خطے میں سلامتی کے مضمرات اور افغانستان

عالمی رائے عامہ بھی افغان مائنڈ سیٹ کے حوالے سے ابھی تک کوئی رائے قائم نہیں کرسکی


Editorial October 10, 2021
امریکا نے پاک امریکا تعلقات اور رابطوں کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے فوٹو: فائل

قومی سلامتی کمیٹی نے افغانستان میں خوفناک انسانی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پڑوسی ملک میں عدم استحکام کے پاکستان کے لیے شدید مضمرات ہوسکتے ہیں۔

قومی سلامتی کمیٹی کا34 واں اجلاس گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت ہوا جس میں علاقائی سلامتی کی صورتحال بالخصوص افغانستان میں ہونے والی پیشرفت کا جائزہ لیا گیا اور اس کے پاکستان پر ممکنہ اثرات پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ خطے میں جیو پولیٹیکل صورتحال تیزی سے بدلنے لگی ہے، افغانستان کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی معاملات عالمی قوتوں کے مرکز نگاہ ہیں، پاکستان کو افغانستان کی اقتصادی اور سماجی صورتحال کی بہتری کی فکر ہے کیونکہ خطے میں افغانستان میں نئی حکومت کے قیام اور اس کی مشکلات کا سارا بار پاکستان کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے جو تاریخ کی بہت بڑی ذمے داری اور آج کا اہم ترین چیلنج ہے، سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کا مسئلہ کثیر جہتی سیاسی حل کا ہے لیکن نئی افغان حکومت ابھی تک ایک صائب حکمت عملی دنیا کے سامنے پیش نہیں کرسکی ہے۔

عالمی رائے عامہ بھی افغان مائنڈ سیٹ کے حوالے سے ابھی تک کوئی رائے قائم نہیں کرسکی ہے ، طالبان کو جو بنیادی مسائل در پیش ہیں وہ گورننس کے ہیں، اسے اپنے آپ کو دنیا کے سامنے ایک ماڈریٹڈ ریاست کے طور پر پیش کرنا ہے، بڑی طاقتوں کو یہ یقین بھی حاصل کرنا ہے کہ نہ صرف طالبان حکومت کو ایک معنوی سیاسی پیش قدمی دکھانی ہوگی بلکہ جلد ہی اپنے اقتصادی، معاشی اور سیاسی بریک تھرو کے لیے بھی کچھ اہم اقدامات پیش کرنا ہونگے، کیونکہ افغانستان کے بحران کی نت نئی کہانیاں سامنے آسکتی ہیں۔

انکل سام کو بیس سالہ افغان جنگ کے مضمرات اور درد انگیز تجربات کا اتنا گہرا صدمہ ہوا ہے کہ پینٹاگون ابھی تک اس شکست کے بنیادی اسباب کی تحقیق میں الجھا ہوا ہے، امریکی فوجی جنرلز نے اسے اقدار کی شکست قرار دیا ہے، بیس سال بعد امریکا کو بتایا جا رہا ہے کہ افغان جنگ امریکا کو پانچ دس سال پہلے ہی ختم کر دینی چاہیے تھی۔ ان ہی اثرات و مضمرات کی گونج پاکستان کے مقتدر سیاسی حلقوں میں سنائی دے رہی ہے.

امریکا نے پاک امریکا تعلقات اور رابطوں کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے اور امریکی وفود کی آمد کا سلسلہ بھی جاری ہے، پاکستان کی کوشش ہے کہ افغانستان میں کسی قسم کا انسانی یا سیاسی بحران پیدا نہ ہو، دنیا افغانستان کی مدد کرے ، اسے ادارہ جاتی بحالی اور انتظامی تعمیر و توسیع کے جو چیلنجز در پیش ہیں اس میں دنیا کو طالبان کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہیے۔

اجلاس میں وفاقی وزرا، تینوں سروسز چیفس اور انٹیلی جنس سربراہان نے شرکت کی۔ اجلاس میں ایک خودمختار، مستحکم اور پرامن افغانستان کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا گیا کہ وہ افغانستان میں انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے امداد فراہم کرے۔ اجلاس میں افغانستان کی عبوری حکومت کے ساتھ تعمیری، سیاسی اور اقتصادی بات چیت کے حوالے سے عالمی رابطوں کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی۔

وزیر اعظم عمران خان نے افغانستان سے عالمی انخلا کی کوششوں میں پاکستان کے تعاون پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا نے پاکستان کے اس مثبت تعاون کا اعتراف کیا ہے۔ وزیر اعظم نے افغانستان کے حوالے پاکستان کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کو ہم آہنگ کرنے، افغان عوام کو انسانی امداد کی فراہمی، وہاں کی صورتحال کے پاکستان پر کسی قسم کے منفی اثرات کو روکنے اور موثر بارڈر مینجمنٹ کے لیے ایک خصوصی سیل قائم کرنے کی ہدایت کی۔

موثر بارڈر مینجمنٹ کی ضرورت بنیادی ٹارگٹ ہونا چاہیے کیونکہ پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر سلامتی کے بہت ہی بنیادی مسائل ہیں، دہشتگردوں کی جانب سے خدشات اور خطرات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، بھارت اپنی ریشہ دوانیوں سے باز نہیں آتا ، وہ افغانستان میں پیش آنے والی صورتحال سے ہزیمت اور سیاسی طور پر بھی پاکستان کے اقدامات کے باعث شدید صدمہ کی حالت میں ہے، اس کی ساری سرمایہ کاری افغانستان کی صورتحال نے تباہ کر دی ہے، اسے سیاسی طور پر زبردست شکست ہوئی ہے۔

وہ یوسف بے کارواں بن کر رہ گیا ہے، خطے کی سیاسی صورتحال نے بھارت سمیت دیگر ممالک کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا ہے، ماہرین کے مطابق افغانستان کا مسئلہ ایک گمبھیرتا ہے جسے سلجھانے کے لیے دنیا کو عقل و دانش کے کئی باب کھولنے پڑیں گے۔

پاکستان کے داخلی مسائل اور سیاسی کشیدگی کو حل کرنے کی ضرورت ہے، ایک پرامن پاکستان سفارت کاری کے لیے ناگزیر بھی ہے اور اسے دنیا سے مناظرہ اور تبدیلیوں کا مقابل کرنے لیے اپنی قومی سلامتی کے بنیادی تقاضوں کے ادراک کے ساتھ ساتھ زمینی اور عالمی حقائق کے مطابق حکمت عملی بنانے میں پیش قدمی کرنی ہوگی کہ کوئی طاقت خطے میں چین کی پاکستان سے دوستی کو گزند نہ پہنچا سکے، پاکستان کو محتاط رہنا ہوگا، اس وقت ڈپلومیسی کی جنگ جاری ہے، دنیا بدل چکی ہے، سپر پاورز کا سحر ٹوٹ چکا ، خلا کو پر کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔

پاکستان کے اقتصادی اور سیاسی مفادات کو ہر قسم کے مضمرات سے محفوظ رکھنا وقت کا تقاضہ ہے، امریکا کی دلچسپی خطے میں پہلے سے کہیں زیادہ ہے، وہ چین سے خائف ہے، ماہرین کا اندیشہ ہے کہ چین کو محدود رکھنے اور اس کے اثرو رسوخ کو روکنے کی امریکی کوششیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں، دنیا ایک نئی چین و امریکی تجارتی جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی، پاکستان کو امن اور افغانستان نے خطے میں اہم حیثیت دی ہے، اس کا امریکا کو بھی بھی اندازہ ہے، یہی وجہ ہے کہ نائب امریکی وزیر خارجہ کا بھارت میں پاکستان بارے لہجہ سخت، اسلام آباد پہنچتے ہی نرم ہو گیا۔

پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن نے کہا ہے کہ امریکا کے پاکستان کے ساتھ 'دیرینہ تعلقات' ہیں ، جس میں وسیع تر مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے، پاکستان آنے سے قبل بھارت میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ 'مخصوص اور محدود' مقصد کے لیے اسلام آباد کا دورہ کر رہی ہیں اور امریکا پاکستان کے ساتھ 'وسیع تر تعلقات' کا خواہاں نہیں ہے، رواں سال جنوری میں وائٹ ہاؤس کے صدر جو بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان کا دورہ کرنے والی پہلی اعلیٰ امریکی سفارتکار وینڈی شرمن نے یہ بھی اشارہ دیا کہ صدر بائیڈن جلد ہی وزیر اعظم عمران خان کو ٹیلی فون کر سکتے ہیں۔

مبصرین کا خیال ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات آگے نہیں بڑھ رہے کیونکہ افغان انخلا کے بعد امریکی ترجیحات تبدیل ہو گئی ہیں، امریکی انتظامیہ میں بھی ایک نظریہ ہے کہ پاکستان افغانستان میں امریکی شکست کا ذمے دار ہے حالانکہ اسلام آباد کا اصرار ہے کہ اسے دوسرے کی ناکامیوں کے لیے قربانی کا بکرا نہیں بنایا جا سکتا، تاہم نائب امریکی وزیر خارجہ کے پاکستان کے دورے کو اہم سمجھا گیا کیونکہ یہ مستقبل کے لائحہ عمل کا تعین کرے گا۔ وینڈی شرمن نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور مشیر قومی سلامتی معید یوسف سے ملاقاتیں کیں۔

وزیر خارجہ نے ملاقات میں کہا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان باقاعدہ اور منظم ڈائیلاگ کا عمل ہمارے دوطرفہ مفاد کے ساتھ ساتھ مشترکہ علاقائی مقاصد کو فروغ دینے کے لیے بہت ضروری ہے، امریکی نائب وزیر خارجہ نے بلوچستان زلزلے میں جانی نقصان پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا، اسسٹنٹ سیکریٹری برائے جنوبی اور وسطی ایشیا مسٹر ڈونلڈ لو بھی ان کے ہمراہ تھے، مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے کہا کہ دنیا کو طالبان کی عبوری حکومت سے رابطہ کرنا چاہیے۔

عالمی برادری کو افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت سے رابطے قائم کرنے چاہئیں۔ اپنے دو روزہ دورے کے اختتام پر امریکی سفارتخانے میں میڈیا اور پی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ مضبوط، خوشحال اور جمہوری پاکستان نہ صرف خطے بلکہ دنیا کے لیے اہم ہے، انھوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ مفید اشتراک رہا، آیندہ بھی رہے گا، امریکا فی الحال افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کر رہا، ہمیں یہ دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ طالبان کس طرح آگے بڑھ رہے ہیں۔

امریکا اس سلسلے میں روس اور چین سمیت پوری دنیا کے ساتھ وسیع مشاورت کر رہا ہے، ہم کابل میں ایک جامع حکومت کے متلاشی ہیں، ہم طالبان کے الفاظ نہیں بلکہ ان کے اعمال پر فیصلہ کریں گے، اگرچہ افغانستان میں امریکی فوجی مشن ختم ہوچکا ہے ، لیکن افغان عوام کے ساتھ ہمارا عزم ختم نہیں ہوا۔ ہمیں افغانستان میں بگڑتی ہوئی انسانی صورت حال پر انتہائی تشویش ہے، پاکستان اور امریکا کے درمیان کئی دہائیوں سے بہترین تعلقات قائم ہیں، امریکا چاہتا ہے افغانستان ترقی کرے، افغانستان میں حالات کی بہتری کے لیے اقدامات کرتے رہیں گے۔

پاکستان کئی دہائیوں سے افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے، ہم کسی کی ترقی میں رکاوٹ نہیں چاہتے۔ انسانی امداد تک بلاتعطل رسائی کے لیے طالبان کو اپنے وعدے پورے کرنا ہوں گے، افغانستان کو دوبارہ دہشتگردی کا مرکز بننے، امریکا اور اتحادیوں کے حملوں سے روکنا ہو گا، ایک متحرک میڈیا آزاد معاشرے کے لیے ناگزیر ہے، پاکستان کا دورہ دوطرفہ دیرپا تعلقات کے تناظر اور افغان صورتحال کے بارے میں ہے، افغانستان کی صورتحال اور طالبان سے توقعات، امریکا، پاکستان سمیت پوری دنیا کے لیے اہم ہیں، طالبان نے آزاد نقل و حمل، خواتین، بچوں، اقلیتوں سمیت انسانی حقوق کی پاسداری کا وعدہ کیا، طالبان کے تمام وعدے تاحال عوامی توقعات کے برعکس پورے نہیں ہوئے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکی لاشعور میں افغانستان کی صورتحال صرف باتوں سے نہیں بلکہ ٹھوس عملی شہادتوں سے جانچی جانی چاہیے۔ پاکستان طالبان کو قائل کرسکتا ہے کہ وہ امریکی بیل کو نہ آزمائے اور دنیا کو ایک نئے افغانستان کی عملی تصویر دکھائے جس سے افغانستان کے ہیومینٹرین بحران کا راستہ رک سکتا ہے۔ افغانستان کی اقتصادیات اور اس کی معاشی صورتحال کی بہتری بریک تھرو کی محتاج ہے، اس زمینی حقیقت کو افغانستان جتنی جلدی سمجھ لے اسی میں دنیا اور خطے کا فائدہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