ڈنگی وبائی شکل اختیار کرنے کا خطرہ

پاکستان کو ڈنگی وائرس پر قابو پانے کے لیے بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔


Editorial October 11, 2021
پاکستان کو ڈنگی وائرس پر قابو پانے کے لیے بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ فوٹو:فائل

KARACHI: ملک بھر میں ڈنگی مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ انتہائی تشویش ناک عمل ہے ، خبروں کے مطابق، پنجاب، خیبر پختونخوا، سندھ سمیت لاہور کے تمام اسپتالوں اور اسلام آباد کے پولی کلینک میں مزید مریضوں کی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔

پنجاب میں کورونا کے لیے مختص بستروں پر بھی ڈنگی مریضوں کا علاج کیا جا رہا ہے، 80 فیصد مریض ماضی میں بھی اس مرض کا شکار رہ چکے ہیں۔ 24گھنٹوں کے دوران ڈنگی کے خیبر پختونخوامیں 304،پنجاب میں 299اور سندھ میں 44 مریض رپورٹ،خواتین اور بچے بھی متاثر، وائرس کی اقسام میں ڈین وی ون، ٹو، تھری اور فور شامل ہیں، لاہور میں 222 اور کراچی میں 25افراد میں ڈنگی کی تصدیق،حیدرآباد میں 16 اور میرپور خاص میں 3 کیسز سامنے آئے۔

پاکستان کو ڈنگی وائرس پر قابو پانے کے لیے بہت سی مشکلات کا سامنا ہے جن میں ڈنگی وائرس کی تشخیص، طبی تحقیق اور علاج معالجہ کا پیچیدہ عمل شامل ہے، بالخصوص ملیریا، ٹائیفائیڈ اور ہیپاٹائٹس جیسے انفیکشن کی موجودگی میں ڈنگی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔

ڈنگی وائرس کا پہلا کیس 1994 میں کراچی میں سامنے آیا پھر اس مرض میں گاہے بگاہے ہر سال بارشوں اور بالخصوص سیلاب کے موسم میں لاتعداد اضافہ ہوتا رہا۔

ڈنگی مچھر عمومی طور پر دن کی روشنی میں کاٹتا ہے،اس لیے پوری آستینوں کے کپڑے استعمال کرکے اس سے بچا جاسکتا ہے جب کہ مچھروں کی افزائش روکنے کے لیے کوڑے کچرے کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگا کر اور پانی کامحفوظ استعمال کرکے اور گھروں میں رہتے ہوئے مچھر سے بچاؤ اور مچھروں کو بھگانے کا اہتمام کرکے ڈنگی سے بچاؤ میں مدد مل سکتی ہے، کیونکہ ڈنگی وائرس کی ویکسین اور علاج کے لیے مناسب ادویات دستیاب نہیں ہیں،اس لیے ڈنگی وائرس سے بچاؤ ہی بہترین عمل ہے تاہم متاثرہ مریض کو ہمدردانہ اور علاماتی علاج فراہم کرکے اس کی تکلیف میں کمی کی جاتی ہے تاکہ اس کی جان محفوظ کی جا سکے۔ڈنگی وائرس سے صحت یاب ہونیوالے مریض میں قدرتی طور پر اس مرض کے خلاف قوت مدافعت بھی پیدا ہو جاتی ہے اور وہ آیندہ کے لیے اس مرض سے محفوظ ہو جاتا ہے۔

ڈنگی وائرس ان دس بڑے امراض میں شامل ہے جو بچوں میں بیماری اور اموات کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ ڈنگی وائرس مادہ مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے جو ڈنگی وائرس سے متاثرہ شخص کو کاٹ کر کسی دوسرے صحت مند آدمی کو کاٹنے پر ایک سے دوسرے میں منتقل کرتی ہے۔

اس طرح ڈنگی وائرس کا پھیلاؤ ایک مچھر سے شروع ہوتا ہے اور متاثرہ مریض پر جا کر ختم ہوتا ہے، متاثرہ مریض اس وائرس کی بڑھوتری اور پھیلاؤ کی وجہ بن جاتا ہے کیونکہ یہ وائرس مریض کے اندر تیزی سے پھیلتا ہے۔یہ وائرس متاثرہ مریض کے جسم میں دو سے سات دن تک گردش کرتا ہے، اس دوران اس مریض کو کاٹنے والے مچھر اس وائرس سے متاثر ہوتے ہیں اور پھر دوسرے لوگوں کو کاٹ کر اس بیماری کے پھیلاؤ کی بڑی وجہ بنتے ہیں۔

اس طرح یہ ایک بہت خطرناک عمل شروع ہو جاتا ہے جس کو روکنا بہت ضروری ہے تاکہ ڈنگی وائرس کو وبائی شکل اختیار کرنے سے روکا جا سکے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں