بلدیاتی نظام کی مضبوطی اور تسلسل یقینی بنانے کیلئے آئینی تحفظ دینا ہوگا
پنجاب کا نیا بلدیاتی ایکٹ منظوری کیلئے کابینہ میں موجود، جلد اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
KARACHI:
بلدیاتی نظام جمہوریت کی نرسری ہوتا ہے۔ اس نظام کی مضبوطی سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کسی ملک میں جمہوریت کتنی مضبوط ہے۔
وطن عزیز کی بات کریں تو یہاں جمہویت کے کبھی پیر نہیں ہوتے اور کبھی سر ۔ جمہوری حکومت ہو تو جمہوریت کے پیریعنی ''بلدیاتی نظام'' غائب ہوجاتا ہے اور اگر آمریت ہو تو جمہوریت کا ''سر' ' غائب ہوجاتا ہے مگر اس کے پیر ( بلدیاتی نظام) قائم کر دیے جاتے ہیں۔
حال ہی میں ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کا فیصلہ سامنے آیا ہے جس کے تحت نومبر میں خیبرپختونخوا میں پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات ہونے جارہے ہیں جبکہ جلد بلوچستان کا شیڈول بھی جاری ہوسکتا ہے۔
پنجاب میں نیا بلدیاتی ایکٹ لایا جارہا ہے جس کے بعد آئندہ برس اپریل یا مئی میں بلدیاتی انتخابات متوقع ہیں جبکہ سندھ اور اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے بھی الیکشن کمیشن غور کر رہا ہے۔
بلدیاتی نظام کی اہمیت، اس حوالے سے ہونے والی پیش رفت اور اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کیلئے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، سول سوسائٹی اور تجزیہ نگاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
میاں محمود الرشید
(صوبائی وزیر برائے لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ پنجاب )
دسمبر تک موجودہ بلدیاتی حکومتیں ختم ہوجائیں گی جبکہ نئے بلدیاتی انتخابات آئندہ برس اپریل یا مئی میں ہوں گے۔ بلدیاتی نظام کے حوالے سے ایکٹ تیار ہوچکا ہے جسے کابینہ سے منظوری کے بعد جلد اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ یہ ایکٹ آئین کے آرٹیکل 140 (اے)کی روح اوروزیراعظم کے ویژن کے مطابق ہے۔
اس ایکٹ کے ذریعے مقامی حکومتوں کو مضبوط اور بااختیار بنایا جارہا ہے۔ اس میں ضلع کونسل کی بحالی کی تجویز بھی دی گئی ہے جس سے اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔ اس ایکٹ کے ذریعے بیوروکریسی کی غیر ضروری طاقت کو ختم کیا جارہا ہے اور عوامی نمائندوں کو بااختیار بنایا جا رہا ہے تاکہ صحیح معنوں میں جمہوریت کو گراس لیول پر مضبوط کیا جاسکے۔
اس کے علاوہ واسا اورپی ایچ اے جیسے ادارے جو مقامی سطح پر لوگوں کے مسائل حل کرتے ہیں،کومقامی حکومت کے ماتحت کیا جارہا ہے تاکہ مسائل کے حل میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ اس ایکٹ کے تحت ڈائریکٹ الیکشن کروائے جائیں گے، ویلیج کونسل اور نیبرہڈ کونسل کے اداروں کو براہ راست رقم اکاؤنٹس میں منتقل کی جائے گی، اس ایکٹ کے تحت پنچائت کونسل بھی ہوگی جو ویلیج کونسل کے ماتحت 5 رکنی کمیٹی ہوگی۔
دیہاتوں کے مسائل، لڑائی جھگڑے، چوکیداری کا نظام، صفائی ستھرائی ودیگر کام اور ان کی مانیٹرنگ اس کی ذمہ داری ہوگی، ویلیج کونسل انہیں فنڈز دے گی جبکہ انہیں فنڈ ریزنگ کی اجازت بھی ہوگی تاکہ اپنی مدد آپ کے تحت مسائل حل کرنے کی عادت پیدا کی جاسکے۔
ارکان اسمبلی کا کام قانون سازی ہے مگر نظام کی خرابی اور خراب روایات کی وجہ سے ان کا اصل کام پیچھے رہ جاتا ہے اور وہ گلیوں کی تعمیر، سٹریٹ لائٹس لگوانے جیسے کام کر رہے ہوتے ہیں لہٰذا ہمیں اس نظام کو ٹھیک کرنا ہے۔
