The Lord of the Rings
ریکارڈ توڑ مقبولیت، کمائی اور اعزازات پانے والی فلم کے پس پردہ حقائق
ISLAMABAD:
دنیا بھر میں بچوں سے لے کر بڑوں تک کے دلوں پر راج کرنے والی فینٹسی ایڈوانچر فلم سیریز ''دی لارڈ آف دی رنگز'' امریکا اور نیوزی لینڈ کے فلم سازوںکا ایک عالمی جوائنٹ وینچر تھا۔
اس سیریز کی پہلی فلم 2001ء میںThe Lord of the Rings: The Fellowship of the Ring کے نام سے ریلیز ہوئی، جس پر اس وقت 93 ملین ڈالر خرچہ آیا جبکہ باکس آفس پر کمائی 898 ملین ڈالر رہی۔ پہلی فلم کی کامیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے اگلے ہی برس یعنی 2002ء میں The Lord of the Rings: The Two Towers کے نام سے نئی فلم شائقین کے لئے سینما گھروں کی زینت بن گئی، جس پر 94 ملین ڈالر لاگت آئی جبکہ کمائی 948 ملین ڈالر ہوئی۔
اس کے بعد مسلسل تیسرے برس اس سیریز کے تیسری فلم The Lord of the Rings: The Return of the King کے نام سے ریلیز کی گئی، جس نے دنیا بھر کے شائقین کو اپنا گرویدہ بنا لیا، اس فلم کو بنانے پر 94 ملین ڈالر خرچہ آیا جبکہ کمائی 1.146 بلین ڈالر ہوئی، یوں اس فلم سیریز پر پر مجموعی لاگت 281 ملین ڈالر آئی تاہم باکس آفس پر کمائی تقریباً 3 بلین ڈالر ہوئی، جو بلاشبہ ایک اعتبار سے کامیابی کی ضمانت ہے۔
فلمی دنیا کی کامیابیوں کا تذکرہ کیا جائے تو The Lord of the Rings وہ فلم سیریز ہے، جس کی صرف ایک فلم یعنی The Lord of the Rings: The Return of the King نے 76ویں اکیڈمی ایوارڈز کی تقریب میں مختلف کیٹگریز میں 11 آسکر ایوارڈ جیت کر دنیا کو حیران کر دیا، تاہم مجموعی طور پر یہ فلم سیریز 2001ء سے 2004ء تک 17 اکیڈمی ایوارڈز اپنے نام کر چکی ہے۔ یہاں ہم قارئین کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے معروف برطانوی مصنف جے آر آر ٹولکین (J.R.R. Tolkien) کے رزمیہ ناول The Lord of the Rings سے ماخوذ اس فلم سیریز کے پیچھے چھپے چند حقائق پیش کرنے جا رہے ہیں۔
اس فلم سیریز کو پہلے پہل میرامیکس (MIRAMAX) (امریکی انٹرٹینمنٹ کمپنی) کے بینر تلے بنانے کا فیصلہ ہوا، جس کے مطابق یہ فلم دو حصوں میں تقسیم کی گئی، یعنی اس کے دو پارٹ بنائے جانے تھے لیکن فلم کے بڑھتے ہوئے بجٹ کو دیکھتے ہوئے پروڈکشن کمپنی نے فلم کے ڈائریکٹر پیٹر جیکسن پر دباؤ ڈالا کہ اسے ایک ہی حصے میں مکمل کیا جائے، جو یقیناً نہایت مشکل امر تھا اور یوں میرامیکس نے اس فلم سے ہاتھ اٹھا لیا اور فلم کی پروڈکشن امریکی کمپنی New Line Cinema کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ فلم کے کرداروں کی بات کی جائے تو معروف برطانوی اداکار و مصنف کرسٹوفر لی جنہوں نے سارومین کا کردار ادا کیا ہے۔
وہ دراصل گینڈالف کا رول ادا کرنا چاہتے تھے اور یہی وہ فلم کے واحد کاسٹ ممبر بھی ہیں، جنہوں نے The Lord of the Rings کے نام سے شائع ناول پہلے ہی پورا پڑھ رکھا تھا لیکن پیٹر جیکسن نے انہیں گینڈالف کے بجائے سارومین کا کردار آفر کیا۔ اسی طرح سکاٹش اداکار شان کارنری کو گینڈالف کا کردار آفر کیا جا رہا تھا، شان کارنری کو صرف فلم میں کام کی اجرت نہیں بلکہ فلم سیریز کی کل کمائی کا 15 فیصد دینے کی آفر کی گئی لیکن انہیں یہ کردار سمجھ ہی نہیں آیا۔ اس ضمن میں شان کارنری کا کہنا ہے کہ '' مجھے اس کردار کی کبھی سمجھ نہیں آئی حتی کہ میں نے نہ صرف اس فلم کا سکرپٹ پڑھا بلکہ کتاب بھی پڑھی، بعدازاں فلم بھی دیکھ لی لیکن مجھے ابھی بھی اس کردار کی سمجھ نہیں آ رہی، یہی وجہ تھی کہ میں نے اس کردار کو نبھانے سے انکار کیا'' اور آخر کار گینڈالف کا کردار سر آئین میکلن نے نبھایا۔
اسی طرح ایراگورن کے کردار کے لئے نیکولس کیج، سٹورڈ ٹاؤنسینڈ، رسل کرو، حتی کہ ون ڈیزل نے بھی آڈیشن دیا لیکن قرعہ امریکی اداکار ویگو مورنٹینسن کے نام نکلا۔ معروف امریکی اداکار جیک جیلنہاٹ نے فروڈو کے کردار کے لئے آڈیشن دیا لیکن انہیں یہ پتہ ہی نہیں تھی کہ اس کردار کو نبھانے والے کے لئے برٹش ایکسینٹ یعنی برطانوی انگریزی لہجے کا ہونا ضروری ہے اور پھر اس کردار کو الایجا ووڈ نے نبھایا۔
فلم کی عکس بندی کے دوران کچھ حادثات بھی پیش آئے، جیسے سیریز کی پہلی فلم The Lord of the Rings: The Fellowship of the Ring کے آخر میں فروڈو جب کشتی میں سوار ہو کر جاتا ہے تو سیم (شان آسٹن) اسے روکنے کی غرض سے پانی میں اترتا ہے تو پانی میں پڑے شیشے کے ٹکڑوں سے اس کا پاؤں شدید زخمی ہو گیا، جس کی وجہ سے انہیں 20 ٹانکے لگوانے پڑے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ 24 گھنٹے بعد ہی وہ دوبارہ شوٹنگ کے لئے سیٹ پر پہنچ گئے۔
اسی طرح ایراگورن کا کردار نبھانے والے اداکار ویگو مورنٹینسن نے فلم کے دوران ایک کھوپڑی کو کِک لگاتے ہوئے اپنے پاؤں کا انگوٹھا ہی تڑوا لیا اور اس سین میں انہوں نے جو چیخ ماری وہ بنیادی طور پر ان کے انگوٹھے کی ٹوٹنے کی وجہ سے تھی۔ شوٹنگ کے دوران لیگولاس (اورلینڈو بلوم) گھوڑے سے گر کر اپنی پسلیاں تڑوا بیٹھے۔
فلم میں پہاڑوں کے مناظر کی عکس بندی کے لئے عملہ کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے پہاڑوں پر لے جایا جاتا تھا لیکن فلم میں بورومیر کا رول کرنے والے شان بین کو ہیلی کاپٹر میں بیٹھنے سے ڈر لگتا تھا، جس وجہ سے وہ دو گھنٹے کا سفر کرکے پہاڑ پر پہنچتے تھے اور باقی عملہ ان کا منتظر رہتا۔ فلم کے سکرپٹ میں تبدیلیوں کی بات کی جائے تو کتاب کے مطابق فروڈو کے گروپ میں 5 ہاپٹس ہونے چاہیے تھے لیکن فلم میں صرف چار ہی دکھائے دیئے۔ فلم میں پروڈیوسر ایک ہاپٹ کو مارنا چاہتے تھے لیکن ڈائریکٹر جیک پیٹرسن نے ان کی مخالفت کی۔ اسی طرح کتاب میں سارومین، جو پوری دنیا پر راج کرنے کے لئے انگوٹھی کو پانا چاہتا ہے، کی صرف ایک آنکھ کے بجائے پورا حقیقی جسم دکھایا گیا، لیکن فلم میں ایسا نہیں تھا۔
انگوٹھی کی بات کی جائے تو فلم میں فروڈو اپنا سفر بلبو سے انگوٹھی پانے کے 17 سال بعد شروع کرتا ہے لیکن فلم میں یہ سفر کچھ ہی ہفتوں بعد شروع ہو جاتا ہے۔ کتاب میں سارومین کو انجام تک ہوبٹس پہنچاتے ہیں لیکن فلم میں سارومین کو جنگ کے دوران ہی مرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ سیریز کی پہلی فلم The Lord of the Rings: The Fellowship of the Ring کے اختتامی مناظر میں جب لڑائی ہوتی ہے تو اس کے لئے تیز چلانے، کشتیاں الٹنے سمیت ہر قسم کے مصنوعی انتظامات کئے گئے تھے لیکن اچانک نیوزی لینڈ میں بڑے پیمانے پر سیلاب آ گیا، جس سے سارا سیٹ الٹ پلٹ ہو گیا۔
یہ فلم سیریز ابھی تک نہ دیکھنے والے شائقین کو ہم یہاں بتاتے چلیں کہ اگر آپ اس فلم کو ایک ہی وقت میں مکمل طور پر دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو سوا 9 گھنٹے کا وقت نکالنا پڑے گا، جو ایک طرح سے ریکارڈ ہے۔ فلم کے لئے 18ہزار ملبوسات تیار کئے گئے اور ہر مرکزی کردار کے لئے ایک جیسے دکھنے والے 40 مخصوص ملبوسات بنائے گئے تاکہ کپڑوں کی کمی سے عکس بندی کو نہ روکنا پڑے، اسی طرح فلم میں 2 ہزار کے قریب اسلحہ، 10 ہزار تیر اور 3 سو گھوڑوں کا استعمال کیا گیا۔ یوں ہی فلم کے کرداروں کو چھوٹا یا بڑا دکھانے کے لئے مخصوص اور جدید کیمروں کا استعمال کیا گیا۔
یہ فلم سیریز 2001ء سے 2003ء میں لگاتار ریلیز ہوئی، جس کی وجہ سے ان دنوں کئی بار ایسا وقت بھی آیا جب تینوں فلموں کی بیک وقت عکس بندی چل رہی تھی، یوں پوسٹ پروڈکشن کے دوران جب The Lord of the Rings: The Fellowship of the Ring کی ایڈیٹنگ ختم ہونے والی تھی، اسی وقت دوسری فلم The Two Towers کی ایڈیٹنگ چل رہی تھی اور وہیں پر تیسری فلم کی ایڈیٹنگ کے لئے کٹ کیا جا رہا تھا۔
معاملہ یہی پر ختم نہیں ہوا بلکہ تیسری فلم کے ریلیز ہونے کے بعد بھی پیٹر جیکسن نے اس فلم کے لئے کچھ مناظر کو عکس بند کرکے دوبارہ فلم میں شامل کیا۔ فلم کی مقبولیت کے بعد International Astronomical Union نے یہ اعلان کیا کہ اگر انسان زحل کے سب سے بڑے چاند ٹائٹن تک پہنچ جاتا ہے تو وہاں موجود سب سے بڑے پہاڑ کو The Lord of the Rings کا نام دیا جائے گا۔ یہاں اس امر کا اظہار بھی ضروری ہے کہ The Lord of the Rings کے مصنف جے آر آر ٹولکین (J.R.R. Tolkien) نہ صرف ایک بہترین لکھاری بلکہ جنگ عظیم اول بطور سپاہی حصہ لے چکے تھے، وہ لینگوئج کے پروفیسر بھی تھے، اسی وجہ سے انہوں نے متعدد نئی زبانوں کو تخلیق کیا اور The Lord of the Rings کے لئے انہوں نے 7 زبانوں کو نئے طریقے سے تخلیق کیا۔
صرف یہی نہیں بلکہ ان کا اپنا گرائمر کا نظام بھی ہے، جسے حقیقی زندگی میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جے آر آر ٹولکین (J.R.R. Tolkien) نے The Lord of the Rings کی پہلی کتاب کو 1937ء میں شائع کیا تھا، جو The Hobbits کا تسلسل تھا۔ مصنف نے 1937ء سے 1949ء تک 12سالوں میں اس کتاب کے تین والیم شائع کئے، ان کتابوں کے لئے مصنف نے تقریباً 12 سو صفحات لکھے اور اس سیریز کے مقبول ہونے کے بعد اس کتاب کی 150 ملین کاپیاں فروخت ہوئیں، 1969ء میں صرف 10 ہزار پاؤنڈ میں جے آر آر ٹولکین سے اس سیریز کے رائٹس کو خرید لیا گیا۔ پھر The Lord of the Rings کے کرداروں پر مختلف ریڈیو شوز، ڈرامے، ویڈیو گیمز اور پیٹر جیکسن کی مقبول زمانہ فلم بنی، بعدازاں جے آر آر ٹولکین کے لوگ فلم The Lord of the Rings کے معاملہ پر عدالت چلے گئے، جہاں انہوں نے رائٹس کا دعوی کر دیا، جس بناء پر انہیں 130 ملین ڈالر ادا کئے گئے۔
دنیا بھر میں بچوں سے لے کر بڑوں تک کے دلوں پر راج کرنے والی فینٹسی ایڈوانچر فلم سیریز ''دی لارڈ آف دی رنگز'' امریکا اور نیوزی لینڈ کے فلم سازوںکا ایک عالمی جوائنٹ وینچر تھا۔
اس سیریز کی پہلی فلم 2001ء میںThe Lord of the Rings: The Fellowship of the Ring کے نام سے ریلیز ہوئی، جس پر اس وقت 93 ملین ڈالر خرچہ آیا جبکہ باکس آفس پر کمائی 898 ملین ڈالر رہی۔ پہلی فلم کی کامیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے اگلے ہی برس یعنی 2002ء میں The Lord of the Rings: The Two Towers کے نام سے نئی فلم شائقین کے لئے سینما گھروں کی زینت بن گئی، جس پر 94 ملین ڈالر لاگت آئی جبکہ کمائی 948 ملین ڈالر ہوئی۔
اس کے بعد مسلسل تیسرے برس اس سیریز کے تیسری فلم The Lord of the Rings: The Return of the King کے نام سے ریلیز کی گئی، جس نے دنیا بھر کے شائقین کو اپنا گرویدہ بنا لیا، اس فلم کو بنانے پر 94 ملین ڈالر خرچہ آیا جبکہ کمائی 1.146 بلین ڈالر ہوئی، یوں اس فلم سیریز پر پر مجموعی لاگت 281 ملین ڈالر آئی تاہم باکس آفس پر کمائی تقریباً 3 بلین ڈالر ہوئی، جو بلاشبہ ایک اعتبار سے کامیابی کی ضمانت ہے۔
فلمی دنیا کی کامیابیوں کا تذکرہ کیا جائے تو The Lord of the Rings وہ فلم سیریز ہے، جس کی صرف ایک فلم یعنی The Lord of the Rings: The Return of the King نے 76ویں اکیڈمی ایوارڈز کی تقریب میں مختلف کیٹگریز میں 11 آسکر ایوارڈ جیت کر دنیا کو حیران کر دیا، تاہم مجموعی طور پر یہ فلم سیریز 2001ء سے 2004ء تک 17 اکیڈمی ایوارڈز اپنے نام کر چکی ہے۔ یہاں ہم قارئین کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے معروف برطانوی مصنف جے آر آر ٹولکین (J.R.R. Tolkien) کے رزمیہ ناول The Lord of the Rings سے ماخوذ اس فلم سیریز کے پیچھے چھپے چند حقائق پیش کرنے جا رہے ہیں۔
اس فلم سیریز کو پہلے پہل میرامیکس (MIRAMAX) (امریکی انٹرٹینمنٹ کمپنی) کے بینر تلے بنانے کا فیصلہ ہوا، جس کے مطابق یہ فلم دو حصوں میں تقسیم کی گئی، یعنی اس کے دو پارٹ بنائے جانے تھے لیکن فلم کے بڑھتے ہوئے بجٹ کو دیکھتے ہوئے پروڈکشن کمپنی نے فلم کے ڈائریکٹر پیٹر جیکسن پر دباؤ ڈالا کہ اسے ایک ہی حصے میں مکمل کیا جائے، جو یقیناً نہایت مشکل امر تھا اور یوں میرامیکس نے اس فلم سے ہاتھ اٹھا لیا اور فلم کی پروڈکشن امریکی کمپنی New Line Cinema کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ فلم کے کرداروں کی بات کی جائے تو معروف برطانوی اداکار و مصنف کرسٹوفر لی جنہوں نے سارومین کا کردار ادا کیا ہے۔
وہ دراصل گینڈالف کا رول ادا کرنا چاہتے تھے اور یہی وہ فلم کے واحد کاسٹ ممبر بھی ہیں، جنہوں نے The Lord of the Rings کے نام سے شائع ناول پہلے ہی پورا پڑھ رکھا تھا لیکن پیٹر جیکسن نے انہیں گینڈالف کے بجائے سارومین کا کردار آفر کیا۔ اسی طرح سکاٹش اداکار شان کارنری کو گینڈالف کا کردار آفر کیا جا رہا تھا، شان کارنری کو صرف فلم میں کام کی اجرت نہیں بلکہ فلم سیریز کی کل کمائی کا 15 فیصد دینے کی آفر کی گئی لیکن انہیں یہ کردار سمجھ ہی نہیں آیا۔ اس ضمن میں شان کارنری کا کہنا ہے کہ '' مجھے اس کردار کی کبھی سمجھ نہیں آئی حتی کہ میں نے نہ صرف اس فلم کا سکرپٹ پڑھا بلکہ کتاب بھی پڑھی، بعدازاں فلم بھی دیکھ لی لیکن مجھے ابھی بھی اس کردار کی سمجھ نہیں آ رہی، یہی وجہ تھی کہ میں نے اس کردار کو نبھانے سے انکار کیا'' اور آخر کار گینڈالف کا کردار سر آئین میکلن نے نبھایا۔
اسی طرح ایراگورن کے کردار کے لئے نیکولس کیج، سٹورڈ ٹاؤنسینڈ، رسل کرو، حتی کہ ون ڈیزل نے بھی آڈیشن دیا لیکن قرعہ امریکی اداکار ویگو مورنٹینسن کے نام نکلا۔ معروف امریکی اداکار جیک جیلنہاٹ نے فروڈو کے کردار کے لئے آڈیشن دیا لیکن انہیں یہ پتہ ہی نہیں تھی کہ اس کردار کو نبھانے والے کے لئے برٹش ایکسینٹ یعنی برطانوی انگریزی لہجے کا ہونا ضروری ہے اور پھر اس کردار کو الایجا ووڈ نے نبھایا۔
فلم کی عکس بندی کے دوران کچھ حادثات بھی پیش آئے، جیسے سیریز کی پہلی فلم The Lord of the Rings: The Fellowship of the Ring کے آخر میں فروڈو جب کشتی میں سوار ہو کر جاتا ہے تو سیم (شان آسٹن) اسے روکنے کی غرض سے پانی میں اترتا ہے تو پانی میں پڑے شیشے کے ٹکڑوں سے اس کا پاؤں شدید زخمی ہو گیا، جس کی وجہ سے انہیں 20 ٹانکے لگوانے پڑے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ 24 گھنٹے بعد ہی وہ دوبارہ شوٹنگ کے لئے سیٹ پر پہنچ گئے۔
اسی طرح ایراگورن کا کردار نبھانے والے اداکار ویگو مورنٹینسن نے فلم کے دوران ایک کھوپڑی کو کِک لگاتے ہوئے اپنے پاؤں کا انگوٹھا ہی تڑوا لیا اور اس سین میں انہوں نے جو چیخ ماری وہ بنیادی طور پر ان کے انگوٹھے کی ٹوٹنے کی وجہ سے تھی۔ شوٹنگ کے دوران لیگولاس (اورلینڈو بلوم) گھوڑے سے گر کر اپنی پسلیاں تڑوا بیٹھے۔
فلم میں پہاڑوں کے مناظر کی عکس بندی کے لئے عملہ کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے پہاڑوں پر لے جایا جاتا تھا لیکن فلم میں بورومیر کا رول کرنے والے شان بین کو ہیلی کاپٹر میں بیٹھنے سے ڈر لگتا تھا، جس وجہ سے وہ دو گھنٹے کا سفر کرکے پہاڑ پر پہنچتے تھے اور باقی عملہ ان کا منتظر رہتا۔ فلم کے سکرپٹ میں تبدیلیوں کی بات کی جائے تو کتاب کے مطابق فروڈو کے گروپ میں 5 ہاپٹس ہونے چاہیے تھے لیکن فلم میں صرف چار ہی دکھائے دیئے۔ فلم میں پروڈیوسر ایک ہاپٹ کو مارنا چاہتے تھے لیکن ڈائریکٹر جیک پیٹرسن نے ان کی مخالفت کی۔ اسی طرح کتاب میں سارومین، جو پوری دنیا پر راج کرنے کے لئے انگوٹھی کو پانا چاہتا ہے، کی صرف ایک آنکھ کے بجائے پورا حقیقی جسم دکھایا گیا، لیکن فلم میں ایسا نہیں تھا۔
انگوٹھی کی بات کی جائے تو فلم میں فروڈو اپنا سفر بلبو سے انگوٹھی پانے کے 17 سال بعد شروع کرتا ہے لیکن فلم میں یہ سفر کچھ ہی ہفتوں بعد شروع ہو جاتا ہے۔ کتاب میں سارومین کو انجام تک ہوبٹس پہنچاتے ہیں لیکن فلم میں سارومین کو جنگ کے دوران ہی مرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ سیریز کی پہلی فلم The Lord of the Rings: The Fellowship of the Ring کے اختتامی مناظر میں جب لڑائی ہوتی ہے تو اس کے لئے تیز چلانے، کشتیاں الٹنے سمیت ہر قسم کے مصنوعی انتظامات کئے گئے تھے لیکن اچانک نیوزی لینڈ میں بڑے پیمانے پر سیلاب آ گیا، جس سے سارا سیٹ الٹ پلٹ ہو گیا۔
یہ فلم سیریز ابھی تک نہ دیکھنے والے شائقین کو ہم یہاں بتاتے چلیں کہ اگر آپ اس فلم کو ایک ہی وقت میں مکمل طور پر دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو سوا 9 گھنٹے کا وقت نکالنا پڑے گا، جو ایک طرح سے ریکارڈ ہے۔ فلم کے لئے 18ہزار ملبوسات تیار کئے گئے اور ہر مرکزی کردار کے لئے ایک جیسے دکھنے والے 40 مخصوص ملبوسات بنائے گئے تاکہ کپڑوں کی کمی سے عکس بندی کو نہ روکنا پڑے، اسی طرح فلم میں 2 ہزار کے قریب اسلحہ، 10 ہزار تیر اور 3 سو گھوڑوں کا استعمال کیا گیا۔ یوں ہی فلم کے کرداروں کو چھوٹا یا بڑا دکھانے کے لئے مخصوص اور جدید کیمروں کا استعمال کیا گیا۔
یہ فلم سیریز 2001ء سے 2003ء میں لگاتار ریلیز ہوئی، جس کی وجہ سے ان دنوں کئی بار ایسا وقت بھی آیا جب تینوں فلموں کی بیک وقت عکس بندی چل رہی تھی، یوں پوسٹ پروڈکشن کے دوران جب The Lord of the Rings: The Fellowship of the Ring کی ایڈیٹنگ ختم ہونے والی تھی، اسی وقت دوسری فلم The Two Towers کی ایڈیٹنگ چل رہی تھی اور وہیں پر تیسری فلم کی ایڈیٹنگ کے لئے کٹ کیا جا رہا تھا۔
معاملہ یہی پر ختم نہیں ہوا بلکہ تیسری فلم کے ریلیز ہونے کے بعد بھی پیٹر جیکسن نے اس فلم کے لئے کچھ مناظر کو عکس بند کرکے دوبارہ فلم میں شامل کیا۔ فلم کی مقبولیت کے بعد International Astronomical Union نے یہ اعلان کیا کہ اگر انسان زحل کے سب سے بڑے چاند ٹائٹن تک پہنچ جاتا ہے تو وہاں موجود سب سے بڑے پہاڑ کو The Lord of the Rings کا نام دیا جائے گا۔ یہاں اس امر کا اظہار بھی ضروری ہے کہ The Lord of the Rings کے مصنف جے آر آر ٹولکین (J.R.R. Tolkien) نہ صرف ایک بہترین لکھاری بلکہ جنگ عظیم اول بطور سپاہی حصہ لے چکے تھے، وہ لینگوئج کے پروفیسر بھی تھے، اسی وجہ سے انہوں نے متعدد نئی زبانوں کو تخلیق کیا اور The Lord of the Rings کے لئے انہوں نے 7 زبانوں کو نئے طریقے سے تخلیق کیا۔
صرف یہی نہیں بلکہ ان کا اپنا گرائمر کا نظام بھی ہے، جسے حقیقی زندگی میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جے آر آر ٹولکین (J.R.R. Tolkien) نے The Lord of the Rings کی پہلی کتاب کو 1937ء میں شائع کیا تھا، جو The Hobbits کا تسلسل تھا۔ مصنف نے 1937ء سے 1949ء تک 12سالوں میں اس کتاب کے تین والیم شائع کئے، ان کتابوں کے لئے مصنف نے تقریباً 12 سو صفحات لکھے اور اس سیریز کے مقبول ہونے کے بعد اس کتاب کی 150 ملین کاپیاں فروخت ہوئیں، 1969ء میں صرف 10 ہزار پاؤنڈ میں جے آر آر ٹولکین سے اس سیریز کے رائٹس کو خرید لیا گیا۔ پھر The Lord of the Rings کے کرداروں پر مختلف ریڈیو شوز، ڈرامے، ویڈیو گیمز اور پیٹر جیکسن کی مقبول زمانہ فلم بنی، بعدازاں جے آر آر ٹولکین کے لوگ فلم The Lord of the Rings کے معاملہ پر عدالت چلے گئے، جہاں انہوں نے رائٹس کا دعوی کر دیا، جس بناء پر انہیں 130 ملین ڈالر ادا کئے گئے۔