زباں فہمی حیدرآبادی بولی
حیدرآبادی بولی اور اس کے زبان قرار دینے کی تاریخ، ہماری تاریخ کے ایک اہم موڑ سے جُڑی ہوئی ہے۔
زباں فہمی 119
سایہ نئیں ہے، دھوپ کڑی ہے
سر پو آ کو موت کھڑی ہے
پھٹّا دامن کیسا سیؤں میں
دھاگہ چھوٹا، سوئی بڑی ہے
(خواہ مخواہؔ حیدرآبادی)
}مشکل الفاظ:- نئیں: نہیں کا عوامی صوتی تلفظ، سرپو: سر پریا سر پہ،آکو: آکر یا آکے، پھٹّا: پھٹا ہوا{
بزدل ہے وہ جو جیتے جی مرنے سے ڈر گیا
ایک مئیچ (میں+اِچ) تھا جو کام ہی کچھ اور کر گیا
جب موت آکو میرے کو کرنے لگی سلام
میں وعلیکم سلام بولا اور مر گیا!!
(خواہ مخواہؔ حیدرآبادی)
}مئیچ (میں+اِچ): میں ہی، میرے کو: مجھ کو....جو اِن دنوں ہمارے یہاں ہر خاص وعام کی بول چال میں رائج ہے۔ اور ہم اسے غلط ہی سمجھتے ہیں۔{
قارئین کرام ! خاکسار نے آج اپنی تحریر کا آغاز، یونہی، خواہ مخواہ، کلامِ خواہ مخواہؔ (سید غوث محی الدین احمد) حیدرآبادی (۱۹۲۸ء تا ۲ مئی ۲۰۱۷ء)کے نمونوں سے نہیں کیا، بلکہ اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔ عنوان دیکھ کر بعض حیدرآبادی حضرات حیران ہوں گے تو کچھ معترض۔ ہم اپنی معلومات کے مطابق حیدرآبادی کو اردوئے قدیم کا ایک لہجہ یا بولی سمجھتے ہیں جو ہنوز، زندہ ہے، جبکہ 'حائیدرابادی لوگاں' اسے اپنی زبان قراردیتے ہیں۔ ہرچندکہ یہ بحث فقط اہل علم کے مابین رہی، مگر بہرحال عوام الناس، خصوصاً ادبی قارئین کا یہ حق ہے کہ انھیں ان معاملات سے بھی آگاہ کیا جائے۔
ممتاز حیدرآبادی شاعر وادیب سلیمان خطیب (۲۶دسمبر۱۹۲۲ء تا ۲۲ اکتوبر ۱۹۷۸ء) اور ہمارے مشفق، بزرگ معاصر محترم حمایت علی شاعرؔ ( ۱۴جولائی ۱۹۲۶ء تا۱۵جولائی ۲۰۱۹ء ) کا مؤقف تھا کہ حیدرآبادی یا دکنی کو جدا گانہ زبان تسلیم کیا جائے۔ ہم نے اُن کے حینِ حیات اس بابت اختلاف کیا اور وہ ''عدم آباد جانے والے'' اپنے پیچھے بہت سی دیگر باتوں کے علاوہ یہ یاد بھی چھوڑگئے کہ ''اختلاف اچھا، مخالفت نہیں''۔ حمایت مرحوم کا یہ قول نجی گفتگو اور تحریر میں اس قدر مؤثر لگا کہ بندہ جابجا دُہراتا ہے۔ (میرے ایک عزیز شاعر کی بیرون ملک سے تشریف آوری پر، خاندان کی ایک تنظیم نے، خاکسار کی تحریک سے، عشائیے کا اہتمام کیا۔
ایک نوجوان نے بغیر سوچے سمجھے مسلکی اختلاف کی بابت سوال کردیا۔ میں نے یہی قول مع حوالہ دُہراکر بات ختم کردی، ورنہ خواہ مخواہ تلخی ہوجاتی)۔ آج وہ زندہ ہوتے تو اس تحریر کی اشاعت کے بعد، شاید سب سے پہلی ٹیلی فون کال اُنھی کی آتی اور پھر ایک مفصل گفتگو کا باب کھُل جاتا۔
اب ذرا یہ دیکھیے کہ اس راقم نے جو نمونہ کلام آغاز میں پیش کیا، اس میں ایسا کیا ہے جو اردو سے یکسر مختلف ہے اور اسے کوئی اور زبان قرار دیا جاسکے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ حیدرآبادی احباب خفا ہوکر یہ کہیں کہ ''آپ کو نَکو معلوم...باتاں نئیں کرتے ، ہم حائیدرابادی...آپ اِتّا آسان آسان اشعار لیے...مشکل نَکو معلوم''، تو بصد اَدب گزارش کروں کہ اس بنیاد پر ناصرف اردو ہی کی کئی بولیاں، بلکہ ہمارے قدیم ادب میں شامل نظم ونثر کا بہت بڑا حصہ، اردو سے خارج کرنا پڑے گا، خواہ اس پر عربی، فارسی، ہندی سمیت کسی بھی زبان کا اثر یا گہری چھاپ نمایاں ہو۔ (مرحوم سلیمان خطیب کی شاعری اور حالات ِزندگی کے متعلق معلومات انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ ایک مضمون یہاں بھی دیکھا جاسکتا ہے:https://www.urdulinks.com/urj/?p=2987)
{ویسے اس ساری گفتگو سے قطع نظریہ مشہور اور منفرد شعر بھی حضرت خواہ مخواہؔ حیدرآبادی سے یادگار ہے:
چھیڑتی ہیں کبھی لب کو کبھی رخساروں کو
تم نے زلفوں کو بہت سر پہ چڑھا رکھا ہے}
ہرچند کہ حیدرآبادی یا دکنی کو زبان قرار دینے کے حق میں لکھا جانے والا ایک مقالہ بھی انٹرنیٹ پر دستیاب ہے، مگر ہم پھر بھی یہ کہنے کی جسارت کرتے ہیں کہ اگر یہ کوئی الگ زبان ہے تو پھر اردو کا اولین صاحب ِدیوان شاعر قلی قطب شاہ بھی اسی کے شعراء کا سَرخَیل ہوا نہ کہ اردو کا (یہ لفظ سَر+خیل ہے ناکہ سُرخیل یا سُرخِیل: کسی گروہ یا قبیلے کا سربراہ۔ ہمارے یہاں اچھے خاصے تجربہ کار اہلِ قلم بھی اس لفظ کا درست تلفظ ادا کرنے سے قاصر ہیں)۔ {یہ اور بات کہ جب اردوئے قدیم کا نام ہندوی تھا تو سلطان مسعود غزنوی کے درباری شاعر مسعود سعد سلمان لاہوری نے اس ترقی پذیر زبان میں اس قدر شاعری کی کہ دو ضخیم دیوان تیار ہوگئے، جبکہ تیسرا فارسی میں تھا، مگر افسوس وہ کارنامہ کتابی شکل میں محفوظ نہیں۔ یہ بات ہے گیارہویں صدی کی، یعنی امیر خسرو (رحمۃ اللہ علیہ) سے بھی دو سو برس پہلے کی}۔
بہرحال خاکسار اپنا نظریہ دُہرائے بِنا نہیں رہ سکتا کہ اردو، کُرہ ارض کی واحد زبان ہے جس کی پیدائش اور پرورش کسی ایک علاقے تک محدودنہ رہی، بلکہ برِصغیر (یا برِعظیم) پاک وہند کے تقریباً تمام نمایاں حصوں میں اس کی بنیاد وقتاً فوقتاً پڑی، پڑتی رہی اور اُس جگہ کی مقامی زبانوں اور بولیوں کے اختلاط سے یہ پھلتی پھولتی رہی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اسے باقاعدہ عروج یقیناً شمالی ہند، علی الخصوص دِلّی اور نواح میں حاصل ہوا۔ اسی پر بس نہیں، بلکہ ہر علاقے میں اسے ایک نیا نام اور نرالا روپ بھی ملا۔ بالکل اسی طرح دکَن یا دکِن کی بولی اور زبان والا معاملہ بھی ہے جسے مقامی طور پر الگ کہا گیا۔ نصیر الدین ہاشمی اور ڈاکٹر سید محی الدین زورؔ قادری جیسے محققین بھی اسی نظریے کے پرچارک تھے، مگر اویس احمد ادیبؔ نے اس کی مخالفت کی۔
مزید گفتگو سے پہلے پروفیسر اویس احمد ادیبؔ کا یہ قول نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ امیرخسرو ؔ کی زبان، ''اردونُما'' برج بھاشا ہے۔ اور مزید وضاحت کرتا چلوں، ہمیشہ کی طرح، کہ امیرخسروؔ سے منسوب تقریباً تمام کلام اُس دور میں کہا ہوا یا لکھا ہوا ہرگز نہیں، یہ کسی اور (ممکن ہے اسی تخلص کے) شاعر کی طبع آزمائی معلوم ہوتی ہے۔ امیرخسروؔ کی واحد محفوظ غزل (برنگ ریختہ) ''زِحال ِمسکیں'' والی بھی پوری طرح اصل متن کے ساتھ نہیں ہے، اس بابت ہمارے بزرگ معاصر محترم احمد عمرشریف صاحب نے تحقیق فرمائی ہے۔ دعا ہے کہ وہ کتاب جلد منظرعام پر آئے اور ہم ایسے تحقیق کے جویا اکتساب ِ فیض کرسکیں، آمین!
جب حیدرآبادی /دکنی کی بات ہوگی تو ناواقفین کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس سے مراد، ہندوستان کے دکن / دکھن/دَکھشنڑ یعنی جَنوب میں بولی جانے والی بولی ہے جو مقامی زبانوں مَراٹھی، تیلَگُو اور کَنّڑ کے اثرات سے مَملُو ہے اور جس کا قدیم رشتہ وانسلاک، ہندی، سنسکرت اور اردو کی قدیم بولیوں سے ہے۔ اب یہاں ایک وضاحت اور بھی ضروری ہے کہ دکن یا جنوب سے کون سے علاقے مراد ہیں۔ {یہ نکتہ اُس پرانی بحث سے بھی جُڑا ہوا ہے کہ اردو کے پہلے توانا شاعر وَلی گجراتی دکنی کو دکنی (اور اورنگ آبادی، دکنی) کیوں کہا جاتا ہے۔
ماقبل کسی تحریر میں، غالباً زباں فہمی ہی میں ڈاکٹر غلام مصطفی خان مرحوم کا یہ قول نقل کرچکا ہوں کہ ''انھیں گجراتی کہیے یا دکنی کہیے، ایک ہی بات ہے، کیونکہ دکن کا اطلاق جنوبی ہند کے علاقے پر ہوتا تھا جو دریائے نربدا سے لے کر گجرات تک اور جنوب میں مدراس اور راس کُماری تک تھا'' (رسالہ تحقیق مضمون قاضی احمد میاں اختر ؔجوناگڑھی مرحوم، شمارہ نمبر آٹھ نو، ۹۵۔۱۹۹۴ء، ص ۱۲)۔ قاضی احمدمیاں اخترؔ جوناگڑھی نے بالتحقیق ثابت کیا ہے کہ ولیؔ کا تعلق احمد آباد، گجرات سے تھا، وہ اورنگ آباد، حیدرآباد اور دہلی سمیت متعدد شہروں میں مقیم رہے، مگر اُنھیں حیدرآبادی یا اورنگ آبادی دکنی سمجھنا خلاف ِ حقیقت ہے۔
اس بحث کا خلاصہ پھر کبھی پیش کرو ں گا، فی الحال دکن کی تعریف مزید واضح کردوں}۔ اس خطے کی آبادی میں مَرٹھواڑا، خاندیش، کرناٹک، حیدرآباد۔ کرناٹک، تلنگانہ ، جنوبی اور وسطی آندھراپردیش ، شِمالی تَمِل ناڈ (ناڈو نہیں) اور گوا اور کیرالہ (کیرلا) کے اقلیتی دکنی باشندے شامل ہیں۔ یہاں یہ لطیف نکتہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ دکن یعنی جنوب میں فقط یہی ایک بولی یا زبان نہیں تھی، بلکہ وہاں زمانہ قدیم سے متعدد زبانیں بشمول گجراتی، تیلگو، تامل یا تَمِل، کنڑ، ملیالم بھی رائج تھیں اور ہیں، یہ سب کی سب دکنی ہیں۔
حیدرآبادی بولی اور اس کے زبان قرار دینے کی تاریخ، ہماری تاریخ کے ایک اہم موڑ سے جُڑی ہوئی ہے جب روایت کے مطابق، سلطان علاؤ الدین خلجی (1266-1316) کے عہد میں ہونے والے حملوں کے نتیجے میں مختلف زبانیں بولنے والوں کا آپس میں اختلاط ہوا، خاص طور پر اُس کے چِتّوڑ / چتّوڑگڑھ (راجستھان) پر حملے اور (ایک ہندی نظم پَدماوَتی میں بیان کردہ)، رانی پدمنی سے مفروضہ عشق کی داستان بھی اسی مقامی لسانی پس منظر میں اہمیت کی حامل ہے۔ اس عظیم حکمراں نے 1305 میں مالوہ/مالوا، اُجّین، چندیری اور منداوَرکی فتح کے دوسال بعد، دیوگِری پر چڑھائی کی اور1309 میں اُس کا لشکر ہندوستان کے انتہائی جنوبی حصے میں واقع کنھیا کُماری (''کنواری شہزادی'') یا Cape Comiron تک جاپہنچا تھا اور مزید دوبرس کے اقتدار میں اُسے سلطنت ِدہلی کے امیرترین بادشاہ ہونے کا اعزاز مل گیا تھا۔
1327 میں سلطان محمد بن تغلق نے اچانک دارالسلطنت، دِلّی سے ایک نئے شہر، دولت آباد، دکن منتقل کرنے کا فیصلہ کیا جس پر ہمہ جہتی تنقید ہوتی رہی۔ (اس پایہ تخت کے آثار اورنگ آباد، مہاراشٹر کے قریب واقع ہیں)۔ یہی وہ دور ہے جب شہر و نواح کی تقریباً تمام آبادی بشمول اُمَراء وسپاہ نے ایک نئے مقام پر بُود ووباش اختیار کی اور ایسے میں ہندوی، ہندوستانی یا زبان ہندوستان نے دکنی روپ دھارنے کا باقاعدہ آغاز کیا۔ لسانی تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ اردو کی نشو نما (ناکہ نشو ونُما) میں اس موڑ پر زبان شمال سے جنوب گئی ہے۔
ایسا نہیں کہ ولیؔ کے طفیل اردو میں ریختہ یعنی اردوغزل گوئی کے رواج کو بنیاد قراردیتے ہوئے معاملہ برعکس ہو اور یہ کہا جائے کہ شمال کی زبان کچھ اور تھی، دکن یعنی جنوب کی کچھ اور۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ولیؔ کی زبان میں فارسیت اور پھر صاف اردو کے استعمال کا معاملہ فقط دِلّی آمد کے دورسے مشروط یا محدود نہیں، کیونکہ لہجے کے فرق سے قطع نظر، فارسی کا عمل دخل تو دکن میں بھی تھا، ہاں نقل مکانی نے اُن کی زبان کی صفائی وروانی میں اہم کردار ادا کیا۔ ولیؔ گجراتی دکنی ہر لحاظ سے ہمارے کلاسیکی شعراء یعنی متقدمین کے نہایت فاضل، محسن اور لائق تقلید پیش رَو ہیں۔ یہاں ہم ایک اہم نگارش سے اقتباس پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں:
تیرہویں صدی سے سترہویں صدی تک دکنی ادب کے کئی اہم کارنامے منظر عام پر آئے۔ دکنی میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ 1867ء تک برقرار رہا۔ چنانچہ اسی برس حیدرآباد کے ایک صوفی فقیر اللہ شاہ حیدر نے نہال چند لاہوری کی تصنیف ''بکاولی'' کے مقابل میں اپنی تصنیف ''تناولی'' پیش کی۔ باقر آگاہ اپنی مثنوی ''گلزار عشق'' کے دیباچے میں جو 1796 ء میں لکھی گئی ''دکنی'' پر کئے ہوئے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ''مقصود اس تمہید سے یہ ہے کہ اکثر جاہلان و ہرزہ سرایاں زبان دکنی پر اعتراض اور ''گلشن عشق'' و ''علی نامہ'' کے پڑھنے سے احتراز کرتے ہیں اور جہل مرکب سے نہیں جانتے کہ جب تک ریاست سلاطین دکن کی قائم تھی زبان ان کے درمیان خوب رائج تھی''۔ (دکنی دور کی اہمیت، تحریر: اقبال احمد)۔ اسی مضمون نگار نے دکنی ادب کے چار ارتقائی عہد کا ذکر کیا ہے۔ آگے ملاحظہ فرمائیں کہ یہ تفصیل کس طرح مختصراً بیان ہوئی ہے:
''دکنی(زبان) کے ادوار: دکنی کی ترقی کا اندازہ لگانے کے لئے دکنی ادب کی تاریخ کو ان چار ادوار میں منقسم کیا جاتا ہے۔ پہلا دور: گجرات میں دکنی یا قدیم اردو کا چلن۔ دوسرا دور: 1324 ء سے 1686 ء تک علاؤ الدین خلجی اور محمد بن تغلق کے حملوں کے بعد بہمینہ سلطنت کے قیام اور بہمینہ سلطنت کے سقوط کے بعد گولکنڈہ، بیجا پور اور احمد نگر کے شمالی ہند میں انضمام تک۔ تیسرا دور:۔ جب اور نگ زیب کے عہد میں دکنی کا اہم مرکز اور نگ آباد تھا۔ چوتھا دور:۔ دور آصفی۔ مرکز گجرات، گجرات میں اس زبان کی سرپرستی حضرت عین الدین گنج العلم، شاہ علی جیو گام دھنی، بہاؤالدین باجن، شیخ خوب محمد چشتی، جیسے علما و صوفیا نے کی۔ شاہ علی جیوگام دھنی نے اپنی یادگار، ایک اردو دیوان ''جواہر اسرار اللہ'' چھوڑا۔ شیخ خوب محمد نے اپنے مرشد بہا الدین باجن کے کلام کی شرح ''خوب ترنگ'' کے نام سے لکھی۔ مابعد کے زمانے میں محمد امین گجراتی کی تصنیف ''یوسف زلیخا'' قدیم اردو کی اہم تصنیف ہے۔ سید علی جیوگام دھنی کے کلام کو ان کے ایک شاگرد نے ترتیب دیا اس میں ان کی شاعری کے متعلق لکھتا ہے۔
''دربیان توحید و اسرار باالفاظ گجری بطریق فرمودہ'' یہ نام گجری اور گوجری دکنی کے لیے اس دور میں خاصا مقبول رہا۔ چنانچہ بیجاپور کے مشہور صوفی شاہ برہان الدین جانم اپنی تصانیف ''کلمۃ الحقائق'' اور ''حجۃ البقا'' میں دکنی کو گجری کے ہی نام سے یاد کرتے ہیں۔ گجرات کے ساتھ دکنی کی سرپرستی دکن کی جن سلطنتوں نے کی ان میں سلطنت بہمینہ اور اس کے انفراض کے بعد عادل شاہی، قطب شاہی، نظام شاہی، عماد شاہی، برید شاہی وغیرہ مشہور ہیں''۔ اس فہرست میں شامل متعدد اسمائے شعراء درحقیقت گوجری اور گجراتی کے سخنور تھے۔ قاضی احمدمیاں اخترؔ جوناگڑھی کے مضامین میں پوری تحقیق موجود ہے۔ (مضامین ِ اختر ؔ جوناگڑھی، انجمن ترقی اردو، کراچی: ۱۹۸۹ء)۔ خاکسار نے ''اردو کی ماں، گوجری؟'' کے عنوان سے تین اقساط پر مبنی مضمون یا مقالہ اسی زباں فہمی کے سلسلے میں لکھا تھا جسے زیرنظر کالم سے ملاکر پڑھنا مفید ہے۔
قلی قطب شاہ کو اردو کی موجودہ شکل میں اوّلین صاحب ِدیوان شاعر قراردیا جاتا ہے۔ مغل تاجدار جلال الدین اکبر کا ہم عصر، سلطان محمد قلی قطب شاہ (۹۷۳ھ/۱۵۶۵ء تا ۱۰۲۰ھ/۱۶۱۱ء) المتخلص بہ قطب شاہؔ (نیز معانیؔ، ترکمانؔ اور کئی دیگر)، دبستان ِ دکن کا اولین غزل گو تھا، ورنہ وہاں مثنوی کو اولیت حاصل تھی۔ ڈاکٹر زورؔ نے۱۹۴۰ء میں اُس کا کلّیات شایع کیا جو ۱۸۰۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں پچاس ہزار اشعار بشمول غزلیات، قصائد (نعتیہ، منقبتیہ)، مثنویات، رباعیات و مراثی شامل ہیں۔ اُس کا نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
میں نہ جانوں کعبہ و بُت خانہ ومئے خانہ کوں
دیکھتا ہوں ہر کہاں دِستا ہے تُج مُکھ کا صفا
(کوں: کو، ہرکہاں: ہرجگہ، دِستا: دِکھتا یا نظر آتا، تُج: تجھ/تیرا ، مُکھ: چہرہ ، صفا: صاف)
میں نہ جانوں کیوں اچھے گی حورِ جنّت
حسن تیرا مُج عجب دیوانہ کِیتا
(کیوں اچھے گی: کیسی ہوگی، مُج: مجھے، کِیتا: کیا۔یہ کیِتا پنجابی میں بھی مشترک ہے)
رُخ کیے مئے خانہ رُخ، لے پیالا ہات
ڈگمگی چالاں سے سب کسی کوں بھلات
(ہات: ہاتھ ، چالاںسے : چال سے ، بھلات : بھلادیا)
}غزل نُما از قلم اداؔ جعفری، انجمن ترقی اردو، کراچی: ۱۹۸۷ء{
اب ذرا ایمان داری سے بتائیے کہ آیا یہ منقول کلام، اردو سے ہٹ کر یا اُس سے خارج ہے؟
قدیم شعرائے دکن کی فہرست بہت طویل ہے۔ اگر ہم اداؔجعفری کی کتاب ہی سے نقل کریں تو یہ اسماء سامنے آتے ہیں:
قطب شاہؔ، شوقیؔ (شیخ حسن)، غوّاصیؔ، شاہیؔ (علی عادل شاہ)، نصرتیؔ (محمد نصرت)، ہاشمیؔ بیجاپوری (سید میراں)، بحریؔ (قاضی محمود)، سراج ؔ اَورنگ آبادی (سید سراج الدین) اور قاسمؔ اورنگ آبادی (شاہ قاسم)۔ موضوع بہت وسیع ہے، مگر تنگی قرطاس وتنگی وقت مانع ہے۔
سایہ نئیں ہے، دھوپ کڑی ہے
سر پو آ کو موت کھڑی ہے
پھٹّا دامن کیسا سیؤں میں
دھاگہ چھوٹا، سوئی بڑی ہے
(خواہ مخواہؔ حیدرآبادی)
}مشکل الفاظ:- نئیں: نہیں کا عوامی صوتی تلفظ، سرپو: سر پریا سر پہ،آکو: آکر یا آکے، پھٹّا: پھٹا ہوا{
بزدل ہے وہ جو جیتے جی مرنے سے ڈر گیا
ایک مئیچ (میں+اِچ) تھا جو کام ہی کچھ اور کر گیا
جب موت آکو میرے کو کرنے لگی سلام
میں وعلیکم سلام بولا اور مر گیا!!
(خواہ مخواہؔ حیدرآبادی)
}مئیچ (میں+اِچ): میں ہی، میرے کو: مجھ کو....جو اِن دنوں ہمارے یہاں ہر خاص وعام کی بول چال میں رائج ہے۔ اور ہم اسے غلط ہی سمجھتے ہیں۔{
قارئین کرام ! خاکسار نے آج اپنی تحریر کا آغاز، یونہی، خواہ مخواہ، کلامِ خواہ مخواہؔ (سید غوث محی الدین احمد) حیدرآبادی (۱۹۲۸ء تا ۲ مئی ۲۰۱۷ء)کے نمونوں سے نہیں کیا، بلکہ اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔ عنوان دیکھ کر بعض حیدرآبادی حضرات حیران ہوں گے تو کچھ معترض۔ ہم اپنی معلومات کے مطابق حیدرآبادی کو اردوئے قدیم کا ایک لہجہ یا بولی سمجھتے ہیں جو ہنوز، زندہ ہے، جبکہ 'حائیدرابادی لوگاں' اسے اپنی زبان قراردیتے ہیں۔ ہرچندکہ یہ بحث فقط اہل علم کے مابین رہی، مگر بہرحال عوام الناس، خصوصاً ادبی قارئین کا یہ حق ہے کہ انھیں ان معاملات سے بھی آگاہ کیا جائے۔
ممتاز حیدرآبادی شاعر وادیب سلیمان خطیب (۲۶دسمبر۱۹۲۲ء تا ۲۲ اکتوبر ۱۹۷۸ء) اور ہمارے مشفق، بزرگ معاصر محترم حمایت علی شاعرؔ ( ۱۴جولائی ۱۹۲۶ء تا۱۵جولائی ۲۰۱۹ء ) کا مؤقف تھا کہ حیدرآبادی یا دکنی کو جدا گانہ زبان تسلیم کیا جائے۔ ہم نے اُن کے حینِ حیات اس بابت اختلاف کیا اور وہ ''عدم آباد جانے والے'' اپنے پیچھے بہت سی دیگر باتوں کے علاوہ یہ یاد بھی چھوڑگئے کہ ''اختلاف اچھا، مخالفت نہیں''۔ حمایت مرحوم کا یہ قول نجی گفتگو اور تحریر میں اس قدر مؤثر لگا کہ بندہ جابجا دُہراتا ہے۔ (میرے ایک عزیز شاعر کی بیرون ملک سے تشریف آوری پر، خاندان کی ایک تنظیم نے، خاکسار کی تحریک سے، عشائیے کا اہتمام کیا۔
ایک نوجوان نے بغیر سوچے سمجھے مسلکی اختلاف کی بابت سوال کردیا۔ میں نے یہی قول مع حوالہ دُہراکر بات ختم کردی، ورنہ خواہ مخواہ تلخی ہوجاتی)۔ آج وہ زندہ ہوتے تو اس تحریر کی اشاعت کے بعد، شاید سب سے پہلی ٹیلی فون کال اُنھی کی آتی اور پھر ایک مفصل گفتگو کا باب کھُل جاتا۔
اب ذرا یہ دیکھیے کہ اس راقم نے جو نمونہ کلام آغاز میں پیش کیا، اس میں ایسا کیا ہے جو اردو سے یکسر مختلف ہے اور اسے کوئی اور زبان قرار دیا جاسکے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ حیدرآبادی احباب خفا ہوکر یہ کہیں کہ ''آپ کو نَکو معلوم...باتاں نئیں کرتے ، ہم حائیدرابادی...آپ اِتّا آسان آسان اشعار لیے...مشکل نَکو معلوم''، تو بصد اَدب گزارش کروں کہ اس بنیاد پر ناصرف اردو ہی کی کئی بولیاں، بلکہ ہمارے قدیم ادب میں شامل نظم ونثر کا بہت بڑا حصہ، اردو سے خارج کرنا پڑے گا، خواہ اس پر عربی، فارسی، ہندی سمیت کسی بھی زبان کا اثر یا گہری چھاپ نمایاں ہو۔ (مرحوم سلیمان خطیب کی شاعری اور حالات ِزندگی کے متعلق معلومات انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ ایک مضمون یہاں بھی دیکھا جاسکتا ہے:https://www.urdulinks.com/urj/?p=2987)
{ویسے اس ساری گفتگو سے قطع نظریہ مشہور اور منفرد شعر بھی حضرت خواہ مخواہؔ حیدرآبادی سے یادگار ہے:
چھیڑتی ہیں کبھی لب کو کبھی رخساروں کو
تم نے زلفوں کو بہت سر پہ چڑھا رکھا ہے}
ہرچند کہ حیدرآبادی یا دکنی کو زبان قرار دینے کے حق میں لکھا جانے والا ایک مقالہ بھی انٹرنیٹ پر دستیاب ہے، مگر ہم پھر بھی یہ کہنے کی جسارت کرتے ہیں کہ اگر یہ کوئی الگ زبان ہے تو پھر اردو کا اولین صاحب ِدیوان شاعر قلی قطب شاہ بھی اسی کے شعراء کا سَرخَیل ہوا نہ کہ اردو کا (یہ لفظ سَر+خیل ہے ناکہ سُرخیل یا سُرخِیل: کسی گروہ یا قبیلے کا سربراہ۔ ہمارے یہاں اچھے خاصے تجربہ کار اہلِ قلم بھی اس لفظ کا درست تلفظ ادا کرنے سے قاصر ہیں)۔ {یہ اور بات کہ جب اردوئے قدیم کا نام ہندوی تھا تو سلطان مسعود غزنوی کے درباری شاعر مسعود سعد سلمان لاہوری نے اس ترقی پذیر زبان میں اس قدر شاعری کی کہ دو ضخیم دیوان تیار ہوگئے، جبکہ تیسرا فارسی میں تھا، مگر افسوس وہ کارنامہ کتابی شکل میں محفوظ نہیں۔ یہ بات ہے گیارہویں صدی کی، یعنی امیر خسرو (رحمۃ اللہ علیہ) سے بھی دو سو برس پہلے کی}۔
بہرحال خاکسار اپنا نظریہ دُہرائے بِنا نہیں رہ سکتا کہ اردو، کُرہ ارض کی واحد زبان ہے جس کی پیدائش اور پرورش کسی ایک علاقے تک محدودنہ رہی، بلکہ برِصغیر (یا برِعظیم) پاک وہند کے تقریباً تمام نمایاں حصوں میں اس کی بنیاد وقتاً فوقتاً پڑی، پڑتی رہی اور اُس جگہ کی مقامی زبانوں اور بولیوں کے اختلاط سے یہ پھلتی پھولتی رہی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اسے باقاعدہ عروج یقیناً شمالی ہند، علی الخصوص دِلّی اور نواح میں حاصل ہوا۔ اسی پر بس نہیں، بلکہ ہر علاقے میں اسے ایک نیا نام اور نرالا روپ بھی ملا۔ بالکل اسی طرح دکَن یا دکِن کی بولی اور زبان والا معاملہ بھی ہے جسے مقامی طور پر الگ کہا گیا۔ نصیر الدین ہاشمی اور ڈاکٹر سید محی الدین زورؔ قادری جیسے محققین بھی اسی نظریے کے پرچارک تھے، مگر اویس احمد ادیبؔ نے اس کی مخالفت کی۔
مزید گفتگو سے پہلے پروفیسر اویس احمد ادیبؔ کا یہ قول نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ امیرخسرو ؔ کی زبان، ''اردونُما'' برج بھاشا ہے۔ اور مزید وضاحت کرتا چلوں، ہمیشہ کی طرح، کہ امیرخسروؔ سے منسوب تقریباً تمام کلام اُس دور میں کہا ہوا یا لکھا ہوا ہرگز نہیں، یہ کسی اور (ممکن ہے اسی تخلص کے) شاعر کی طبع آزمائی معلوم ہوتی ہے۔ امیرخسروؔ کی واحد محفوظ غزل (برنگ ریختہ) ''زِحال ِمسکیں'' والی بھی پوری طرح اصل متن کے ساتھ نہیں ہے، اس بابت ہمارے بزرگ معاصر محترم احمد عمرشریف صاحب نے تحقیق فرمائی ہے۔ دعا ہے کہ وہ کتاب جلد منظرعام پر آئے اور ہم ایسے تحقیق کے جویا اکتساب ِ فیض کرسکیں، آمین!
جب حیدرآبادی /دکنی کی بات ہوگی تو ناواقفین کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس سے مراد، ہندوستان کے دکن / دکھن/دَکھشنڑ یعنی جَنوب میں بولی جانے والی بولی ہے جو مقامی زبانوں مَراٹھی، تیلَگُو اور کَنّڑ کے اثرات سے مَملُو ہے اور جس کا قدیم رشتہ وانسلاک، ہندی، سنسکرت اور اردو کی قدیم بولیوں سے ہے۔ اب یہاں ایک وضاحت اور بھی ضروری ہے کہ دکن یا جنوب سے کون سے علاقے مراد ہیں۔ {یہ نکتہ اُس پرانی بحث سے بھی جُڑا ہوا ہے کہ اردو کے پہلے توانا شاعر وَلی گجراتی دکنی کو دکنی (اور اورنگ آبادی، دکنی) کیوں کہا جاتا ہے۔
ماقبل کسی تحریر میں، غالباً زباں فہمی ہی میں ڈاکٹر غلام مصطفی خان مرحوم کا یہ قول نقل کرچکا ہوں کہ ''انھیں گجراتی کہیے یا دکنی کہیے، ایک ہی بات ہے، کیونکہ دکن کا اطلاق جنوبی ہند کے علاقے پر ہوتا تھا جو دریائے نربدا سے لے کر گجرات تک اور جنوب میں مدراس اور راس کُماری تک تھا'' (رسالہ تحقیق مضمون قاضی احمد میاں اختر ؔجوناگڑھی مرحوم، شمارہ نمبر آٹھ نو، ۹۵۔۱۹۹۴ء، ص ۱۲)۔ قاضی احمدمیاں اخترؔ جوناگڑھی نے بالتحقیق ثابت کیا ہے کہ ولیؔ کا تعلق احمد آباد، گجرات سے تھا، وہ اورنگ آباد، حیدرآباد اور دہلی سمیت متعدد شہروں میں مقیم رہے، مگر اُنھیں حیدرآبادی یا اورنگ آبادی دکنی سمجھنا خلاف ِ حقیقت ہے۔
اس بحث کا خلاصہ پھر کبھی پیش کرو ں گا، فی الحال دکن کی تعریف مزید واضح کردوں}۔ اس خطے کی آبادی میں مَرٹھواڑا، خاندیش، کرناٹک، حیدرآباد۔ کرناٹک، تلنگانہ ، جنوبی اور وسطی آندھراپردیش ، شِمالی تَمِل ناڈ (ناڈو نہیں) اور گوا اور کیرالہ (کیرلا) کے اقلیتی دکنی باشندے شامل ہیں۔ یہاں یہ لطیف نکتہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ دکن یعنی جنوب میں فقط یہی ایک بولی یا زبان نہیں تھی، بلکہ وہاں زمانہ قدیم سے متعدد زبانیں بشمول گجراتی، تیلگو، تامل یا تَمِل، کنڑ، ملیالم بھی رائج تھیں اور ہیں، یہ سب کی سب دکنی ہیں۔
حیدرآبادی بولی اور اس کے زبان قرار دینے کی تاریخ، ہماری تاریخ کے ایک اہم موڑ سے جُڑی ہوئی ہے جب روایت کے مطابق، سلطان علاؤ الدین خلجی (1266-1316) کے عہد میں ہونے والے حملوں کے نتیجے میں مختلف زبانیں بولنے والوں کا آپس میں اختلاط ہوا، خاص طور پر اُس کے چِتّوڑ / چتّوڑگڑھ (راجستھان) پر حملے اور (ایک ہندی نظم پَدماوَتی میں بیان کردہ)، رانی پدمنی سے مفروضہ عشق کی داستان بھی اسی مقامی لسانی پس منظر میں اہمیت کی حامل ہے۔ اس عظیم حکمراں نے 1305 میں مالوہ/مالوا، اُجّین، چندیری اور منداوَرکی فتح کے دوسال بعد، دیوگِری پر چڑھائی کی اور1309 میں اُس کا لشکر ہندوستان کے انتہائی جنوبی حصے میں واقع کنھیا کُماری (''کنواری شہزادی'') یا Cape Comiron تک جاپہنچا تھا اور مزید دوبرس کے اقتدار میں اُسے سلطنت ِدہلی کے امیرترین بادشاہ ہونے کا اعزاز مل گیا تھا۔
1327 میں سلطان محمد بن تغلق نے اچانک دارالسلطنت، دِلّی سے ایک نئے شہر، دولت آباد، دکن منتقل کرنے کا فیصلہ کیا جس پر ہمہ جہتی تنقید ہوتی رہی۔ (اس پایہ تخت کے آثار اورنگ آباد، مہاراشٹر کے قریب واقع ہیں)۔ یہی وہ دور ہے جب شہر و نواح کی تقریباً تمام آبادی بشمول اُمَراء وسپاہ نے ایک نئے مقام پر بُود ووباش اختیار کی اور ایسے میں ہندوی، ہندوستانی یا زبان ہندوستان نے دکنی روپ دھارنے کا باقاعدہ آغاز کیا۔ لسانی تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ اردو کی نشو نما (ناکہ نشو ونُما) میں اس موڑ پر زبان شمال سے جنوب گئی ہے۔
ایسا نہیں کہ ولیؔ کے طفیل اردو میں ریختہ یعنی اردوغزل گوئی کے رواج کو بنیاد قراردیتے ہوئے معاملہ برعکس ہو اور یہ کہا جائے کہ شمال کی زبان کچھ اور تھی، دکن یعنی جنوب کی کچھ اور۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ولیؔ کی زبان میں فارسیت اور پھر صاف اردو کے استعمال کا معاملہ فقط دِلّی آمد کے دورسے مشروط یا محدود نہیں، کیونکہ لہجے کے فرق سے قطع نظر، فارسی کا عمل دخل تو دکن میں بھی تھا، ہاں نقل مکانی نے اُن کی زبان کی صفائی وروانی میں اہم کردار ادا کیا۔ ولیؔ گجراتی دکنی ہر لحاظ سے ہمارے کلاسیکی شعراء یعنی متقدمین کے نہایت فاضل، محسن اور لائق تقلید پیش رَو ہیں۔ یہاں ہم ایک اہم نگارش سے اقتباس پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں:
تیرہویں صدی سے سترہویں صدی تک دکنی ادب کے کئی اہم کارنامے منظر عام پر آئے۔ دکنی میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ 1867ء تک برقرار رہا۔ چنانچہ اسی برس حیدرآباد کے ایک صوفی فقیر اللہ شاہ حیدر نے نہال چند لاہوری کی تصنیف ''بکاولی'' کے مقابل میں اپنی تصنیف ''تناولی'' پیش کی۔ باقر آگاہ اپنی مثنوی ''گلزار عشق'' کے دیباچے میں جو 1796 ء میں لکھی گئی ''دکنی'' پر کئے ہوئے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ''مقصود اس تمہید سے یہ ہے کہ اکثر جاہلان و ہرزہ سرایاں زبان دکنی پر اعتراض اور ''گلشن عشق'' و ''علی نامہ'' کے پڑھنے سے احتراز کرتے ہیں اور جہل مرکب سے نہیں جانتے کہ جب تک ریاست سلاطین دکن کی قائم تھی زبان ان کے درمیان خوب رائج تھی''۔ (دکنی دور کی اہمیت، تحریر: اقبال احمد)۔ اسی مضمون نگار نے دکنی ادب کے چار ارتقائی عہد کا ذکر کیا ہے۔ آگے ملاحظہ فرمائیں کہ یہ تفصیل کس طرح مختصراً بیان ہوئی ہے:
''دکنی(زبان) کے ادوار: دکنی کی ترقی کا اندازہ لگانے کے لئے دکنی ادب کی تاریخ کو ان چار ادوار میں منقسم کیا جاتا ہے۔ پہلا دور: گجرات میں دکنی یا قدیم اردو کا چلن۔ دوسرا دور: 1324 ء سے 1686 ء تک علاؤ الدین خلجی اور محمد بن تغلق کے حملوں کے بعد بہمینہ سلطنت کے قیام اور بہمینہ سلطنت کے سقوط کے بعد گولکنڈہ، بیجا پور اور احمد نگر کے شمالی ہند میں انضمام تک۔ تیسرا دور:۔ جب اور نگ زیب کے عہد میں دکنی کا اہم مرکز اور نگ آباد تھا۔ چوتھا دور:۔ دور آصفی۔ مرکز گجرات، گجرات میں اس زبان کی سرپرستی حضرت عین الدین گنج العلم، شاہ علی جیو گام دھنی، بہاؤالدین باجن، شیخ خوب محمد چشتی، جیسے علما و صوفیا نے کی۔ شاہ علی جیوگام دھنی نے اپنی یادگار، ایک اردو دیوان ''جواہر اسرار اللہ'' چھوڑا۔ شیخ خوب محمد نے اپنے مرشد بہا الدین باجن کے کلام کی شرح ''خوب ترنگ'' کے نام سے لکھی۔ مابعد کے زمانے میں محمد امین گجراتی کی تصنیف ''یوسف زلیخا'' قدیم اردو کی اہم تصنیف ہے۔ سید علی جیوگام دھنی کے کلام کو ان کے ایک شاگرد نے ترتیب دیا اس میں ان کی شاعری کے متعلق لکھتا ہے۔
''دربیان توحید و اسرار باالفاظ گجری بطریق فرمودہ'' یہ نام گجری اور گوجری دکنی کے لیے اس دور میں خاصا مقبول رہا۔ چنانچہ بیجاپور کے مشہور صوفی شاہ برہان الدین جانم اپنی تصانیف ''کلمۃ الحقائق'' اور ''حجۃ البقا'' میں دکنی کو گجری کے ہی نام سے یاد کرتے ہیں۔ گجرات کے ساتھ دکنی کی سرپرستی دکن کی جن سلطنتوں نے کی ان میں سلطنت بہمینہ اور اس کے انفراض کے بعد عادل شاہی، قطب شاہی، نظام شاہی، عماد شاہی، برید شاہی وغیرہ مشہور ہیں''۔ اس فہرست میں شامل متعدد اسمائے شعراء درحقیقت گوجری اور گجراتی کے سخنور تھے۔ قاضی احمدمیاں اخترؔ جوناگڑھی کے مضامین میں پوری تحقیق موجود ہے۔ (مضامین ِ اختر ؔ جوناگڑھی، انجمن ترقی اردو، کراچی: ۱۹۸۹ء)۔ خاکسار نے ''اردو کی ماں، گوجری؟'' کے عنوان سے تین اقساط پر مبنی مضمون یا مقالہ اسی زباں فہمی کے سلسلے میں لکھا تھا جسے زیرنظر کالم سے ملاکر پڑھنا مفید ہے۔
قلی قطب شاہ کو اردو کی موجودہ شکل میں اوّلین صاحب ِدیوان شاعر قراردیا جاتا ہے۔ مغل تاجدار جلال الدین اکبر کا ہم عصر، سلطان محمد قلی قطب شاہ (۹۷۳ھ/۱۵۶۵ء تا ۱۰۲۰ھ/۱۶۱۱ء) المتخلص بہ قطب شاہؔ (نیز معانیؔ، ترکمانؔ اور کئی دیگر)، دبستان ِ دکن کا اولین غزل گو تھا، ورنہ وہاں مثنوی کو اولیت حاصل تھی۔ ڈاکٹر زورؔ نے۱۹۴۰ء میں اُس کا کلّیات شایع کیا جو ۱۸۰۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں پچاس ہزار اشعار بشمول غزلیات، قصائد (نعتیہ، منقبتیہ)، مثنویات، رباعیات و مراثی شامل ہیں۔ اُس کا نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
میں نہ جانوں کعبہ و بُت خانہ ومئے خانہ کوں
دیکھتا ہوں ہر کہاں دِستا ہے تُج مُکھ کا صفا
(کوں: کو، ہرکہاں: ہرجگہ، دِستا: دِکھتا یا نظر آتا، تُج: تجھ/تیرا ، مُکھ: چہرہ ، صفا: صاف)
میں نہ جانوں کیوں اچھے گی حورِ جنّت
حسن تیرا مُج عجب دیوانہ کِیتا
(کیوں اچھے گی: کیسی ہوگی، مُج: مجھے، کِیتا: کیا۔یہ کیِتا پنجابی میں بھی مشترک ہے)
رُخ کیے مئے خانہ رُخ، لے پیالا ہات
ڈگمگی چالاں سے سب کسی کوں بھلات
(ہات: ہاتھ ، چالاںسے : چال سے ، بھلات : بھلادیا)
}غزل نُما از قلم اداؔ جعفری، انجمن ترقی اردو، کراچی: ۱۹۸۷ء{
اب ذرا ایمان داری سے بتائیے کہ آیا یہ منقول کلام، اردو سے ہٹ کر یا اُس سے خارج ہے؟
قدیم شعرائے دکن کی فہرست بہت طویل ہے۔ اگر ہم اداؔجعفری کی کتاب ہی سے نقل کریں تو یہ اسماء سامنے آتے ہیں:
قطب شاہؔ، شوقیؔ (شیخ حسن)، غوّاصیؔ، شاہیؔ (علی عادل شاہ)، نصرتیؔ (محمد نصرت)، ہاشمیؔ بیجاپوری (سید میراں)، بحریؔ (قاضی محمود)، سراج ؔ اَورنگ آبادی (سید سراج الدین) اور قاسمؔ اورنگ آبادی (شاہ قاسم)۔ موضوع بہت وسیع ہے، مگر تنگی قرطاس وتنگی وقت مانع ہے۔