ماربل کی صنعت کیسے ملکی اثاثہ بن سکتی ہے
پاکستان کی پانچویں بڑی صنعت سے لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے
خیبرپختون خواکوقدرت نے مختلف قسم کی معدنیات سے مالامال کررکھا ہے۔ انہی میں ایک ماربل بھی ہے۔
اس وقت صوبے کے زیادہ ترعلاقوں سے قیمتی ماربل نکالاجا رہا ہے۔ سینکڑوں فیکٹریاں کام کررہی ہیں، جہاں اس ماربل کوخوبصورت ودیدہ زیب ڈیزائنوں کی شکل دے کر مارکیٹ میں سپلائی کیا جاتا ہے لیکن ماربل نکالنے سے لے کر فیکٹریوں میں اس کی ڈیزائننگ تک کے مراحل کے دوران جومسائل درپیش ہیں اس کی وجہ سے کروڑوں روپے کے یہ ذخائرضائع بھی ہو رہے ہیں۔
دیر آید درست آید کے مصداق حالیہ دنوں وزیراعلیٰ خیبرپختون خوا محمودخان کی زیرصدارت سپیشل اکنامک زون اتھارٹی کے بورڈآف ڈائریکٹرزکے اجلاس میں اتھارٹی کے لیے سٹینڈرڈآپریٹنگ پروسیجرزکی منظوری دی گئی۔
اجلاس میں مہمند ماربل سٹی کوسپیشل اکنامک زون کادرجہ دینے اوراس مقصد کے لیے مزید 2000 ایکڑ اراضی کی خریداری کی بھی منظوری دی گئی ہے۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ نے ورسک روڈ، ملاگوری اورشبقدر میں قائم ماربل کارخانوں کی مہمند ماربل سٹی میں منتقلی کے عمل کوتیزکرنے جب کہ اکنامک زونزمیں سرمایہ کاروں کوسہولیات کی بروقت فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت بھی کی۔
واضح رہے کہ مہمند اکنامک زون 350 ایکڑکے رقبہ پرمشتمل ہے جس میں مختلف کیٹگریزکے 290 پلاٹس میں سے 106 پلاٹس پہلے سے الاٹ کئے جاچکے ہیں جب کہ صنعتوںکو بجلی کی فراہمی کے لیے 132کے وی گرڈسٹیشن بھی قائم کیے گئے ہیں۔ حکومتی سطح پراس کاوش کوقابل قدرگردانا جا سکتا ہے لیکن اس اقدام سے قطع نظر، صوبے کی ماربل انڈسٹری کو جن مسائل ومشکلات کاسامنا ہے، اس کا حقائق کی روشنی میں ایک اجمالی ساجائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
پاکستان میں ماربل انڈسٹری پانچویں بڑی صنعت ہے جس سے لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ خیبرپختون خوا میں ملاگوری ماربل، سب سے بڑی ماربل انڈسٹری ہے، جہاں سنگ مرمر تیارکرنے والے 276 کارخانے قائم ہیں۔ ادھر بالواسطہ اور بلاواسطہ دس ہزار سے زائد مزدور برسرروزگار ہیں۔ ہرکارخانہ ماہانہ اوسطاً35 ہزار سکوئر فٹ سنگ مرمر تیارکرتا ہے۔ یہاں کا ہرکارخانہ حکومتی خزانہ کوماہانہ 75 ہزار معدنی ٹیکس اداکرتا ہے جب کہ انڈسٹری سے بجلی کی مد میں ماہانہ تین کروڑ روپے وصول کیے جاتے ہیں۔
ملاگوری ماربل انڈسٹری کے مختلف انواع کے سنگ مرمر ملک کے مختلف شہروں اور مارکیٹوں کوسپلائی کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان اورخلیجی ممالک میں ملاگوری سنگ مرمرکی کافی مانگ ہے اور وہاں کے لوگ اس میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ضلع خیبر، مہمند اور باجوڑ کے پہاڑوں میں سات ہزار ملین ٹن ماربل کے ذخائرموجود ہیں جس میں سب سے زیادہ اہم زیارت ماربل ہے۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے جیالوجسٹ نوراسلام ملاگوری کاکہنا تھا کہ زیارت ماربل خصوصیت اورمعیار کے لحاظ سے اٹلی کے کرارہ ماربل کے بعد دنیا بھرمیں دوسرے نمبر پر ہے۔ زیارت ماربل دیگر اقسام کی نسبت زیادہ چمک داراور پائیدار ہوتا ہے جب کہ ملاگوری سنگ مرمر زیادہ ٹھنڈک دینے کی صلاحیت رکھتاہے اوراس کی مانگ میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ ملاگوری ماربل انڈسٹری ایسوسی ایشن کے صدر خان میر اس بابت کہتے ہیںکہ پہاڑوں میں سنگ مرمر روایتی طریقوں یعنی بارودی مواد سے بلاسٹ کرکے نکالاجاتا ہے، جس کے باعث پچاس فی صد ماربل موقع پرضائع ہو جاتا ہے۔
اگر حکومت بھاری مشینری مہیاکرے تو پیداوار میں دگنا اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے مسائل کاسامناہے مثلاً اگر ایک طرف سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جس کی وجہ سے بروقت طلب و رسد ممکن نہیں ہوتی تو دوسری جانب میچنی پل کو ماربل لانے والے ٹرکوں کے لیے گزشتہ آٹھ سال سے بندکردیاگیا ہے، جس کے نتیجے میں ایک مال بردار ٹرک کئی سوکلومیٹرطویل سفر طے کرکے انڈسٹری کے لیے خام مال لاتا ہے اور یوں دس ہزارروپے فی ٹرک اضافی کرایہ دینا پڑتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھاکہ اس صنعت کو یومیہ سات گھنٹے بجلی مہیاکی جاتی ہے جب کہ 14 گھنٹے بجلی معطل رہتی ہے۔ اس دوران کارخانوں کی پیداوار رک جاتی ہے جو مالکان کے لیے نقصان کا باعث ہے، کیوں کہ ان کو دیگر اخراجات پورے کرنے سمیت مزدوروں کو تنخواہیں بھی دینا پڑتی ہیں۔
خان میر نے بتایا کہ ایم ڈی آئی کی صورت میں ہرماہ ماربل انڈسٹری سے تین کروڑ روپے اضافی بجلی بل وصول کیا جاتا ہے جو زیادتی ہے، ملک کی دیگرصنعتوں کی طرح اس صنعت کوبھی 24 گھنٹے بجلی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ اس موقع پرفیکٹری مالکان حاجی رحمت خان، یقین شاہ، سعید خان، مزارگل اورگل فرازکاکہنا تھاکہ نکاس آب کی ناقص منصوبہ بندی کے باعث صنعت کے فاضل مادے اور پانی انڈسٹریل زون میں جمع ہوتا ہے جو ایک مستقل پریشانی کا باعث ہے اور اس سے مختلف قسم کی مہلک بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔
انہوں نے ارباب بست وکشاد سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سڑکوں کی تعمیر و مرمت اورضرورت کے مطابق بجلی کی ترسیل سے ملاگوری ماربل انڈسٹری کی پیداوارمیں اضافہ ہو سکتا ہے جس سے ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور ہزاروں شہریوں کوروزگارکے مواقع بھی ملیں گے۔
برسر زمین حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو منصوبہ بندی کے فقدان سے لے کر لوڈشیڈنگ کے باعث وقت کے ضیاع تک ان گنت مسائل نے آج ماربل انڈسٹری کوگھیر رکھا ہے۔ ضم شدہ اضلاع کا جائزہ لیا جائے تو بنیادی طور پر یہ علاقہ جات خشک اور بارانی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ضم شدہ اضلاع کے کل رقبہ کا محض سات فی صد ہی زیرِکاشت ہے، جس میں صرف تین فی صدکو آب پاشی کی سہولت میسر ہے۔ باقی چار فی صد بارانی ہے اور فصلوں کی پیداوار بارشوں کے رحم وکرم پر ہوتی ہے۔
علاقے میں صنعتیں نہ ہونے کے برابر ہیں، کاروباری مواقع بھی کم ہیں جس کی وجہ سے غربت اور بے روزگاری نے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ تاہم دوسری جانب یہ خشک اور پہاڑی علاقے قدرتی اور معدنی وسائل سے مالامال ہیں، اربوں کھربوں روپے مالیت کی معدنیات ضم شدہ اضلاع کے سینے میں دفن ہیں مگر افسوس کہ ان سے فائدہ اٹھانے والاکوئی نہیں۔ اس پورے علاقے میں اب تک 21 مختلف اقسام کی معدنیات دریافت ہوچکی ہیں جب کہ علاقے میں تیل و گیس کے علاوہ سونے، چاندی اور زمردکے وسیع ذخائرکی موجودگی کا بھی انکشاف ہوا ہے۔
