ملکی وے کہکشاں کے قلب سے پراسرار سگنلوں کا اخراج

سگنلوں کے اخراج کے کے ماخذ کو ’اینڈیز آبجیکٹ‘ کا نام دیا گیا ہے اور 2020 میں چھ دفعہ سگنل ملے ہیں

تصویر میں آسٹریلیا میں واقع پاتھ فائنڈر ریڈیائی دوربینوں میں سے ایک نمایاں ہے جہاں ملکی وے کہکشاں کے وسط سے خارج ہونے والے پراسرار سگنل کو پہلی مرتبہ دیکھا گیا تھا۔ فوٹو: بشکریہ پاتھ فائنڈر ویب سائٹ

فلکیات داں حضرات نے ہمارے ایک رخ سے ریڈیائی سگنل نوٹ کئے ہیں جو ملکی وے کہکشاں کے مرکز سے ہم تک پہنچ رہے ہیں لیکن اس معمے کو سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

یہ سگنل کسی باقاعدہ اوقات کے بغیر آتے ہیں اور بند ہوجاتے ہیں۔ اسی بنیاد پر کہا جارہا ہے کہ شاید یہ کسی ایسے جرمِ فلکی سے خارج ہورہے ہیں جو سائنس کےدائرے میں نہیں یا پھر ہم اس سے ناواقف ہیں۔

ماہرین نے فرضی طور پر اس اخراج کے مرکز کو 'اینڈیز آبجیکٹ' کا نام دیا ہے۔ چونکہ ان سگنلوں کی اولین دریافت جامعہ سڈنی کے زائٹنگ وینگ نے کی تھی جنہیں اینڈی بھی پکارا جاتا ہے۔ زائٹنگ وینگ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ٓصرف سال 2020 میں ہی 6 مرتبہ ان سگنلوں کو نوٹ کیا تھا۔ یہ کام انہوں نے آسٹریلیا کی پاتھ فائنڈر ریڈیائی دوربین میں کیا تھا ۔ اس کے بعد جنوبی افریقہ میں نصب میرکاٹ ریڈیائی دوربین سے بھی ان سگنلوں کا مشاہدہ کیا گیا تھا۔

ماہرین نے سگنل کا رخ معلوم تو کرلیا جو کبھی کبھار روشن ہوجاتا ہے۔ اس کے روشن ہونے کا انحصار کئی ہفتوں تک بھی جاری رہتا ہے لیکن اکثر مرتبہ اس پر اندھیرا چھایا رہتا ہے۔ اس سال فروری میں دوبارہ سگنل خارج ہوئے اور وہ جسم روشن ہوگیا۔


فروری میں دوبارہ کئی طرح کی دوربینوں کا رخ اس مرکز کی جانب موڑا گیا ۔ اس میں کئی طرح غیرریڈیائی دوربینوں سے بھی اس کا نظارہ کیا گیا لیکن کوئی سراغ نہ مل سکا۔

'ہم نے ہر طرح کی طولِ موج (ویولینتھ) والی طاقتور ترین دوربینوں سے دیکھنے کی کوشش کی یہاں تک کہ انفراریڈ، بصری اور ایکس رے ذرائع کو استعمال کیا گیا لیکن کچھ دکھائی نہیں دیا۔ شاید یہ کوئی ایسا ستارہ یا جرمِ فلکی ہے جسے اب تک سمجھا نہیں گیا ہے،' ڈاکٹر ڈیوڈ کیپلان نے کہا جو جامعہ وسکانسن سے وابستہ ہیں اور اس تحقیق کا اہم حصہ ہیں۔

کچھ نے اسے عام ستارہ کہا اور کسی نے میگنیٹار کہا ہے یعنی ایسا نیوٹران ستارہ جو طاقتور مقناطیسی میدان رکھتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دیگر ویولینتھ سے ظاہر نہیں ہوتا اور اس لیے یہ مفروضہ درست قرار نہیں پاتا۔

تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ ریڈیائی امواج کی تقطیب (پولرائزیشن) سے ظاہر ہے کہ اس پراسرار شے کا مقناطیسی میدان بہت ہی طاقتور ہے اور روشنی خارج ہوتے ہوتے 100 گنا تک بڑھ جاتی ہے۔ یہ تبدیلی ایک دن میں بھی دیکھی گئی ہے۔ لیکن افسوس کہ اب تک دریافت شدہ تمام اجسام اس میں فٹ نہیں بیٹھتے۔ اب ماہرین اسے معمے کو حل کرنے کےلیے غیرروایتی غوروفکر کررہے ہیں۔
Load Next Story