کورونا پاکستان سمیت دنیا بھر میں نفسیاتی اور ذہنی امراض میں اضافہ
خوف، گھبراہٹ، اینگزائٹی، چڑچڑاہٹ، ذہنی دباؤ کے امراض میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
کالج آف فزیشن اینڈ سرجن پاکستان کے سائیکاٹری فیکلٹی کے سربراہ اور پاکستان سائیکاٹریک سوسائٹی کے صدر پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال آفریدی کا کہنا ہے کہ کووڈ وائرس کی وبا کے دوران پوسٹ کووڈ دماغی امراض سامنے آئے ہیں۔
کووڈ وائرس کی وجہ سے مینٹل ہیلتھ کی بیماریوں میں سب سے نمایاں خوف، گھبراہٹ اور اینگزائٹی کے امراض سامنے آئے ہیں، جس کو مینٹل ہیلتھ ماہرین نے کورونا فوبیا کا نام دیا تھا، وبائی لہر کے دوران خوف کا یہ عالم تھا کہ کووڈ سے متاثرہ افراد کووڈ کا ٹیسٹ بار بار کرراہے تھے، اس لیے مینٹل ہیلتھ ماہرین نے اسے کورونا فوبیا کا نام دیا۔ کووڈ کے ابتدائی ایام میں ثقافت اور اسلامی روایت جس میں ہاتھ ملانا، گلے ملنا تک چھوڑ دیا گیا تھا حتی کہ لوگ مساجد میں جانے سے بھی گھبرا رہے تھے۔سماجی فاصلے کی وجہ سے تقریبات کا بائیکاٹ بھی کیا گیا۔
کووڈ کی وجہ سے لوگوں میں چڑچڑاہٹ اور ذہنی تناؤ کے امراض نے بھی جنم لیا۔ پروفیسر اقبال آفریدی کا کہنا تھا کہ کووڈ کی وبا میں دیگر بیماریاں بھی نظرانداز ہوتی دیکھی گئیں۔
انھوں نے بتایا کہ اس وائرس میں لوگ شدید ذہنی دباؤ، بے چینی اور بے قراری کا شکار تھے۔ لوگوں میں خوف پایاگیا اور ایسے مریض دیکھنے میں آئے جنھیں کوئی تکلیف نہیں لیکن وہ سمجھتے ہیں انھیں یہ بیماری لاحق ہوچکی ہے۔ اس وبائی امراض نے نہ صرف ہر عمر کے مرد و عورت کو متاثر کیا بلکہ بچوں اور بوڑھوں کو بھی شدید ذہنی دباؤ میں مبتلا رکھا۔
انھوں نے عالمی یوم ذہنی امراض کے حوالے سے بتایا کہ ذہنی امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت ذہنی صحت پر زیادہ سرمایہ کاری کرے کیونکہ لوگوں کے ذہنوں میں ابھی تک کووڈ کے اثرات موجود ہیں، کووڈ وائرس کے بعد دنیا بھر میں نفسیاتی اور ذہنی امراض کی نئی اقسام بھی دیکھی جا رہی ہیں۔
دریں اثنا عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان سمیت دنیا کی تقریبا 25 سے 30 فیصد آبادی ایک یا دوسری قسم کی ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہے اور یہ واقعات کووڈ کی وجہ سے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ 18 ویں ترمیم کے بعد شعبہ صحت صوبائی حکومت کے ماتحت آگیا۔
سندھ میں مینٹل ہیلتھ ایکٹ 19 ستمبر 2013 کو پاس ہوا اس کے بعد اس میں بعد 10 اپریل 2015 میں اس میں ترتیم پیش کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ ایک شخص جو خود کو مارنے یا توہین مذہب کا الزام لگانے کی کوشش کرے، اسے ماہر نفسیات سے معائنہ کرایا جائے اور علاج کیا جائے۔ اس ایکٹ کا مقصد ذہنی ترسیل کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرنا ہے۔
پاکستان مینٹل ہیلتھ ایسوسی ایشن کے مطابق ملک میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد افراد کسی نہ کسی ذہنی مرض کا شکار ہیں۔ ذہنی امراض کا شکار ہونے والوں میں زیادہ بڑی تعداد خواتین کی ہے۔
پاکستان نوجوان آبادی والے دنیا کے سب سے بڑے ممالک میں سے ایک ہیں لیکن غیرسرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس نوجوان آبادی کا بھی ایک تہائی سے زیادہ ڈپریشن کا مریض ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں ہر 40 سیکنڈ میں ایک شخص خودکشی کر رہا ہے۔ ان ذہنی امراض کی انتہا خودکشی ہے۔ پاکستان میں خودکشی کے بارے میں سرکاری یا غیرسرکاری سطح پر اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، تاہم بی بی سی پر 2019 میں آنے والی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ ایک اندازے کے مطابق ملک میں روزانہ 15 سے 35 افراد خودکشی کرتے ہیں۔
