نادانی
مودی کی دلی خواہش ہے کہ وہ کسی طرح گلگت بلتستان کو پاکستان سے چھین کر بھارت کا حصہ بنالے
ISLAMABAD:
مودی کی دلی خواہش ہے کہ وہ کسی طرح گلگت بلتستان کو پاکستان سے چھین کر بھارت کا حصہ بنالے۔ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے ایک سال قبل لداخ میں چینی فوجوں کی پیش قدمی سے پہلے مودی نے گلگت بلتستان پرحملے کے لیے تمام انتظامات مکمل کرلیے تھے۔
دولت بیگ اولڈی جوکہ شمالی کشمیر میں ایک اسٹرٹیجک مقام ہے مودی کے مطابق وہاں سے گلگت بلتستان پر قبضہ کرنے میں بھارتی فوج کو زیادہ دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑ سکتا تھا ، چنانچہ اس مقام تک پہنچنے کے لیے نئی سڑک تعمیر کرنے کے علاوہ ایک نیا فوجی ہوائی اڈہ بھی تعمیر کیا گیا۔ ان دنوں مودی پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کے کھلم کھلا بیانات دے رہا تھا۔ لائن آف کنٹرول پر بھی بھارت کی جانب سے فائرنگ روزکا معمول تھا۔ آزاد کشمیر میں روزکئی معصوم شہری بھارتی فائرنگ کی زد میں آکر ہلاک ہو رہے تھے۔
پاکستان کے بار بار احتجاج کے باوجود مودی باز نہیں آ رہا تھا اور لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی فائرنگ روزمرہ کا معمول بن چکا تھا۔پاکستانی افواج اس بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے رہی تھیں۔ بھارتی جرنیل بھی مودی سے پیچھے نہ رہے اور آئے دن پاکستان کو سرجیکل سڑائیک کی دھمکیاں دے رہے تھے جس کے جواب میں پاکستان نے واضح طور پر بھارت سے کہہ دیا کہ اگر اس نے کوئی ایسی غلطی کی تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔لہٰذا بھارتی جرنیل صرف دھمکیوں سے آگے نہ بڑھ سکے۔ مودی گلگت بلتستان کو ہی کیا آزاد کشمیر کو بھی بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔
اس کا موقف ہے کہ تقسیم ہند کے وقت پاکستان نے غیر قانونی طور پر بھارت کے ان علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا اس طرح ان علاقوں کو پاکستان سے چھیننے کا بھارت کو پورا حق حاصل ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر کے حل کی جانب نہیں آرہا ۔مقبوضہ کشمیر میں استصواب رائے کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں مگر اقوام متحدہ نے کبھی بھارت پر دباؤ نہیں ڈالا کہ وہ مقبوضہ کشمیر کا فیصلہ وہاں کے عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرے۔
سب کو معلوم ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور کشمیریوں کی تحریک آزادی کو دبانے کے لیے ہر ظالمانہ حربہ آزما رہا ہے۔کشمیری بھارتی ظالمانہ ہتھکنڈوں کے آگے سرخم کرنے کے لیے قطعی آمادہ نہیں۔اب تک لاکھوں کشمیری اپنی جانیں آزادی کی تحریک میں قربان کر چکے ہیں مگر ان کا جذبہ ماند نہیں پڑ رہا۔بھارتی ظلم و ستم انھیں تحریک آزادی سے دور نہیں کر سکا۔ دراصل گلگت بلتستان کا علاقہ بھارت کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے ، وہ اس علاقے کو حاصل کرکے بھارت کا رابطہ وسطی ایشیائی ممالک اور خاص طور پر افغانستان سے جوڑنا چاہتا ہے۔
یہ تو ایک حقیقت ہے کہ اس علاقے کا پاکستانی حصہ ہونے کی وجہ سے بھارت افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں سے نہ تو کھل کر تجارت کرسکتا ہے اور نہ ہی ان کے قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ بھارت کی خواہش ہے کہ وہ گلگت بلتستان پر قبضہ کرلے جس سے اسے بہت سے تجارتی اور فوجی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ وہ اس پاکستانی علاقے کو ہتھیا کر پاکستان کے گیم چینجر منصوبے سی پیک کو بھی پامال کرنے کا خواہاں تھا کیونکہ سی پیک کا راستہ گلگت بلتستان سے ہی ہو کر گزرتا ہے۔
مودی اس علاقے پر حملہ کرنے والا تھا کہ بس چند دن قبل ہی ناگہانی طور پر چینی فوج نے لداخ میں بھارت کے زیر قبضہ اپنے علاقوں کو آزاد کرانے کے لیے پیش قدمی شروع کردی۔ بھارتی فوجیں حسب سابق یعنی 1962 کی طرح چینی فوجوں کا مقابلہ نہ کرسکیں اور چین نے سیون فنگرز میں سے چار کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا ساتھ ہی گلوان وادی اور پین گانگ لیک کو بھی بھارت سے واپس لے لیا تھا۔ اس اچانک حملے نے مودی کے گلگت بلتستان پر قبضہ کرنے کے سہانے خواب کو تو چکنا چور کر ہی دیا تھا ، ساتھ ہی بھارت کے دوسرے علاقوں پر بھی خطرہ منڈلانے لگا تھا۔ مودی تلملا کر رہ گیا تھا مگر چینی فوجوں سے بھلا اس کی فوج کیا مقابلہ کرتی وہ تو پاکستانی فوج کا مقابلہ بھی نہیں کرپاتی ہے۔
تاہم مودی اس خوش فہمی میں ضرور مبتلا تھا کہ اس کی فوج چینی فوجوں سے نہ سہی لیکن پاکستانی فوج کا ضرور مقابلہ کرسکتی ہے مگر وہ شاید 1948 اور 1965 میں پاکستانی فوجوں کے ہاتھوں بھارتی فوجوں کی درگت کو بھول گیا تھا، اگر مودی نے گلگت بلتستان پر حملہ کرنے کی غلطی کی ہوتی تو اسے یہ حملہ بہت مہنگا پڑ جاتا۔ وہ گلگت بلتستان پر قبضہ کیا کر پاتا الٹا سیاچن سے لے کر کارگل تک کا علاقہ کھو دیتا کیونکہ نادان مودی کو پتا ہی نہیں تھا کہ پاکستانی فوج اس کی فوجی تیاری سے پہلے سے ہی باخبر تھی اور اس کے اچانک حملے سے نمٹنے کے لیے پوری تیاری کرچکی تھی۔
مودی کی اس سلسلے میں خوش فہمی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اس کا خیال تھا کہ اگر پاکستانی فوج اس کے حملے کا جواب دیتی تو مغربی سرحد یعنی افغانستان سے افغان فوجیں پاکستان پر حملہ آور ہو جاتیں کیونکہ اس نے افغان فوجیوں کو پاکستانی فوج سے لڑنے کے لیے ہی اپنے ہاں تربیت دی تھی نہ کہ طالبان کا مقابلہ کرنے کے لیے اور یہ بات طالبان کی افغانستان پر چڑھائی کے وقت ثابت ہوگئی کہ افغان فوجیں طالبان سے لڑنے کی ہمت ہی نہیں رکھتی تھیں جب ہی وہ طالبان کے آگے سرنڈر کرتی گئیں۔
مودی نادان کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ جب بھارتی فوج پاکستانی فوج کا مقابلہ نہیں کرسکتی تو افغان فوج پاکستانی فوج کا کیا مقابلہ کرتی۔ مودی کی مایوسی کا اس وقت یہ عالم ہے کہ وہ اپنا سارا وقت مندروں میں گزار رہا ہے اور اس نے رام مندر کی تعمیر میں پہلے جو تیزی دکھائی تھی وہ اب ماند پڑچکی ہے اس لیے عام بھارتی اس کی تعمیرکو ناجائز قرار دے رہے ہیں۔
وہ اس وقت چین سے اس قدر خوف زدہ ہے کہ اگرچہ چینی فوجیں لداخ میں پھر پیش قدمی کرنے کے لیے پر تول رہی ہیں مگر وہ اپنی تقریروں اور بیانات میں چین کا نام تک نہیں لے رہا ہے۔ اس بات پر بھارتی حزب اختلاف کے رہنما مودی کی سخت تنقید کر رہے ہیں مگر مودی پھر بھی چین کے خلاف کوئی بیان دینا تو کجا اس نے چین سے تجارتی تعلقات کو مزید وسعت دے دی ہے۔
چین شاید مودی پر اس قدر غضب ناک نہ ہوتا اگر وہ سی پیک منصوبے کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کرتا اور ساتھ ہی مغربی ممالک کے ساتھ مل کر اوکس جیسے چین مخالف منصوبے کا حصہ نہ بنتا۔ ادھر امریکا چین کو نقصان پہنچانے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہا ہے کیونکہ وہ چین کے اس کی ہم پلہ سپرپاور بننے سے سخت خوف زدہ ہے۔ اس وقت چین کے غریب پرور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے غریب ممالک فائدہ اٹھا کر اس کے ہمنوا بنتے جا رہے ہیں جب کہ امریکا اپنی جارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے پوری دنیا میں بدنام ہو گیا ہے۔
اب تو اس کے خاص یورپی اتحادی بھی اس کے دائرے اثر سے باہر نکلتے جا رہے ہیں۔ پاکستان بھی اب امریکی اثر سے نکل کر چین اور روس سے اپنے تعلقات کو مستحکم کر رہا ہے۔ طالبان کو روس چین اور پاکستان کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ افغانستان سے امریکی قبضے کے ختم ہونے سے وہاں سے بھارت بھی باہر نکل چکا ہے اس طرح اب پاکستان کی مغربی سرحد بھی محفوظ ہوگئی ہے۔
اس وقت چین لداخ میں تازہ پیش قدمی کرکے بھارت کے مقبوضہ کشمیر پر قبضے کو ہی ختم کرنے کے درپے ہے، لگتا ہے اس لیے کہ اس نے اندازہ کرلیا ہے کہ جب تک بھارت مقبوضہ کشمیر پر قابض ہے سی پیک پر اس کی جانب سے خطرہ منڈلاتا رہے گا۔ اگر چین ایسا کرتا ہے تو نہ صرف کشمیریوں کو بھارت سے نجات مل سکتی ہے بلکہ وہ پاکستان کا حصہ بھی بن سکتے ہیں اس طرح وہ اپنے بزرگ رہنما سید گیلانی کے اس قول کو سچ ثابت کر دیں گے کہ وہ پاکستانی ہیں اور پاکستان ان کا ہے۔