بدقسمتی سے کسی بھی حکومت نے اس علاقے کی حالتِ زار بدلنے کے لیے یہاں کے قدرتی وسائل سے استفادہ کرنے پرسنجیدگی سے توجہ مرکوز نہیں کی جس کی وجہ سے یہاں کے لاکھوں لوگوں کی تقدیر نہ بدل سکی۔ اگر حکومت نے دلچسپی لے کرضم شدہ اضلاع کے قدرتی وسائل سے استفادہ کی حکمت عملی اختیارکر لی تونہ صرف ضم شدہ اضلاع وخیبر پختون خوا بلکہ پورے ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔
ضم شدہ اضلاع کے معدنی ذخائرکی اہمیت کا اندازہ اس امرسے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کے نامور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک نے لاہورمیں ایک تقریب سے خطاب کر تے ہوئے یہ کہہ کرنہ صرف حاضرین محفل بلکہ پورے ملک کو ہی چونکا دیا تھاکہ بلوچستان کی طرح کے سونے اورکاپر کے وسیع ذخائر شمالی وزیرستان میں بھی موجود ہیں جن کی مالیت کا اندازہ 250 ارب ڈالرکے لگ بھگ ہے۔
ضم اضلاع میں خیبر، مہمند اور باجوڑ ایجنسی ماربل کے ذخائرکے لئے مشہور ہیں۔ صرف 2019ء میں قبائلی اضلاع سے 6 لاکھ 23 ہزار ٹن سے زائد ماربل نکالا گیا جس میں مہمند ایجنسی کاحصہ 95.2، باجوڑکا3.91 اور خیبرکا 2.24 فی صد رہا۔ ایک اندازے کے مطابق صرف قبائلی اضلاع میںسات ارب ٹن کے ذخائرموجود ہیں۔
ملک بھر میں پائے جانے والے کل ماربل ذخائرکا 98 فی صد سے زائد اس صوبے اور ضم شدہ اضلاع میں موجود ہے۔ گویا اگر تھوڑی توجہ دی جائے توصرف ماربل انڈسٹری کے ذریعے ہی اس خطے میں ترقی وخوشحالی کی لہر چل سکتی ہے۔
خیبر پختون خوا اور ضم اضلاع میں اس وقت 30مختلف اقسام کاماربل پایا جاتا ہے جن میں سب سے مشہور تو زیارت ماربل ہے تاہم سپروائٹ، بادل آف وائٹ، زیبرا، پنک، نوشہرہ، جیٹ بلیک، بامپوخہ اورگولڈن ماربل بھی پسند کئے جاتے ہیں۔ ملک بھر میں ماربل کی صنعت تیزی سے پھلنے والی صنعت ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 1990ء میں ملک بھرمیں ماربل کی صرف چھ فیکٹریاں تھیں جوبعد ازاں 1700سے تجاوزکرگئیں۔
ماربل کی صنعت سے صوبہ خیبر پختونخوا میں براہ راست تقریباً دو لاکھ لوگوں کاروزگار وابستہ ہے جب کہ چھ سے آٹھ لاکھ افراد بالواسطہ طور سے اس صنعت کے ذریعے روزی روٹی کما رہے ہیں۔ بدقسمتی سے دعوے توبہت کئے جاتے ہیں مگر اس صنعت پرضرورت کے مطابق توجہ مرکوز نہیں کی جا رہی جس کی وجہ سے مسائل بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ماربل نکالنے کے لیے پرانے اور دقیانوسی طریقے ابھی تک استعمال ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے ماربل کی بہت بڑی مقدارضائع ہورہی ہے۔
حکومت کوچاہیے کہ ماربل کے ضیاع کوروکنے کے لیے ایسی جدید مشینری متعارف کرائی جائے جس سے بلاسٹنگ کی تکنیک سے چھٹکارہ حاصل کیاجاسکے۔ ملک میں جدید مشینری نہ ہونے کی وجہ سے کٹائی میں85 فی صد ماربل ضائع ہو رہا ہے۔ یہ طریقہ دنیا بھرمیں تقریباً متروک ہوچکا ہے کیوںکہ اس کی بدولت ماربل کی بہت زیادہ مقدارضائع ہوتی ہے، دنیا بھرمیں کانوں سے نکالنے کے دوران ماربل کے ضیاع کی شرح 45 فی صد ہوتی ہے اورکوشش کی جا رہی ہے کہ یہ شرح 2.5 فی صد تک لائی جاسکے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ شرح 85 فی صد ہے،گویا اگرکسی کان سے روزانہ 100ٹن ماربل نکالاجاتا ہے تواس میں سے85 ٹن ضائع ہو جاتاہے۔ یوں ہر روزکروڑوں روپے کا ماربل غیرسائنسی طریقوں سے نکالے جانے کی بدولت ضائع ہو رہاہے۔
چنانچہ نہ صرف اس حوالے سے آگاہی بلکہ تربیت کی بھی اشد ضرورت ہے۔ بہترتو یہی ہوگاکہ بلاسٹنگ کی بجائے کٹنگ کاطریقہ اختیارکیاجائے جس سے اربوں روپے کا ماربل ضائع ہونے سے بچ سکے گا۔ پاکستانی ماربل میں اس وقت سعودی عرب اور اٹلی خصوصی دلچسپی کا اظہارکر رہے ہیں۔ سعودی عرب مستقبل میں 260ارب ڈالرکی لاگت سے نئے شہر بسانے کا منصوبہ رکھتاہے جس کے لیے اسے بڑی مقدارمیں ماربل کی ضرورت ہوگی۔ اگر ہم سعودی عرب کے ساتھ مل کر اس حوالے سے حکمت عملی ترتیب دیں اوراس کے معیارکا ماربل مہیاکرنے کا اہتمام کریں توچند سالوں میں اربوں ڈالرکمائے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح اٹلی بھی ہمارے ساتھ تعاون کے لیے تیارہے، وہ بارٹر سسٹم کے تحت ماربل کے بدلے مشینری دینے پر بھی آمادہ ہے، اگر حکومت تھوڑی سی دلچسپی لے تو اٹلی پاکستانی ماربل کے لئے بہت بڑی مارکیٹ بن سکتا ہے۔
روس میں بھی پاکستانی ماربل کی بہت زیادہ گنجائش ہے، بدقسمتی سے ماربل برآمدات کے معاملے میں ہماری کارکردگی زیادہ اچھی نہیں ہے۔ اگر حکومت خیبرپختون خوا میں ماربل کی صنعت پرخصوصی توجہ دے تو ملکی برآمدات کئی گنا بڑھائی جاسکتی ہیں۔ ماربل سیکٹرکے فروغ کے سلسلے میں اس شعبے کی مالی ضرورت کے لیے منرل ڈیویلپمنٹ بینک قائم کیا جانا چاہیے، اس شعبے کوترقی دے کرملکی برآمدات میں خاطرخواہ اضافہ کیاجاسکتاہے۔
پاکستان ماربل کے ذخائرکے اعتبار سے چھٹا بڑا ملک ہے جہاں ماربل 64 مختلف اقسام میں پایاجاتاہے جودنیا بھر میں ماربل کی اعلیٰ اور قیمتی اقسام ہیں، فی الحال عالمی منڈی میں ماربل کی کل تجارت کا حجم64 بلین ڈالر ہے جس میں پاکستان کاحصہ1فیصد سے بھی کم ہے جوتشویشناک ہے۔ حکومت کے پالیسی سازوں کوماربل انڈسٹری کی صلاحیتوں کوبروئے کار لانا چاہیے جوٹیکسٹائل انڈسٹری سے بھی زیادہ زرمبادلہ کمانے کی صلاحیت رکھتی ہے، اگرماربل انڈسٹری کے مسائل کے حل پرتوجہ دی جائے اورآسان قرضوں اورٹیکنالوجی کی صورت میں ان کی مددکی جائے تو ماربل کی برآمدات کو باآسانی 200 ملین ڈالرتک لے جایا جا سکتا ہے۔
ہمارے ہاں ماربل انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کی مشکلات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا زیادہ تر وقت اور پیسہ مختلف دفاترکے چکرکاٹنے میں ضائع ہوجاتا ہے۔ اس طرح لوڈشیدنگ اورکم وولٹیج نے بھی آج ماربل انڈسٹری کو پریشان کن صورت حال سے دوچارکررکھا ہے۔ ماربل اس صوبے اورقبائلی اضلاع کے لیے قدرت کا بیش قیمت تحفہ ہے۔ حکومت، قبائلی عمائدین، کان اور فیکٹری مالکان کو مل کر اس حوالے سے نئی حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی۔ کان کنوں اور کارکنوں کی جدید انداز میں تربیت وقت کا تقاضا ہے۔
ماربل نکالنے کے لیے جدید سائنسی طریقے اختیارکرنے ہوں گے، لوڈشیڈنگ کے مسائل بھی حل کئے جائیں جب کہ ایکسپورٹ کے لیے نئی منڈیاں تلاش کرنی ہوںگی۔ یہ اقدامات کر لیے جائیں توکوئی وجہ نہیں کہ خیبرپختون خوا اورفاٹا صرف ماربل انڈسٹری سے سالانہ اضافی اربوں روپے نہ کما سکے۔
اس وقت صوبے کے زیادہ ترعلاقوں سے قیمتی ماربل نکالاجا رہا ہے۔ سینکڑوں فیکٹریاں کام کررہی ہیں، جہاں اس ماربل کوخوبصورت ودیدہ زیب ڈیزائنوں کی شکل دے کر مارکیٹ میں سپلائی کیا جاتا ہے لیکن ماربل نکالنے سے لے کر فیکٹریوں میں اس کی ڈیزائننگ تک کے مراحل کے دوران جومسائل درپیش ہیں اس کی وجہ سے کروڑوں روپے کے یہ ذخائرضائع بھی ہو رہے ہیں۔
دیر آید درست آید کے مصداق حالیہ دنوں وزیراعلیٰ خیبرپختون خوا محمودخان کی زیرصدارت سپیشل اکنامک زون اتھارٹی کے بورڈآف ڈائریکٹرزکے اجلاس میں اتھارٹی کے لیے سٹینڈرڈآپریٹنگ پروسیجرزکی منظوری دی گئی۔
اجلاس میں مہمند ماربل سٹی کوسپیشل اکنامک زون کادرجہ دینے اوراس مقصد کے لیے مزید 2000 ایکڑ اراضی کی خریداری کی بھی منظوری دی گئی ہے۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ نے ورسک روڈ، ملاگوری اورشبقدر میں قائم ماربل کارخانوں کی مہمند ماربل سٹی میں منتقلی کے عمل کوتیزکرنے جب کہ اکنامک زونزمیں سرمایہ کاروں کوسہولیات کی بروقت فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت بھی کی۔
واضح رہے کہ مہمند اکنامک زون 350 ایکڑکے رقبہ پرمشتمل ہے جس میں مختلف کیٹگریزکے 290 پلاٹس میں سے 106 پلاٹس پہلے سے الاٹ کئے جاچکے ہیں جب کہ صنعتوںکو بجلی کی فراہمی کے لیے 132کے وی گرڈسٹیشن بھی قائم کیے گئے ہیں۔ حکومتی سطح پراس کاوش کوقابل قدرگردانا جا سکتا ہے لیکن اس اقدام سے قطع نظر، صوبے کی ماربل انڈسٹری کو جن مسائل ومشکلات کاسامنا ہے، اس کا حقائق کی روشنی میں ایک اجمالی ساجائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
پاکستان میں ماربل انڈسٹری پانچویں بڑی صنعت ہے جس سے لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ خیبرپختون خوا میں ملاگوری ماربل، سب سے بڑی ماربل انڈسٹری ہے، جہاں سنگ مرمر تیارکرنے والے 276 کارخانے قائم ہیں۔ ادھر بالواسطہ اور بلاواسطہ دس ہزار سے زائد مزدور برسرروزگار ہیں۔ ہرکارخانہ ماہانہ اوسطاً35 ہزار سکوئر فٹ سنگ مرمر تیارکرتا ہے۔ یہاں کا ہرکارخانہ حکومتی خزانہ کوماہانہ 75 ہزار معدنی ٹیکس اداکرتا ہے جب کہ انڈسٹری سے بجلی کی مد میں ماہانہ تین کروڑ روپے وصول کیے جاتے ہیں۔
ملاگوری ماربل انڈسٹری کے مختلف انواع کے سنگ مرمر ملک کے مختلف شہروں اور مارکیٹوں کوسپلائی کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان اورخلیجی ممالک میں ملاگوری سنگ مرمرکی کافی مانگ ہے اور وہاں کے لوگ اس میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ضلع خیبر، مہمند اور باجوڑ کے پہاڑوں میں سات ہزار ملین ٹن ماربل کے ذخائرموجود ہیں جس میں سب سے زیادہ اہم زیارت ماربل ہے۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے جیالوجسٹ نوراسلام ملاگوری کاکہنا تھا کہ زیارت ماربل خصوصیت اورمعیار کے لحاظ سے اٹلی کے کرارہ ماربل کے بعد دنیا بھرمیں دوسرے نمبر پر ہے۔ زیارت ماربل دیگر اقسام کی نسبت زیادہ چمک داراور پائیدار ہوتا ہے جب کہ ملاگوری سنگ مرمر زیادہ ٹھنڈک دینے کی صلاحیت رکھتاہے اوراس کی مانگ میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ ملاگوری ماربل انڈسٹری ایسوسی ایشن کے صدر خان میر اس بابت کہتے ہیںکہ پہاڑوں میں سنگ مرمر روایتی طریقوں یعنی بارودی مواد سے بلاسٹ کرکے نکالاجاتا ہے، جس کے باعث پچاس فی صد ماربل موقع پرضائع ہو جاتا ہے۔
اگر حکومت بھاری مشینری مہیاکرے تو پیداوار میں دگنا اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے مسائل کاسامناہے مثلاً اگر ایک طرف سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جس کی وجہ سے بروقت طلب و رسد ممکن نہیں ہوتی تو دوسری جانب میچنی پل کو ماربل لانے والے ٹرکوں کے لیے گزشتہ آٹھ سال سے بندکردیاگیا ہے، جس کے نتیجے میں ایک مال بردار ٹرک کئی سوکلومیٹرطویل سفر طے کرکے انڈسٹری کے لیے خام مال لاتا ہے اور یوں دس ہزارروپے فی ٹرک اضافی کرایہ دینا پڑتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھاکہ اس صنعت کو یومیہ سات گھنٹے بجلی مہیاکی جاتی ہے جب کہ 14 گھنٹے بجلی معطل رہتی ہے۔ اس دوران کارخانوں کی پیداوار رک جاتی ہے جو مالکان کے لیے نقصان کا باعث ہے، کیوں کہ ان کو دیگر اخراجات پورے کرنے سمیت مزدوروں کو تنخواہیں بھی دینا پڑتی ہیں۔
خان میر نے بتایا کہ ایم ڈی آئی کی صورت میں ہرماہ ماربل انڈسٹری سے تین کروڑ روپے اضافی بجلی بل وصول کیا جاتا ہے جو زیادتی ہے، ملک کی دیگرصنعتوں کی طرح اس صنعت کوبھی 24 گھنٹے بجلی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ اس موقع پرفیکٹری مالکان حاجی رحمت خان، یقین شاہ، سعید خان، مزارگل اورگل فرازکاکہنا تھاکہ نکاس آب کی ناقص منصوبہ بندی کے باعث صنعت کے فاضل مادے اور پانی انڈسٹریل زون میں جمع ہوتا ہے جو ایک مستقل پریشانی کا باعث ہے اور اس سے مختلف قسم کی مہلک بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔
انہوں نے ارباب بست وکشاد سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سڑکوں کی تعمیر و مرمت اورضرورت کے مطابق بجلی کی ترسیل سے ملاگوری ماربل انڈسٹری کی پیداوارمیں اضافہ ہو سکتا ہے جس سے ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور ہزاروں شہریوں کوروزگارکے مواقع بھی ملیں گے۔
برسر زمین حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو منصوبہ بندی کے فقدان سے لے کر لوڈشیڈنگ کے باعث وقت کے ضیاع تک ان گنت مسائل نے آج ماربل انڈسٹری کوگھیر رکھا ہے۔ ضم شدہ اضلاع کا جائزہ لیا جائے تو بنیادی طور پر یہ علاقہ جات خشک اور بارانی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ضم شدہ اضلاع کے کل رقبہ کا محض سات فی صد ہی زیرِکاشت ہے، جس میں صرف تین فی صدکو آب پاشی کی سہولت میسر ہے۔ باقی چار فی صد بارانی ہے اور فصلوں کی پیداوار بارشوں کے رحم وکرم پر ہوتی ہے۔
علاقے میں صنعتیں نہ ہونے کے برابر ہیں، کاروباری مواقع بھی کم ہیں جس کی وجہ سے غربت اور بے روزگاری نے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ تاہم دوسری جانب یہ خشک اور پہاڑی علاقے قدرتی اور معدنی وسائل سے مالامال ہیں، اربوں کھربوں روپے مالیت کی معدنیات ضم شدہ اضلاع کے سینے میں دفن ہیں مگر افسوس کہ ان سے فائدہ اٹھانے والاکوئی نہیں۔ اس پورے علاقے میں اب تک 21 مختلف اقسام کی معدنیات دریافت ہوچکی ہیں جب کہ علاقے میں تیل و گیس کے علاوہ سونے، چاندی اور زمردکے وسیع ذخائرکی موجودگی کا بھی انکشاف ہوا ہے۔
بدقسمتی سے کسی بھی حکومت نے اس علاقے کی حالتِ زار بدلنے کے لیے یہاں کے قدرتی وسائل سے استفادہ کرنے پرسنجیدگی سے توجہ مرکوز نہیں کی جس کی وجہ سے یہاں کے لاکھوں لوگوں کی تقدیر نہ بدل سکی۔ اگر حکومت نے دلچسپی لے کرضم شدہ اضلاع کے قدرتی وسائل سے استفادہ کی حکمت عملی اختیارکر لی تونہ صرف ضم شدہ اضلاع وخیبر پختون خوا بلکہ پورے ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔
ضم شدہ اضلاع کے معدنی ذخائرکی اہمیت کا اندازہ اس امرسے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کے نامور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک نے لاہورمیں ایک تقریب سے خطاب کر تے ہوئے یہ کہہ کرنہ صرف حاضرین محفل بلکہ پورے ملک کو ہی چونکا دیا تھاکہ بلوچستان کی طرح کے سونے اورکاپر کے وسیع ذخائر شمالی وزیرستان میں بھی موجود ہیں جن کی مالیت کا اندازہ 250 ارب ڈالرکے لگ بھگ ہے۔
ضم اضلاع میں خیبر، مہمند اور باجوڑ ایجنسی ماربل کے ذخائرکے لئے مشہور ہیں۔ صرف 2019ء میں قبائلی اضلاع سے 6 لاکھ 23 ہزار ٹن سے زائد ماربل نکالا گیا جس میں مہمند ایجنسی کاحصہ 95.2، باجوڑکا3.91 اور خیبرکا 2.24 فی صد رہا۔ ایک اندازے کے مطابق صرف قبائلی اضلاع میںسات ارب ٹن کے ذخائرموجود ہیں۔
ملک بھر میں پائے جانے والے کل ماربل ذخائرکا 98 فی صد سے زائد اس صوبے اور ضم شدہ اضلاع میں موجود ہے۔ گویا اگر تھوڑی توجہ دی جائے توصرف ماربل انڈسٹری کے ذریعے ہی اس خطے میں ترقی وخوشحالی کی لہر چل سکتی ہے۔
خیبر پختون خوا اور ضم اضلاع میں اس وقت 30مختلف اقسام کاماربل پایا جاتا ہے جن میں سب سے مشہور تو زیارت ماربل ہے تاہم سپروائٹ، بادل آف وائٹ، زیبرا، پنک، نوشہرہ، جیٹ بلیک، بامپوخہ اورگولڈن ماربل بھی پسند کئے جاتے ہیں۔ ملک بھر میں ماربل کی صنعت تیزی سے پھلنے والی صنعت ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 1990ء میں ملک بھرمیں ماربل کی صرف چھ فیکٹریاں تھیں جوبعد ازاں 1700سے تجاوزکرگئیں۔
ماربل کی صنعت سے صوبہ خیبر پختونخوا میں براہ راست تقریباً دو لاکھ لوگوں کاروزگار وابستہ ہے جب کہ چھ سے آٹھ لاکھ افراد بالواسطہ طور سے اس صنعت کے ذریعے روزی روٹی کما رہے ہیں۔ بدقسمتی سے دعوے توبہت کئے جاتے ہیں مگر اس صنعت پرضرورت کے مطابق توجہ مرکوز نہیں کی جا رہی جس کی وجہ سے مسائل بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ماربل نکالنے کے لیے پرانے اور دقیانوسی طریقے ابھی تک استعمال ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے ماربل کی بہت بڑی مقدارضائع ہورہی ہے۔
حکومت کوچاہیے کہ ماربل کے ضیاع کوروکنے کے لیے ایسی جدید مشینری متعارف کرائی جائے جس سے بلاسٹنگ کی تکنیک سے چھٹکارہ حاصل کیاجاسکے۔ ملک میں جدید مشینری نہ ہونے کی وجہ سے کٹائی میں85 فی صد ماربل ضائع ہو رہا ہے۔ یہ طریقہ دنیا بھرمیں تقریباً متروک ہوچکا ہے کیوںکہ اس کی بدولت ماربل کی بہت زیادہ مقدارضائع ہوتی ہے، دنیا بھرمیں کانوں سے نکالنے کے دوران ماربل کے ضیاع کی شرح 45 فی صد ہوتی ہے اورکوشش کی جا رہی ہے کہ یہ شرح 2.5 فی صد تک لائی جاسکے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ شرح 85 فی صد ہے،گویا اگرکسی کان سے روزانہ 100ٹن ماربل نکالاجاتا ہے تواس میں سے85 ٹن ضائع ہو جاتاہے۔ یوں ہر روزکروڑوں روپے کا ماربل غیرسائنسی طریقوں سے نکالے جانے کی بدولت ضائع ہو رہاہے۔