کووڈ وائرس کی وجہ سے مینٹل ہیلتھ کی بیماریوں میں سب سے نمایاں خوف، گھبراہٹ اور اینگزائٹی کے امراض سامنے آئے ہیں، جس کو مینٹل ہیلتھ ماہرین نے کورونا فوبیا کا نام دیا تھا، وبائی لہر کے دوران خوف کا یہ عالم تھا کہ کووڈ سے متاثرہ افراد کووڈ کا ٹیسٹ بار بار کرراہے تھے، اس لیے مینٹل ہیلتھ ماہرین نے اسے کورونا فوبیا کا نام دیا۔ کووڈ کے ابتدائی ایام میں ثقافت اور اسلامی روایت جس میں ہاتھ ملانا، گلے ملنا تک چھوڑ دیا گیا تھا حتی کہ لوگ مساجد میں جانے سے بھی گھبرا رہے تھے۔سماجی فاصلے کی وجہ سے تقریبات کا بائیکاٹ بھی کیا گیا۔
کووڈ کی وجہ سے لوگوں میں چڑچڑاہٹ اور ذہنی تناؤ کے امراض نے بھی جنم لیا۔ پروفیسر اقبال آفریدی کا کہنا تھا کہ کووڈ کی وبا میں دیگر بیماریاں بھی نظرانداز ہوتی دیکھی گئیں۔
انھوں نے بتایا کہ اس وائرس میں لوگ شدید ذہنی دباؤ، بے چینی اور بے قراری کا شکار تھے۔ لوگوں میں خوف پایاگیا اور ایسے مریض دیکھنے میں آئے جنھیں کوئی تکلیف نہیں لیکن وہ سمجھتے ہیں انھیں یہ بیماری لاحق ہوچکی ہے۔ اس وبائی امراض نے نہ صرف ہر عمر کے مرد و عورت کو متاثر کیا بلکہ بچوں اور بوڑھوں کو بھی شدید ذہنی دباؤ میں مبتلا رکھا۔
انھوں نے عالمی یوم ذہنی امراض کے حوالے سے بتایا کہ ذہنی امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت ذہنی صحت پر زیادہ سرمایہ کاری کرے کیونکہ لوگوں کے ذہنوں میں ابھی تک کووڈ کے اثرات موجود ہیں، کووڈ وائرس کے بعد دنیا بھر میں نفسیاتی اور ذہنی امراض کی نئی اقسام بھی دیکھی جا رہی ہیں۔
دریں اثنا عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان سمیت دنیا کی تقریبا 25 سے 30 فیصد آبادی ایک یا دوسری قسم کی ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہے اور یہ واقعات کووڈ کی وجہ سے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ 18 ویں ترمیم کے بعد شعبہ صحت صوبائی حکومت کے ماتحت آگیا۔
سندھ میں مینٹل ہیلتھ ایکٹ 19 ستمبر 2013 کو پاس ہوا اس کے بعد اس میں بعد 10 اپریل 2015 میں اس میں ترتیم پیش کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ ایک شخص جو خود کو مارنے یا توہین مذہب کا الزام لگانے کی کوشش کرے، اسے ماہر نفسیات سے معائنہ کرایا جائے اور علاج کیا جائے۔ اس ایکٹ کا مقصد ذہنی ترسیل کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرنا ہے۔
پاکستان مینٹل ہیلتھ ایسوسی ایشن کے مطابق ملک میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد افراد کسی نہ کسی ذہنی مرض کا شکار ہیں۔ ذہنی امراض کا شکار ہونے والوں میں زیادہ بڑی تعداد خواتین کی ہے۔
پاکستان نوجوان آبادی والے دنیا کے سب سے بڑے ممالک میں سے ایک ہیں لیکن غیرسرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس نوجوان آبادی کا بھی ایک تہائی سے زیادہ ڈپریشن کا مریض ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں ہر 40 سیکنڈ میں ایک شخص خودکشی کر رہا ہے۔ ان ذہنی امراض کی انتہا خودکشی ہے۔ پاکستان میں خودکشی کے بارے میں سرکاری یا غیرسرکاری سطح پر اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، تاہم بی بی سی پر 2019 میں آنے والی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ ایک اندازے کے مطابق ملک میں روزانہ 15 سے 35 افراد خودکشی کرتے ہیں۔