میرے نزدیک حکومتوں کو ایم این اے اور ایم پی اے کو فنڈز نہیں دینے چاہیے تاہم اگر کوئی میگا پراجیکٹ ہے تو ضرور جاری کیے جائیں، جس طرح خیبرپختونخوا میں ہوا اسی طرح اب پنجاب میں بھی گراس روٹ لیول تک براہ راست فنڈز جاری کیے جائیں گے۔پاکستان میں بلدیاتی نظام کو تین بڑے مسائل درپیش ہیں۔ پہلا مسئلہ اس نظام کے تسلسل کا ہے، دوسرا مسئلہ کمزور نظام جبکہ تیسرا مسئلہ حلقہ بندیوں کا ہے۔ مقامی حکومتوں کے نظام میں تسلسل ہونا چاہیے مگر بدقسمتی سے حکومتیں ،چلتے نظام پر تلوار چلا کر اسے ختم کر دیتی ہیں اور تسلسل ٹوٹ جاتا ہے۔
حکومتیں نمائشی قسم کے اقدامات کرتی ہیں اور ایسا نظام لایا جاتا ہے جس میں مقامی حکومت کے نمائندے بااختیار نہیں ہوتے۔ میرے نزدیک مضبوط بلدیاتی نظام کیلئے تسلسل کو برقرار ر کھنا اور طاقتور نظام بنانا ہوگا۔ ہر الیکشن سے پہلے نئی حلقہ بندیاں کر دی جاتی ہیں جو درست نہیں، ضرورت یہ ہے کہ ایسی حلقہ بندیاں کی جائیں جن میں 20، 25 برس تک کوئی بڑی تبدیلی نہ آئے تاکہ لوگوں کو اپنی یونین کونسل کا علم ہو اور وہاں لانگ ٹرم ڈویلپمنٹ ہوسکے۔
فوزیہ خالد وڑائچ
(چیئرپرسن ڈسٹرکٹ کونسل ٹوبہ ٹیک سنگھ صدر لوکل کونسلز ایسوسی ایشن پنجاب)
کوئی بھی سیاسی جماعت یا حکومت، بلدیاتی نظام کے قیام میں غیر سنجیدہ نہیں ہوتی البتہ بیوریوکریسی کا گھن چکر انہیں پھنسا لیتا ہے۔ یہ اختیارات کی کھینچا تانی ہے جس کی وجہ سے بلدیاتی نظام کو نقصان پہنچتا ہے اور اس کا تسلسل قائم نہیں رہتا۔ گزشتہ حکومت کے دور میں مقامی حکومتوں کے پہلے فیز کے انتخابات ہوئے پھر ایک لمبا بریک آگیا اور بعدازاں دوسرے مرحلے کے انتخابات ہوئے جس کی وجہ سے نظام اتنا موثر نہ رہا۔ پھر تحریک انصاف کی حکومت آئی تو نظام ہی ختم کر دیا گیا تاہم عدالتی حکم پر اس کی بحالی ہوئی۔
تحریک انصاف بلدیاتی نظام پر زور دیتی رہی ہے لہٰذا اگر تسلسل قائم کرنے میں یہ پہل کر دیتے تو اچھا ہوتا مگر انہوں نے بھی بلدیاتی نظام سے اچھا سلوک نہیں کیا۔ اس میں صرف سیاستدانوں کو ہی موردالزام نہیں ٹہرایا جاسکتا بلکہ اس کے اور بھی محرکات ہیں جن کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ مقامی حکومتوں کے مضبوط اور موثر نظام کے لیے تمام سیاسی جماعتیں ایک جیسی رائے رکھتی ہیں، سب سمجھتے ہیں کہ مقامی حکومتوں کا نظام جمہویت کی نرسری ہے اور ا س میں نئے لیڈر بھی پیدا ہوتے ہیں لہٰذا ہمیں مقامی حکومتوں کو مضبوط بنانا ہوگا۔
میرے نزدیک اگر حکومتیں ڈیلور کرنا اور عام آدمی کے مسائل حل کرنا چاہتی ہیں تو پھر مقامی حکومتوں کا تسلسل قائم کرنا ہوگا، اس حوالے سے پارلیمنٹیرینز اور مقامی حکومت کے نمائندوں میں میثاق ضروری ہے، انہیں مل بیٹھ کر طے کرنا ہوگا کہ رکن اسمبلی کیا کام کریگا اور مقامی حکومت کے نمائندوں کا کام کیا ہوگا۔ اختیارات کے حوالے سے سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔
سلمان عابد
(سیاسی تجزیہ نگار )
لوکل گورنمنٹ کی اہمیت سے کوئی بھی سیاسی جماعت انکار نہیں کرتی، مقامی حکومت پرائمری ادارے ہیں اور ان کے بغیر جمہویت کا تصور نہیں کیا جاسکتا، بدقسمتی سے ہمارے ہاں لوکل گورنمنٹ سے اچھا سلوک نہیں ہوا، آئین کا آرٹیکل 140 (اے) تمام صوبائی حکومتوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ لوکل باڈیز الیکشن کروائیں اور انہیں سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات دیں۔
