عائشہ اکرام قوم کی مجرم ہے
عائشہ اکرام نے اس واقعے کا مرکزی کردار بن کر ملک کو عالمی طور پر بدنام کرنے کا جرم کیا ہے
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے یوم آزادی پر عین یادگار پاکستان کے سامنے پیش آنے والے ''سانحے'' نے پوری قوم کے جذبات جس بری طرح مجروح کئے تھے، واقعے کے دو ماہ گزرنے کے باوجود بھی اس صدمے کے اثرات باقی ہیں۔ اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس واقعے سے جڑے کرداروں سے متعلق جو انکشافات سامنے آرہے ہیں وہ حساس دل رکھنے والوں کو مزید مضطرب کررہے ہیں۔
ایک زندہ قوم کےلیے اپنا یوم آزادی بہت اہمیت رکھتا ہے لیکن اسی ''آزادی'' کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے سوچی سمجھی سازش کے تحت ایک ڈرامہ رچایا گیا جس نے نہ صرف عالمی طور پر پاکستان کا امیج بری طرح متاثر کیا بلکہ قوم میں بھی ایک اضطراب کی لہر دوڑ گئی کہ شاید اب یہ ملک خونخوار بھیڑیوں کا مسکن بن گیا ہے جو سرِ راہ کسی کو بھی چیڑ پھاڑ سکتے ہیں۔
14 اگست کو مینار پاکستان پر ایک لڑکی کو ہجوم کے ہاتھوں ہراساں کیے جانے کا واقعہ اتنا معمولی نہیں تھا کہ اسے ایک سرسری خبر کے طور پر لیا جاتا اور اگلے دن بھلا دیا جاتا۔ واقعے کی ویڈیو چند دن بعد منظرعام پر آئی اور ہر طرف ایک شور سا برپا ہوگیا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ واقعات جو ڈھکے چھپے ہر ملک میں برسوں سے ہورہے ہیں، اس طرح پاکستان میں سرعام دن دہاڑے ہوں گے۔ آدم کے بیٹے اپنے جذبات سے اتنے مغلوب ہوجائیں گے کہ حوا کی بیٹیوں کی عصمت غیر محفوظ قرار دے دی جائے گی۔ بہنوں بیٹیوں والے پریشان ہوگئے کہ اس ملک میں اپنے گھر کی عزت کی حفاظت کیسے کریں گے؟َ سوشل میڈیا پر ہمیشہ کی طرح دو طرح کے نظریات سامنے آئے۔ ایک طبقہ متاثرہ لڑکی کو ہی برا بھلا کہہ رہا تھا کہ وہ ایسی جگہ گئی ہی کیوں۔ اور دوسرا طبقہ تمام مردوں کو ہی بھیڑیا اور عورتوں کو مظلوم کا درجہ دلانے پر تلا ہوا تھا۔ جتنے منہ اتنی باتیں، لیکن پھر واقعے کے مزید پہلو سامنے آتے گئے اور دونوں ہی طبقات کو الگ موضوع مل گیا۔
نئی پیش رفت کے بعد مینار پاکستان پر پیش آنے والے واقعے میں چار سو ''مردوں'' کو نظر انداز کردیا جائے تو اب صرف دو ہی مرکزی کردار خبروں میں ہیں، متاثرہ عائشہ اکرام اور اس کا ساتھی ریمبو۔ نئی اطلاعات کے مطابق دو ماہ تک اپنی مظلومیت کا رونا رونے والی عائشہ اکرام نے اپنے ہی ساتھی ریمبو کو واقعے کا ذمے دار قرار دے دیا۔ ریمبو پر نہ صرف بلیک میلنگ کا الزام لگایا بلکہ خود کو ''لوٹنے'' کی بھی دہائی دی۔ ریمبو جو کہ زیر حراست ہے، اس نے بھی جوابی حملہ کرتے ہوئے عائشہ کی پول کھول دی کہ ''معصوم'' وہ بھی نہیں ہے۔ دونوں کرداروں کی آڈیو کال ریکارڈنگ بھی منظرعام پر آچکی ہے کہ کس طرح مینار پاکستان واقعے میں پکڑے گئے لوگوں سے پیسہ وصول کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ پولیس نے نہ صرف ریمبو بلکہ اس کے مزید ساتھیوں کو بھی گرفتار کرلیا ہے اور جسمانی ریمانڈ بھی حاصل کیا جاچکا ہے۔
اس ساری تمہید کے بعد سوال یہ ہے کہ جب واقعے کے اہم کردار دو ہیں، ایک مرد اور ایک عورت، تو صرف ریمبو ہی پابندِ سلاسل کیوں ہے؟ عائشہ اکرام کو کیوں اب تک چھوٹ دی ہوئی ہے؟ کیا مظلومیت کا رونا رو کر عائشہ کے جرم کی شدت کم ہوجاتی ہے؟ بلیک میلنگ کا الزام عائد کرنے سے کیا عائشہ دودھ کی دھلی ثابت ہوجائے گی؟
عائشہ نے گزشتہ دنوں بیان دیا تھا کہ ریمبو اسے نازیبا ویڈیو کی بنیاد پر بلیک میل کرتا آیا ہے اور اب تک دس لاکھ روپے وصول کرچکا ہے۔ مینار پاکستان پر جانے کا پلان بھی اسی کا تھا۔ لیکن اگر اس دوران دونوں کی ٹک ٹاک ویڈیوز دیکھی جائیں تو کہیں سے بھی نہیں لگتا کہ ایک ''مظلوم اور معصوم'' عورت کو بلیک میل کرکے یہ سب کچھ کیا جارہا ہے۔ جب کہ کیس کے دوران سامنے آنے والی آڈیو ریکارڈنگ نے بھی صورتحال واضح کردی ہے۔
مذکورہ واقعے پر درجنوں تحاریر نظر سے گزر چکی ہیں۔ اکثر تحاریر میں عائشہ کے کردار کو لے کر بھی کئی باتیں کی گئیں، لیکن ہم یہاں کسی کے کردار پر انگلی نہیں اٹھائیں گے۔ اگر کسی کو ٹک ٹاک ویڈیوز بنانا پسند ہے تو وہ بنا سکتا ہے۔ بغیر حجاب کے کسی غیر مرد کی بانہوں میں فحش گانوں پر ڈانس اور ذو معنی جملوں کے ساتھ ویڈیوز بنانا بھی خود کا انتخاب ہے، کسی بھی شخص کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن ملک اور قوم کو بدنام کرنے کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے۔ یہ ایک جرم ہے جس پر چھوٹ نہیں ہونی چاہیے اور عائشہ اکرام قوم کی مجرم ہے۔ حیرت ہے کہ ایک مجرم اب تک آزاد کیسے ہے؟ قانونی اصطلاحات میں جرم ثابت ہونے سے پہلے کسی کو بھی مجرم نہیں کیا جاسکتا، صرف الزام کی بنیاد پر ملزم کہنے کی اجازت ہے۔ لیکن عائشہ اکرام واقعے میں ملوث ہونے کا اعتراف خود کرچکی ہے، چاہے بلیک میلنگ کا بہانہ ہی کیوں نہ بنایا ہو۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر کسی کو بلیک میل کرکے جرائم پر آمادہ کیا جائے، دہشت گردی کروائی جائے تو کیا اسے صرف اس بنیاد پر معصوم سمجھا جائے گا کہ اس نے سارے جرائم مجبوری میں کیے؟ عائشہ اکرام نے تو اس واقعے کا مرکزی کردار بن کر قوم کی ناموس پر حملہ کیا ہے، پوری دنیا میں ملک کے وقار کو مجروح کیا ہے۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ملک کے خلاف دہشت گردانہ حملہ تھا جس نے پوری قوم کو بے چین کردیا ہے۔
