نہیں کررہے۔
جامع رپورٹس جمع نہ کرانے پر عدالت سرکاری وکیل پر برہم ہوگئی۔ جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیئے آپ کے افسران عدالت سے حقائق چھپانا چاہتے ہیں۔ کیا چیف سیکریٹری کو براہ راست طلب کریں؟ ہم نے ہر محکمے سے رپورٹ طلب کی، کیوں پیش نہیں کر رہے۔
سندھ ہائی کورٹ نے نیب زدہ افسران سے متعلق بڑا حکم نامہ جاری کرتے ہوئے سزا یافتہ اور ضمانت پر رہا ملزمان کو عہدے نہ دینے کا حکم دیدیا۔
عدالت نے سزا یافتہ اور ضمانت پر رہا افسران کو عہدوں سے فوری ہٹانے اور چیف سیکریٹری کو عدالتی حکم پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی پر توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔ عدالت نے سندھ حکومت سے ایک بار پھر عمل درآمد رپورٹ طلب کرلی۔
جسٹس اصلاح الدین پہنور کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو سرکاری محکموں میں نیب زدہ افسران کو عہدوں پر رکھنے سے متعلق سماعت ہوئی۔ نیب نے کرپشن کے الزام میں ملوث اور سزا یافتہ ملزمان کی فہرست عدالت میں پیش کردی۔ رپورٹ کے مطابق 494 افسران نے رضاکارانہ طور پر سرکاری خزانے کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کی۔ 41 افسران نے نیب سے عدالت میں پلی بارگین کی۔ 108 افسران پر کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کے الزامات میں ریفرنس دائر ہیں۔ 71 افسران کو سزائیں ہوئیں، تاہم سزا کے خلاف اپیلیں ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہیں۔ وی آر کرنیوالے افسران کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التواء ہے۔
فوکل پرسن نے بتایا کہ بورڈ آف ریونیو کے 14 افسران سزا یافتہ تھے۔ عدالت نے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے استفسار کیا کہ یہ افسران کس کس عہدے پر تعینات تھے۔ سندھ حکومت کے وکیل نے موقف دیا کہ 10 افسران کو عہدوں سے ہٹا دیا ہے ان میں مختیار کار اور تپیدار شامل تھے۔
جسٹس صلاح الدین پہنور نے اظہار حیرانی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے یہ سزا یافتہ افسران عہدوں پر کیا کیا کر رہے ہوں گے۔ رپورٹ میں بتایا گیا محکمہ لوکل گورنمنٹ میں 3 افسران کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔ محکمہ جنگلات، بلدیات کے تین سزا یافتہ افسران کو عہدوں سے ہٹایا گیا۔ محکمہ ایری گیشن میں 7 سزا یافتہ افسران کو عہدوں سے ہٹایا گیا۔ پولیس کی رپورٹ میں بتایا گیا محکمہ پولیس میں کوئی بھی افسر سزا یافتہ نہیں ہے صرف ایک کانسٹیبل سزا یافتہ تھا۔
جسٹس صلاح الدین پہنور نے ریمارکس دیئے سزا یافتہ کانسٹیبل کو بھی کہیں پوسٹنگ نہ دی جائے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ورکس اینڈ سروسز میں چار سزا یافتہ افسران کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ ایس اینڈ جی ڈے اے ڈیپارٹمنٹ کا کین کمشنر اور سیکشن آفیسر سزایافتہ تھا عہدوں سے ہٹا دیا۔
جسٹس صلاح الدین پہنور نے ریمارکس دیئے سزایافتہ کین کمشنر تعینات کیا تھا، کیا ہوا ہوگا آباد کاروں کا۔ کہاں سے ملتے ہیں ایسے افسران ، کہاں سے تلاش کرکے لاتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ورکرز ویلفئیر بورڈ میں ایک آفیسر سزا یافتہ تھا جسے عہدے سے ہٹا دیا۔ عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ ورکرز ویلفئیر بورڈ کے کس عہدے پر تعینات تھا یہ آفیسر؟ سرکاری وکیل نے موقف دیا کہ ڈائریکٹر ورکرز ویلفئیر بورڈ کے عہدے پر تعینات تھا۔
عدالت نے اظہار تشویش کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ڈائریکٹر سزا یافتہ بٹھایا ہوا تھا، دال میں کچھ کالا ہے ہمیں گھمائیں پھرائیں نہیں۔ سچ بتائیں کہ عدالتی حکم پر کیا ہوا ہے۔
فوکل پرسن نے بتایا کہ محکمہ تعلیم میں چار افسران سزا یافتہ تھے جنہیں عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کتنا سنجیدہ معاملہ ہے سزایافتہ افسران کو عہدوں پر تعینات کیا ہوا تھا، ہم وی آر کرنے والوں کی بات نہیں کررہے۔
جامع رپورٹس جمع نہ کرانے پر عدالت سرکاری وکیل پر برہم ہوگئی۔ جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیئے آپ کے افسران عدالت سے حقائق چھپانا چاہتے ہیں۔ کیا چیف سیکریٹری کو براہ راست طلب کریں؟ ہم نے ہر محکمے سے رپورٹ طلب کی، کیوں پیش نہیں کر رہے۔
سندھ ہائی کورٹ نے نیب زدہ افسران سے متعلق بڑا حکم نامہ جاری کرتے ہوئے سزا یافتہ اور ضمانت پر رہا ملزمان کو عہدے نہ دینے کا حکم دیدیا۔
عدالت نے سزا یافتہ اور ضمانت پر رہا افسران کو عہدوں سے فوری ہٹانے اور چیف سیکریٹری کو عدالتی حکم پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی پر توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔ عدالت نے سندھ حکومت سے ایک بار پھر عمل درآمد رپورٹ طلب کرلی۔