افسوس ہے کہ مقامی حکومتوں کا قیام حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں، اقتدار میں آنے کے بعد اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کی ترجیحات بدل جاتی ہیں جس کی وجہ ایم این اے اور ایم پی ایز کے اختیارات اور فنڈز کے مسائل سمیت دیگر مصلحتیں ہوتی ہیں۔
جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں مقامی حکومتوں کا بہترین نظام لایا گیا جس میں اختیارات کی منتقلی کی گئی مگر 2008 ء کے بعد سے آنے والی حکومتوں نے اس نظام کو ختم کیا اور اپنا اپنا نظام لانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے مقامی حکومتوں کا تسلسل نہیں بن سکا، وفاقی و صوبائی حکومتوں اور مقامی حکومتوں میں مدت کا فرق ایک بڑی رکاوٹ ہے، آئندہ برس مارچ یا اپریل میں بلدیاتی انتخابات متوقع ہیں ، سوال یہ کہ اگر اگلی وفاقی و صوبائی حکومت تحریک انصاف کی نہیں آتی تو آئندہ آنے والی حکومت مقامی حکومتوں کا نظام چلنے دے گی؟ ہرگز نہیں، ایسا ہی موجودہ حکومت نے بھی کیا، اس حوالے سے مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ بھی حاصل نہیں ہے۔
مقامی حکومتوں کا تسلسل یقینی بنانے کیلئے ضروری ہے کہ بلدیاتی حکومتوں کو آئینی تحفظ دیا جائے، آرٹیکل 140 (اے) پر صحیح معنوں میں عملدرآمد کرایا جائے، وفاق کو بلدیاتی الیکشن میں کردار دیا جائے، تمام صوبائی حکومتوں کو پابند کیا جائے کہ وہ منتخب ہونے کے 120 دن کے اندر اندر بلدیاتی انتخابات کروائیں ۔
سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے نت نئے تجربات کرتی ہیں، جنرل (ر) مشرف دور کے بلدیاتی نظام سے فائدہ اٹھایا جائے اور جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروائے جائیں۔ اگر بروقت بلدیاتی انتخابات ہوجاتے تو اس وقت مہنگائی، ذخیرہ اندوزی، صفائی و دیگر حوالے سے جو مسائل درپیش ہیں یہ نہ ہوتے بلکہ مقامی حکومت کے ادارے خود ہی ان مسائل پر قابو پالیتے۔ ضلع کونسل کی بحالی کی تجویز خوش آئند ہے، اس سے اضلاع اور تحصیلیں بااختیار ہوں گی اور ان کے مسائل حل ہوجائیں گے۔
مقامی حکومتوں کے حوالے سے آرٹیکل 32 یقین دلاتا ہے کہ خواتین، کسان، مزدور، اقلیتوں اور نوجوانوں کی نمائندگی یقینی ہوگی اور اسے موثر بنایا جائے گا لہٰذا ضروری ہے کہ بلدیاتی نظام میں خواتین کی شمولیت اور نمائندگی میں اضافہ کیا جائے، پنجاب حکومت نے دیہاتوں میں جو پنچائت کونسل بنانے کا فیصلہ کیا اس میں ایک خاتون کو لازمی نمائندگی دی جائے، اس سے وہاں کی خواتین کے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔ اگر ملک میں جمہوریت، سیاست، قانون کی حکمرانی اور عام آدمی کے معاملات کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں تو لوکل گورنمٹ پر بنیادی فوکس کرنا ہوگا، اس کے بغیر نظام نہیں چل سکتا، ضرورت ہے کہ بیوریوکریسی کے مقابلے میں عوام کو نمائندگی دی جائے، میگا سٹی کا نظام ایسا لایا جائے جو ان کے نظام کو درست کر ے۔
سندھ میں مردم شماری کو جواز بنا کر بلدیاتی الیکشن میں تاخیری حربے استعمال کیے جارہے ہیں، تمام صوبوں میں بلدیاتی نظام یقینی بنانے کیلئے الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت کردار ادا کریں۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جب تک اختیارات کی منتقلی یقینی نہیں بنائیں گے تب تک مسائل حل نہیں ہوں گے، مرکز، صوبوں کو اور صوبے اضلاع کو اختیارات دیں تاہم صوبے نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی میں سنجیدہ نہیں ہیں۔
انور حسین
(لوکل گورنمنٹ ایکسپرٹ )
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں لوکل گورنمنٹ کے نظام کی وجہ سے ترقی ہوئی اور یہی نظام جمہوریت کی بنیاد ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بچے کی پیدائش سے لے کر موت تک کے تمام معاملات یونین کونسل سے متعلقہ ہوتے ہیں،وہاں کسی کو اپنے ملک کے صدر یا وزیراعظم کے بارے میں معلوم ہو یا نہ ہو، اپنے یونین کونسل کے نمائندے کے بارے میں ضرور معلوم ہوتا ہے کیونکہ ان کے تمام معاملات اس سے منسلک ہوتے ہیں۔
ہمارے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو بھی لوکل گورنمنٹ کی اہمیت کا ادراک ہے مگر سوال ہے کہ یہ جماعتیں مقامی حکومتوں کے نظام کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکارکیوں؟ ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ سیاستدان ٹھاٹھ باٹھ تو اراکین اسمبلی والی چاہتے ہیں مگر فنڈز انہیں یونین کونسل والے چاہئیں، یہ تضاد مقامی حکومتوں کے قیام میں بڑی رکاوٹ ہے۔ دولت مشترکہ کا حصہ ہونے اور ابرڈین معاہدہ 2005 ء پر دستخط کرنے کے بعد پاکستان 12 اصولوں کے تحت مقامی حکومتوں کا نظام قائم کرنے کا پابند ہے۔
اس معاہدے پر جنرل (ر) پرویز مشرف نے دستخط کیے تھے اور پھر انہوں نے یہ نظام قائم بھی کیا۔ میرے نزدیک مقامی حکومتوں کے حوالے سے جنرل(ر) پرویز مشرف کا فارمولا بہترین حل ہے،اس وقت مقامی حکومتوں اور نمائندوں کو بااختیار بنایا گیا یہی وجہ تھی کہ بڑے بڑے سیاستدان ہمیں لوکل گورنمنٹ کے انتخابات لڑتے نظر آئے لہٰذا اب بھی ہمیں مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانا ہوگا۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ مقامی حکومتوں میں تسلسل نہ ہونا ہے۔ بلدیاتی نظام چاہے برا ہی کیوں نہ ہوہمیں اس روایت کو ختم کرنا اور تسلسل کو بحال کرنا ہوگا، ایک مرتبہ تسلسل قائم ہوگیا تو نظام میں خود بخود بہتری آجائے گی۔
یہ کہا جاتا ہے کہ 18 ویں ترمیم کے بعد سے صوبے آزاد ہیں اور بلدیاتی نظام صوبائی سبجیکٹ ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ صوبے اکائیاں ہیں اور آئین کے پابند ہیں، اس سے متصادم کوئی قانون سازی نہیں کر سکتے چاہے یہ مقامی حکومتوں کا نظام ہی کیوں نہ ہو لہٰذا اگر وفاق توجہ دے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ بلدیاتی انتخابات بروقت نہ ہوں۔
سابق دور میں تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نظام بنایا جس میں نمائندے خودمختار تھے اور نہیں ترقیاتی فنڈز بھی ملے،2018ء کے انتخابات میں خیبرپختونخوا میں اتنی بڑی جیت کے پیچھے ایک وجہ یہ بلدیاتی نظام تھا جس کے ثمرات سامنے آئے لہٰذا اب بھی تحریک انصاف کو مقامی حکومتوںکی اہمیت کو سمجھنا چاہیے لیکن اگر اسے نظر انداز کیا گیا تو آئندہ انتخابات میں اس کے برے اثرات سامنے آئیں گے۔ ہم اپنے تحت تمام سیاسی جماعتوں کوبلدیاتی نظام کے حوالے سے ایک پیج پر لا رہے ہیں اور اس حوالے سے جماعتوں میں کوئی دو رائے نہیں ہے، سب ہی بلدیاتی نظام کے حق میں ہیں۔
بلدیاتی نظام کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں جلد سندھ اسمبلی میں قرارداد پیش کی جائے گی جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے اراکین اسمبلی نے بھی اس حوالے سے قرارداد پیش کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ ہم پر امید ہیں کہ موجودہ وزیر بلدیات کے ہوتے ہوئے پنجاب میں بھی بہترین بلدیاتی نظام لایا جائے گا۔ میرے نزدیک بلدیاتی نظام کے تسلسل کے حوالے سے آئین میں ترمیم ہونی چاہیے ۔
بلدیاتی نظام جمہوریت کی نرسری ہوتا ہے۔ اس نظام کی مضبوطی سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کسی ملک میں جمہوریت کتنی مضبوط ہے۔
وطن عزیز کی بات کریں تو یہاں جمہویت کے کبھی پیر نہیں ہوتے اور کبھی سر ۔ جمہوری حکومت ہو تو جمہوریت کے پیریعنی ''بلدیاتی نظام'' غائب ہوجاتا ہے اور اگر آمریت ہو تو جمہوریت کا ''سر' ' غائب ہوجاتا ہے مگر اس کے پیر ( بلدیاتی نظام) قائم کر دیے جاتے ہیں۔
حال ہی میں ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کا فیصلہ سامنے آیا ہے جس کے تحت نومبر میں خیبرپختونخوا میں پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات ہونے جارہے ہیں جبکہ جلد بلوچستان کا شیڈول بھی جاری ہوسکتا ہے۔
پنجاب میں نیا بلدیاتی ایکٹ لایا جارہا ہے جس کے بعد آئندہ برس اپریل یا مئی میں بلدیاتی انتخابات متوقع ہیں جبکہ سندھ اور اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے بھی الیکشن کمیشن غور کر رہا ہے۔
بلدیاتی نظام کی اہمیت، اس حوالے سے ہونے والی پیش رفت اور اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کیلئے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، سول سوسائٹی اور تجزیہ نگاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
میاں محمود الرشید
(صوبائی وزیر برائے لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ پنجاب )
دسمبر تک موجودہ بلدیاتی حکومتیں ختم ہوجائیں گی جبکہ نئے بلدیاتی انتخابات آئندہ برس اپریل یا مئی میں ہوں گے۔ بلدیاتی نظام کے حوالے سے ایکٹ تیار ہوچکا ہے جسے کابینہ سے منظوری کے بعد جلد اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ یہ ایکٹ آئین کے آرٹیکل 140 (اے)کی روح اوروزیراعظم کے ویژن کے مطابق ہے۔
اس ایکٹ کے ذریعے مقامی حکومتوں کو مضبوط اور بااختیار بنایا جارہا ہے۔ اس میں ضلع کونسل کی بحالی کی تجویز بھی دی گئی ہے جس سے اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔ اس ایکٹ کے ذریعے بیوروکریسی کی غیر ضروری طاقت کو ختم کیا جارہا ہے اور عوامی نمائندوں کو بااختیار بنایا جا رہا ہے تاکہ صحیح معنوں میں جمہوریت کو گراس لیول پر مضبوط کیا جاسکے۔
اس کے علاوہ واسا اورپی ایچ اے جیسے ادارے جو مقامی سطح پر لوگوں کے مسائل حل کرتے ہیں،کومقامی حکومت کے ماتحت کیا جارہا ہے تاکہ مسائل کے حل میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ اس ایکٹ کے تحت ڈائریکٹ الیکشن کروائے جائیں گے، ویلیج کونسل اور نیبرہڈ کونسل کے اداروں کو براہ راست رقم اکاؤنٹس میں منتقل کی جائے گی، اس ایکٹ کے تحت پنچائت کونسل بھی ہوگی جو ویلیج کونسل کے ماتحت 5 رکنی کمیٹی ہوگی۔
دیہاتوں کے مسائل، لڑائی جھگڑے، چوکیداری کا نظام، صفائی ستھرائی ودیگر کام اور ان کی مانیٹرنگ اس کی ذمہ داری ہوگی، ویلیج کونسل انہیں فنڈز دے گی جبکہ انہیں فنڈ ریزنگ کی اجازت بھی ہوگی تاکہ اپنی مدد آپ کے تحت مسائل حل کرنے کی عادت پیدا کی جاسکے۔
ارکان اسمبلی کا کام قانون سازی ہے مگر نظام کی خرابی اور خراب روایات کی وجہ سے ان کا اصل کام پیچھے رہ جاتا ہے اور وہ گلیوں کی تعمیر، سٹریٹ لائٹس لگوانے جیسے کام کر رہے ہوتے ہیں لہٰذا ہمیں اس نظام کو ٹھیک کرنا ہے۔
میرے نزدیک حکومتوں کو ایم این اے اور ایم پی اے کو فنڈز نہیں دینے چاہیے تاہم اگر کوئی میگا پراجیکٹ ہے تو ضرور جاری کیے جائیں، جس طرح خیبرپختونخوا میں ہوا اسی طرح اب پنجاب میں بھی گراس روٹ لیول تک براہ راست فنڈز جاری کیے جائیں گے۔پاکستان میں بلدیاتی نظام کو تین بڑے مسائل درپیش ہیں۔ پہلا مسئلہ اس نظام کے تسلسل کا ہے، دوسرا مسئلہ کمزور نظام جبکہ تیسرا مسئلہ حلقہ بندیوں کا ہے۔ مقامی حکومتوں کے نظام میں تسلسل ہونا چاہیے مگر بدقسمتی سے حکومتیں ،چلتے نظام پر تلوار چلا کر اسے ختم کر دیتی ہیں اور تسلسل ٹوٹ جاتا ہے۔
حکومتیں نمائشی قسم کے اقدامات کرتی ہیں اور ایسا نظام لایا جاتا ہے جس میں مقامی حکومت کے نمائندے بااختیار نہیں ہوتے۔ میرے نزدیک مضبوط بلدیاتی نظام کیلئے تسلسل کو برقرار ر کھنا اور طاقتور نظام بنانا ہوگا۔ ہر الیکشن سے پہلے نئی حلقہ بندیاں کر دی جاتی ہیں جو درست نہیں، ضرورت یہ ہے کہ ایسی حلقہ بندیاں کی جائیں جن میں 20، 25 برس تک کوئی بڑی تبدیلی نہ آئے تاکہ لوگوں کو اپنی یونین کونسل کا علم ہو اور وہاں لانگ ٹرم ڈویلپمنٹ ہوسکے۔
فوزیہ خالد وڑائچ
(چیئرپرسن ڈسٹرکٹ کونسل ٹوبہ ٹیک سنگھ صدر لوکل کونسلز ایسوسی ایشن پنجاب)
کوئی بھی سیاسی جماعت یا حکومت، بلدیاتی نظام کے قیام میں غیر سنجیدہ نہیں ہوتی البتہ بیوریوکریسی کا گھن چکر انہیں پھنسا لیتا ہے۔ یہ اختیارات کی کھینچا تانی ہے جس کی وجہ سے بلدیاتی نظام کو نقصان پہنچتا ہے اور اس کا تسلسل قائم نہیں رہتا۔ گزشتہ حکومت کے دور میں مقامی حکومتوں کے پہلے فیز کے انتخابات ہوئے پھر ایک لمبا بریک آگیا اور بعدازاں دوسرے مرحلے کے انتخابات ہوئے جس کی وجہ سے نظام اتنا موثر نہ رہا۔ پھر تحریک انصاف کی حکومت آئی تو نظام ہی ختم کر دیا گیا تاہم عدالتی حکم پر اس کی بحالی ہوئی۔
تحریک انصاف بلدیاتی نظام پر زور دیتی رہی ہے لہٰذا اگر تسلسل قائم کرنے میں یہ پہل کر دیتے تو اچھا ہوتا مگر انہوں نے بھی بلدیاتی نظام سے اچھا سلوک نہیں کیا۔ اس میں صرف سیاستدانوں کو ہی موردالزام نہیں ٹہرایا جاسکتا بلکہ اس کے اور بھی محرکات ہیں جن کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ مقامی حکومتوں کے مضبوط اور موثر نظام کے لیے تمام سیاسی جماعتیں ایک جیسی رائے رکھتی ہیں، سب سمجھتے ہیں کہ مقامی حکومتوں کا نظام جمہویت کی نرسری ہے اور ا س میں نئے لیڈر بھی پیدا ہوتے ہیں لہٰذا ہمیں مقامی حکومتوں کو مضبوط بنانا ہوگا۔
میرے نزدیک اگر حکومتیں ڈیلور کرنا اور عام آدمی کے مسائل حل کرنا چاہتی ہیں تو پھر مقامی حکومتوں کا تسلسل قائم کرنا ہوگا، اس حوالے سے پارلیمنٹیرینز اور مقامی حکومت کے نمائندوں میں میثاق ضروری ہے، انہیں مل بیٹھ کر طے کرنا ہوگا کہ رکن اسمبلی کیا کام کریگا اور مقامی حکومت کے نمائندوں کا کام کیا ہوگا۔ اختیارات کے حوالے سے سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔
سلمان عابد
(سیاسی تجزیہ نگار )
لوکل گورنمنٹ کی اہمیت سے کوئی بھی سیاسی جماعت انکار نہیں کرتی، مقامی حکومت پرائمری ادارے ہیں اور ان کے بغیر جمہویت کا تصور نہیں کیا جاسکتا، بدقسمتی سے ہمارے ہاں لوکل گورنمنٹ سے اچھا سلوک نہیں ہوا، آئین کا آرٹیکل 140 (اے) تمام صوبائی حکومتوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ لوکل باڈیز الیکشن کروائیں اور انہیں سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات دیں۔
افسوس ہے کہ مقامی حکومتوں کا قیام حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں، اقتدار میں آنے کے بعد اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کی ترجیحات بدل جاتی ہیں جس کی وجہ ایم این اے اور ایم پی ایز کے اختیارات اور فنڈز کے مسائل سمیت دیگر مصلحتیں ہوتی ہیں۔
جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں مقامی حکومتوں کا بہترین نظام لایا گیا جس میں اختیارات کی منتقلی کی گئی مگر 2008 ء کے بعد سے آنے والی حکومتوں نے اس نظام کو ختم کیا اور اپنا اپنا نظام لانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے مقامی حکومتوں کا تسلسل نہیں بن سکا، وفاقی و صوبائی حکومتوں اور مقامی حکومتوں میں مدت کا فرق ایک بڑی رکاوٹ ہے، آئندہ برس مارچ یا اپریل میں بلدیاتی انتخابات متوقع ہیں ، سوال یہ کہ اگر اگلی وفاقی و صوبائی حکومت تحریک انصاف کی نہیں آتی تو آئندہ آنے والی حکومت مقامی حکومتوں کا نظام چلنے دے گی؟ ہرگز نہیں، ایسا ہی موجودہ حکومت نے بھی کیا، اس حوالے سے مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ بھی حاصل نہیں ہے۔
مقامی حکومتوں کا تسلسل یقینی بنانے کیلئے ضروری ہے کہ بلدیاتی حکومتوں کو آئینی تحفظ دیا جائے، آرٹیکل 140 (اے) پر صحیح معنوں میں عملدرآمد کرایا جائے، وفاق کو بلدیاتی الیکشن میں کردار دیا جائے، تمام صوبائی حکومتوں کو پابند کیا جائے کہ وہ منتخب ہونے کے 120 دن کے اندر اندر بلدیاتی انتخابات کروائیں ۔
سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے نت نئے تجربات کرتی ہیں، جنرل (ر) مشرف دور کے بلدیاتی نظام سے فائدہ اٹھایا جائے اور جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروائے جائیں۔ اگر بروقت بلدیاتی انتخابات ہوجاتے تو اس وقت مہنگائی، ذخیرہ اندوزی، صفائی و دیگر حوالے سے جو مسائل درپیش ہیں یہ نہ ہوتے بلکہ مقامی حکومت کے ادارے خود ہی ان مسائل پر قابو پالیتے۔ ضلع کونسل کی بحالی کی تجویز خوش آئند ہے، اس سے اضلاع اور تحصیلیں بااختیار ہوں گی اور ان کے مسائل حل ہوجائیں گے۔
مقامی حکومتوں کے حوالے سے آرٹیکل 32 یقین دلاتا ہے کہ خواتین، کسان، مزدور، اقلیتوں اور نوجوانوں کی نمائندگی یقینی ہوگی اور اسے موثر بنایا جائے گا لہٰذا ضروری ہے کہ بلدیاتی نظام میں خواتین کی شمولیت اور نمائندگی میں اضافہ کیا جائے، پنجاب حکومت نے دیہاتوں میں جو پنچائت کونسل بنانے کا فیصلہ کیا اس میں ایک خاتون کو لازمی نمائندگی دی جائے، اس سے وہاں کی خواتین کے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔ اگر ملک میں جمہوریت، سیاست، قانون کی حکمرانی اور عام آدمی کے معاملات کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں تو لوکل گورنمٹ پر بنیادی فوکس کرنا ہوگا، اس کے بغیر نظام نہیں چل سکتا، ضرورت ہے کہ بیوریوکریسی کے مقابلے میں عوام کو نمائندگی دی جائے، میگا سٹی کا نظام ایسا لایا جائے جو ان کے نظام کو درست کر ے۔
سندھ میں مردم شماری کو جواز بنا کر بلدیاتی الیکشن میں تاخیری حربے استعمال کیے جارہے ہیں، تمام صوبوں میں بلدیاتی نظام یقینی بنانے کیلئے الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت کردار ادا کریں۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جب تک اختیارات کی منتقلی یقینی نہیں بنائیں گے تب تک مسائل حل نہیں ہوں گے، مرکز، صوبوں کو اور صوبے اضلاع کو اختیارات دیں تاہم صوبے نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی میں سنجیدہ نہیں ہیں۔
انور حسین
(لوکل گورنمنٹ ایکسپرٹ )
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں لوکل گورنمنٹ کے نظام کی وجہ سے ترقی ہوئی اور یہی نظام جمہوریت کی بنیاد ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بچے کی پیدائش سے لے کر موت تک کے تمام معاملات یونین کونسل سے متعلقہ ہوتے ہیں،وہاں کسی کو اپنے ملک کے صدر یا وزیراعظم کے بارے میں معلوم ہو یا نہ ہو، اپنے یونین کونسل کے نمائندے کے بارے میں ضرور معلوم ہوتا ہے کیونکہ ان کے تمام معاملات اس سے منسلک ہوتے ہیں۔
ہمارے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو بھی لوکل گورنمنٹ کی اہمیت کا ادراک ہے مگر سوال ہے کہ یہ جماعتیں مقامی حکومتوں کے نظام کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکارکیوں؟ ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ سیاستدان ٹھاٹھ باٹھ تو اراکین اسمبلی والی چاہتے ہیں مگر فنڈز انہیں یونین کونسل والے چاہئیں، یہ تضاد مقامی حکومتوں کے قیام میں بڑی رکاوٹ ہے۔ دولت مشترکہ کا حصہ ہونے اور ابرڈین معاہدہ 2005 ء پر دستخط کرنے کے بعد پاکستان 12 اصولوں کے تحت مقامی حکومتوں کا نظام قائم کرنے کا پابند ہے۔
اس معاہدے پر جنرل (ر) پرویز مشرف نے دستخط کیے تھے اور پھر انہوں نے یہ نظام قائم بھی کیا۔ میرے نزدیک مقامی حکومتوں کے حوالے سے جنرل(ر) پرویز مشرف کا فارمولا بہترین حل ہے،اس وقت مقامی حکومتوں اور نمائندوں کو بااختیار بنایا گیا یہی وجہ تھی کہ بڑے بڑے سیاستدان ہمیں لوکل گورنمنٹ کے انتخابات لڑتے نظر آئے لہٰذا اب بھی ہمیں مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانا ہوگا۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ مقامی حکومتوں میں تسلسل نہ ہونا ہے۔ بلدیاتی نظام چاہے برا ہی کیوں نہ ہوہمیں اس روایت کو ختم کرنا اور تسلسل کو بحال کرنا ہوگا، ایک مرتبہ تسلسل قائم ہوگیا تو نظام میں خود بخود بہتری آجائے گی۔
یہ کہا جاتا ہے کہ 18 ویں ترمیم کے بعد سے صوبے آزاد ہیں اور بلدیاتی نظام صوبائی سبجیکٹ ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ صوبے اکائیاں ہیں اور آئین کے پابند ہیں، اس سے متصادم کوئی قانون سازی نہیں کر سکتے چاہے یہ مقامی حکومتوں کا نظام ہی کیوں نہ ہو لہٰذا اگر وفاق توجہ دے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ بلدیاتی انتخابات بروقت نہ ہوں۔
سابق دور میں تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نظام بنایا جس میں نمائندے خودمختار تھے اور نہیں ترقیاتی فنڈز بھی ملے،2018ء کے انتخابات میں خیبرپختونخوا میں اتنی بڑی جیت کے پیچھے ایک وجہ یہ بلدیاتی نظام تھا جس کے ثمرات سامنے آئے لہٰذا اب بھی تحریک انصاف کو مقامی حکومتوںکی اہمیت کو سمجھنا چاہیے لیکن اگر اسے نظر انداز کیا گیا تو آئندہ انتخابات میں اس کے برے اثرات سامنے آئیں گے۔ ہم اپنے تحت تمام سیاسی جماعتوں کوبلدیاتی نظام کے حوالے سے ایک پیج پر لا رہے ہیں اور اس حوالے سے جماعتوں میں کوئی دو رائے نہیں ہے، سب ہی بلدیاتی نظام کے حق میں ہیں۔
بلدیاتی نظام کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں جلد سندھ اسمبلی میں قرارداد پیش کی جائے گی جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے اراکین اسمبلی نے بھی اس حوالے سے قرارداد پیش کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ ہم پر امید ہیں کہ موجودہ وزیر بلدیات کے ہوتے ہوئے پنجاب میں بھی بہترین بلدیاتی نظام لایا جائے گا۔ میرے نزدیک بلدیاتی نظام کے تسلسل کے حوالے سے آئین میں ترمیم ہونی چاہیے ۔