حیرت اس بات پر ہے کہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ریمبو کے خلاف تو باتیں ہورہی ہیں لیکن عائشہ کو پابندِ سلاسل کرنے کی بات نہیں کی گئی، جبکہ دونوں اس ''جرم'' کے یکساں ذمے دار ہیں۔ ریمبو کے ساتھ عائشہ کو بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے اور اتنی کڑی سزا دے کر نشانہ عبرت بنانا چاہیے کہ کوئی اور ''عورت کارڈ'' کا استعمال کرکے قوم کو بدنام کرنے کی ہمت نہ کرسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ایک زندہ قوم کےلیے اپنا یوم آزادی بہت اہمیت رکھتا ہے لیکن اسی ''آزادی'' کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے سوچی سمجھی سازش کے تحت ایک ڈرامہ رچایا گیا جس نے نہ صرف عالمی طور پر پاکستان کا امیج بری طرح متاثر کیا بلکہ قوم میں بھی ایک اضطراب کی لہر دوڑ گئی کہ شاید اب یہ ملک خونخوار بھیڑیوں کا مسکن بن گیا ہے جو سرِ راہ کسی کو بھی چیڑ پھاڑ سکتے ہیں۔
14 اگست کو مینار پاکستان پر ایک لڑکی کو ہجوم کے ہاتھوں ہراساں کیے جانے کا واقعہ اتنا معمولی نہیں تھا کہ اسے ایک سرسری خبر کے طور پر لیا جاتا اور اگلے دن بھلا دیا جاتا۔ واقعے کی ویڈیو چند دن بعد منظرعام پر آئی اور ہر طرف ایک شور سا برپا ہوگیا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ واقعات جو ڈھکے چھپے ہر ملک میں برسوں سے ہورہے ہیں، اس طرح پاکستان میں سرعام دن دہاڑے ہوں گے۔ آدم کے بیٹے اپنے جذبات سے اتنے مغلوب ہوجائیں گے کہ حوا کی بیٹیوں کی عصمت غیر محفوظ قرار دے دی جائے گی۔ بہنوں بیٹیوں والے پریشان ہوگئے کہ اس ملک میں اپنے گھر کی عزت کی حفاظت کیسے کریں گے؟َ سوشل میڈیا پر ہمیشہ کی طرح دو طرح کے نظریات سامنے آئے۔ ایک طبقہ متاثرہ لڑکی کو ہی برا بھلا کہہ رہا تھا کہ وہ ایسی جگہ گئی ہی کیوں۔ اور دوسرا طبقہ تمام مردوں کو ہی بھیڑیا اور عورتوں کو مظلوم کا درجہ دلانے پر تلا ہوا تھا۔ جتنے منہ اتنی باتیں، لیکن پھر واقعے کے مزید پہلو سامنے آتے گئے اور دونوں ہی طبقات کو الگ موضوع مل گیا۔
نئی پیش رفت کے بعد مینار پاکستان پر پیش آنے والے واقعے میں چار سو ''مردوں'' کو نظر انداز کردیا جائے تو اب صرف دو ہی مرکزی کردار خبروں میں ہیں، متاثرہ عائشہ اکرام اور اس کا ساتھی ریمبو۔ نئی اطلاعات کے مطابق دو ماہ تک اپنی مظلومیت کا رونا رونے والی عائشہ اکرام نے اپنے ہی ساتھی ریمبو کو واقعے کا ذمے دار قرار دے دیا۔ ریمبو پر نہ صرف بلیک میلنگ کا الزام لگایا بلکہ خود کو ''لوٹنے'' کی بھی دہائی دی۔ ریمبو جو کہ زیر حراست ہے، اس نے بھی جوابی حملہ کرتے ہوئے عائشہ کی پول کھول دی کہ ''معصوم'' وہ بھی نہیں ہے۔ دونوں کرداروں کی آڈیو کال ریکارڈنگ بھی منظرعام پر آچکی ہے کہ کس طرح مینار پاکستان واقعے میں پکڑے گئے لوگوں سے پیسہ وصول کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ پولیس نے نہ صرف ریمبو بلکہ اس کے مزید ساتھیوں کو بھی گرفتار کرلیا ہے اور جسمانی ریمانڈ بھی حاصل کیا جاچکا ہے۔
اس ساری تمہید کے بعد سوال یہ ہے کہ جب واقعے کے اہم کردار دو ہیں، ایک مرد اور ایک عورت، تو صرف ریمبو ہی پابندِ سلاسل کیوں ہے؟ عائشہ اکرام کو کیوں اب تک چھوٹ دی ہوئی ہے؟ کیا مظلومیت کا رونا رو کر عائشہ کے جرم کی شدت کم ہوجاتی ہے؟ بلیک میلنگ کا الزام عائد کرنے سے کیا عائشہ دودھ کی دھلی ثابت ہوجائے گی؟
عائشہ نے گزشتہ دنوں بیان دیا تھا کہ ریمبو اسے نازیبا ویڈیو کی بنیاد پر بلیک میل کرتا آیا ہے اور اب تک دس لاکھ روپے وصول کرچکا ہے۔ مینار پاکستان پر جانے کا پلان بھی اسی کا تھا۔ لیکن اگر اس دوران دونوں کی ٹک ٹاک ویڈیوز دیکھی جائیں تو کہیں سے بھی نہیں لگتا کہ ایک ''مظلوم اور معصوم'' عورت کو بلیک میل کرکے یہ سب کچھ کیا جارہا ہے۔ جب کہ کیس کے دوران سامنے آنے والی آڈیو ریکارڈنگ نے بھی صورتحال واضح کردی ہے۔
مذکورہ واقعے پر درجنوں تحاریر نظر سے گزر چکی ہیں۔ اکثر تحاریر میں عائشہ کے کردار کو لے کر بھی کئی باتیں کی گئیں، لیکن ہم یہاں کسی کے کردار پر انگلی نہیں اٹھائیں گے۔ اگر کسی کو ٹک ٹاک ویڈیوز بنانا پسند ہے تو وہ بنا سکتا ہے۔ بغیر حجاب کے کسی غیر مرد کی بانہوں میں فحش گانوں پر ڈانس اور ذو معنی جملوں کے ساتھ ویڈیوز بنانا بھی خود کا انتخاب ہے، کسی بھی شخص کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن ملک اور قوم کو بدنام کرنے کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے۔ یہ ایک جرم ہے جس پر چھوٹ نہیں ہونی چاہیے اور عائشہ اکرام قوم کی مجرم ہے۔ حیرت ہے کہ ایک مجرم اب تک آزاد کیسے ہے؟ قانونی اصطلاحات میں جرم ثابت ہونے سے پہلے کسی کو بھی مجرم نہیں کیا جاسکتا، صرف الزام کی بنیاد پر ملزم کہنے کی اجازت ہے۔ لیکن عائشہ اکرام واقعے میں ملوث ہونے کا اعتراف خود کرچکی ہے، چاہے بلیک میلنگ کا بہانہ ہی کیوں نہ بنایا ہو۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر کسی کو بلیک میل کرکے جرائم پر آمادہ کیا جائے، دہشت گردی کروائی جائے تو کیا اسے صرف اس بنیاد پر معصوم سمجھا جائے گا کہ اس نے سارے جرائم مجبوری میں کیے؟ عائشہ اکرام نے تو اس واقعے کا مرکزی کردار بن کر قوم کی ناموس پر حملہ کیا ہے، پوری دنیا میں ملک کے وقار کو مجروح کیا ہے۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ملک کے خلاف دہشت گردانہ حملہ تھا جس نے پوری قوم کو بے چین کردیا ہے۔
حیرت اس بات پر ہے کہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ریمبو کے خلاف تو باتیں ہورہی ہیں لیکن عائشہ کو پابندِ سلاسل کرنے کی بات نہیں کی گئی، جبکہ دونوں اس ''جرم'' کے یکساں ذمے دار ہیں۔ ریمبو کے ساتھ عائشہ کو بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے اور اتنی کڑی سزا دے کر نشانہ عبرت بنانا چاہیے کہ کوئی اور ''عورت کارڈ'' کا استعمال کرکے قوم کو بدنام کرنے کی ہمت نہ کرسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