ویکسین لازمی لگوائیں
کورونا دنیا پر عذاب بن کر نازل ہوا ، ساری دنیا زیر و زبر ہوکر رہ گئی
کورونا دنیا پر عذاب بن کر نازل ہوا ، ساری دنیا زیر و زبر ہوکر رہ گئی پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جو اس حوالے سے بڑے محتاط رہے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس میں کمی بیشی تو ہوتی ہے لیکن اس کے خاتمے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
حکومت ویکسین نہ لگانے والوں پر سخت پابندیاں لگا رہی ہے بغیر ویکسین کے اندرون اور بیرون ملک زمینی فضائی سفر، تعلیمی اداروں، ریسٹورنٹس، شاپنگ مال، شادی ہال میں شرکت پر پابندی عائد کردی ہے اب بارہ سال سے زائد عمر کے بچوں کو بھی ویکسین لگانا شروع کردیا گیا ہے۔
کورونا کو روکنے کے لیے سب سے زیادہ اہمیت احتیاط کی ہے لیکن ہمارے ملک میں ایس او پیز پر عمل کا نام و نشان نہیں ملتا، عوام کی وہی چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی، اب تک لاکھوں انسان جاں بحق ہوچکے ہیں اطلاع کے مطابق صرف پاکستان میں 27 ہزار سے زیادہ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں کورونا کی بدبختیاں جاری نہ ہوں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے طویل عرصے سے یہ وبا ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔
کیا اس خطرناک وبا کے خلاف کوئی اجتماعی اقدام کیا جا رہا ہے؟ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ اس فیلڈ سے متعلق دنیا بھر کے ماہرین کی ایک عالمی کانفرنس بلوائی جاتی اور کورونا کی تحقیق کی جاتی کہ یہ وبا کس طرح پھیل رہی ہے؟ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے اب تک اس حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، بہت ساری بیماریاں گندگی وغیرہ سے پھیلتی ہیں لیکن کورونا کے پھیلنے میں کون سے عوامل شامل ہیں اس کا پتا اب تک نہیں چل سکا۔ پسماندہ ملکوں میں صحت کے حوالے سے بہت سی احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں لیکن ترقی یافتہ ملکوں میں بھی جہاں صحت کے حوالے سے نہ صرف احتیاط کی جاتی ہے بلکہ ہر مرض کی تحقیق بھی کی جاتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا لاکھوں انسانوں کی جان اسی طرح جاتی رہے گی؟ ویکسین اس وبا کے لیے فائدہ مند ہے، لیکن دنیا کے تمام انسانوں کو کیا یہ ویکسین فراہم کی جاسکتی ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ کورونا کے حوالے سے اس کے سدباب کے لیے وہ کوشش نہیں کی گئی جو کی جانی چاہیے تھی۔
ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ اتنے بڑے نقصان کے باوجود عوام اس حوالے سے بالکل احتیاط کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں، کہا جاتا ہے کہ کورونا کی ابتدا چین سے ہوئی لیکن چین کے حکام نے اور اس سلسلے میں فوری اقدام کرکے وبا کو بڑھنے سے روک دیا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کورونا کے بارے میں تمام ٹی وی چینلز پر ایس او پیز کے حوالے سے چوبیس گھنٹے معلومات فراہم کی جاتیں لیکن سوائے پرنٹ میڈیا کے کسی اور ذرایع ابلاغ سے اس حوالے سے وہ پبلسٹی نہیں ہو رہی جو ہونی چاہیے۔
کراچی کی مضافاتی بستیاں جہاں کروڑوں لوگ رہتے ہیں جو کورونا کے نقصانات سے پوری طرح واقف نہیں۔ مضافاتی بستیوں میں ویکسین سینٹر نہ ہونے کے برابر ہیں اس لیے عوام ویکسین لگانے سے محروم ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہر علاقے میں ایک ویکسین سینٹر کھولا جاتا ، تاکہ علاقے کے لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکتے، اس سلسلے میں کے ایم سی کے اداروں کو استعمال کیا جاسکتا تھا لیکن یہ کام وہی حکام کرسکتے ہیں جو ڈسپلن کی اہمیت کو سمجھتے ہوں۔
چونکہ ہمارے ملک میں ہمارے رہنماؤں کو اتنی فرصت ہی نہیں ملی کہ وہ عوام کو موبلائز کرتے، عوام میں شعور کی کمی کی وجہ سے عوام یہ مطالبہ کرنے سے بھی قاصر ہیں کہ ہر شہر میں اتنے ویکسین سینٹرز کھولے جانے چاہئیں جو عوام کی ضرورتوں کو پورا کرسکیں۔ اس سے قبل دنیا میں کئی وبائیں آئیں لیکن ایک تو بلاتاخیر ان وباؤں کی تحقیق کی جاتی رہی اور دوسرے تیزی کے ساتھ ان کے علاج بھی مہیا کیے گئے اگر ہم غلطی پر نہ ہوں تو کورونا کے حوالے سے دو ضروری کام نہیں کیے گئے جو کیے جانے چاہیے تھے۔
لے دے کر ہر کچھ عرصے کے بعد لاک ڈاؤن لگا دیا جاتا کہ جس کے خلاف تاجر برادری سڑکوں پر آجاتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ تاجر برادری کو نہ نقصانات سے آگاہ کیا جاتا ہے نہ ان کو اعتماد میں لیا جاتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جگہ جگہ احتجاج شروع ہو جاتا ہے، دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ تاریخ کا ایک ایسا المیہ ہے جس میں انسانی جانیں مکھی مچھروں کی طرح ضایع ہو رہی ہیں۔
اب تو بارہ سال سے زیادہ عمر کے بچوں کو بھی ویکسین لگائی جا رہی ہے لیکن اسے ہم خانہ پری ہی کہہ سکتے ہیں کیونکہ بچوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ان سب کو ویکسین لگانا آسان نہیں، اس کے لیے سب سے پہلے اسکولوں کے بچوں کو ویکسین لگانی چاہیے، اس کے بعد یونین کی سطح پر سختی کے ساتھ ویکسین لگائی جانی چاہیے، ہر علاقے کے سرکاری اسپتالوں میں بھی ویکسین لگانے کا انتظام کیا جاسکتا ہے لیکن یہ سب اس وقت ہوگا جب ہم میں ڈسپلن پیدا ہو۔
حکومت ویکسین نہ لگانے والوں پر سخت پابندیاں لگا رہی ہے بغیر ویکسین کے اندرون اور بیرون ملک زمینی فضائی سفر، تعلیمی اداروں، ریسٹورنٹس، شاپنگ مال، شادی ہال میں شرکت پر پابندی عائد کردی ہے اب بارہ سال سے زائد عمر کے بچوں کو بھی ویکسین لگانا شروع کردیا گیا ہے۔
کورونا کو روکنے کے لیے سب سے زیادہ اہمیت احتیاط کی ہے لیکن ہمارے ملک میں ایس او پیز پر عمل کا نام و نشان نہیں ملتا، عوام کی وہی چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی، اب تک لاکھوں انسان جاں بحق ہوچکے ہیں اطلاع کے مطابق صرف پاکستان میں 27 ہزار سے زیادہ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں کورونا کی بدبختیاں جاری نہ ہوں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے طویل عرصے سے یہ وبا ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔
کیا اس خطرناک وبا کے خلاف کوئی اجتماعی اقدام کیا جا رہا ہے؟ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ اس فیلڈ سے متعلق دنیا بھر کے ماہرین کی ایک عالمی کانفرنس بلوائی جاتی اور کورونا کی تحقیق کی جاتی کہ یہ وبا کس طرح پھیل رہی ہے؟ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے اب تک اس حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، بہت ساری بیماریاں گندگی وغیرہ سے پھیلتی ہیں لیکن کورونا کے پھیلنے میں کون سے عوامل شامل ہیں اس کا پتا اب تک نہیں چل سکا۔ پسماندہ ملکوں میں صحت کے حوالے سے بہت سی احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں لیکن ترقی یافتہ ملکوں میں بھی جہاں صحت کے حوالے سے نہ صرف احتیاط کی جاتی ہے بلکہ ہر مرض کی تحقیق بھی کی جاتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا لاکھوں انسانوں کی جان اسی طرح جاتی رہے گی؟ ویکسین اس وبا کے لیے فائدہ مند ہے، لیکن دنیا کے تمام انسانوں کو کیا یہ ویکسین فراہم کی جاسکتی ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ کورونا کے حوالے سے اس کے سدباب کے لیے وہ کوشش نہیں کی گئی جو کی جانی چاہیے تھی۔
ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ اتنے بڑے نقصان کے باوجود عوام اس حوالے سے بالکل احتیاط کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں، کہا جاتا ہے کہ کورونا کی ابتدا چین سے ہوئی لیکن چین کے حکام نے اور اس سلسلے میں فوری اقدام کرکے وبا کو بڑھنے سے روک دیا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کورونا کے بارے میں تمام ٹی وی چینلز پر ایس او پیز کے حوالے سے چوبیس گھنٹے معلومات فراہم کی جاتیں لیکن سوائے پرنٹ میڈیا کے کسی اور ذرایع ابلاغ سے اس حوالے سے وہ پبلسٹی نہیں ہو رہی جو ہونی چاہیے۔
کراچی کی مضافاتی بستیاں جہاں کروڑوں لوگ رہتے ہیں جو کورونا کے نقصانات سے پوری طرح واقف نہیں۔ مضافاتی بستیوں میں ویکسین سینٹر نہ ہونے کے برابر ہیں اس لیے عوام ویکسین لگانے سے محروم ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہر علاقے میں ایک ویکسین سینٹر کھولا جاتا ، تاکہ علاقے کے لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکتے، اس سلسلے میں کے ایم سی کے اداروں کو استعمال کیا جاسکتا تھا لیکن یہ کام وہی حکام کرسکتے ہیں جو ڈسپلن کی اہمیت کو سمجھتے ہوں۔
چونکہ ہمارے ملک میں ہمارے رہنماؤں کو اتنی فرصت ہی نہیں ملی کہ وہ عوام کو موبلائز کرتے، عوام میں شعور کی کمی کی وجہ سے عوام یہ مطالبہ کرنے سے بھی قاصر ہیں کہ ہر شہر میں اتنے ویکسین سینٹرز کھولے جانے چاہئیں جو عوام کی ضرورتوں کو پورا کرسکیں۔ اس سے قبل دنیا میں کئی وبائیں آئیں لیکن ایک تو بلاتاخیر ان وباؤں کی تحقیق کی جاتی رہی اور دوسرے تیزی کے ساتھ ان کے علاج بھی مہیا کیے گئے اگر ہم غلطی پر نہ ہوں تو کورونا کے حوالے سے دو ضروری کام نہیں کیے گئے جو کیے جانے چاہیے تھے۔
لے دے کر ہر کچھ عرصے کے بعد لاک ڈاؤن لگا دیا جاتا کہ جس کے خلاف تاجر برادری سڑکوں پر آجاتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ تاجر برادری کو نہ نقصانات سے آگاہ کیا جاتا ہے نہ ان کو اعتماد میں لیا جاتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جگہ جگہ احتجاج شروع ہو جاتا ہے، دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ تاریخ کا ایک ایسا المیہ ہے جس میں انسانی جانیں مکھی مچھروں کی طرح ضایع ہو رہی ہیں۔
اب تو بارہ سال سے زیادہ عمر کے بچوں کو بھی ویکسین لگائی جا رہی ہے لیکن اسے ہم خانہ پری ہی کہہ سکتے ہیں کیونکہ بچوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ان سب کو ویکسین لگانا آسان نہیں، اس کے لیے سب سے پہلے اسکولوں کے بچوں کو ویکسین لگانی چاہیے، اس کے بعد یونین کی سطح پر سختی کے ساتھ ویکسین لگائی جانی چاہیے، ہر علاقے کے سرکاری اسپتالوں میں بھی ویکسین لگانے کا انتظام کیا جاسکتا ہے لیکن یہ سب اس وقت ہوگا جب ہم میں ڈسپلن پیدا ہو۔