پنجاب میں شترمرغ فارمنگ اوراونٹنی کی دودھ کی فروخت کے منصوبے ٹھپ
پنجاب میں 450 میں سے 98 فیصدشترمرغ فارم ختم ہوچکے ہیں
موجودہ پنجاب حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے پاکستان میں شترمرغ کی فارمنگ ختم ہونے کے قریب ہے، اسی طرح پنجاب لائیوسٹاک کی طرف سے کروڑوں روپے کی لاگت سے شروع کیا جانے والا اونٹی کے دودھ کی فراہمی کا منصوبہ بھی بند ہوچکا ہے۔
راجہ طاہرلطیف پاکستان میں شترمرغ کی فارمنگ کے بانی ہیں، ٹربیون سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا موجودہ حکومت کی شترمرغ فارمنگ میں کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جوتھوڑے بہت جانورموجود ہیں ہم ان کوبچانے کی کوشش میں لگے ہیں۔ تین سال قبل صرف پنجاب میں شترمرغ کے 450 فارم تھے لیکن اب بمشکل آٹھ یادس رہ گئے ہیں۔ یہ کاروبار گروتھ کی طرف جارہا تھا اوربیرون ممالک خاص طورپرازبکستان سے تاجرشترمرغ خریدنے پاکستان آناشروع ہوگئے تھے لیکن موجودہ حکومت کی طرف سے سبسڈی ختم کئے جانے اورکوئی پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے یہ کاروبارٹھپ ہوگیا۔
راجہ طاہر لطیف نے بتایا ہم نے شترمرغ کے گوشت اورانڈوں کی فروخت کامنصوبہ بھی شروع کیاتھا۔ شترمرغ کاگوشت 12 سے 14 سوروپے فی کلومیں فروخت ہوناشروع ہوگیاتھا لیکن اب سلاٹرنگ کے لئے جانورہی موجودنہیں ہیں، جن کے پاس جانورہیں وہ بڑے ہوچکے اوراب انڈے دینے کے قابل ہیں اس وجہ سے فارمران کوفروخت نہیں کررہے اگرکوئی راضی ہوبھی جائے تووہ بہت مہنگا فروخت کرتا ہے،اس وقت دوہزار روپے فی کلوسے بھی زیادہ مہنگا گوشت فروخت ہورہاہے۔
پنجاب لائیو اسٹاک نے 2017 میں لاہور سمیت مختلف شہروں میں اونٹنی کے دودھ کی فروخت کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کی تشہیرپر لاکھوں روپے خرچ کئے گئے جبکہ تھل اورچولستان میں اونٹنیاں پالنے والوں کی رجسٹریشن میں کروڑوں روپے خرچ ہوئے، اونٹنی کا دودھ تھل اور چولستان سے لاہورلایا جاتا اور یہاں اسے پیکنگ میں فروخت کیا جاتا تھا۔ اونٹنی کا دودھ تین سال قبل 120 روپے فی لیٹر فروخت کیاجاتا تھا تاہم اب یہ منصوبہ بھی ٹھپ ہوچکا ہے۔
لاہور سمیت مختلف شہروں میں خانہ بدوش سڑکوں کنارے اونٹنی کادودھ فروخت کرتے نظرآتے ہیں۔ یہ دونوں منصوبے اس وقت کے سیکرٹری لائیوسٹاک نسیم صادق نے شروع کئے تھے، ان کے تبادلے کے بعد یہ منصوبے بھی ختم کردیئے گئے۔ لاہورمیں خالص اور پیسچرائزڈ دودھ پیکنک کی شکل میں فروخت کامنصوبہ شروع کیا تھا وہ بھی بند ہوچکا ہے۔
اس حوالے سے پنجاب لائیو اسٹاک کے ڈائریکٹر کمیونیکشن ڈاکٹر آصف رفیق نے بتایا کہ دونوں منصوبے مخصوص مدت کے لئے شروع کئے گئے تھے جس کے بعد انہیں ختم کردیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ دونوں منصوبے اچھے نتائج دے رہے تھے تاہم موجودہ حکومت کی پالیسی اورترجیحات میں شامل نہیں تھے اس لئے ان کو بند کردیا گیا۔ پنجاب حکومت نے مرغبانی کا منصوبہ شروع کیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت اب تک پنجاب میں 7 لاکھ سے زائد پرندے تقیسم کئے جاچکے ہیں۔ کٹرا بچاؤ اور کٹرا فربہ اسکیم کے تحت فارمرز کو 634 ملین روپے کی سبسڈی دی گئی ہے۔
پراگریسوفارمراورایگریکلچرریپبلک کے بانی عامرحیات بھنڈاراکہتے ہیں حکومتوں کی تبدیلی کے ساتھ جب مختلف منصوبوں سے متعلق پالیساں بھی اچانک تبدیل کردی جاتی ہیں تواس کے اثرات فارمراورکنزیومردونوں پر پڑتے ہیں۔ شترمرغ فارمنگ کے لئے سینکڑوں فارمرزنے ناصرف ذاتی سرمایہ کاری کی بلکہ مختلف بینکوں سے قرض بھی لیا،اسی طرح اونٹنی کے دودھ کے لئے ایساہی کیاگیا جب حکومت نے یہ منصوبے ختم کردیئے توفارمرزکی ناصرف ذاتی انویسٹمنٹ ضائع ہوگئی بلکہ وہ بینکوں کے بھی مقروض ہیں۔ اس طرح اچانک پالیسیاں تبدیل کرنے کی روش کو دیکھ کربیرونی سرمایہ کار بھی پاکستان نہیں آتے، انہیں بھی سرمایہ ڈوبنے کاخدشہ ہوتا ہے۔ اس لئے پالیسیوں میں تسلسل لاناضروری ہے تاکہ کوئی منصوبہ توپایہ تکمیل تک پہنچے اوراس کے حقیقی ثمرات عوام کے سامنے آسکیں۔
راجہ طاہرلطیف پاکستان میں شترمرغ کی فارمنگ کے بانی ہیں، ٹربیون سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا موجودہ حکومت کی شترمرغ فارمنگ میں کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جوتھوڑے بہت جانورموجود ہیں ہم ان کوبچانے کی کوشش میں لگے ہیں۔ تین سال قبل صرف پنجاب میں شترمرغ کے 450 فارم تھے لیکن اب بمشکل آٹھ یادس رہ گئے ہیں۔ یہ کاروبار گروتھ کی طرف جارہا تھا اوربیرون ممالک خاص طورپرازبکستان سے تاجرشترمرغ خریدنے پاکستان آناشروع ہوگئے تھے لیکن موجودہ حکومت کی طرف سے سبسڈی ختم کئے جانے اورکوئی پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے یہ کاروبارٹھپ ہوگیا۔
راجہ طاہر لطیف نے بتایا ہم نے شترمرغ کے گوشت اورانڈوں کی فروخت کامنصوبہ بھی شروع کیاتھا۔ شترمرغ کاگوشت 12 سے 14 سوروپے فی کلومیں فروخت ہوناشروع ہوگیاتھا لیکن اب سلاٹرنگ کے لئے جانورہی موجودنہیں ہیں، جن کے پاس جانورہیں وہ بڑے ہوچکے اوراب انڈے دینے کے قابل ہیں اس وجہ سے فارمران کوفروخت نہیں کررہے اگرکوئی راضی ہوبھی جائے تووہ بہت مہنگا فروخت کرتا ہے،اس وقت دوہزار روپے فی کلوسے بھی زیادہ مہنگا گوشت فروخت ہورہاہے۔
پنجاب لائیو اسٹاک نے 2017 میں لاہور سمیت مختلف شہروں میں اونٹنی کے دودھ کی فروخت کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کی تشہیرپر لاکھوں روپے خرچ کئے گئے جبکہ تھل اورچولستان میں اونٹنیاں پالنے والوں کی رجسٹریشن میں کروڑوں روپے خرچ ہوئے، اونٹنی کا دودھ تھل اور چولستان سے لاہورلایا جاتا اور یہاں اسے پیکنگ میں فروخت کیا جاتا تھا۔ اونٹنی کا دودھ تین سال قبل 120 روپے فی لیٹر فروخت کیاجاتا تھا تاہم اب یہ منصوبہ بھی ٹھپ ہوچکا ہے۔
لاہور سمیت مختلف شہروں میں خانہ بدوش سڑکوں کنارے اونٹنی کادودھ فروخت کرتے نظرآتے ہیں۔ یہ دونوں منصوبے اس وقت کے سیکرٹری لائیوسٹاک نسیم صادق نے شروع کئے تھے، ان کے تبادلے کے بعد یہ منصوبے بھی ختم کردیئے گئے۔ لاہورمیں خالص اور پیسچرائزڈ دودھ پیکنک کی شکل میں فروخت کامنصوبہ شروع کیا تھا وہ بھی بند ہوچکا ہے۔
اس حوالے سے پنجاب لائیو اسٹاک کے ڈائریکٹر کمیونیکشن ڈاکٹر آصف رفیق نے بتایا کہ دونوں منصوبے مخصوص مدت کے لئے شروع کئے گئے تھے جس کے بعد انہیں ختم کردیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ دونوں منصوبے اچھے نتائج دے رہے تھے تاہم موجودہ حکومت کی پالیسی اورترجیحات میں شامل نہیں تھے اس لئے ان کو بند کردیا گیا۔ پنجاب حکومت نے مرغبانی کا منصوبہ شروع کیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت اب تک پنجاب میں 7 لاکھ سے زائد پرندے تقیسم کئے جاچکے ہیں۔ کٹرا بچاؤ اور کٹرا فربہ اسکیم کے تحت فارمرز کو 634 ملین روپے کی سبسڈی دی گئی ہے۔
پراگریسوفارمراورایگریکلچرریپبلک کے بانی عامرحیات بھنڈاراکہتے ہیں حکومتوں کی تبدیلی کے ساتھ جب مختلف منصوبوں سے متعلق پالیساں بھی اچانک تبدیل کردی جاتی ہیں تواس کے اثرات فارمراورکنزیومردونوں پر پڑتے ہیں۔ شترمرغ فارمنگ کے لئے سینکڑوں فارمرزنے ناصرف ذاتی سرمایہ کاری کی بلکہ مختلف بینکوں سے قرض بھی لیا،اسی طرح اونٹنی کے دودھ کے لئے ایساہی کیاگیا جب حکومت نے یہ منصوبے ختم کردیئے توفارمرزکی ناصرف ذاتی انویسٹمنٹ ضائع ہوگئی بلکہ وہ بینکوں کے بھی مقروض ہیں۔ اس طرح اچانک پالیسیاں تبدیل کرنے کی روش کو دیکھ کربیرونی سرمایہ کار بھی پاکستان نہیں آتے، انہیں بھی سرمایہ ڈوبنے کاخدشہ ہوتا ہے۔ اس لئے پالیسیوں میں تسلسل لاناضروری ہے تاکہ کوئی منصوبہ توپایہ تکمیل تک پہنچے اوراس کے حقیقی ثمرات عوام کے سامنے آسکیں۔