شعریات ایک نادر کتاب

ایک زمانہ تھا کہ جب اردو اردو ہوا کرتی تھی اور اس میں انگریزی کی بے جا آمیزش کو ہنر کے بجائے عیب گردانا جاتا تھا


Shakeel Farooqi September 11, 2012
[email protected]

ISLAMABAD: گزشتہ دنوں معاصر روزنامے میں ''کتابوں اور آرکائیوز کا حالِ زار'' کے زیرِ عنوان ممتاز شاعرہ، ادیبہ، دانش ور اور کالم نگار کشور ناہید کا کالم نظر سے گزرا تو مدتِ دراز کے بعد کاغذوں کے بد رنگ ہونے کے حوالے سے لفظ ''بھوسلے'' پڑھا تو زبانِ اردو کے اور کئی ایسے الفاظ یاد آگئے۔

جو روزمرّہ استعمال سے خارج ہونے کے نتیجے میں اب متروک ہوچکے ہیں اور ہماری نئی تانتی یا پیڑھی (نسل) ان الفاظ سے بالکل ناواقف بلکہ نابلد ہے۔ مثلاً بساند، مچھاند اور بھکواند وغیرہ جو بدبو کی مختلف اقسام کے لیے استعمال ہوا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ اور بہت سے الفاظ ہیں جن کے بارے میں اندیشہ ہے کہ وہ ہماری نسل کے معدوم ہوجانے کے بعد شاید لغت سے بھی خارج ہوجائیں گے۔ ایک زمانہ تھا کہ جب اردو اردو ہوا کرتی تھی اور اس میں انگریزی کی بے جا آمیزش کو ہنر کے بجائے عیب گردانا جاتا تھا۔ مگر بھلا ہو ہمارے میڈیا کے موجودہ طرزِ عمل کا اردو کی وہ درگت بنا کر رکھ دی ہے کہ بے چاری بے زبانی کے عالم میں پناہ مانگ رہی ہے۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب ریڈیو پاکستان برقی ابلاغ کا واحد نشریاتی ادارہ تھا۔

یہ بابائے نشریات زیڈ اے بخاری کا سنہری دور تھا جب صحتِ زبان کو برقرار رکھنے کے لیے باقاعدہ ماہرین زبان کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں اور مجال نہ تھی کہ ریڈیو پاکستان سے کسی لفظ کا تلفظ غلط نشر ہوجائے۔ ممکن ہی نہ تھا کہ ''ش'' ''ق'' کا غلط تلفظ کرنے والا کوئی شخص مائیکرو فون تک رسائی حاصل کرلے۔ سامعین ریڈیو پاکستان سے صرف اپنی گھڑیوں کا وقت ہی نہیں بلکہ بول چال کے الفاظ کے تلفظ بھی درست کیا کرتے تھے۔ پی ٹی وی کا آغاز بھی اس لحاظ سے غنیمت تھا کہ اس کے بانیان کی غالب اکثریت بھی ریڈیو پاکستان کی تربیت یافتہ اور پروردہ تھی۔

میڈیا کا عہدِ رفتہ ایک مقصد، ایک تحریک اور مشن سے عبارت تھا۔ تب اسے معلومات، علم و آگہی اور تفریح کے موثر وسیلے کے علاوہ زبان اور اخلاق سنوارنے کا ایک اہم ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ اس زمانہ میں ''پہلے تولو اور پھر بولو'' کا چلن تھا جب کہ اس کے بالکل برعکس آج کا دور ''کاتا اور لے دوڑی'' والا دور ہے۔ نشریات کی عملی تربیت کے علاوہ ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کے باقاعدہ تربیتی ادارے بھی موجود ہیں، جہاں نشر کاروں کو غلط اور صحیح کا فرق بتانے کے علاوہ آواز اور لہجے کے زیروبم تک سِکھائے جاتے ہیں۔ مگر جب سے نجی ریڈیو اور ٹی وی چینلوں کا دور شروع ہوا ہے، معاملات دگرگوں بلکہ بد سے بدتر ہورہے ہیں۔ بیشتر اینکرز کو تو نشریاتی اور اخلاقی تقاضوں کا سرے سے کوئی احساس ہی نہیں ہے۔ بس جو منہ میں آیا کہہ دیا۔

آج وطنِ عزیز میں 147 ایف ایم ریڈیو، ٹی وی چینلز کی تعداد 435 تک جاپہنچتی ہے۔ ان میں سے بیشتر چینلز کے پروگراموں، خصوصاً ٹاک شوز میں زبان کی مٹی پلید کی جارہی ہے۔ رہی سہی کسر اشتہاروں میں استعمال ہونے والی زبان نے پوری کردی ہے جو کہ اردو اور انگلش کا ملغوبہ ہے جسے اردِش کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ کم و بیش یہی حال پرنٹ میڈیا کا بھی ہے جہاں اردو کو رومن رسم الخط میں لکھنے کا رواج عام ہوگیا ہے جس نے املا کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے۔ ہمارے میڈیا کی یہ غلط روش قومی زبان کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔ یہاں ہم لفظ زیادتی کے ہم معنی انگریزی لفظ کو اخلاقی بِنا پر لکھنے سے اجتناب کررہے ہیں۔