چنانچہ نہ صرف اس حوالے سے آگاہی بلکہ تربیت کی بھی اشد ضرورت ہے۔ بہترتو یہی ہوگاکہ بلاسٹنگ کی بجائے کٹنگ کاطریقہ اختیارکیاجائے جس سے اربوں روپے کا ماربل ضائع ہونے سے بچ سکے گا۔ پاکستانی ماربل میں اس وقت سعودی عرب اور اٹلی خصوصی دلچسپی کا اظہارکر رہے ہیں۔ سعودی عرب مستقبل میں 260ارب ڈالرکی لاگت سے نئے شہر بسانے کا منصوبہ رکھتاہے جس کے لیے اسے بڑی مقدارمیں ماربل کی ضرورت ہوگی۔ اگر ہم سعودی عرب کے ساتھ مل کر اس حوالے سے حکمت عملی ترتیب دیں اوراس کے معیارکا ماربل مہیاکرنے کا اہتمام کریں توچند سالوں میں اربوں ڈالرکمائے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح اٹلی بھی ہمارے ساتھ تعاون کے لیے تیارہے، وہ بارٹر سسٹم کے تحت ماربل کے بدلے مشینری دینے پر بھی آمادہ ہے، اگر حکومت تھوڑی سی دلچسپی لے تو اٹلی پاکستانی ماربل کے لئے بہت بڑی مارکیٹ بن سکتا ہے۔
روس میں بھی پاکستانی ماربل کی بہت زیادہ گنجائش ہے، بدقسمتی سے ماربل برآمدات کے معاملے میں ہماری کارکردگی زیادہ اچھی نہیں ہے۔ اگر حکومت خیبرپختون خوا میں ماربل کی صنعت پرخصوصی توجہ دے تو ملکی برآمدات کئی گنا بڑھائی جاسکتی ہیں۔ ماربل سیکٹرکے فروغ کے سلسلے میں اس شعبے کی مالی ضرورت کے لیے منرل ڈیویلپمنٹ بینک قائم کیا جانا چاہیے، اس شعبے کوترقی دے کرملکی برآمدات میں خاطرخواہ اضافہ کیاجاسکتاہے۔
پاکستان ماربل کے ذخائرکے اعتبار سے چھٹا بڑا ملک ہے جہاں ماربل 64 مختلف اقسام میں پایاجاتاہے جودنیا بھر میں ماربل کی اعلیٰ اور قیمتی اقسام ہیں، فی الحال عالمی منڈی میں ماربل کی کل تجارت کا حجم64 بلین ڈالر ہے جس میں پاکستان کاحصہ1فیصد سے بھی کم ہے جوتشویشناک ہے۔ حکومت کے پالیسی سازوں کوماربل انڈسٹری کی صلاحیتوں کوبروئے کار لانا چاہیے جوٹیکسٹائل انڈسٹری سے بھی زیادہ زرمبادلہ کمانے کی صلاحیت رکھتی ہے، اگرماربل انڈسٹری کے مسائل کے حل پرتوجہ دی جائے اورآسان قرضوں اورٹیکنالوجی کی صورت میں ان کی مددکی جائے تو ماربل کی برآمدات کو باآسانی 200 ملین ڈالرتک لے جایا جا سکتا ہے۔
ہمارے ہاں ماربل انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کی مشکلات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا زیادہ تر وقت اور پیسہ مختلف دفاترکے چکرکاٹنے میں ضائع ہوجاتا ہے۔ اس طرح لوڈشیدنگ اورکم وولٹیج نے بھی آج ماربل انڈسٹری کو پریشان کن صورت حال سے دوچارکررکھا ہے۔ ماربل اس صوبے اورقبائلی اضلاع کے لیے قدرت کا بیش قیمت تحفہ ہے۔ حکومت، قبائلی عمائدین، کان اور فیکٹری مالکان کو مل کر اس حوالے سے نئی حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی۔ کان کنوں اور کارکنوں کی جدید انداز میں تربیت وقت کا تقاضا ہے۔
ماربل نکالنے کے لیے جدید سائنسی طریقے اختیارکرنے ہوں گے، لوڈشیڈنگ کے مسائل بھی حل کئے جائیں جب کہ ایکسپورٹ کے لیے نئی منڈیاں تلاش کرنی ہوںگی۔ یہ اقدامات کر لیے جائیں توکوئی وجہ نہیں کہ خیبرپختون خوا اورفاٹا صرف ماربل انڈسٹری سے سالانہ اضافی اربوں روپے نہ کما سکے۔