ڈاکٹر قدیر ہیرو کیوں تھے اسرائیلی اخبار کی گواہی
ڈاکٹر صاحب فوٹوگرافک میموری کے حامل ایک جینئس انسان تھے، جنھوں نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا
گزشتہ دنوں ڈاکٹر عبدالقدیر خان 85 برس کی زندگی جی کر اپنے رب کے حضور لوٹ گئے۔ اللہ ان سے راضی ہو۔
ڈاکٹر صاحب پاکستانی عوام کے ہیرو تھے۔ مقام افسوس ہے کہ جب ان کے جنازے کا علم ہوا تو حکومتی قابل ذکر شخصیات میں سے ماسوائے وزیراعلیٰ سندھ کے کسی کو بھی شرکت کی توفیق نہ ہوئی، البتہ عوام کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔
خاکسار کو فیلڈ رپورٹنگ میں ڈاکٹر صاحب سے نہ صرف ملاقات بلکہ دعائیں سمیٹنے کا بھی شرف حاصل ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی وفات پر دو طرح کے طبقات سامنے آئے۔ ایک وہ طبقہ ہے جس کےلیے ڈاکٹر صاحب ہیرو تھے، دوسرا طبقہ وہ ہے جس کےلیے ڈاکٹر صاحب ولن تھے۔ یہ دوسرا طبقہ پاکستان میں بھی پایا جاتا ہے، اگرچہ یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن یہ طبقہ گمراہی پھیلانے میں پیش پیش ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ڈاکٹر صاحب پاکستان کے ولن تھے تو وہ پاکستان دشمنوں یعنی امریکا، اسرائیل اور بھارت وغیرہ کےلیے ہیرو ہوئے، اگر وہ ان کے ہیرو تھے تو پھر ان کی موت پر دشمن کیوں خوش ہے؟
اسرائیل کے ایک اخبار میں کالم شایع ہوا، جس کا عنوان ہے ''کیسے مسلم بم کا بانی ڈاکٹر عبدالقدیر خان موساد کے اقدام قتل سے بچ نکلا''۔ اسی کالم میں انہیں ایران کے نیوکلیئر بم کا بانی بھی کہا گیا ہے۔ تاہم، اسرائیل کو ایٹمی ٹیکنالوجی شاید کسی سمندر سے پڑی ہوئی ملی تھی۔ خیر، اخبار کے مطابق ڈاکٹر صاحب نے جب یورپ میں تعلیم مکمل کرلی تو وہیں نوکری شروع کردی اور حساس پروگراموں سے منسلک رہے۔ اس کے بعد 1975 میں وہ ''حساس ایٹمی راز'' چرا کر پاکستان آگئے اور تب کے وزیراعظم بھٹو صاحب کو اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔ میرا خیال ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ حساس ایٹمی معلومات کسی عالمی ایٹمی نمائش سے لیتے تاکہ ان پر چوری کا الزام نہ لگتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب فوٹوگرافک میموری کے حامل ایک جینئس انسان تھے۔ انہوں نے وہ تمام معلومات ازبر کی تھیں اور پاکستان آنے کے بعد قابل ٹیم بنا کر ان کی مدد سے وہ معلومات صفحہ قرطاس پر منتقل کی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب کی اس حیرت انگیز صلاحیت کے کئی ہزار گواہ آج بھی دنیا بھر میں مل جائیں گے۔
اخبار آگے لکھتا ہے کہ اسی سال اسرائیلی جاسوس اور بعد میں ہالی وڈ ٹائیکون ایرنون نے بھی جرمنی کے سائنس دان کی مدد سے ایٹمی راز چوری کیے تھے۔ انہوں نے جرمن سائنس دان سے ایٹمی سینٹری فیوجز کی ڈرائنگز حاصل کی تھیں۔ اب اسرائیل بین الاقوامی طور پر ایٹمی طاقت تسلیم کیا جاتا ہے؟ اچھا، پھر یہ معلومات شاید کسی ڈرائنگ روم میں سجانے کےلیے حاصل کی گئی ہوں گی۔ لیکن یہ تو خود چوری مان رہے ہیں تو پھر؟ چلیے، آگے چلتے ہیں۔
اس سے آگے ان الزامات کی فہرست ہے جو کہ پرویز مشرف کی باقیات ان پر آج بھی لگاتی ہیں۔ اخبار کے مطابق 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد ڈاکٹر صاحب نے ریٹائرمنٹ لی اور پھر اپنے نیٹ ورک کو ایٹمی ہتھیاروں کی اسمگلنگ کےلیے استعمال کرنے لگے۔ انہوں نے اس مقصد کےلیے دبئی میں دفتر بھی بنائے، ویئر ہاؤس اور فیکٹریاں بھی قائم کیں اور یہاں سے دنیا بھر کو خدمات فراہم کرنے لگے۔ او بھائی، پاگل ہوگئے ہو کیا؟ یعنی دبئی میں ایٹمی ہتھیاروں کی منڈی لگی ہوئی تھی اور ایٹمی ہتھیار ریڑھیوں پر بولی لگا کر فروخت ہورہے تھے اور نہ ہی تو یو اے ای کی حکومت کو علم تھا اور نہ ہی سی آئی اے اور ایم آئی 6 کو علم تھا جن کا مشرق وسطیٰ کا بیس اسٹیشن ہی ابوظہبی اور دبئی ہے۔ مطلب، کمال ہوگیا ناں۔
کالم کے مطابق 80 کی دہائی کے اواخر اور 90 کے آغاز میں مشرق وسطیٰ، سعودی عرب، مصر، شام اور لیبیا کے کئی دورے ڈاکٹر قدیر نے کیے تھے۔ کوئی اس عقل کے اندھے کالم نویس کی تاریخ ٹھیک کرے کہ یہ دورے ایٹمی ہتھیاروں کی سپلائی کےلیے نہیں بلکہ اپنی ایٹمی صلاحیت مزید بہتر کرنے کےلیے تھے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک پروڈکٹ ابھی مارکیٹ میں آئی نہیں ہے لیکن اس کے گاہک پورے خطے میں موجود ہیں اور وہ خرید و فروخت بھی کر رہے ہیں؟ اس کے بعد کالم میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ لیبیا، شام اور ایران گاہک تھے اور انہوں نے ایٹمی پروگرام خریدا تھا۔ لیکن اس کالم میں انتہائی اہم معلومات نہیں ہیں کہ یہ سودا ڈالرز یا پھر سونے کے عوض ہوگا، وہ سب کہاں ہے؟
اخبار کے مطابق تب کے موساد چیف نے ان دوروں کا نوٹس لیا تھا لیکن وہ یہ تجزیہ کرنے میں ناکام رہے کہ ان دوروں کے مقاصد کیا تھے؟ ان کے مطابق اگر وہ درست وقت پر درست تجزیہ کرلیتے تو موساد ڈاکٹر عبدالقدیر کو قتل کرسکتا تھا۔ یعنی، موساد نے قتل کی کوشش نہیں کی تو پھر ایسی ہیڈلائن کیوں لکھی؟ قارئین کی توجہ تو خیر لے لی لیکن کیا یہ اعتراف شکست نہیں ہے؟ ڈاکٹر قدیر کے ساتھ مستعد اور قابل کمانڈوز سائے کی مانند رہتے تھے اور یہ آخری دم تک ان کے ساتھ رہے تھے۔
طوالت سے بچنے کےلیے لکھ دیتے ہیں کہ حقیقت یہ رہی کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں کچھ ممالک نے معاشی مدد کی تھی۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد ان کی یہ خواہش تھی کہ پاکستان انہیں بھی ایٹم بم بنا کر دے۔ لیکن پاکستان نے سہولت کے ساتھ انہیں یہ سمجھایا تھا کہ ایٹمی ہتھیار کس حد تک ذمے داری ہے اور اس کو بنانے میں کتنا وقت اور مشکلات آتی ہیں۔ اس وقت بھی ایٹمی معلومات کےلیے عالمی سطح پر کوئی ایس او پیز نہیں ہیں۔ سب ہی ممالک نے ایٹمی ہتھیار ''غیر قانونی ذرائع'' سے حاصل کیے ہیں۔ یہ تمام معاملات ریاست پاکستان کے علم میں تھے۔ جب لیبیا کے کرنل قذافی نے اپنے خطے کی صورتحال کا غلط تجزیہ کرتے ہوئے، امریکا کے خوف سے امریکا کو پاکستان کے حوالے سے معلومات فراہم کیں تو پھر ریاست عجیب دوراہے پر آکھڑی ہوئی تھی۔ عوامی رائے ہے کہ اس وقت کے صدر نے ڈاکٹر قدیر کو قربانی کا بکرا بنایا۔ اس مقصد کےلیے چوہدری شجاعت حسین نے سہولت کاری کی اور ڈاکٹر صاحب نے صرف پاکستان کی خاطر سارا الزام خود پر لے لیا۔ اس دن سے لے کر مرتے دم تک ڈاکٹر صاحب ریاستی ستم اور بے اعتنائی کا شکار رہے۔
وہ پاکستان کے محسن تھے، وہ عوام کے ہیرو تھے، تب ہی ان کی وفات پر قوم افسردہ ہے لیکن دشمن بہت خوش ہے۔ یہ درست ہے کہ اپنی ذہانت کی وجہ سے وہ آخری دن تک اپنے دشمن کے سینے پر مونگ دلتے رہے۔ اللہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے راضی ہو اور ان کی کوتاہیوں کو معاف کرتے ہوئے ان کے جنت میں درجات بلند کرے۔ (آمین)
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈاکٹر صاحب پاکستانی عوام کے ہیرو تھے۔ مقام افسوس ہے کہ جب ان کے جنازے کا علم ہوا تو حکومتی قابل ذکر شخصیات میں سے ماسوائے وزیراعلیٰ سندھ کے کسی کو بھی شرکت کی توفیق نہ ہوئی، البتہ عوام کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔
خاکسار کو فیلڈ رپورٹنگ میں ڈاکٹر صاحب سے نہ صرف ملاقات بلکہ دعائیں سمیٹنے کا بھی شرف حاصل ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی وفات پر دو طرح کے طبقات سامنے آئے۔ ایک وہ طبقہ ہے جس کےلیے ڈاکٹر صاحب ہیرو تھے، دوسرا طبقہ وہ ہے جس کےلیے ڈاکٹر صاحب ولن تھے۔ یہ دوسرا طبقہ پاکستان میں بھی پایا جاتا ہے، اگرچہ یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن یہ طبقہ گمراہی پھیلانے میں پیش پیش ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ڈاکٹر صاحب پاکستان کے ولن تھے تو وہ پاکستان دشمنوں یعنی امریکا، اسرائیل اور بھارت وغیرہ کےلیے ہیرو ہوئے، اگر وہ ان کے ہیرو تھے تو پھر ان کی موت پر دشمن کیوں خوش ہے؟
اسرائیل کے ایک اخبار میں کالم شایع ہوا، جس کا عنوان ہے ''کیسے مسلم بم کا بانی ڈاکٹر عبدالقدیر خان موساد کے اقدام قتل سے بچ نکلا''۔ اسی کالم میں انہیں ایران کے نیوکلیئر بم کا بانی بھی کہا گیا ہے۔ تاہم، اسرائیل کو ایٹمی ٹیکنالوجی شاید کسی سمندر سے پڑی ہوئی ملی تھی۔ خیر، اخبار کے مطابق ڈاکٹر صاحب نے جب یورپ میں تعلیم مکمل کرلی تو وہیں نوکری شروع کردی اور حساس پروگراموں سے منسلک رہے۔ اس کے بعد 1975 میں وہ ''حساس ایٹمی راز'' چرا کر پاکستان آگئے اور تب کے وزیراعظم بھٹو صاحب کو اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔ میرا خیال ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ حساس ایٹمی معلومات کسی عالمی ایٹمی نمائش سے لیتے تاکہ ان پر چوری کا الزام نہ لگتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب فوٹوگرافک میموری کے حامل ایک جینئس انسان تھے۔ انہوں نے وہ تمام معلومات ازبر کی تھیں اور پاکستان آنے کے بعد قابل ٹیم بنا کر ان کی مدد سے وہ معلومات صفحہ قرطاس پر منتقل کی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب کی اس حیرت انگیز صلاحیت کے کئی ہزار گواہ آج بھی دنیا بھر میں مل جائیں گے۔
اخبار آگے لکھتا ہے کہ اسی سال اسرائیلی جاسوس اور بعد میں ہالی وڈ ٹائیکون ایرنون نے بھی جرمنی کے سائنس دان کی مدد سے ایٹمی راز چوری کیے تھے۔ انہوں نے جرمن سائنس دان سے ایٹمی سینٹری فیوجز کی ڈرائنگز حاصل کی تھیں۔ اب اسرائیل بین الاقوامی طور پر ایٹمی طاقت تسلیم کیا جاتا ہے؟ اچھا، پھر یہ معلومات شاید کسی ڈرائنگ روم میں سجانے کےلیے حاصل کی گئی ہوں گی۔ لیکن یہ تو خود چوری مان رہے ہیں تو پھر؟ چلیے، آگے چلتے ہیں۔
اس سے آگے ان الزامات کی فہرست ہے جو کہ پرویز مشرف کی باقیات ان پر آج بھی لگاتی ہیں۔ اخبار کے مطابق 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد ڈاکٹر صاحب نے ریٹائرمنٹ لی اور پھر اپنے نیٹ ورک کو ایٹمی ہتھیاروں کی اسمگلنگ کےلیے استعمال کرنے لگے۔ انہوں نے اس مقصد کےلیے دبئی میں دفتر بھی بنائے، ویئر ہاؤس اور فیکٹریاں بھی قائم کیں اور یہاں سے دنیا بھر کو خدمات فراہم کرنے لگے۔ او بھائی، پاگل ہوگئے ہو کیا؟ یعنی دبئی میں ایٹمی ہتھیاروں کی منڈی لگی ہوئی تھی اور ایٹمی ہتھیار ریڑھیوں پر بولی لگا کر فروخت ہورہے تھے اور نہ ہی تو یو اے ای کی حکومت کو علم تھا اور نہ ہی سی آئی اے اور ایم آئی 6 کو علم تھا جن کا مشرق وسطیٰ کا بیس اسٹیشن ہی ابوظہبی اور دبئی ہے۔ مطلب، کمال ہوگیا ناں۔
کالم کے مطابق 80 کی دہائی کے اواخر اور 90 کے آغاز میں مشرق وسطیٰ، سعودی عرب، مصر، شام اور لیبیا کے کئی دورے ڈاکٹر قدیر نے کیے تھے۔ کوئی اس عقل کے اندھے کالم نویس کی تاریخ ٹھیک کرے کہ یہ دورے ایٹمی ہتھیاروں کی سپلائی کےلیے نہیں بلکہ اپنی ایٹمی صلاحیت مزید بہتر کرنے کےلیے تھے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک پروڈکٹ ابھی مارکیٹ میں آئی نہیں ہے لیکن اس کے گاہک پورے خطے میں موجود ہیں اور وہ خرید و فروخت بھی کر رہے ہیں؟ اس کے بعد کالم میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ لیبیا، شام اور ایران گاہک تھے اور انہوں نے ایٹمی پروگرام خریدا تھا۔ لیکن اس کالم میں انتہائی اہم معلومات نہیں ہیں کہ یہ سودا ڈالرز یا پھر سونے کے عوض ہوگا، وہ سب کہاں ہے؟
اخبار کے مطابق تب کے موساد چیف نے ان دوروں کا نوٹس لیا تھا لیکن وہ یہ تجزیہ کرنے میں ناکام رہے کہ ان دوروں کے مقاصد کیا تھے؟ ان کے مطابق اگر وہ درست وقت پر درست تجزیہ کرلیتے تو موساد ڈاکٹر عبدالقدیر کو قتل کرسکتا تھا۔ یعنی، موساد نے قتل کی کوشش نہیں کی تو پھر ایسی ہیڈلائن کیوں لکھی؟ قارئین کی توجہ تو خیر لے لی لیکن کیا یہ اعتراف شکست نہیں ہے؟ ڈاکٹر قدیر کے ساتھ مستعد اور قابل کمانڈوز سائے کی مانند رہتے تھے اور یہ آخری دم تک ان کے ساتھ رہے تھے۔
طوالت سے بچنے کےلیے لکھ دیتے ہیں کہ حقیقت یہ رہی کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں کچھ ممالک نے معاشی مدد کی تھی۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد ان کی یہ خواہش تھی کہ پاکستان انہیں بھی ایٹم بم بنا کر دے۔ لیکن پاکستان نے سہولت کے ساتھ انہیں یہ سمجھایا تھا کہ ایٹمی ہتھیار کس حد تک ذمے داری ہے اور اس کو بنانے میں کتنا وقت اور مشکلات آتی ہیں۔ اس وقت بھی ایٹمی معلومات کےلیے عالمی سطح پر کوئی ایس او پیز نہیں ہیں۔ سب ہی ممالک نے ایٹمی ہتھیار ''غیر قانونی ذرائع'' سے حاصل کیے ہیں۔ یہ تمام معاملات ریاست پاکستان کے علم میں تھے۔ جب لیبیا کے کرنل قذافی نے اپنے خطے کی صورتحال کا غلط تجزیہ کرتے ہوئے، امریکا کے خوف سے امریکا کو پاکستان کے حوالے سے معلومات فراہم کیں تو پھر ریاست عجیب دوراہے پر آکھڑی ہوئی تھی۔ عوامی رائے ہے کہ اس وقت کے صدر نے ڈاکٹر قدیر کو قربانی کا بکرا بنایا۔ اس مقصد کےلیے چوہدری شجاعت حسین نے سہولت کاری کی اور ڈاکٹر صاحب نے صرف پاکستان کی خاطر سارا الزام خود پر لے لیا۔ اس دن سے لے کر مرتے دم تک ڈاکٹر صاحب ریاستی ستم اور بے اعتنائی کا شکار رہے۔
وہ پاکستان کے محسن تھے، وہ عوام کے ہیرو تھے، تب ہی ان کی وفات پر قوم افسردہ ہے لیکن دشمن بہت خوش ہے۔ یہ درست ہے کہ اپنی ذہانت کی وجہ سے وہ آخری دن تک اپنے دشمن کے سینے پر مونگ دلتے رہے۔ اللہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے راضی ہو اور ان کی کوتاہیوں کو معاف کرتے ہوئے ان کے جنت میں درجات بلند کرے۔ (آمین)
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