نیب والے تھانے کی طرح چلتے ہیں ہر ملزم کو جیل بھیجنا چاہتے ہیں اسلام آباد ہائی کورٹ
آج کل تو نیب ہر ایک کو پکڑ لیتا ہے اس کے خلاف ثبوت ہو یا نہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ
ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس فیصلے سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ اب نیب والے بھی تھانے کی طرح چلتے ہیں ہر ملزم کو جیل بھیجنا چاہتے ہیں۔
جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے خصوصی بنچ نے ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے پر اپیلوں کی سماعت کی، مریم نواز کے وکیل عرفان قادر جب کہ نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
مریم نواز کے وکیل عرفان قادر نے عدالت کے روبرو کہا کہ ہر کیس کے اپنے حقائق ہوتے ہیں، یہ اس لحاظ سے منفرد کیس ہے کہ اس کیس میں قانون کے پراسس کی خلاف ورزی کی گئی، جب ضابطے پر عمل ہی نہ ہوا ہو تو احتساب عدالت کا کیس سننے کا دائرہ اختیار نہیں بنتا، یہ سیاسی انجنیئرنگ کا کیس ہے، اس میں بہت سارے شکوک وشبہات موجود ہیں ، مریم نواز کے خلاف کوئی شواہد نہیں اور شک کا فائدہ بھی بنتا ہے۔
عرفان قادر نے اپنے دلائل میں کہا کہ نیب کی ملزم کو گرفتار کرنے کی اپنی پالیسی ہے، میں نے نیب کی گرفتاری کی آج سے اٹھارہ سال پہلے پالیسی بنائی تھی، نیب مریم نواز کی ضمانت منسوخ کرکے جیل بھیجنا چاہتا ہے، حالانکہ وائٹ کالر کرائم میں ملزم کو جیل بھیجنے کی ضرورت نہیں ہوتی، فوجداری مقدمے میں تھوڑا سا شک ہو تو فائدہ ملزم کو جاتا ہے، ایون فیلڈ ریفرنس میں تھوڑا نہیں بہت زیادہ شک ہے، نواز شریف اور مریم کے حوالے سے ایسی کوئی دستاویز موجود نہیں جس میں یہ ثابت ہوتا ہو کہ نواز شریف اصل مالک جب کہ مریم نواز بینفیشل اونر ہیں۔ مریم نواز کو سزا وراثت میں ملی ہے، نواز شریف کے خلاف کوئی کیس نہیں بن رہا تو مریم نواز کے خلاف تو بالکل نہیں بنتا۔
جسٹس عامر فاروق کے ریمارکس دیئے کہ نیب والے تو ہر ملزم کو جیل بھیجنا چاہتے ہیں، اب نیب والے بھی تھانے کی طرح ہی چلتے ہیں، آج کل تو نیب ہر ایک کو پکڑ لیتا ہے اس کے خلاف ثبوت ہو یا نہیں۔
مریم نواز کے وکیل نے اپنے دلائل میں ارسلان افتخار کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میں نہیں چاہتا کہ اداروں سے متعلق کوئی بات ہو مگر کوئی چیز انصاف کے راستے میں بھی نہیں آنی چاہیے، نیب سے پوچھیں کس فیملی کے خلاف پبلک آفس ہولڈر کے ریفرنس دائر کئے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز آئین کی حفاظت کا حلف لیتے ہیں، سپریم کورٹ نے خود کہہ دیا ریفرنس لازمی دائر کئے جائیں، ریفرنس دائر ہی چئیرمین نیب کی منظوری سے کیا جاتا ہے، سپریم کورٹ خود چئیرمین نیب کا اختیار استعمال نہیں کر سکتی ، اگر جے آئی ٹی بھی بنانی تھی تو وہ خییرمین نیب ہی بنا سکتا تھا ، سو پراپرٹیز بھی ڈال دیتے لیکن ریفرنس تو ایک ہی دائر ہونا چاہیے تھا، یہ اتنی بڑی قانونی بے ضابطگی ہے کہ آپ آج ہی میرے موکل کو بری کر سکتے ہیں۔ اگر آپ نواز شریف کو یقین دہانی کرائیں کہ وہ واپس آئیں تو انہیں گرفتار نہیں کیا جائے گا اور کیس سنا جائے گا، ہو سکتا ہے میری اس بات سے میری موکلہ ناراض ہو جائیں کیونکہ میں نے ان سے پوچھے بغیر یہ بات کہہ دی ہے۔
عرفان قادر کے دلائل پر نیب نے ایون فیلڈ فلیٹس کی مالک آف شور کمپنیوں کی رجسٹریشن کی دستاویزات پیش کر دیں، نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے جوابی دلائل میں کہا کہ یہ فلیٹس نیلسن اور نیسکول نامی آف شور کمپنیوں نے لئے، برطانیہ سے ایم ایل اے کا ہمیں جواب آیا تھا جس کے مطابق مریم نواز بینفیشل مالک ہیں، یہ جائیداد چھپا کر رکھی گئی تھی۔
مریم نواز کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت عالیہ نے نیب کو آئندہ سماعت پر دلائل دینے کی ہدایت کردی، کیس کی مزید سماعت اب 17 نومبر کو ہوگی۔
جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے خصوصی بنچ نے ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے پر اپیلوں کی سماعت کی، مریم نواز کے وکیل عرفان قادر جب کہ نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
مریم نواز کے وکیل عرفان قادر نے عدالت کے روبرو کہا کہ ہر کیس کے اپنے حقائق ہوتے ہیں، یہ اس لحاظ سے منفرد کیس ہے کہ اس کیس میں قانون کے پراسس کی خلاف ورزی کی گئی، جب ضابطے پر عمل ہی نہ ہوا ہو تو احتساب عدالت کا کیس سننے کا دائرہ اختیار نہیں بنتا، یہ سیاسی انجنیئرنگ کا کیس ہے، اس میں بہت سارے شکوک وشبہات موجود ہیں ، مریم نواز کے خلاف کوئی شواہد نہیں اور شک کا فائدہ بھی بنتا ہے۔
عرفان قادر نے اپنے دلائل میں کہا کہ نیب کی ملزم کو گرفتار کرنے کی اپنی پالیسی ہے، میں نے نیب کی گرفتاری کی آج سے اٹھارہ سال پہلے پالیسی بنائی تھی، نیب مریم نواز کی ضمانت منسوخ کرکے جیل بھیجنا چاہتا ہے، حالانکہ وائٹ کالر کرائم میں ملزم کو جیل بھیجنے کی ضرورت نہیں ہوتی، فوجداری مقدمے میں تھوڑا سا شک ہو تو فائدہ ملزم کو جاتا ہے، ایون فیلڈ ریفرنس میں تھوڑا نہیں بہت زیادہ شک ہے، نواز شریف اور مریم کے حوالے سے ایسی کوئی دستاویز موجود نہیں جس میں یہ ثابت ہوتا ہو کہ نواز شریف اصل مالک جب کہ مریم نواز بینفیشل اونر ہیں۔ مریم نواز کو سزا وراثت میں ملی ہے، نواز شریف کے خلاف کوئی کیس نہیں بن رہا تو مریم نواز کے خلاف تو بالکل نہیں بنتا۔
جسٹس عامر فاروق کے ریمارکس دیئے کہ نیب والے تو ہر ملزم کو جیل بھیجنا چاہتے ہیں، اب نیب والے بھی تھانے کی طرح ہی چلتے ہیں، آج کل تو نیب ہر ایک کو پکڑ لیتا ہے اس کے خلاف ثبوت ہو یا نہیں۔
مریم نواز کے وکیل نے اپنے دلائل میں ارسلان افتخار کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میں نہیں چاہتا کہ اداروں سے متعلق کوئی بات ہو مگر کوئی چیز انصاف کے راستے میں بھی نہیں آنی چاہیے، نیب سے پوچھیں کس فیملی کے خلاف پبلک آفس ہولڈر کے ریفرنس دائر کئے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز آئین کی حفاظت کا حلف لیتے ہیں، سپریم کورٹ نے خود کہہ دیا ریفرنس لازمی دائر کئے جائیں، ریفرنس دائر ہی چئیرمین نیب کی منظوری سے کیا جاتا ہے، سپریم کورٹ خود چئیرمین نیب کا اختیار استعمال نہیں کر سکتی ، اگر جے آئی ٹی بھی بنانی تھی تو وہ خییرمین نیب ہی بنا سکتا تھا ، سو پراپرٹیز بھی ڈال دیتے لیکن ریفرنس تو ایک ہی دائر ہونا چاہیے تھا، یہ اتنی بڑی قانونی بے ضابطگی ہے کہ آپ آج ہی میرے موکل کو بری کر سکتے ہیں۔ اگر آپ نواز شریف کو یقین دہانی کرائیں کہ وہ واپس آئیں تو انہیں گرفتار نہیں کیا جائے گا اور کیس سنا جائے گا، ہو سکتا ہے میری اس بات سے میری موکلہ ناراض ہو جائیں کیونکہ میں نے ان سے پوچھے بغیر یہ بات کہہ دی ہے۔
عرفان قادر کے دلائل پر نیب نے ایون فیلڈ فلیٹس کی مالک آف شور کمپنیوں کی رجسٹریشن کی دستاویزات پیش کر دیں، نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے جوابی دلائل میں کہا کہ یہ فلیٹس نیلسن اور نیسکول نامی آف شور کمپنیوں نے لئے، برطانیہ سے ایم ایل اے کا ہمیں جواب آیا تھا جس کے مطابق مریم نواز بینفیشل مالک ہیں، یہ جائیداد چھپا کر رکھی گئی تھی۔
مریم نواز کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت عالیہ نے نیب کو آئندہ سماعت پر دلائل دینے کی ہدایت کردی، کیس کی مزید سماعت اب 17 نومبر کو ہوگی۔