مصباح الحق اب جان چھوڑ دیں

مصباح الحق کی شکل بھی اب ہمیں اچھی نہیں لگتی۔ وہ اچانک بوڑھا بھی لگنے لگا ہے


Ayaz Khan September 11, 2012
[email protected]

مصباح الحق کو اب ون ڈے کرکٹ چھوڑ دینی چاہیے۔

یہ مطالبہ یا اس حوالے سے بحث کا آغاز گزشتہ برس موہالی میں ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پاکستان کی بھارت کے ہاتھوں شکست سے ہوا تھا۔ الزام تھا مصباح سلو کھیلے اور پاکستان میچ ہار گیا۔ ناقدین کا غالباً یہ خیال تھا کہ کپتان کو تیز کھیل کر جلد آئوٹ ہو جانا چاہیے تھا تاکہ بھارت زیادہ مارجن سے جیت جاتا۔ کرکٹر سے کرکٹ چھوڑنے کا تازہ ترین مطالبہ دبئی میں آسٹریلیا سے ون ڈے سیریز ہارنے کے بعد کیا گیا ہے۔

ٹیسٹ اور ون ڈے کے کپتان البتہ خوش قسمت رہے کہ عبدالقادر' محسن خان' رمیز راجہ اور باسط علی جیسے سابق کرکٹرز ان کی حمایت کر رہے ہیں۔ باسط علی نے تو یونس خان کو بھی ون ڈے کرکٹ میں دوبارہ موقع دینے کی تجویز دی ہے۔ محض ایک یا دو ون ڈے سیریز ہارنے پر کسی کپتان سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ کھیلنا ہی چھوڑ دے' درست کیسے ہو سکتا ہے؟ پاکستان میں البتہ اس طرح کے مطالبے پر حیرت نہیں ہوتی۔ ہم عجلت پسند قوم ہیں۔ جلد اکتا جانے والی قوم۔ ہم لوگ زیادہ دیر کسی کو برداشت نہیں کرتے۔ فوری تبدیلی چاہتے ہیں۔

بالکل اسی طرح جیسے جمہوری حکومتیں دو ڈھائی سال سے زیادہ برداشت نہیں ہوتیں (آمریت اور موجودہ حکومت بوجوہ مستثنیٰ ہیں)۔ ہمیں لگتا ہے چہرہ تبدیل ہونے سے ہمارا مقدر بدل جائے گا۔ اس آس اور امید میں ہم نے 66 سال گزار دیے۔ مقدر کیا بدلنا تھا ہم تو برباد ہو کر رہ گئے۔ لیکن ہماری عادت نہیں بدلی۔ مصباح الحق کی شکل بھی اب ہمیں اچھی نہیں لگتی۔ وہ اچانک بوڑھا بھی لگنے لگا ہے۔

ہماری نئی امیدیں محمد حفیظ سے وابستہ ہیں۔ حفیظ ٹی ٹوئنٹی کی کپتانی کر رہے ہیں۔ وہ آسٹریلیا سے سیریز بھی جیت چکے ہیں۔ وہ مصباح سے زیادہ جوان ہیں۔ ان کو پہلے ون ڈے اور پھر ٹیسٹ ٹیم کا بھی کپتان بنا دیا جائے۔ حفیظ اس وقت فیورٹ ہیں۔ تینوں ٹیمیں ان کے حوالے کر کے اکثریت کو خوش کر دیا جائے۔ لوگ ان کے گن گائیں گے۔ لیکن کب تک؟ ٹی ٹوئنٹی کا ورلڈ کپ شروع ہونے والا ہے، اس میں ٹیم کی پرفارمنس اچھی نہ رہی تو پھر ان کی تبدیلی کا مطالبہ بھی شروع ہو جائے گا۔

مصباح الحق کو ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ انھیں ٹیم کس حالت میں دی گئی تھی۔ وہ قومی کرکٹ کے لیے بدترین دور تھا۔ ہمارے تین بہترین کھلاڑی اسپاٹ فکسنگ کے الزامات کی زد میں تھے۔ بعد میں ان تینوں کو سزا بھی ہوئی۔ یہ ایسا وقت تھا جب پوری دنیا ہمارے کرکٹروں کو بے ایمان ثابت کرنے پر تلی ہوئی تھی۔ چاروں طرف سے انگلیاں اُٹھ رہی تھیں۔ کھلاڑی ذہنی طور پر ہارے ہوئے تھے۔ کپتان نے اس وقت ناصرف ٹیم کو سنبھالا دیا بلکہ اسے پھر سے جیتنے کی راہ بھی دکھائی۔

تاریخ میں پہلی بار انگلینڈ کو تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں کلین سویپ کیا لیکن ایک ون ڈے سیریز ہارنے پر پچھلی ساری کامیابیاں بھلا دی جاتی ہیں۔ مصباح کی اپنی بیٹنگ پرفارمنس بھی ٹھیک ہے لیکن وہ قابل قبول نہیں۔ ہمارے کرکٹرز بھی چونکہ اسی قوم کا حصہ ہیں اس لیے وہ بھی زیادہ دیر ایک کپتان کے لیے جان لڑانے پر تیار نہیں ہوتے۔ مصباح ون ڈے کھیلنا چاہتے ہیں اور ان سے مطالبہ ہوتا ہے وہ اس طرز کی کرکٹ چھوڑ دیں۔ ٹیم کے کچھ کھلاڑی ون ڈے کرکٹ چھوڑنا چاہتے ہیں مگر ان کو کھلانے کے لیے منتیں کی جاتی ہیں۔

آپ کو یقیناً حیرت ہو رہی ہوگی کہ کوئی قومی کرکٹر اپنی مرضی سے کیوں کرکٹ چھوڑنا چاہے گا؟ عرض ہے کہ دنیا بھر میں ٹی ٹوئنٹی کے مہنگے ترین ٹورنامنٹس ہو رہے ہیں۔ ایک ٹورنامنٹ سے کھلاڑی کو اتنی رقم مل جاتی ہے جو اسے قومی ٹیم کی طرف سے کھیلنے پر سال بھر میں نہیں مل سکتی۔ ملک کے لیے کھیلنے کا اعزاز اب عارضی چیز ہے۔ بے شک دنیا میں عزت' شہرت اور دولت وطن کی نمایندگی کی وجہ سے مل رہی ہے لیکن اب ملک کی کون فکر کرتا ہے۔ مہنگائی بہت ہے اس لیے جلد سے جلد جتنی دولت سمیٹ لی جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ وطن کے لیے کھیلنے کو اعزاز سمجھنے کا دور ختم ہو چکا۔اب پیسہ ہی سب کچھ ہے۔

قومیںتباہ ہونے کا سامان خود مہیا کرتی ہیں۔ ہم نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اپنی حالت سنوارنے کے لیے مستقل مزاجی اپنانی پڑتی ہے۔ شاید میں زیادہ جذباتی ہو گیا ہوں۔ اس میں میرا قصور نہیں' مجھے آئی سی سی کا رویہ یاد آگیا ہے۔ وہی آئی سی سی جس نے انڈیا اور سری لنکا کے کرکٹروں پر میچ فکسنگ کے الزمات کے باوجود کارروائی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ جی ہاں وہ آئی سی سی جس نے ہمارے تین کرکٹرز پر الزام لگتے ہی ان پر پابندی لگا دی تھی۔ہمارے بعض اپنے تئیں محب وطن حضرات نے اپنے کھلاڑیوں پر ایسی دشنام ترازی کی کہ دشمن بھی حیران رہ گئے۔

آئی سی سی کا تازہ ترین اور 'شاہکار کارنامہ' بھی آپ کے سامنے ہے۔ سعید اجمل جیسا آف سپنر کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔ ان کا 'دوسرا ' دنیا بھر کے بیٹسمینوں کو تگنی کا ناچ نچا رہا ہے۔ وہ عالم کرکٹ کے واحد کھلاڑی ہیں جو ٹی ٹوئنٹی' ون ڈے اور ٹیسٹ تینوں فارمیٹس میں پہلی پوزیشنوں پر قابض ہیں۔ یعنی پہلی' دوسری اور تیسری پوزیشن پر براجمان اور جب آئی سی سی ایوارڈ کے حقداروں کی شارٹ لسٹنگ ہوتی ہے تو33رکنی ٹیم کو ایوارڈ تو دور کی بات' سعید اجمل ایوارڈ کے ممکنہ امیدواروں کی قطار کے آخری کونے پر بھی اچھے نہیں لگتے۔

ہمارا کرکٹ بورڈ اب دیوار سے سر ٹکراتا رہے' کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ہماری کوئی اوقات ہوتی تو آئی سی سی میں کہاں اتنی جرأت تھی کہ وہ سعید اجمل کو نظرانداز کرتی۔ اس دنیا میں کمزور کو اس کا حق نہیں ملتا۔ ہم بھی کمزور قوم ہیں۔ امریکا ' بھارت اور پوری دنیا کو تباہ کرنے کے خواب دیکھنے والے بے شک نیند سے نہ جاگیں دنیا کو کھلی آنکھوں سے دیکھنے والے جانتے ہیں ہم کمزور ہیں اور کمزور کی کوئی نہیں سنتا۔

بہتر ہے میں بھی مصباح کی پرفارمنس کو بھول جائوں اور اس سے ون ڈے کرکٹ چھوڑنے کا مطالبہ کروں۔ اس کی شکل دیکھتے دیکھتے اکتاہٹ سی ہونے لگی ہے۔ اب تبدیلی ہی بہتر ہے۔ انقلاب تبدیلی سے ہی آتا ہے۔ مصباح صاحب! بہتر ہے آپ ٹیم کی جان چھوڑ دیں اور کسی ایسے اہل کھلاڑی کو آگے آنے دیں جو تبرا کرنے والوں کی آنکھ کا تارا ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