اس پرآشوب دور میں جب کہ اردو کا جنازہ اٹھ رہا ہے، برادرم نصیر ترابی کی کتاب شعریات (Poetics) صحت و درستی زبانِ اردو کے حوالے سے ایک انقلاب آفریں اصلاحی کاوش ہے جسے خود آموز کتاب کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ سچ پوچھیے تو اردو کی زوال پذیری اور بے توقیری کے اعتبار سے ایسی زبردست اور انوکھی کتاب کی اشاعت ایک تصنیفی اور اشاعتی معرکے سے کم نہیں جس کے لیے مصنف نصیر ترابی اور ناشر اقبال صالح محمد تہنیت کے مستحق ہیں۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق کی روح یقیناً اس انوکھی کتاب کی اشاعت سے باغ باغ ہورہی ہوگی۔

زیر تذکرہ کتاب کو اپنے نام کے حوالے سے عظیم فلسفی ارسطو کی کتاب Poetics سے خاص نسبت ہے جسے فنِ شاعری کے اعتبار سے دنیا بھر میں ادبی تنقید کی اوّلین کتاب تسلیم کیا جاتا ہے۔ چنانچہ نصیر ترابی نے اپنی بات کی شروعات شعر کی تعریف ہی سے کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ''شعریات (Poetics) کی بابت صرف سماعی انحصار کرنا گویا کسی انتشار کے ہاتھوں اغوا ہوجانا ہے۔''
نصیر ترابی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں کہ ''آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے۔'' منفرد لب و لہجہ اور مخصوص اسلوب کا شاعر ہونے کے علاوہ وہ اردو زبان و ادب پر بھی قدرت رکھتے ہیں۔ الفاظ اور ان کے معنی و مفاہیم کی نزاکتوں کو سمجھنے اور برتنے کا فن انھیں اپنے نابغۂ روزگار والدِ محترم علامہ رشید ترابی سے ورثے میں ملا ہے۔

تحقیقی انداز اور خوب سے خوب تر کی جستجو ''خوشبو کا خمیرا ٹھتا ہے خاکستر گل سے'' کے مصداق ان کے خون اور خمیر میں شامل ہے۔ تخلیق کا میدان ہو یا تحقیق کا، نصیر ترابی جوئے شیر لانے کے قائل ہیں۔ الفاظ و معانی کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہو کر گوہرِ مقصود تلاش کرکے لانا ان کے مزاج کا جزولاینفک ہے۔ وہ ہر نقطہ اور ہر پہلو پر ہر زاویے سے غور و خوض کرتے ہیں اور اس کے بعد کوئی نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے انھیں باکمال یا تکمیلیت پسند کہنا ہی زیادہ مناسب ہوگا۔ بہ ظاہر سیماب صفت اور متلون مزاج لگنے والے نصیر ترابی نے انتہائی عرق ریزی کے بعد مذکورہ کتاب تحریر کرکے اپنی شخصیت پر مستقل مزاجی کی مہر ثبوت ثبت کردی ہے۔

مصنف نے بہت چھان پھٹک کے بعد بیش قیمت مواد کو نہ صرف جمع کیا ہے بلکہ انتہائی سلیقے سے ترتیب دے کر لسانی اجتہاد کے ساتھ پیش کیا ہے۔ یہ کتاب فن عروض و شاعری کے علاوہ علمی و ادبی حوالوں سے بھی ایک انمول خزانے کی حیثیت رکھتی ہے اور انتہائی جامعیت کے ساتھ اردو کے لسانی و ادبی تقاضوں کی تکمیل کرتی ہے۔ یہ کاوش بحرِ بے کراں کو کوزے میں سمونے کے مترادف ہے۔ تاہم کتابِ ہٰذا کے آیندہ نظرثانی شدہ ایڈیشن میں ترمیمات و اضافے کی گنجایش موجود ہے۔

اردو زبان و ادب کے طلبا و طالبات کے علاوہ اساتذہ کرام بھی اس کتاب سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ اردو زبان کی باریکیوں سے نابلد اور الفاظ کے درست املا و تلفظ سے بے بہرہ الیکٹرونک میڈیا کے کمپیئرز، اینکرز اور نیوز کاسٹرز کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ علاوہ ازیں نوآموز لکھاریوں اور شعرا کے لیے یہ کتاب رہنما کا درجہ رکھتی ہے۔ اردو زبان کے شیدائی اور درست اردو لکھنے اور بولنے کے خواہش مند اپنے پیارے اور نہایت محترم قارئین کے لیے بھی ہمارا یہ پرخلوص مشورہ ہے کہ وہ اس کتاب کو ضرور پڑھیں۔ شعبۂ تعلیم سے وابستہ ارباب اختیار کی خدمت میں عرض ہے کہ اردو ایم اے کی سطح پر اس کتاب کو درسی کتب کی فہرست میں شامل کیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں