ذہن کو صحت مند کیسے رکھیں

 صحت مند جسم اور ذہن قانون قدرت کے تحت زندگی گزارنے سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے


 صحت مند جسم اور ذہن قانون قدرت کے تحت زندگی گزارنے سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ فوٹو : فائل

ہم سب ہی زندگی میں کبھی نہ کبھی اداسی، بیزاری اور پریشانی کی کیفیات سے دوچار ہوتے ہیں اور یہ ایک قدرتی عمل ہے ۔ بعض چیزیں ، معاملات ، واقعات ہمیں معمول سے ہٹ کر متاثر کرتے ہیں اور ہم اداس، بیزار ہو جاتے ہیں، لیکن اگر یہ اداسی و بیزاری ایک سے دو ہفتے کا وقت گزر جانے کے بعد بھی ٹھیک نہ ہو اور اس سے ہمارے معمولاتِ زندگی پر اثر پڑنا شروع ہو جائے تو یہ اچھی علامت نہیں ہے، اس کا مطلب ہے کہ آپ ذہنی دباؤ کا شکار ہو رہے ہیں ۔

انیسویں صدی کے آغاز میں ایک جرمن اناٹومسٹ '' ارنسٹ ہیزچ ویبر'' نے پہلی بار دماغی صحت کا نظریہ پیش کیا ۔ اس کا کہنا تھا کہ دنیا کو دیکھنے کا انداز ہمارے حواس پر اثر انداز ہوتا ہے اور یہی احساس ہماری شخصیت اور جذبات کی تشکیل کرتا ہے۔

دورِ جدید میں طبی تحقیق میں پیش قدمی کی بدولت صحت کے تصور کی نت نئی تعریفات سامنے آ رہی ہیں۔ پہلے صحت کا تصور صرف جسمانی ساخت و اعضاء کے درست کام کرنے پر مبنی تھا، اب اس میں ذہنی صحت کی اصطلاح بھی شامل ہو گئی ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ جسمانی صحت بھی اسی صورت میں بہتر ہو گی، جب آپ ذہنی طور پر صحت مند اور مضبوط ہیں۔

امریکی نفسیاتی ایسوسی ایشن اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق '' ذہنی صحت اچھی ہو تو یہ ہمیں مثبت شبیہہ دکھاتی ہے، کیونکہ ہمارے خیالات ، احساسات اور طرزِ عمل کا ہماری زندگی پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ اچھی ذہنی صحت کا حامل شخص مستحکم زندگی گزارنے کے قابل ہوتا ہے اور کسی بھی رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے اطمینان بخش طریقے سے اپنی زندگی کے چیلنجز کا سامنا کرنے کی حکمت عملی تیار کرتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ وہ دوسروں کے ساتھ صحت مند تعلقات رکھنے کے بھی قابل ہوتا ہے۔''

بعض ماہرینِ طب ذہنی صحت کے حوالے سے نیورو ڈیور جینس ( ذہنی ڈھانچے میں فرق) کو اہم قرار دیتے ہیں کہ کچھ لوگ قدرتی طور پر صحیح دماغی صحت کی نشوونما کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں، اسی طرح کچھ لوگ جب کسی شدید دکھ یا تکلیف، کسی معذوری یا سنگین بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں یا اپنے بہت قریبی رشتے کو کھونے کی تکلیف سے گزرتے ہیں تو ان کے دماغ کا مرکزی حصہ متاثر ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ان کی ذہنی صحت متوازن نہیں رہتی۔

ذہنی صحت کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے ہر سال دس اکتوبر کو '' ورلڈ مینٹل ہیلتھ ڈے '' منایا جاتا ہے۔ ہر سال اس دن کا ایک الگ موضوع ہوتا ہے، عالمی ادارہ صحت کا سال رواں کے لیے عنوان '' ذہنی صحت سب کے لیے : وسیع تر رسائی، زیادہ سرمایہ کاری'' ہے۔ یعنی ذہنی صحت کے میدان میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی جانی چاہیے تا کہ اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو آگاہی مل سکے ۔ دور جدید میں لوگ ذہنی اور جذباتی صحت کے حوالے سے لا تعداد مسائل کا شکار ہیں ۔ مایوسی، افسردگی، تناؤ، پریشانی کا ہر دوسرے شخص کو سامنا ہے اور اسی وجہ سے دنیا بھر میں خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے ۔

بہترین ذہنی صحت کے حصول کے لیے ہمیں مضبوط اور مستحکم تعلقات اور رشتوں کی ضرورت ہے، جتنے مخلص اور محبت کرنے والے رشتے ہمارے ارد گرد ہوں گے، اتنا ہی ہم مایوسی اور اداسی سے دور رہیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی ذات کی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہی بھی آپ کو ذہنی طور پر صحت مند رکھتی ہے۔

یونیورسٹی آف ایگزیٹر انگلینڈ میں کھیلوں اور ورزش کی ایسوسی ایٹ لیکچرر ڈاکٹر نادینی سیمی کے مطابق ہمیں اپنی ذات کے بارے میں آگاہی پیدا کر کے ذہن کو بہتر کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ اپنی ذات کے بارے میں آگاہی ایسی صلاحیت ہے جس کی مدد سے مختلف مزاج، احساسات کے بارے میں سمجھا جا سکتا ہے اور یہ صلاحیت ذہنی اور جسمانی صحت کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ جب آپ اپنے احساسات ، اسباب اور برتاؤ کو گہرائی میں سمجھ لیتے ہیں تو آپ اپنے لیے زیادہ بہتر فیصلے کر سکتے ہیں اور یہ بہتری آپ کی ذہنی صحت کو فعال کرتی ہے۔

ماہرینِ نفسیات اور طبی ماہرین نے ذہن کو صحت مند، متحرک اور مثبت رکھنے کے لئے اپنی تحقیقات کی روشنی میں درج ذیل تجاویز پیش کی ہیں:

اظہار کریں

اگر آپ کسی وجہ سے پریشانی کا شکار ہیں، کسی صدمے یا الجھن میں مبتلا ہیں تو اپنی مدد آپ کے تحت اپنی اس کیفیت کو راز بنا کر خود تک محدود نہ رکھیں، ایسا کرنا آپ کی ذہنی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ اگر آپ نے کوئی بری خبر سنی ہے یا آپ کے ساتھ کچھ برا ہوا ہے تو اسے اپنے قریبی لوگوں، دوستوں کے ساتھ شئیر کریں، جب آپ اپنی کیفیت کو الفاظ کا پیراہن دیتے ہیں تو اس عمل سے آپ کے ذہنی تناؤ میں کمی واقع ہوتی ہے، سننے والا جب آپ کو تسلی، حوصلے یا امید کے چند کلمات کہہ دیتا ہے تو آپ اپنی تکلیف بڑی حد تک فراموش کر جاتے ہیں، اس لیے تکلیف کو خود تک محدود رکھ کر گھلنے کی بجائے اسے مخلص رشتوں کے ساتھ بانٹ لیں اور اپنا بوجھ ہلکا کر لیں۔

جسمانی سرگرمی ضرور کریں

اگر کوئی بات آپ کو ذہنی طور پر پریشان کر رہی ہے تو جسمانی سرگرمی کی طرف توجہ کریں۔ چاہے گھر کے کام کاج کریں، چہل قدمی کریں یا ہلکی پھلکی ورزش کریں، لیکن فوراً خود کو جسمانی طور پر حرکت میں لے آئیں۔ جب آپ خود کو جسمانی طور پر مصروف کر لیتے ہیں تو ذہن سے بھی دباؤ کی مقدار میں کمی آنا شروع ہو جاتی ہے، جب جسم تھک جاتا ہے تو اس کا نتیجہ اچھی نیند کی صورت میں سامنے آتا ہے اور اچھی نیند ذہن کو پرسکون کرنے میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ یونیورسٹی آف ایگزیٹر انگلینڈ میں سپورٹس اینڈ ہیلتھ سائنسز کے سینئر لیکچرار ڈاکٹر کیون بکنگھم کہتے ہیں:'' اچھی نیند سے دماغ کی ادراکی کارکردگی جس میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت شامل ہے، بہتر ہو جاتی ہے۔ متحرک رہنا ذہنی دباؤ کم کر کے توانائی میں اضافہ کرتا ہے''۔

دن کی منصوبہ بندی کریں

ہم سب ایک نئے بلکہ عجیب و غریب طرز زندگی کی عادت اپنا رہے ہیں۔ ساریساری رات جاگ کر موبائل اور لیپ ٹاپ کے سامنے گزار دینا، سارا دن شب خوابی کے لباس میں سستی اور کاہلی سے پڑے رہنا... یہ عوامل ذہنی تندرستی کے لیے خطرہ ہیں۔ انسان کی شناخت، خود اعتمادی اور بامقصد زندگی کے لیے روز مرہ کے معمولات ضروری ہوتے ہیں۔ سونے، جاگنے کے اوقات مقرر کر کے پابندی سے ان پر عمل کریں، دن کا آغاز چہل قدمی سے کریں۔ ہر روز تفریح کرنے، کام کرنے، سماجی میل ملاپ اور غور و فکر کے لیے وقت مقرر کریں۔ اپنی زندگی کو ایک ڈگر پر لے کر آئیں تاکہ آپ کی جسمانی و ذہنی صحت بہتر ہو سکے۔

رابطے میں رہیں

اگر آپ اکیلے رہتے ہیں تو احساسِ تنہائی کا شکار ہو سکتے ہیں اور اس سے آپ کی دماغی صحت متاثر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اپنے کنبے، دوستوں، ساتھی کارکنان کے ساتھ رابطے میں رہیں تا کہ آپ خود کو تنہا نہ سمجھیں۔ رابطے کے تمام ذرائع چاہے وہ بذریعہ ڈاک، فون، سوشل میڈیا یا بذریعہ ویڈیو کال کے ہوں، استعمال کریں اور خود کو اپنے پیاروں کے ساتھ مربوط رکھیں۔ جس قدر آپ کا رشتوں کے ساتھ ربط ہو گا، آپ کے اندر اپنائیت اور تحفظ کا احساس پیدا ہو گا اور آپ کی ذہنی کارکردگی میں اضافہ ہو گا۔

قیاس آرائیوں سے اجتناب کریں

افواہیں اور قیاس آرائیاں اضطراب میں اضافہ کرتی ہیں، اس لیے بے مقصد گفتگو اور افواہوں پر کان نہ دھریں۔ اس کی بجائے دن میں ہونے والے اچھے واقعات پر دھیان دیں۔ قیاس آرائیاں آپ کے دماغ کو بلاوجہ بوجھل کرتی ہیں اور غیر یقینی کی کیفیت پیدا کرتی ہیں۔ اس طرح کے غیر مفید خیالات کو اپنے ذہن سے جھٹک کر خوش امیدی پر مبنی سوچ اختیار کریں۔ چیزوں کو سنسنی خیز بنانے کی کوشش نہ کریں اور نہ ہی دوستوں یا رشتے داروں سے کوئی ایسا مواد شئیر کریں جو مستند ذرائع سے حاصل نہ ہوا ہو،کیوں کہ ایسا کرنے سے نہ صرف وہ پریشان ہو سکتے ہیں بلکہ آپ کی اپنی ساکھ بھی متاثر ہو سکتی ہے۔

متوازن غذا کا استعمال کریں

دور جدید کی ایک اہم تبدیلی ہماری غذائی عادات کا مکمل بدل جانا ہے۔ گھر سے باہر کھانا لوگوں کی عادت بن چکی ہے، لذت اور زبان کے چٹخارے کو اولیت دی جا رہی ہے اور صحت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ یاد رکھیں اچھی ذہنی صحت کے حصول کے لیے متوازن اور تازہ غذا کا استعمال بے حد ضروری ہے۔ تازہ پھل، سبزیاں اگر غذا میں شامل نہ ہوں تو جسم میں وٹامنز کی کمی ہو جاتی ہے، جس سے دماغی فعالیت بھی متاثر ہوتی ہے۔ پانی کثرت سے پئیں اور غذا کو محض لذت کے لیے نہیں، بلکہ اپنی صحت کے لیے توازن کے ساتھ استعمال کریں۔

خوش رہنے کی کوشش کریں

ماہر نفسیات ڈاکٹر گِل کہتے ہیں کہ زندگی میں کم از کم ایک ایسی تبدیلی لے کر آئیں جس کی وجہ سے آپ اکثر مسکرائیں، مسکرانا آپ کی نسوں اور پٹھوں کو سکون پہنچاتا ہے۔ اسی طرح کسی ایک ایسی چیز کو پہچانیں جو آپ کو نا خوش کرتی ہو اور اسے بہتر کرنے کی کوشش کریں۔ ان دو چیزوں کو پکڑ لیں اور ایسی ہی دیگر چیزوں ( خوش اور نا خوش کرنے والی) کو تلاش کرنے کے لیے تیار ہو جائیں، اس سے آپ اپنی ذہنی صحت میں حیران کن بہتری لا سکتے ہیں۔

ناامید نہ ہوں

جو پریشانی یا مسئلہ آپ کو درپیش ہے، اسے لکھیں اور پھر خود ہی اس کا ممکنہ حل بھی تحریر کریں، یہ عمل آپ کو مایوس ہونے کی بجائے عمل کی تحریک دے گا۔ جب آپ پریشان ہونے کی بجائے مسئلے کے حل کی طرف توجہ مرکوز کرتے ہیں تو آپ کا ذہنی تناؤ ازخود کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اپنے آپ کو ناامید نہ ہونے دیں، خود کو یاد دلائیں کہ جن حالات سے آپ گزر رہے ہیں ان سے اور لوگ بھی گزر چکے ہیں، اس سے دباؤ میں کمی ہو گی چاہے آپ کو فوراً اس کا احساس نہ ہو۔

زندگی، جسم اور اس کے اعضاء اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتیں ہیں، زندگی اسی وقت حسین، مکمل اور بھر پور لگتی ہے جب جسم اور اس کا تمام نظام درستگی سے اپنے افعال سر انجام دے رہا ہو۔ اگر کوئی ایک بھی عضو صحیح طریقے سے کام کرنے پر قادر نہ ہو تو زندگی جیسی نعمت بوجھ لگنے لگتی ہے۔ اس عظیم نعمت کی قدر دانی کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی استعداد کی حد تک جسمانی اور ذہنی صحت کو بہتر رکھنے کی اپنی سی کوشش کریں تا کہ زندگی کا مقصد پورا کیا جا سکے۔ غیر فطری طرزِ زندگی اختیار کر کے صحت کو ہاتھ سے نہ جانے دیں، صحت مند جسم اور ذہن قانون قدرت کے تحت زندگی گزارنے سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں