اردو نثر اور ماضی کے نثر نگار
نثر کی مختلف اقسام ہیں جوکہ اردو ادب میں مختلف ناموں سے شناخت کی جاتی ہیں
نثر کی مختلف اقسام ہیں جوکہ اردو ادب میں مختلف ناموں سے شناخت کی جاتی ہیں جیسے کہ داستان ، ناول ، افسانہ ،ڈرامہ ، انشائیہ ، سفرنامہ ، مکتوب نگاری ، سوانح نگاری ، خاکہ نگاری ، تنقید نگاری ، تبصرہ ، رپورتاژ ، مقالہ ، کالم نگاری ، حاشیہ نگاری ، کہانی نویسی ، طنز و مزاح وغیرہ نثر کی اقسام ہیں۔ رجب علی بیگ سرور ، ملا وجہی ، پریم چند ، رتن ناتھ سرشار ،گوپی چند ، ڈپٹی نذیر احمد ، فردوس خاتون ، میر امن دہلوی ، مولوی عبدالحق ، عصمت بیگ چغتائی ۔
ہر وہ کلام جو نظم نہیں نثرکے دائرے میں آتا ہے ، مثال کے طور پر ہم نثرکی بنیاد دو خصوصیات پر اخذ کرسکتے ہیں۔
1۔ وہ کلام جس میں کسی مخصوص ترتیب کے تحت وزن نہ ہو نثرکہلاتا ہے۔ اس کے جملے اور فقرے کی بناوٹ اور ترتیب قواعد و ضوابط کے مقررکردہ اصولوں کے مطابق ہو۔
2 ۔ نثرکی اقسام کو لفظی اور معنوی اقسام کے تحت رکھ سکتے ہیں۔
لفظی اقسام:
مسجع، مرقع و مرجی و مرجرغاری۔
مصنوعی اقسام:
رقیق رنگین ، رقیق سادہ ، آسان سلیس رنگین اور آسان سلیس سادہ۔
لفظی اقسام:
ایسی کوئی بھی تحریری نثر جس کے دو فقروں کے تمام الفاظ ایک دوسرے کے ہم وزن ہوں مسجع کہلاتی ہیں مثلاً:دریائے لطافت میں سید انشا نے اس کی مثال میں فقرے سے دی ہے '' پونڈ اتنا لکھا جس کی بھلائی گمان سے بڑھ کر پونڈ پھیکا اتنا کہ اس کی برائی بیان سے بڑھ کر۔''
یہاں دونوں کے فقرے ہم وزن ہیں ، ایسے جو بھی فقروں کا استعمال جو ہم وزن ہوں اسے نثر مسجع کہتے ہیں۔
نثر مرقع:
ہر بات میں ایسے الفاظ یا فقرے جو وزن حرکت میں یکساں ہے مثلاً سیرت کی بھلائی بیان سے بڑھ کر تو صورت صفائی گمان سے بڑھ کر ، سیرت میں سنجیدگی تو صورت میں پسندیدگی ، فطرت اور ایسی جس کے فقروں میں دونوں نہ ہوں لیکن قابل استعمال کیا گیا ہو ،کسی بھی تحریر میں قافیوں کا استعمال کرنا جیسے الفاظ ہیں گیا ، نیا ، پرانا ، سونا ، اٹھنا بیٹھنا ، ان کو قافیہ کہا جاتا ہے۔ اگر وزن نہ ہو اور قافیوں کا استعمال کیا گیا ہو جیسے غالب کے خطوط جن کی مثال ہے:
حضرت نے میری گرفتاری کا نیا رنگ نکالا، بوستان خیال کے دیکھنے کا دانہ ڈالا۔ مجھ میں اتنی طاقت کہاں تھی کہ بلا سے پھنس جاؤں۔ دامن اگرکے زمین پر سے اٹھا لوں۔
نثر مرجز:
وہ نثر جس میں وزن ہو مگر قافیہ ، اہتمام نہ ہو نثر مرجہ کہلاتی ہے۔ نثر کے تمام فقروں میں وزن پیدا کرنے کے لیے الفاظ کی ترتیب میں الٹ پھیر کردیا جاتا ہے ۔
نثر عاری:
جس میں مسجع کی طرح ہر فقرے کے آخر میں قافیہ ہو اور مرجز کی طرح دو فقروں کے کلمات ہم وزن ہوں ، لیکن اس تحریر میں سنجیدگی ، متانت ، سلاست اور فصاحت میں اور وہ درجہ رکھتی ہو مثلاً تاریخ کے اوراق پر سرسری نظر ڈالنے سے معلوم ہوگا کہ عجائب زار ہمیشہ سے عجیب عجیب تعمیرات و حوادث کی آماجگاہ رہ چکا ہے۔ اقوام اور ممالک کا عروج و زوال عظیم الشان سلطنتوں کی تباہی و بربادی نیرنگ روزگار کے ادنیٰ کرشمے اور نمونے ہیں۔
دقیق، وہ نثر ہے جس میں نامانوس اور غیر مروجہ الفاظ یعنی وہ الفاظ جن کا رواج نہ ہو استعمال کیے گئے ہوں آسانی سے سمجھ میں نہ آنے والی تشبیہات اور استعارے دقیق نثرکی پہچان ہے جیسے کہ طاؤس آماد رقص ہے یا زمین کے رخسار پر سبزہ و آغاز ہے۔ کوہ صحرا میں سنبل دریا ، لالہ و نسیم کی نشوونما ہے۔ دامن دشت کے جبال اس سال سبد گل چیں ہو گیا ہے۔ پھولوں سے بھرا ہے گل رعناز پائی ہے، شگفتہ ہوگئے سراپا گوش بلبل شیدا پھولا نہیں سما خشک رہا ہے۔
سلیس: جو تحقیق کی ضد ہوںیعنی ایسے الفاظ کسی بھی تجزیہ میں استعمال کیے جائیں جو کسی کی بھی سمجھ میں آجائیں۔ سلیس تحریر میں تشبیہات، استعارات آسانی سے سمجھ میں آجاتے ہیں مثلاً۔ برس کی آخری رات کو ایک بوڑھا اپنے اندھیرے گھر میں اکیلا بیٹھا ہے۔ رات اندھیری اور ڈراؤنی ہے، گھٹا چھا رہی ہے، بجلی تڑخ، تڑخ کر کڑکی ہے آندھی بہت زور سے چل رہی ہے۔
اچھے خیالات یا گفتار کو زبان سے ظاہرکرنے کے ارادوں میں دو طریقے ہیں اول نثر اور دوسرا نظم۔ ادبی اظہار اور تجلیاں کی ترسیل کے لیے زبان کا استعمال ہی انسان کا بڑا ذریعہ ہے۔
شبلی نعمانی نے اردو ادب میں مسلمانوں کی بڑی خدمت کی اکثریتی لوگوں کے بارے میں نہایت عام سلیس زبان میں خوب لکھا مثلاً انھیں جیسے لکھا ہے کہ'' محمودہ ، محتاج کے سر میں سینگ ہوتے ہیں اس سے بڑھ کر محتاجی اورکیا ہوگی کہ آپ کا ایک دن بھی نوکروں کے کٹ نہیں سکتا۔
بھلا میں پوچھتی ہوں ماما نہ ہو تو کھانا کون نکالے ، لونڈیا نہ ہو تو پانی کون پلائے، منہ کون دھلائے، پنکھا کون جھلے، چیز کون اٹھا کر دے ، چارپائی کون بچھائے ، بچھونے کون کرے، گھر میں جھاڑوکون دے۔ یہ تو روزمرہ کے کام ہیں ، کھانا ، کپڑا ، برش ، زیور اور ضرورت کی کل چیزیں، چھوٹی یا بڑی یہاں تک کہ پانی پینے کا مٹی کا آب خورہ ، سوئی، سلائی کیا آپ نے اپنے ہاتھوں بنائیں۔''
ڈپٹی نذیر احمد نے تعلیم نسواں کی اہمیت کو محسوس کیا اور خواتین کے مسائل پرکتب لکھیں خاص طور پر مفید تھیں۔ ان کی ناول کے ذریعے اردو نثر کو فروغ ملا۔ نذیر احمد کے بعد ان کے انداز پر بہت سے اردو ناول تحریر کیے گئے۔
بعد میں خواتین پر نثرنگاری میں بھی نذیر احمد کا اثر ، اسلوب اور موضوعات دونوں پر نظر آتے ہیں۔ اردو نثر نے جڑیں پکڑیں ان میں مختلف ادوار کے مختلف ادیب کے کارہائے نمایاں شامل ہیں۔ رجب علی بیگ سرور، عبدالحلیم شرر، سجاد حیدر یلدرم، ملاوجہی، مرزا محمد ہادی رسوا، میر امن دہلوی، عصمت بیگ چغتائی، امجد ظہیر، مولانا عبدالکلام آزاد، وحید الدین سلیم، سلیمان ندوی، مہندی انصاری، مولانا عبدالماجد درباری، منشی پریم چند، شبلی نعمانی، الطاف حسین حالی، سرسید احمد خان، فردوس خاتون لکھنوی، راجندر ناتھ بیدی، پنڈت رتن ناتھ سرشار ، سلطان حیدر جوش، مجنوں گورکھپوری، بھگون داس، راجندر پرشاد بیدی، حیدر عباس زیدی وغیرہ۔